مولانا بھاشانی لانڈھی میں
اعداد و شمار کے ماہرین کے مطابق لوگوں کی تعداد لاکھوں میں تھی یوں بھی اس وقت محنت کش صرف محنت کش ہوتا تھا۔
یادش بخیر یہ ذکر ہے 1954 کا جب کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو خلاف قانون قرار دے دیا گیا اور سید سجاد ظہیر جوکہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل تھے انھیں ملک بدری کے احکامات دے دیے گئے۔ چنانچہ سید سجاد ظہیر واپس بھارت تشریف لے گئے جہاں سے وہ 1948 میں آئے تھے اور وہ ایک پارٹی فیصلے کی روشنی میں پاکستان آئے تھے اور ان کے آنے کا مقصد یہ تھا کہ اس خلا کو پر کرسکیں جوکہ سکھ و ہندو ارکان کے پاکستان سے بھارت ہجرت کرنے کے باعث پیدا ہوا تھا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ 1948 تک کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے منسلک تھی، سید سجاد ظہیر کے پاکستان آنے کا فیصلہ کلکتہ اجلاس میں ہوا یہ اجلاس فروری 1948 میں منعقد ہوا تھا۔ بہرکیف سید سجاد ظہیر کے بھارت جانے کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے دیگر ارکان روپوش زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے یا عقوبت خانے ان کے مقدر ٹھہرے مگر جب 1956 میں نیشنل عوامی پارٹی کا قیام عمل میں آیا تو وہ قوم پرست رہنما جو سامراج دشمن تھے نیشنل عوامی پارٹی میں شریک ہوگئے اس موقعے پر زیر زمین کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رہنماؤں نے نیشنل عوامی پارٹی کو عوام سے رابطے کا ذریعہ بنایا کیونکہ نیشنل عوامی پارٹی ایک ایسا محاذ تھا جس میں تمام ترقی پسند فکر کے لوگ بھی شریک تھے اور حقیقی معنوں میں ملک کی بہت بڑی سیاسی قوت بھی تھی۔ عبدالولی خان سرخ پوش رہنما عبدالغفار خان کے صاحب زادے نیشنل عوامی پارٹی مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کے صدر بنے جب کہ مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کے مولانا عبدالحمید خان بھاشانی صدر بنے۔
مولانا بھاشانی ایک شعلہ بیان مقرر تھے جو جوش کے باوجود ہوش کا دامن تھامے بھی رکھتے تھے یہ ان کے اندر کی سچائی تھی جوکہ سر چڑھ کر بولتی تھی۔ مولانا بھاشانی یہ خوبی بھی رکھتی تھے کہ ان کے سامنے ہزاروں کا ہجوم ہو یا کوئی فرد واحد وہ اپنی بات پر سامنے والے کو قائل کرلیتے تھے چنانچہ جب 1964 کے صدارتی الیکشن کا موقعہ آیا تو ایک قدآور شخصیت کی ضرورت اس وقت کی حزب اختلاف نے محسوس کی سب کی نظریں انتخاب محترمہ فاطمہ جناح پر ٹھہریں مگر مسئلہ یہ تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح کے سامنے یہ مدعا بیان کون کرے؟
اس موقعے پر یہ ذمے داری مولانا بھاشانی کو سونپی گئی۔ جنھوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو آمر ایوب خان کے مدمقابل صدارتی الیکشن 1964 لڑنے پر آمادہ کرلیا مگر اس صدارتی الیکشن کا نتیجہ وہی آیا جو اس قسم کے الیکشن کا آتا ہے جب کہ ان الیکشن میں حکومتی مشنری کا جس طرح استعمال ہوا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ یوں بھی یہ الیکشن کے نام پر ایک ناٹک تھا جس میں آمر ایوب خان کی جیت قرار پائی۔ اس صدارتی الیکشن کے بعد البتہ آمر ایوب خان کے خلاف عوامی غیظ و غضب کا لاوہ پکنا شروع ہوچکا تھا۔ یہی مولانا بھاشانی 1968 میں مغربی پاکستان کا ایک طوفانی انداز میں دورہ کرتے ہیں ۔
کراچی میں بھی ان کو ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا یہ دورہ کافی روز قبل ہی طے ہوچکا تھا جلسے کے لیے لانڈھی میں 89 کے میدان کا انتخاب کیا گیا مولانا بھاشانی کا جلسہ کامیاب کرنے کے لیے شب و روز تیاریاں جاری تھیں ۔ اقبال پیارے، ابن ایوب ،نایاب مسیح الرحمن منور و دیگر مزدور رہنما بساط سے بڑھ کر کام کر رہے تھے۔ اقبال پیارے کو مولانا بھاشانی نے یہ اعزاز بھی بخشا کہ ان کے گھر واقعے لانڈھی نمبر 6 پر قیام کیا۔ وہ یار محمد یار، اکبر بارکزئی ،لطیف بلوچ ، لال بخش رند ، شیرمحمد رئیس اور دیگر کے ہمراہ لیاری بھی گئے تھے ۔ کراچی میں جلسے سے قبل مولانا بھاشانی پنجاب کے مختلف شہروں کا دورہ مکمل کرکے آرہے تھے جہاں ساہیوال میں ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں محفوظ رہے تھے بہرکیف مقررہ روز و مقررہ جگہ پر جلسہ شروع ہوا ۔ لانڈھی 89 کا میدان سو فیصد لوگوں سے بھر چکا تھا ۔ پورے میدان میں گویا لال جھنڈوں کی بہار آچکی تھی ۔
اعداد و شمار کے ماہرین کے مطابق لوگوں کی تعداد لاکھوں میں تھی یوں بھی اس وقت محنت کش صرف محنت کش ہوتا تھا۔ پنجابی، پٹھان، مہاجر، سندھی، بلوچ نہ تھا یہ سب باتیں ثانوی حیثیت رکھتی تھیں افسوس کہ بعدازاں محنت کش لسانی و مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہوگیا اور محنت کشوں کی قوت بھی تقسیم ہوگئی سو مولانا بھاشانی سے قبل دیگر مقررین خطاب کرتے رہے جب کہ انقلابی رہنما و شاعر حاجی عدیل، جون ایلیا، سعید رضا سعید اپنی اپنی انقلابی شاعری سے لوگوں کا لہو گرما رہے تھے۔ خالد علیگ بھی تشریف لاچکے تھے۔ خالد علیگ تو اس قسم کے جلسوں کی تلاش میں ہوتے تھے۔ یوں بھی جلسہ گاہ سے خالد علیگ کا در دولت صرف چند گز کے فاصلے پر تھا۔ یہ وہی خالد علیگ تھے جنھوں نے ساری عمر اپنی انقلابی شاعری سے انقلابیوں کا لہو گرمایا ان کا اصول تھا کہ بقول خالد علیگ
ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے
ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا
مزدور رہنماؤں کے بعد جیسے ہی مولانا بھاشانی جلسہ گاہ میں موجود لوگوں سے مخاطب ہوئے گویا لاکھوں لوگوں پر سکوت کا عالم طاری ہوچکا تھا جلسہ گاہ میں صرف مولانا بھاشانی کی شعلہ بیان تقریر جاری تھی اور اگر چشم تصور سے دیکھیں تو آمر ایوب خان کے حکومتی ایوانوں میں لرزہ طاری تھا۔ مولانا بھاشانی کی تقریر کے دوران نماز عصر کے لیے سامنے والی مسجد غوثیہ سے اذان کی آواز آتی ہے ۔مولانا بھاشانی مسجد غوثیہ تشریف لے جاتے ہیں اور نماز عصر باجماعت ادا کرکے جب واپس جلسہ گاہ میں تشریف لاتے ہیں تو حاضرین کی تعداد کا وہی عالم ہے یعنی تمام حاضرین ذوق و شوق سے مولانا بھاشانی کی آمد کے منتظر ہیں۔ چنانچہ بقیہ تقریر بھی لوگ اسی جذبے سے سماعت کرتے ہیں یوں یہ جلسہ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اس جلسہ عام کو کامیاب کرنے میں اس وقت کی تمام مزدور یونینز کے ساتھ ساتھ اقبال پیارے، داؤد خان، مسیح الرحمن، حاجی عدیل، نایاب ابن ایوب، منور، خالد علیگ، جون ایلیا، سعید رضا سعید کی کوششوں کا دخل تھا اور اس جلسے کی کامیابی کا کریڈٹ بھی ان ہی لوگوں کو جاتا ہے جن میں داؤد خان و مسیح الرحمن بقید حیات ہیں ۔ اب یہ بات دیگر ہے مولانا بھاشانی کے اس جلسے کی کامیابی کا کریڈٹ کوئی ایسا دانشور لے جس کا لانڈھی کے مزدوروں میں کوئی کام صحیح نہ ہو اور ایسا بندہ جس نے ایسی سیاسی جماعت کا ساتھ بھی دیا جس نے سوشلزم کے نام پر وڈیرا شاہی کو تقویت بخشی ہو جس نے مالی پوزیشن مستحکم ہونے پر مزدوروں کی بستی کو چھوڑ کر پوش علاقے میں رہائش اختیار کرلی ہو جب کہ مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے ان بستیوں میں رہ کر کام کیا جاسکتا ہے اور ایسا بندہ ماؤ نواز ہونے کا دعویٰ بھی کرے ۔