پاکستان ایک نظر میں انسدادِ دہشتگردی کے لیے کمر کسنے کا وقت آپہنچا

افغان صدرآج بھی دہشتگردی کی بوتل کےکھلے منہ کیطرح کھلا ہے جہاں سے دہشتگردی کا جن آتا ہے اور وارکرکے واپس چلا جاتا ہے۔


میاں ذیشان عارف December 23, 2014
وقت آگیا ہے کہ ہم فیصلہ کرلیں کہ اب ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو بم دھماکوں، ناحق خون کے دھبوں، سسک سسک کر سانس لینے اور ہر وقت ایمبولینسیں کے شور سے پاک پاکستان دینا ہے۔ فوٹو: فائل

کہتے ہیں کہ غصّہ آگ کی مانند ہے۔ اس میں ہوش کهو دیں تو یہ بناتا کم ہے اور اجاڑتا زیادہ ہے۔ آگ ہمیشہ نقصان دہ ہی نہیں ہوتی، اسے قابو میں لا کر استعمال کیاجائے تو اس سے دو وقت کا کھانا بھی بنایا جا سکتا ہے اور سردی میں جسم کو حرارت بھی دی جا سکتی ہے، مگر یہی آگ اگر قابو سے باہر ہو جاۓ تو ایک چنگاری پوری بستی جلانے کے لئے کافی ہے۔

ہماری قوم پچھلے دس سال سے دہشتگردی کے بہت بڑے سانحے سے گزررہی ہے، جسکا تازہ وار سینکڑوں ماؤں کے لال اور باپوں کی ننھی ننھی گڑیا نگل گیا۔

آج پوری قوم ایک غصّے اور آگ کی کیفیت میں ہے، جو کچھ آرمی پبلک اسکول میں ہوا وہ منظر آنکھوں میں لانا بڑے سے بڑے دل والے کے بس میں بھی نہیں، بچہ اپنا ہو یا کسی اور کا، اسکو تھپڑ مارنے تک کو دل نہیں کرتا اور سینکڑوں معصوموں کو گولیوں سے بھون دینے والوں کی درندگی کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔

ہمیں کتنے سال ہو گئے سنتے ہوئے کہ ملک دہشتگردی کا شکار ہے اور ہم اس سے نمٹنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔ مگر پھر یہ ہوتا ہے کہ کوئی نیا سانحہ رونما ہوتا ہے، بریکنگ نیوز چلتی ہیں، مذمتی بیانات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس کی جگہ حکومتی اور اپوزیشن نمایندوں کی الزام تراشی اور جھوٹے سچے وعدے لے لیتے ہیں۔ یوں اس سانحے سے اک طلاطم برپا ہوتا ہے، وقتی گرد اٹھتی ہے اور پھر بیٹھ جهاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے، مگر اب کی بار تھوڑا مختلف ہے

ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر بہت باتیں ہو گئیں، اختلافات بھی ہو گئے، دوسروں کے بزرگوں کو گالیاں بھی دے لیں اور اپنے بڑوں کے کارنامے بھی گنوا لیے کہ کس نے یہ نام نہاد'جہاد' شروع کیا، کس نے فنڈ کیا، کون کون امیر ہوا اور کون کون شہیدِ راہ ہوا۔ کس نے کس نظریے کو پروان چڑھایا، کس نے کهل کر حمایت کی، کون ایک فون پر ڈهیر ہوا اور کون اسلام کے نام پر اسلام آباد پر قابض ہوا۔ کس نے طالبان کو بیٹا کہا اور کون منہ بولے بیٹوں کو سمجھاتا رہا۔ اب یہ گڑھے مردے اکھاڑ کر ہم کیا کریں گے؟؟ اب اس غصّے کی آگ سے یا برسوں پہلے مرنے والوں کی لاشوں کو جلا لیا جائے یا اس ناسور کو راکھ کر دیا دیاجائے جس نے اس قوم کے باریش بزرگ سے لیکر دودھ پیتے بچے تک نگل لیے۔

حکومت اور اپوزیشن اکٹھے ہو گئے، پوری قوم یکجا ہو گئی مگر اس سب کا صلہ ابھی تک کیا ملا؟ جو دہشتگرد موت کی سزا کی فہرست پر ہیں انھیں فوراً پھانسی دے دی جائے؟ کیا یہ کافی ہے؟ کیا یہ ان ہزاروں خاندانوں کے زخموں کا مداوا ہے جنہوں نے اپنے لختِ جگر اس دھرتی پر قربان کر دیے؟ کیا ہم اپنی صدمے اور غصّے کی آگ سے غلط چتا جلا کر اپنے اندر جلتا ہوا الاؤ ٹھنڈا کر رہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم پھر یہ سب بھول جائیں گے؟؟

جنابِ وزیرِعظم صاحب، جناب آرمی چیف اور وزرا اعلی صاحبان اگر آپکو حقیقت میں دہشتگردی کے ناسور سے لڑنا ہے تو اس سسٹم کو اس درجے پہ لیکر آئیے جہاں یہ دہشتگردوں کو نہ صرف پکڑ سکے بلکہ انکے خلاف ٹھوس ثبوت عدالتوں میں پیش ہو سکیں، اگر آپکو صدمے کی اس آگ سے کوئی کام لینا ہے تو عملی طور پر کچھ کیجئے، سڑک پہ کھڑے سپاہی، میدان جنگ میں لڑتے فوجی، مجرموں کو سزائیں دیتے جج اور دہشت گردوں کے خلاف گواہی دینے والوں کے ہاتھ مضبوط کیجیے۔ آپ نے اس وقت فیصلہ کرنے کی ٹھان ہی لی ہے تو فیصلہ کیجیے کہ اس ملک میں پڑھائے جانے والے نصاب میں کوئی نفرت انگیز مواد نہیں ہو گا، اس ملک میں کوئی غیر رجسٹرڈ مدرسہ ہو گا نہ کسی فرد کی اپنی بنائی ہوئی شریعت کا کوئی سکول ہو گا۔ آپ تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو اکٹھا کریں اور ایک بورڈ بنائیں جو اپنے اپنے مسلک کے پیروکاروں کیلئے اصول و قوائد وضح کرے، اس ملک میں ممبر پر بولنے والے ہر عالم، مفتی، شیخ اور علامہ کو حکومت لائسنس جاری کرے اور نفرت پھیلانے والے کا لائسنس فوراََ منسوخ کر کے اسکے خلاف کروائی کی جانی چاہیئے۔

کاؤنٹر ٹیررازم کے جس ادارے کے خواب وزیر داخلہ نے دکھائے تھے اسے بھی شرمندہ تعبیر کیجئے، اقلیتوں کی عبادت گاہوں، ائرپورٹس، سرکاری عمارات، مزاروں اور فوجی تنصیبات کی خصوصی حفاظت کی جائے۔ فوج کے مورال کو بلند کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔

ہمارا افغانستان کے ساتھ بارڈر آج بھی دہشتگردی کی بوتل کے کھلے منہ کا کردار ادا کر رہا ہے جہاں سے دہشتگردی کا جن یہاں آتا ہے وار کرتا ہے اور واپس چلا جاتا ہے۔ یہاں آج بھی غیر قانونی افغان سموں کی بھرمار ہے اور کوئی پوچنے والا نہیں۔

ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو جو پاکستان دیں وہ بم دھماکوں، ناحق خون کے دھبوں، سسک سسک کر سانس لینے اور ہر وقت ایمبولینسیں کے شور سے پاک ہو۔ جہاں بچہ یونیفارم میں گهر سے باہر جانے تو ماں کو یہ ڈر نہ ہو کہ وہ کفن میں واپس لوٹے گا۔

ستم ظریفیِ وقت نے
کلیوں کی نزاکت کو
دلوں کی محبّت کو
اس طرح سے مسلا ہے
اس طرح سے کچلا ہے
کہ زندگی اذیت ہے
اور سانس کی بھی قیمت ہے
صداے موت آتی ہے شہر بھر کی گلیوں سے
خون کی بو آتی ہے پھولوں اور کلیوں سے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں