ایلیٹ سروس کا قیام

کوٹہ سسٹم اورڈومیسائل کی بنیاد پرملازمتوں کی بندر بانٹ کےنظام نےسب کچھ تباہ وبرباد اورتہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔


Shakeel Farooqi December 22, 2014
[email protected]

QUETTA: وطن عزیز جب معرض وجود میں آیا تو ہر طرف ایک بے سروسامانی کا عالم تھا۔ مگر اس کے باوجود تعمیر وطن اور خدمت عوام کا جذبہ جوان تھا۔ ہر شہری میں ایک جوش اور ولولہ تھا کہ اپنی ہمت اور بساط سے بڑھ چڑھ کر نوزائیدہ مملکت کی ترقی میں اپنا اپنا حصہ ڈالے۔ مسائل بہت زیادہ تھے اور وسائل بہت کم ۔ لیکن سچی اور مخلص قیادت کی موجودگی نے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ لیکن بانی پاکستان کی زندگی نے وفا نہ کی اور قیام پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد وہ سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔

مملکت نوزائیدہ کے لیے اس سے بڑا دھچکا اور کوئی نہ ہوسکتا تھا۔ یہ پاکستان کے بحران کا نکتہ آغاز تھا اس کے بعد گو اس حالات کا جو سلسلہ شروع ہوا اس کی کوئی انتہا نہ تھی۔ ملک کی پہلی آئینی اسمبلی توڑ دی گئی، قائد اعظم کے اقوال زریں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کے نقوش دھندلانا شروع ہوگئے اور عدم استحکام کے باعث حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔ انجام کار کوئی سیاسی نظام ڈویلپ نہ ہوسکا۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ وطن عزیزمیں اعلیٰ تعلیم یافتہ، مخلص، تجربہ کار اور صاحب بصیرت سیاست دانوں کا قحط الرجال تھا۔ البتہ سروسز کا ایک نظام ضرور تشکیل پاگیا جس میں شامل افراد کی تربیت برطانوی طرز حکومت کے مطابق کی گئی تھی، اعلیٰ تعلیم اور تربیت، تجربے کی وجہ سے یہ افراد اپنے اپنے کاموں میں بڑی حد تک ماہر تھے۔ چنانچہ امور مملکت چلانے کے لیے ان کا دم غنیمت تھا۔ انڈین سول سروس سے تعلق رکھنے والے افسران بعد میں سول سروس آف پاکستان کا حصہ بن گئے اور اب یہی لوگ ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ (DMG) کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سروسز سے وابستہ کچھ افراد ملکی سیاست میں بھی ملوث ہوگئے جس کا بظاہر مقصد تو خدمت وطن تھا مگر اصل مقصد مال کمانا اور نام جماناتھا۔ سچ پوچھیے تو ان میں سے اکثر و بیشتر سیاسی شطرنج کے کھلاڑی تھی۔ ایسے زبردست اور مشاق کھلاڑی کہ جن پر علامہ اقبال کا درج ذیل شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔

بے چارہ پیادہ تو ہے اک مہرۂ ناچیز

فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

یہی وہ لوگ تھے جن کی چالوں کی وجہ سے آئین معطل ہوتے رہے اور اسمبلیاں تحلیل ہوتی رہیں۔ لیلیٰ سیاست کی زلفوں کے اسیر ہوکر اکاؤنٹ سروس اور فوج کے محکمے کے بعض افراد بھی اپنی اپنی ذمے داریوں کو خیرباد کہہ کر سیاست کے اکھاڑے میں لنگر لنگوٹ کس کر کود پڑے۔ ہوس اقتدار ان سب کے سروں پر سوار تھی اور ان کی آنکھوں پر بندھی ہوئی لالچ کی پٹی نے انھیں بالکل اندھا کردیاتھا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا کہ یہ لوگ اپنی اپنی حدود سے تجاوز کر گئے۔ انھیں نہ خوف خدا تھا اور نہ احتساب کا کوئی خوف و خطر، رشوت خوری اور اقربا پروری میں یہ لوگ ایک دوسرے کو پیچھا چھوڑنے لگے۔ اگرچہ انھیں پبلک سرونٹ کہا جاتا تھا مگر یہ عوام کے نوکر چاکر نہیں بلکہ عملاً آقا بن بیٹھے۔

اس کے بعد تبدیلی کی ایک نئی لہر آئی اور جلد از جلد ترقیوں کے عمل کے نتیجے میں اہل اور تجربہ کار افسران کی نسل معدوم ہونا شروع ہوگئے ان کی جگہ پر جو نئے نئے لوگ عہدہ نشین ہوئے ان میں سے اکثر و بیشتر تعلیم اور اہلیت و لیاقت کے لحاظ سے مقررہ معیار پر پورا نہیں اترتے تھے، ان میں سے زیادہ تر تو سفارشی تھے یا رشوت دے کر بھرتی ہوئے تھے، رہی سہی کسر اس وقت پوری ہوگئی جب میرٹ کے بجائے لسانی یا علاقائی بنیادوں پر بھرتی کا سلسلہ شروع ہوگیا جو آج کے دن تک جاری و ساری ہے تلخ حقیقت یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم اور ڈومیسائل کی بنیاد پر ملازمتوں کی بندر بانٹ کے نظام نے سب کچھ تباہ و برباد اور تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن اعلیٰ عہدوں کے لیے اہلیت و لیاقت درکار ہوتی ہے وہاں ریجنل اور کوٹہ سسٹم کی رعایت کے حوالے سے بڑے بڑے نا اہل نوازے جاتے ہیں اور منظور نظر قرار پاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے بہت سے ذاتی مشاہدات ہیں جن کا تذکرہ اس مختصر سے کالم میں کرنا ممکن اور مناسب نہیں ہے۔

