اعلیٰ پولیس افسران کے دباؤ پرہنڈی کے ذریعے دہشتگردوں کی معاونت کی تحقیقات رک گئی
مضبوط شواہد ہونے کے باوجود کراچی کا معروف کار ڈیلرکارروائی کے بغیر رہا،قبضے میں لیا جانے والا ریکارڈ بھی واپس کردیاگیا
سندھ پولیس سے وابستہ اعلی افسران کے دباؤ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے پشاور اور کوئٹہ کے بے نامی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے دہشت گردوں کی مالی معاونت (ٹیررازم فنانسنگ) کی تحقیقات سرد خانے کی نذر کردی گئی ہیں، ایف آئی اے نے حوالہ اور ہنڈی کے مضبوط شواہد ہونے کے باوجود شہر کے معروف کار ڈیلر کو کارروائی کے بغیر رہا کردیا جبکہ اس سلسلے میں قبضے میں لیا جانے والا ریکارڈ بھی واپس کردیاگیا ۔
تفصیلات کے مطابق ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کے تحقیقات کاروں حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے منظم کاروبار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے، دوران تحقیقات یہ سامنے آیا تھا کہ حوالہ اورہنڈی کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک بھیج کر نہ صرف ملکی خزانے کو خطیر مالی نقصان پہنچایا جارہا ہے جبکہ حوالہ اورہنڈی کا چینل مشرق وسطی اور دنیا کے دیگرممالک سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا سبب بھی بن رہا ہے۔
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی مالی اسکینڈل کے مرکزی تحقیقات کار اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر محمد نے یہ حقائق سامنے آنے کے بعد ایک جامع رپورٹ تیارکی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ درآمد کنندگان (امپورٹر) بڑے پیمانے پر حوالہ اورہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھیج رہے ہیں اور اس کے بدلے میں دہشت گردوں کے غیرملکی فنانسرز اسی چینل کے ذریعے رقوم پاکستان منتقل کررہے ہیں جوکہ پشاور اور کوئٹہ کے ذریعے جنگ زدہ قبائلی علاقوں اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچائی جارہی ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ برآمد کنندگان ٹیکس میں بچت کیلیے تقریبا روزانہ 2 کروڑ روپے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے دبئی اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک بھجواتے ہیں تاہم رقم عملی طور پر بیرون ملک نہیں جاتی بلکہ دبئی موجود منی ایکس چینج کمپنیاں مشرق وسطی سے پاکستان بھیجنے کیلیے جمع ہونے والی رقم درآمد کنندگان کو دبئی میں فراہم کردیتے ہیں اور اس کے بدلے میں انھیں پاکستان سے بک کرائی جانے والی رقم پشاور اور کوئٹہ کے بے نامی بینک اکاؤنٹس میں جمع کرانی ہوتی ہے اور بعد ازاں زیادہ تر رقم قبائلی علاقوں میں بھجوادی جاتی ہے۔
ایف آئی اے نے فوری طور پر پشاور اور کوئٹہ کے بے نامی بینک اکاؤنٹس میں موجود 25 کروڑ روپے سے زائد کی رقم کو منجمند کردیا تھا جو کہ تاحال منجمند ہے، ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور دیگر یورپی ممالک کی طرح پاکستان میں کرنسی کی اسمگلنگ نہیں کی جاتی یعنی کبھی بھی ایئرپورٹ پر دیگر داخلی خارجی راستوں پر روپے یا ڈالر کی اسمگلنگ کے واقعات سامنے نہیں آتے کیونکہ حوالہ اورہنڈی کا منظم کاروباراور مشرق وسطی اور پاکستان کی منی ایکس چینج کمپنیوں کے انتہائی مضبوط روابط کے نتیجے میں یہ کام صرف ایک ون کال پر ہی ہوجاتا ہے اور اس کاروبار سے وابستہ افراد کو کسی قسم کے رسک کا سامنا بھی نہیں پڑتا جوکہ رقم کی فزیکل اسمگلنگ میں ناگزیر ہے۔
رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت (ٹیررازم فنانسنگ) کو روکنے کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان سے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک رقم بھیجنے والے درآمد کنندگان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرتے ہوئے مقدمات درج کیے جائیں اور انھیں مجبور کیا جائے کہ وہ قانونی چینل کے ذریعے زرمبادلہ بیرون ملک بھیجیں، تحقیقاتی افسر کی رپورٹ نے اعلی حکومتی حلقوں میں ہلچل مچادی تھی اور اس سلسلے میں بعد ازاں انتہائی اعلی سطح پر یہ ہونے والی مشاورت میں وزیراعظم سیکریٹریٹ، وفاقی وزارت داخلہ اور اسٹیٹ بینک کو بھی شامل کیا گیا تھا، مشاورت کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایف آئی اے کو درآمد کنندگان کے خلاف کارروائی کی اجازت دی جائے گی تاہم ممکنہ کارروائی کو شفاف رکھنے اور کاروباری حضرات کو ہراساں نہ کرنے کی غرض سے ایف آئی اے کو پابند کیا تھا کہ صرف ایسے درآمد کنندگان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
جنھوں نے ایک کروڑ روپے یا اس سے زائد کا زرمبادلہ حوالہ اور ہنڈی کے غیرقانونی کاروبار کے ذریعے بیرون ملک بھجا ہو، فیصلے کے نتیجے میں ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 01/2014 رجسٹرڈ کی گئی تھی اور باقاعدہ تحقیقات کے بعد کرائم سرکل نے کراچی کے معروف کار ڈیلروں کی جانب سے لگژری گاڑیوں کی درآمد کیلیے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بھجوائی گئی رقوم کے ثبوت حاصل کرکے ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت مانگی تھی تاہم اس دوران ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر محمد اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر رٹائرڈ ہوگئے اور چند ماہ تک اس عہدے پر باقاعدہ طور پر کسی افسر کو تقرر نہیں کیا جاسکا، اعلی افسران کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کی اجازت ملنے کے بعد گزشتہ ہفتے ایف آئی اے کرائم سرکل نے ڈاکٹر ضیا الدین احمد روڈ پر واقع کلیئرنگ اینڈ فارورڈنگ ایجنٹ میسرز اوورسیز ٹرانزٹ ایجنٹ کے مالک کو حراست میں لے کر کار ڈیلروں کی جانب سے درآمد کی جانے والی لگژری گاڑیوں کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا تھا اور ملنے والے ثبوتوں کی روشنی میں کشمیر روڈ کے قریب واقع فیصل موٹرز پر چھاپہ مار کر اس کے مالک فیصل شیخ کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔
ایف آئی اے کے تفتیشی افسران ملنے والے ریکارڈ کے مطابق مقدمے درج کرنے کی تیاریاں کررہے تھے کہ سندھ پولیس میں تعینات ڈی آئی جی کے عہدے کے چند افسران میدان میں کود پڑے اورانھوں نے ڈائریکٹر ایف آئی اے پر حراست میں لیے جانے والے ملزمان کو چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا اور چند گھنٹوں بعد حراست میں لیے جانے والے افراد کو شخصی ضمانت پر رہا کردیا گیا بعد ازاں مقدمہ درج کرنے کے احکام بھی واپس لے لیے گئے اور تمام ریکارڈ بھی واپس کردیا گیا، ذرائع نے بتایا کہ کراچی پولیس ساؤتھ زون کے اعلی افسر اس سلسلے میں مسلسل ڈائریکٹرایف آئی اے پر دباؤ ڈالتے رہے اوراسی دباؤ کے نتیجے میں نہ صرف مقدمہ درج نہیں کیا گیا بلکہ اس عمل کو قانونی ثابت کرنے کیلیے یہ ہدایت جاری کی گئی کہ رجسٹرڈ کی جانے والی انکوائری میں موجود دیگر الزام کی تحقیقات بھی پہلے مکمل کی جائیں۔
ایف آئی اے کے سینئر اہلکاروں کے مطابق جب اعلی افسران کسی معاملے کو سرد خانے کی نذر کرنا چاہتے ہیں تو وہ تحقیقات کو نامکمل قرار دے کرکارروائی سے روک دیتے ہیں انھوں نے بتایا کہ کسی بھی تحقیقات کو اسی طرح آگے بڑھایا جاسکتا ہے کہ ایک الزام بھی ثابت ہوتومتعلقہ ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا آغازکردیا جائے، جس کی مثال ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اسکینڈل ہے ایف آئی اے نے پہلا مقدمہ چند لاکھ روپے کی بدعنوانی کے الزام میںد رج کیا تھا جوکہ بعد ازاں تحقیقات کو تقریبا 5 ارب روپے کے مالی اسکینڈل تک پہنچانے کا سبب بنا، اس سلسلے میں رابطہ کرنے پرڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ زون شاہد حیات نے کہا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت یا ٹیررازم فنانسنگ کی تحقیقات سردخانے کی نذر نہیں کی گئی ہیں بلکہ اس سلسلے میں جامع تحقیقات کی جارہی ہیں، انھوں نے اعتراف کیاکہ مقدمہ درج کرنے کی اجازت دیے جانے کے باوجود کارروائی نہیں کی گئی تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ تحقیقات مکمل ہوتے ہی تمام ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
تفصیلات کے مطابق ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اسکینڈل کی تحقیقات کے دوران ایف آئی اے کے تحقیقات کاروں حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے دہشت گردوں کی مالی معاونت کے منظم کاروبار تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے، دوران تحقیقات یہ سامنے آیا تھا کہ حوالہ اورہنڈی کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک بھیج کر نہ صرف ملکی خزانے کو خطیر مالی نقصان پہنچایا جارہا ہے جبکہ حوالہ اورہنڈی کا چینل مشرق وسطی اور دنیا کے دیگرممالک سے دہشت گردوں کی مالی معاونت کا سبب بھی بن رہا ہے۔
ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی مالی اسکینڈل کے مرکزی تحقیقات کار اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر محمد نے یہ حقائق سامنے آنے کے بعد ایک جامع رپورٹ تیارکی تھی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ درآمد کنندگان (امپورٹر) بڑے پیمانے پر حوالہ اورہنڈی کے ذریعے بیرون ملک بھیج رہے ہیں اور اس کے بدلے میں دہشت گردوں کے غیرملکی فنانسرز اسی چینل کے ذریعے رقوم پاکستان منتقل کررہے ہیں جوکہ پشاور اور کوئٹہ کے ذریعے جنگ زدہ قبائلی علاقوں اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچائی جارہی ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ برآمد کنندگان ٹیکس میں بچت کیلیے تقریبا روزانہ 2 کروڑ روپے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے دبئی اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک بھجواتے ہیں تاہم رقم عملی طور پر بیرون ملک نہیں جاتی بلکہ دبئی موجود منی ایکس چینج کمپنیاں مشرق وسطی سے پاکستان بھیجنے کیلیے جمع ہونے والی رقم درآمد کنندگان کو دبئی میں فراہم کردیتے ہیں اور اس کے بدلے میں انھیں پاکستان سے بک کرائی جانے والی رقم پشاور اور کوئٹہ کے بے نامی بینک اکاؤنٹس میں جمع کرانی ہوتی ہے اور بعد ازاں زیادہ تر رقم قبائلی علاقوں میں بھجوادی جاتی ہے۔
ایف آئی اے نے فوری طور پر پشاور اور کوئٹہ کے بے نامی بینک اکاؤنٹس میں موجود 25 کروڑ روپے سے زائد کی رقم کو منجمند کردیا تھا جو کہ تاحال منجمند ہے، ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ امریکا اور دیگر یورپی ممالک کی طرح پاکستان میں کرنسی کی اسمگلنگ نہیں کی جاتی یعنی کبھی بھی ایئرپورٹ پر دیگر داخلی خارجی راستوں پر روپے یا ڈالر کی اسمگلنگ کے واقعات سامنے نہیں آتے کیونکہ حوالہ اورہنڈی کا منظم کاروباراور مشرق وسطی اور پاکستان کی منی ایکس چینج کمپنیوں کے انتہائی مضبوط روابط کے نتیجے میں یہ کام صرف ایک ون کال پر ہی ہوجاتا ہے اور اس کاروبار سے وابستہ افراد کو کسی قسم کے رسک کا سامنا بھی نہیں پڑتا جوکہ رقم کی فزیکل اسمگلنگ میں ناگزیر ہے۔
رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت (ٹیررازم فنانسنگ) کو روکنے کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان سے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بیرون ملک رقم بھیجنے والے درآمد کنندگان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرتے ہوئے مقدمات درج کیے جائیں اور انھیں مجبور کیا جائے کہ وہ قانونی چینل کے ذریعے زرمبادلہ بیرون ملک بھیجیں، تحقیقاتی افسر کی رپورٹ نے اعلی حکومتی حلقوں میں ہلچل مچادی تھی اور اس سلسلے میں بعد ازاں انتہائی اعلی سطح پر یہ ہونے والی مشاورت میں وزیراعظم سیکریٹریٹ، وفاقی وزارت داخلہ اور اسٹیٹ بینک کو بھی شامل کیا گیا تھا، مشاورت کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ایف آئی اے کو درآمد کنندگان کے خلاف کارروائی کی اجازت دی جائے گی تاہم ممکنہ کارروائی کو شفاف رکھنے اور کاروباری حضرات کو ہراساں نہ کرنے کی غرض سے ایف آئی اے کو پابند کیا تھا کہ صرف ایسے درآمد کنندگان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
جنھوں نے ایک کروڑ روپے یا اس سے زائد کا زرمبادلہ حوالہ اور ہنڈی کے غیرقانونی کاروبار کے ذریعے بیرون ملک بھجا ہو، فیصلے کے نتیجے میں ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی میں انکوائری نمبر 01/2014 رجسٹرڈ کی گئی تھی اور باقاعدہ تحقیقات کے بعد کرائم سرکل نے کراچی کے معروف کار ڈیلروں کی جانب سے لگژری گاڑیوں کی درآمد کیلیے حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے بھجوائی گئی رقوم کے ثبوت حاصل کرکے ایف آئی آر درج کرنے کی اجازت مانگی تھی تاہم اس دوران ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر محمد اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر رٹائرڈ ہوگئے اور چند ماہ تک اس عہدے پر باقاعدہ طور پر کسی افسر کو تقرر نہیں کیا جاسکا، اعلی افسران کی جانب سے مقدمہ درج کرنے کی اجازت ملنے کے بعد گزشتہ ہفتے ایف آئی اے کرائم سرکل نے ڈاکٹر ضیا الدین احمد روڈ پر واقع کلیئرنگ اینڈ فارورڈنگ ایجنٹ میسرز اوورسیز ٹرانزٹ ایجنٹ کے مالک کو حراست میں لے کر کار ڈیلروں کی جانب سے درآمد کی جانے والی لگژری گاڑیوں کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا تھا اور ملنے والے ثبوتوں کی روشنی میں کشمیر روڈ کے قریب واقع فیصل موٹرز پر چھاپہ مار کر اس کے مالک فیصل شیخ کو بھی حراست میں لے لیا تھا۔
ایف آئی اے کے تفتیشی افسران ملنے والے ریکارڈ کے مطابق مقدمے درج کرنے کی تیاریاں کررہے تھے کہ سندھ پولیس میں تعینات ڈی آئی جی کے عہدے کے چند افسران میدان میں کود پڑے اورانھوں نے ڈائریکٹر ایف آئی اے پر حراست میں لیے جانے والے ملزمان کو چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کردیا اور چند گھنٹوں بعد حراست میں لیے جانے والے افراد کو شخصی ضمانت پر رہا کردیا گیا بعد ازاں مقدمہ درج کرنے کے احکام بھی واپس لے لیے گئے اور تمام ریکارڈ بھی واپس کردیا گیا، ذرائع نے بتایا کہ کراچی پولیس ساؤتھ زون کے اعلی افسر اس سلسلے میں مسلسل ڈائریکٹرایف آئی اے پر دباؤ ڈالتے رہے اوراسی دباؤ کے نتیجے میں نہ صرف مقدمہ درج نہیں کیا گیا بلکہ اس عمل کو قانونی ثابت کرنے کیلیے یہ ہدایت جاری کی گئی کہ رجسٹرڈ کی جانے والی انکوائری میں موجود دیگر الزام کی تحقیقات بھی پہلے مکمل کی جائیں۔
ایف آئی اے کے سینئر اہلکاروں کے مطابق جب اعلی افسران کسی معاملے کو سرد خانے کی نذر کرنا چاہتے ہیں تو وہ تحقیقات کو نامکمل قرار دے کرکارروائی سے روک دیتے ہیں انھوں نے بتایا کہ کسی بھی تحقیقات کو اسی طرح آگے بڑھایا جاسکتا ہے کہ ایک الزام بھی ثابت ہوتومتعلقہ ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا آغازکردیا جائے، جس کی مثال ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی اسکینڈل ہے ایف آئی اے نے پہلا مقدمہ چند لاکھ روپے کی بدعنوانی کے الزام میںد رج کیا تھا جوکہ بعد ازاں تحقیقات کو تقریبا 5 ارب روپے کے مالی اسکینڈل تک پہنچانے کا سبب بنا، اس سلسلے میں رابطہ کرنے پرڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ زون شاہد حیات نے کہا کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت یا ٹیررازم فنانسنگ کی تحقیقات سردخانے کی نذر نہیں کی گئی ہیں بلکہ اس سلسلے میں جامع تحقیقات کی جارہی ہیں، انھوں نے اعتراف کیاکہ مقدمہ درج کرنے کی اجازت دیے جانے کے باوجود کارروائی نہیں کی گئی تاہم انھوں نے یقین دلایا کہ تحقیقات مکمل ہوتے ہی تمام ذمے داروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