ہم پاکستانیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے
ہم نے اپنے کچے اور منتشر معاشرے میں موت کی سزا ختم کر کے ملک کو ان غلط لوگوں کے سپرد کر دیا۔
آج اتوار ہے۔ چھٹی کا دن مگر ہم گھر گھر بچھی ہوئی ماتم کی صف پر بیٹھے ہیں۔ آوازوں میں لرزش اور آنکھیں نم۔ بچوں کے پشاور والے سانحے پر کئی دن گزر گئے ہیں۔ دن یونہی گزرتے جائیں گے۔ کئی صبحیں اور کئی شامیں ہم پاکستانیوں سے اظہار غم کرتی ہوئی اپنے سفر پر چلی جائیں گی مگر ہماری افسردگی جوں کی توں صف ماتم بچھی رہے گی۔
اس وقت بجلی بند ہے گیس بند ہے سخت ٹھنڈ ہے اور ہر طرف دھند ہی دھند، پریشان ہو کر یو پی ایس پر ہی ٹی وی لگا لیا ہے، اس پر ایک اہم وزیر تقریر کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاک فوج حکومت کی نمایندگی کرتی ہے، وہ مسلمان فوج ہے اور ایک ذمے دار فوج ہے۔ میں ڈرتے ڈرتے سوچ رہا ہوں کہ فوج کی حکومت سے وفاداری کے اعلان کی اس وقت کیا ضرورت پڑ گئی ہے۔ پاکستانی قوم کے دلوں میں غم ہے اور ذہنوں میں پریشانی۔ ماحول ایسا ہے کہ جیلوں میں پھانسی کا زنگ آلود سامان تیار کیا جا رہا ہے اور مجرموں کو پھانسیاں دی جا رہی ہیں۔ حیرت ہے کہ ہم نے اپنی حالت دیکھے بغیر مغربی دنیا کے مضبوط معاشروں والے ملکوں کی خواہش پر پھانسی کی سزا ختم کر رکھی ہے۔
اللہ و رسولؐ جن کے نام پر ملک بنایا گیا تھا وہ تو ہر جرم کی اس جرم کے مطابق سزا کا حکم دیتے ہیں مثلاً قتل کی سزا قتل۔ اگر کسی کی جان لی ہے تو دینی بھی پڑے گی۔ ہم نے اپنے کچے اور منتشر معاشرے میں موت کی سزا ختم کر کے ملک کو ان غلط لوگوں کے سپرد کر دیا جو اپنے کسی جرم کے دوران ضرورت پڑے تو قتل بھی کر دیتے ہیں۔ اول تو پیچیدہ عدالتی نظام میں ضمانت ہو جائے گی، کسی اچھے وکیل کی بھاری فیس ہی ادا کرنی پڑے گی جو کسی ڈاکے کی آمدن سے کم ہو گی۔ پھر بھی جیل ہو گئی تو وہ بھی کچھ خرچ کر کے آرام سے گزر جائے گی مگر جو کسی قتل کی سزا کا اصل خطرہ ہوتا ہے وہ تو اب بہت دور ہو چکا ہے بلکہ ختم ہی سمجھیں اس لیے مجبوری یا لالچ میں کسی کو قتل کیوں نہ کر دیا جائے۔
سزائے موت کے خوف کے خاتمے سے جرائم پیشہ لوگوں کو گویا مکمل چھٹی دے دی گئی ہے ،اب صرف دہشت گردوں کے لیے پھانسی کی اجازت سے حالات قدرے بدلے ہیں اور جرائم کی زندگی سے واپسی کا ایک قدم اٹھا ہے لیکن ایک تعجب اپنی جگہ قائم ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں معمول کی شہری سہولتوں کا بھی فقدان ہو، امن و امان مفقود ہو، جرائم پیشہ مناسب سزا سے بے خوف ہوں اور قانون منہ لپیٹے کہیں چھپا ہوا ہو اور جس کا جو جی چاہے کرتا رہے تو ایسے ملک میں حکمرانی کرنا اور اس پر ڈٹے رہنا کہاں کی عزت ہے۔