انگریز میں ہزار برائیاں سہی مگر ملازمتوں کے معاملے میں وہ کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتتاتھا۔ اعلیٰ عہدوں پر تقرریاں کرتے وقت نہ صرف اہلیت کو اولین ترجیح دی جاتی تھی بلکہ امیدوار کی سات پشتوں کی پوری چھان بین بھی کی جاتی تھی اور حسب نسب کا پورا کھوج لگایا جاتا تھا۔ انتہا تو یہ تھی کہ ایک معمولی سے کلرک کی بھرتی بھی پوری انکوائری اور اسکروٹنی کے بعد کی جاتی تھی تاکہ غلطی سے کوئی گندی مچھلی تالاب میں داخل ہوکر پورے تالاب کو ہی گندہ نہ کردے۔ اگر اس دور کا موازنہ آج کے دور سے کیاجائے تو فرق صاف ظاہر ہوجائے گا۔ اس زمانے میں رشوت اگر کوئی لیتا بھی تھا تو چھپ کر اور ڈرتے ڈرتے کیوں کہ رشوت لینا ایک انتہائی گھناؤنا اور مکروہ اخلاقی اور قانونی جرم سمجھا جاتا تھا۔ جب کہ آج رشوت کا چلن عام ہے اور رشوت خور ہر قسم کے خوف و خطر سے اس لیے آزاد ہے کہ بقول دلاور نگار:

لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا

آپ کسی بھی سرکاری محکمے کو دیکھ لیں، رشوت کا چلن عام ہے اور بعض محکمے تو رشوت ستانی کے لیے ملک بھر میں جانے پہچانے جاتے ہیں اور لوگ ان محکموں میں چپڑاسی بن کر بھی خوب کمائی کرتے ہیں اور بڑے بڑے افسروں سے بھی زیادہ ٹھاٹھ باٹ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور مجال نہیں کہ کوئی مائی کا لال ان کی جانب انگلی بھی اٹھاسکے۔اس ملک میں کتنی ہی حکومتیں تبدیل ہوگئیں، کتنے ہی احتساب بیورو بن بن کر بگڑ گئے مگر رشوت کی کمائی سے کوٹھی بنگلوں میں رہنے والوں سے یہ پوچھنے کی جرأت کسی کو بھی نہ ہوسکی کہ اتنی قلیل تنخواہوں سے یہ عالیشان عمارتیں کیونکر تعمیر ہوگئیں۔

آزادی کے وقت ہمیں سینٹرل سپریئر سروسز کا جو نظام فرنگی حکمرانوں سے ورثے میں ملا ہم نے اسی پر اکتفا کیا۔ اس نظام میں تبدیلیوں کی باتیں تو بہت ہوئیں لیکن عملاً کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی جس کی وجہ سے نت نئے مسائل جنم لیتے رہے۔ ہمارا زیادہ تر انحصار Adhocism پر ہی رہا۔ آمریت کے دور میں ہماری بیوروکریسی بہت زیادہ طاقت ور رہی جس کی بنیادی وجہ اختیارات کا ارتکازتھا۔ یہ فطری امر تھا کیوں کہ ایک سیاسی مقولے کے مطابقPower corrupts and absolute power corrupts absolutely مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوری ادوار میں بھی نہ صرف کرپشن اور بد عنوانی کا سلسلہ جاری رہا بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوگیا۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب تک ملک میں ایک کارگر اور صاف و شفاف انتظامی نظام قائم نہیں ہوگا تب تک ہمارا قبلہ درست نہیں ہوسکے گا اور خرابیوں پر خرابیاں جنم لیتی رہیںگی ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وطن عزیز میں کسی ایلیٹ (Elit) سروس کی ضرورت درپیش ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تو پھر کیا اسے اسپیشلائزیشنز (Specialisations) کے ذریعے سے حاصل کیا جاسکتا ہے یا سلیکشن کے ذریعے یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لیٹر انٹری سسٹم کا تجربہ بھی کیا گیا تھا جو پسند و ناپسند اور اقربا پروری کی وجہ سے ناکام ثابت ہواتھا۔

ہمارے ملک کا سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ نظم و نسق کا ہے جس کے بغیر کوئی بھی سیاسی نظام کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا حکومت کی پالیسی سازی اور عمل در آمد کے لیے ایلیٹ سروس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کرسکتا۔ البتہ اختلاف رائے صرف اس بات پر ہوسکتا ہے کہ اس سروس کی تشکیل کا طریقہ کار کیا ہو اور اسے کن خطوط اور بنیادوں پر استوار کیاجانا چاہیے ملکی اور قومی مسائل کا تقاضا یہ ہے کہ اس اہم قومی معاملے میں اب مزید تاخیر نہ کی جائے کیوں کہ ملک اب اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر اس کا ایک مستقل اور پائیدار حل تلاش کیاجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں