نظام کی تبدیلی کی تحریک
نظریاتی سیاست سے وابستہ دائیں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں نے’’ چہرے نہیں نظام کو بدلو‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔
MULTAN:
پاکستان کے سیاسی نظام میں تبدیلی کی خواہش کا ایجنڈا بالادست نظر آتا ہے ۔ وہ لوگ جو موجودہ نظام سے نالاں ہیں ان کی فکرمندی تو سمجھ میں آتی ہے ، لیکن وہ حکمران اور بالادست طبقات جو خود اس نظام کا حصہ ہیں یا اس کے فوائد اٹھا رہے ہیں وہ بھی نظام کی تبدیلی کا نعرہ ضرور بلند کرتے ہیں۔ اس کی حالیہ سیاست میں ایک وجہ تو دباؤ کی سیاست ہے جس کے باعث تبدیلی کے امکانات بڑی تیزی سے ہماری سیاست کے افق پر غالب ہوئے ہیں ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت نظام کی تبدیلی یا اسٹیٹ کو کا خاتمہ ایک مقبول سیاسی نعرہ بھی بن گیا ہے۔ سوشل میڈیا سے وابستہ افراد یا ٹی وی ٹاک شوز پر ہونے والی گفتگو میں یہ نعرہ غالب نظر آتا ہے ۔ ایک زمانے میں تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان اور نظریاتی سیاست سے وابستہ دائیں اور بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں نے'' چہرے نہیں نظام کو بدلو'' کا نعرہ بلند کیا تھا، لیکن ابھی تک ہماری سیاست چہروں کی تبدیلی کی سیاست سے جڑی نظر آتی ہے ۔
پاکستان کی سیاست میں وہ طبقے جو اس وقت بالادست ہے ، اورجو وقفہ وقفہ سے حکمرانی کے نظام کا حصہ بنتا ہے اس کی ترجیحات میں کیونکر نظام کی تبدیلی یا اسٹیٹس کو کا خاتمہ ہوگا؟ کیونکہ یہ ہی تو وہ نظام ہے جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنے ، اپنے خاندان ، رشتے داروں اور دوستوں کے سیاسی اور مالی مفادات کو تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔ان ہی پالیسیوں کے باعث ملک میں سیاسی ، سماجی اور معاشی استحصال کی بدترین شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں ، اور اس کا نتیجہ محرومی کی سیاست اور ردعمل کے طور پر بغاوت کے نعروں کی صورت میں دیکھنا پڑتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ غربت اور ناہمواریوں کی وجہ ملک کے وسائل میں کمی ہے ، تو اس کا اثر محض ایک مخصوص طبقے پر کیوں پڑتاہے۔ غربت کا اثر حکمرانوں اور معاشرے کے بالادست طبقات کے بجائے محض کمزور اور محروم طبقات کو ہی کیوں برداشت کرنا پڑتا ہے ۔
ایک طرف وسائل کی کمی کا مسئلہ ہے تو دوسری طرف حکمران طبقات کا طرز زندگی بالکل بادشاہوں جیسا ہے ۔ ایسے میں معاشرے کے اندر ایک دوسرے کے بارے میں محبت ، برداشت، برابری اور رواداری کا کلچر کیونکر پیدا ہوگا ۔ ہم مذہبی انتہا پسندی کی تو بہت بات کرتے ہیں ، جو حقیقت بھی ہے ۔ لیکن مذہبی انتہا پسندی کے ساتھ جو سیاسی انتہا پسندی ہے اس کو کیونکر نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ کیونکہ جب سیاسی نظام لوگوں کے بنیادی حقوق کو غصب کرکے ان کا استحصال کرے گا تو اس کی ذمے داری سے ریاست کے ادارے اور حکمران سمیت بالادست طبقات کیسے اپنے آپ کو بری قرار دے سکتے ہیں ۔ جو مذہبی انتہا پسندی ہے اس کی ایک بڑی وجہ محرومی ہے جو خود حکمرانوں کی پیدا کردہ ہے ۔ اس کا نتیجہ معاشرے میں اب بہت زیادہ گہرائی میںhave اور have not کی صورت میں موجود ہے ۔
یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اور وہ لوگ بھی جو نظام کی تبدیلی یا اسٹیٹس کو کا خاتمہ چاہتے ہیں وہ کیونکر اپنی زندگی کے معاملات کو آسان اور سادہ بنانے کے لیے تیار نہیں ۔یہ عجیب بات ہے کہ ہمیں سب سادگی،کفایت شعاری اور شاہانہ انداز چھوڑنے کا بھاشن دینے والے خود اپنی زندگی کے معاملات پر کوئی نظر ڈالنے کے لیے تیار نہیں ۔ اس تضاد کی بنیاد پر فرسودہ نظام اور اسٹیٹس کو کے خاتمے کے نعرے محض نعرے بن کر رہ گئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم کسی فرد واحد کی تبدیلی پر خوش ہوکر سمجھتے ہیں کہ 'اسٹیٹس کو' تبدیل ہوگیا ہے اور نیا نظام ان کی توقعات اور خواہشات کے مطابق ہوگا۔
لیکن بہت جلد ہمیں نئی قیادت اور افراد سے بھی مایوسی ہوتی ہے ، اور ہم دہائی دیتے ہیں کہ اس سے تو اچھا پچھلا نظام تھا ۔ اصل میں نظام کی تبدیلی اور اسٹیٹس کو کا خاتمہ کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوتا ۔ اس کا تعلق چار بنیادی چیزوں سے جڑا ہوا ہے ۔ اول معاشرے کا مجموعی سیاسی ، سماجی ، معاشی اور اخلاقی کلچر، دوئم افراد کے مقابلے میں اداروں کی مضبوطی اور عام افراد کی ان تک رسائی ، سوئم وسائل کی منصفانہ تقسیم اور چہارم انصاف کی فراہمی کا نظام شامل ہے ۔ بہت سی جماعتیں ہیں جو ان باتوں کو اپنے سیاسی منشور اور ترجیحات کا حصہ قرار دیتی ہیں لیکن عملی طور پر ان کے پاس نظام کو چلانے کا کوئی عملی خاکہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر نظام کو عوامی خواہشات کے تابع بنایا جاتا ہے ۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ)ن(کی حکمرانی کا نظام ہمارے سامنے ہے جو عملی طور پر کوئی ایسا نظام وضع نہیں کرسکیں جو لوگوں کی حالت زار کو بدل سکتا ۔ مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل کا تجربہ بھی پانچ برس ہم ایک صوبے میں دیکھ چکے ہیں ، اسی صوبے کا ایک نیا تجربہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی صورت میں موجود ہے ۔ سیاسی حکومتوں کے برعکس فوجی حکمرانوں کی نظام بدلنے کی خواہش کا عملی نمونہ بھی ہم بڑے مسائل کی صورت میں دیکھ چکے ہیں ۔وہ جماعتیں جو برس ہا برس سے اقتدار کے کھیل کا حصہ ہیں ، ان کا احتساب ہونا چاہیے کہ وہ کیونکر ناکام ہوئی ہیں۔ اسی طرح نظام کی تبدیلی کے لیے جو بڑی حکمت ، فہم ، تدبر اور فراست سمیت ہوم ورک ہونا چاہیے وہ کیونکر ان بڑی سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کا حصہ نہیں بن سکا۔
یہ اچھی بات ہے کہ اس وقت پاکستان میں میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا کی یلغار نے قوم کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے ۔ اس میں ایک کریڈٹ عمران خان کو بھی جاتا ہے ۔ کیونکہ آج جو نظام کی تبدیلی یاا سٹیٹس کو کی سیاست کے خاتمے کی بات کی جا رہی ہے اس کا اثر ہمیں مختلف رجحانات کی صورت میں دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ یہ عمل لوگوںکو ایک نیا سیاسی شعور دے رہا ہے کہ ہماری سیاست ،جمہوریت و قانون کی حکمرانی سے محبت کے عملی تضادات کیا ہیں ۔
نظام یا اسٹیٹس کو کا خاتمہ کوئی جادوئی عمل نہیں ، یہ بتدریج ہوگا ۔ ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ نظام جیسا بھی ہے اسے چلنے دیا جائے اور اسی کی بنیاد پر اصلاح کے امکانات پید ا ہونگے ۔ لیکن اس میں ایک خوش فہمی کا پہلو بھی ہے ۔ کیونکہ جب کوئی سیاسی، سماجی اور معاشی روڈ میپ سمیت واضح ایجنڈا ہی نہیں، توکیونکر جاری نظام سے بہتر نتائج مل سکیں گے؟ مشکل سفر میں ہم حکمرانوں کے ساتھ کھڑے ہونے اور انتظار کرنے یا جدوجہد کرنے کے لیے تیار ہیں ، لیکن کیا وہ خود اپنے شاہانہ معاملات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں تو اس کا جواب ہمیں نفی میں نظر آتا ہے ۔بعض دوستوں کو نوجوانوں کے سخت ردعمل یا مزاحمت پر اعتراض ہے اور ان کے خیال میں یہ رویہ نظام کی تبدیلی کے لیے مناسب نہیں ۔
لیکن یہ نہ بھولا جائے جو کچھ ہم نوجوانوں کے ساتھ استحصالی عمل کررہے ہیں اس کے بعد ان کا غصہ ایک فطری امر ہے اور اس کا تجزیہ کیا جانا چاہیے کہ یہ سخت گیر اور تلخی پر مبنی رویہ ان نوجوانوں میںکیونکر پیدا ہوا ہے ۔ہمیں نظام کی تبدیلی یا اسٹیٹس کو کے خاتمے کی بحث کو محض جذباتی عمل تک محدود نہیں کرنا چاہیے ۔ نظام کی تبدیلی ایک علمی اور عقلی فہم کا تقاضہ بھی کرتی ہے ۔سیاسی جاعتیں جب خود منظم نہ ہوں اور ان کا اپنا داخلی نظام جمہوریت سے زیادہ آمرانہ یا بادشاہت کے مزاج کی عکاسی کرے تو نظام کی تبدیلی کی بحث بے معنی ہے ۔
ہمیں اس وقت ایک بڑی مزاحمت کی ضرورت ہے جس میں ہم ایک متبادل نظام کا خاکہ بھی پیش کریں کہ نئی تبدیلی کیا ہوگی اور کیونکر وہ لوگوں کو فائدہ پہنچا سکے گی ۔البتہ اس نعرے کو سیاست دانوں سے زیادہ عام لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کو خود زندہ رکھ کر ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو بیدار کرنا ہوگا ۔ کیونکہ حکمران طبقے اور بالخصوص اسٹیٹس کو کا حامی طبقہ یکجا ہوکر تبدیلی کے راستے کو روکتا ہے ۔ ہمیں سیاسی نظریات سے بالاتر ہوکر سب کے سامنے ایک آئینہ رکھ کر حکمران اور بالادست طبقات کو ان کا اصل چہرہ دکھا نا ہوگا۔ اس بحث کو آگے بڑھانا ہوگا کہ ہم اس ظالمانہ ، فرسودہ اور استحصال پر مبنی نظام کو قبول نہیں کریں گے ۔لیکن یہ کام ایک بڑی سیاسی جدوجہد کا تقاضہ کرتا ہے ، جس میں کوئی بڑا شارٹ کٹ نہیں، بلکہ ایک لمبا اور کٹھن راستہ ہے ، جس کو فتح کرکے ہی ہم اپنے لیے بہتر نظام تشکیل دے سکیں گے۔