حکمران خود اس قدر خوفزدہ ہوں کہ حفاظت کا کوئی بھی میسر طریقہ اختیار کیے ہوئے اس کی پناہ میں دن رات بسر کر رہے ہیں اور اپنے قرب و جوار میں اپنے آزمودہ اور وفادار لوگوں کو ہی جمع کر رکھا ہو خواہ وہ کسی بھی عہدے کے لائق ہوں یا نہ ہوں ایسے لوگوں کی حکمرانی میں ملک کیسے سلامت رہ سکتا ہے۔ خوفزدہ حکمرانوں کی دنیا میں بچوں کے اسکول بھی قتل گاہیں نہ ہوں تو کیا ہوں۔ کہیں ہمارے پاکستانی بچے بھوک اور بیماری سے مر رہے ہیں اور کہیں گولیوں سے۔ بجلی اور گیس کے ایندھن کے بغیر کارخانے بند ہوں اور اس طرح ہزاروں مزدور بے روز گار بھوک کے شکار ہوں وہ جرائم نہ کریں چوری چکاری نہ کریں تو زندہ کیسے رہیں۔ حدیث مبارک ہے کہ غریبی انسان کو کفر کے قریب کر دیتی ہے اور عمل کی حقیقی دنیا میں یہی سچ ہے۔
ہمارا ملک پاکستان ہر گز ایسا نہیں تھا جب یہ ملک بنا تھا تو اس قوم اور اس کے رہنماؤں کے جذبات اور ارادے مختلف تھے، وہ اسے ایک بہت بڑا ملک بنانا چاہتے تھے جو بلند پایہ نظریات کے حسن اور صداقت سے آراستہ تھا اور اونچے خیالات اور عزائم سے بھری ہوئی قوم کی طاقت کا مالک تھا اور شروع شروع میں اس کی قیادت بھی کوئی ایمان رکھتی تھی لیکن بہت ہی جلد جنرل سکندر مرزا نام کے ایک صاحب سب کچھ ختم کر کے اقتدار پر مسلط ہو گئے۔ ایرانی ناہید سکندر مرزا اور ایرانی نصرت بھٹو کے درمیان ایک خاص تعلق تھا اس تعلق نے اقتدار کے طلب گار بلکہ اقتدار کے دیوانے کچھ لوگوں کو اقتدار کی قربت نصیب کی پھر ایوب خان آ گئے اور آتے ہی چلے گئے ان کے بیٹے اچانک ہی ملک کے بہت بڑے صنعتکار بن گئے اور کتنے ہی محرومین اقتدار اپنی اپنی مراد پا گئے۔
اس کے بعد مزید فوجی آئے یا سویلین آئے سبھی ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے، ہر رنگ آج تک تروتازہ اور چمک دمک کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے اور سب کچھ اسی رنگ میں رنگا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہی رنگ بدلنا ہے اور یہی تبدیلی ہے جس کا ذکر ان دنوں بہت سننے میں آ رہا ہے لیکن ان زبانوں سے جو شاید خود اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہیں بہرحال ہم اگر کچھ کر نہیں سکتے تو امید تو کر سکتے ہیں۔ فریاد تو بلند کر سکتے ہیں یا دلوں میں ہی سہی حرف دعا تو دہرا سکتے ہیں اپنی زبانوں میں بین تو کر سکتے ہیں۔
تھوڑی دیر پہلے ہی ایک ٹی وی پروگرام سے ایک پاکستانی گلوکارہ سے ایک افسردہ نظم سن رہا تھا، سامنے بچے بیٹھے تھے، بے حد خوبصورت، یہ اتنے چھوٹے تھے کہ شاید اکثر کو اپنے دوستوں کی وفات کی صحیح خبر بھی نہ تھی۔ وہ شرارتیں بھی کر رہے تھے اور ان کی یہ شرارتیں میری آنکھوں اور گلے میں گھل رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ تھر کی غربت زدہ اور پشاور کی خوشحال دنیا میں بھی ہم اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کر سکتے، صرف رو سکتے ہیں بین کر سکتے ہیں اور اگر ہمت ہو تو چند سطریں لکھ سکتے ہیںاور بس۔ وہی حکمران وہی رنگ و روغن اور وہی خود پرست دنیا اور ہم لیکن شاید ع کہیں تو جا کے رکے گا سفینہ غم دل۔