دہشت گردی مزید الرٹ رہنے کی ضرورت

وزیراعظم نواز شریف کاکہنا ہے کہ پاکستان سے ہر قیمت پر مکمل طور پر دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کررکھا ہے۔


Editorial December 23, 2014
پشاورالمیہ ہمارے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ تمام عسکریت پسندوں اورانتہا پسندوں سے ہمیں خطرہ درپیش ہے، فوٹو : فائل

QUETTA: وزیراعظم نوازشریف نے کہاہے کہ ایک آپریشن ضرب عضب قبائلی علاقوںمیں جاری ہے اوردوسرا شہروں میں چھپے دشمنوں کے خلاف ہوگا۔ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ ہوگی اورملک کودہشت گردی کے کینسرسے نجات دلاکر دم لیں گے جب کہ صدرمملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں ہے، پشاورالمیہ ہمارے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ تمام عسکریت پسندوں اورانتہا پسندوں سے ہمیں خطرہ درپیش ہے ۔

صدر مملکت نے بجا طور پر خطرات کی بات کی ہے اور ضروری نہیں کہ سیکیورٹی فورسز کی نگاہ صرف داخلی امن اور بد امنی و قتل و غارت کے خاتمے پر مرکوز ہو بلکہ ہمیں خطے کی مجموعی صورتحال اور خاص طور پر بھارت ،افغانستان اور دیگر پڑوسی ملکوں کے حوالہ سے بھی محتاط رہنا پڑیگا، افغان سیکیورٹی فورسز نے پاکستانی طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے اپنے مشرقی صوبوں میں آپریشن شروع کردیا ہے، اگلے روز تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولانا فضل اﷲ کی موجودگی کی اطلاع پر کنڑ میں کارروائی ہوئی جس میں 28 طالبان ہلاک اور 33 زخمی ہوئے ۔ارزگان ، غزنی ،پکتیکا اور پکتیا میں24 جنگجو مارے گئے، کنڑ میں دھماکا ہوا جس میں 7بچے جاں بحق ہوئے جب کہ کراچی میں بھی کالعدم تحریک طالبان اور القاعدہ کے 13 دہشت گرد ہلاک کیے گئے، اس لیے مزید چوکس رہنے کی ضرورت ہے ۔

ملک کے حالت جنگ میں ہونے کا اعلان صدر مملکت کے بیانیہ کی اصل اہمیت کے ادراک سے مشروط ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ بلاشبہ اہل وطن کی جنگ ہے ، دہشت گردی کے حوالے سے وزیراعظم اور دیگر مشاہیر اور سیاست دانوں کے بیانات بھی قومی انداز نظر اور قومی امنگوں کی سچی عکاسی کرتے ہیں ، ارباب اختیار کے لیے یہ بھی ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ عالمی تناظر اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دہشت گردی کے داخلی عوامل اور اپنے ''اندر کے دشمن'' کی مکمل شناخت اور اس سے نمٹنے کے لیے صف بندی کریں ۔

یہ حقیقت پاک فوج ، ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، اور متعلقہ ریاستی و حکومتی اداروں کی ہمہ وقت توجہ کا مرکز بنی رہنی چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے ملکی معمولات حیات بدستور پر امن طریقے سے جاری رہیں ، کوئی انارکی پیدا نہ ہو، وسیع تر سیاسی اتحاد کے ذریعے عدلیہ ، میڈیا، پارلیمنٹ اور سول سوسائٹی سمیت تمام سیاست داں اتحاد و اتفاق کی ایسی مثال قائم کریں کہ افواہوں ، چہ مگوئیوں، آپریشن ضرب عضب اور عدالتی اقدامات کے بارے میں کسی قسم کی مہم جوئی نہ ہو، جبھی ہم حالت جنگ میں ہم اپنے درست عسکری، سیاسی، سماجی ، معاشی اور نظریاتی اثاثوں کا دفاع کر سکیں گے اور قومی یکجہتی کو دہشت گردی کے ممکنہ جوابی رد عمل سے بچا سکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کاکہنا ہے کہ پاکستان سے ہر قیمت پر مکمل طور پر دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کررکھا ہے اور جنھوں نے ہمارے فوجیوں، شہریوں اور بچوں کی جان لیں ان پر رحم نہیں کیا جا سکتا ۔

انھیں اپنے کیے کی سزا ضرور دی جائے گی اور دہشت گردی کے مقدمات کی متحرک اندازمیں پیروی کی جائے گی ۔ انھوں نے اپنی قانونی ٹیم اوراٹارنی جنرل آفس سمیت دیگرکو واضح ہدایات دیں کہ وہ دہشت گردجن کوعدالتوں سے حکم امتناعی ملاہے یا پھرکسی وجہ سے مقدمے آگے نہیں چل رہے توانھیں جلد آگے بڑھایا جائے۔پاکستان تحریک انصاف اورجماعت اسلامی کے امیرسراج الحق نے یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت دہشگردی ختم کرے اس کے ساتھ مکمل تعاون کیاجائے گا ۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کو واپس خیبرپختونخوا کے حوالے کیا جائے، 23 ہزار ایف سی اہلکاروں میں سے صرف 800 سے900 اہلکار صوبے کے پاس ہیں۔ یہاں وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان نے کہا قوم دہشت گردی سے مقابلے کا فیصلہ کر چکی ہے، ملک متحد ہو جائے تو جنگ جیتی جا سکتی ہے، ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں وہ مشکل ہے ناممکن نہیں ۔

آئی ڈی پیز ہمارے لوگ ہیں ان کو سہولیات فراہم کرنا ہم سب کی ذمے داری ہے، کے پی کے کی 70 فیصد صنعتیں بند ہیں، 20 لاکھ آئی ڈی پیز کے لیے وفاق فوری فنڈز جاری کرے، عمران خان نے کہا فاٹا کے لوگوں کو سہولتیں نہ دی گئیں تو نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل ہونگے ۔ تحریک انصاف کے سربراہ کا نقطہ نظر سنجیدہ تجزیہ اور فوری توجہ کا مستحق ہے۔ تاہم یہاں ایک قابل غور اطلاع کا ذکر بے جا نہ ہوگا کہ آرمی پبلک اسکول اینڈ کالج پر حملے کی اطلاع28اگست کو نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی نے دی تھی، نیکٹا کے ڈائریکٹر آپریشن عبیداللہ فاروق ملک کی طرف سے ہوم سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا،انسپکٹر جنرل ایف سی خیبر پختونخوا،ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا اور کمانڈنٹ فرنٹیئر کانسٹیبلری کولیٹر نمبر802کے عنوان اور مراسلہ نمبر 3/9/2012-(ops)-8141(1) کے تحت مراسلہ بھیجاجس میں بتایا گیا تھا کہ تحریک طالبان اورکزئی ایجنسی کے خاکسار امیر نے بلال ارہابی اورعبیداللہ کے ساتھ ملکرپورے ملک اوربالخصوص خیبرپختونخوا میں آرمی پبلک اسکول،کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں پرحملہ کرینگے، اگر یہ سچ ہے تو اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

ملک اس تجاہل عارفانہ کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔دہشت گردی کے خلاف کارروائی کا عزم قومی ٹاسک بن گیا ہے، وزیراعلیٰ شہبازشریف نے کہا ہے کہ سفاک درندوں نے پشاورمیں معصوم بچوں کوبدترین بربریت کا نشانہ بنایا جس پرپوری قوم غمزدہ ہے، تقریروں کا وقت گزرچکا ہے، اب صرف موثرفیصلہ کن کارروائی کا وقت ہے ۔ کور کمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان نے کہا پنجاب حکومت اور پولیس کے ساتھ دہشتگردی کے خلاف اقدامات کے حوالے سے تعاون جاری رکھیں گے، یہ پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ ادھر بتایا جاتا ہے غیر قانونی سمز دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو چلانے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں تاہم ایسی سمز فروخت کرنے والوں کی سزا زیادہ سے زیادہ 3 ماہ قید اور چند ہزار روپے جرمانہ ہے، ایسے افراد کے خلاف درج مقدمات میں بیشتر کو ایک ماہ سے کم قید کی سزا دی گئی ہے ۔ اس پر حکمراں نظر ثانی کریں ، ادھر وزارت داخلہ نے غیرملکی سفیروں کو اپنی نقل وحرکت محدود کرنے اور پولیس اور وزارت داخلہ کوآگاہ کیے بغیرتقریبات میں جانے سے اجتناب کرنیکی بر وقت ہدایات جاری کردیں۔

جب کہ دہشت گردی کے خلاف ہائی الرٹ کی سطح برقرار ہے جس کے تحت بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ اسلام آباد کے گرد مشکوک افراد کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے پیر کی رات گئے ہوائی اڈے کو گھیرے میں لے لیا اور سیکیورٹی ریڈ الرٹ کردی، تمام داخلی اور خارجی راستے بند کرکے ایک گھنٹے سے زائد تک فلائٹ آپریشن معطل رہا۔ دوسری جانب اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں کریک ڈاؤن مسلسل جاری ہے۔ وفاقی دارالحکومت 17افغانیوں سمیت مزید 117مشکوک افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ملکی صورتحال کے تناظر میں یہ رائے قائم کرنا کچھ غط نہ ہوگا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی عالمگیر مسئلہ ہے ، یہ عالمگیریت ، قوموں کے ایک دوسرے کے قریب آنے اور ذرایع ابلاغ کی توسیع کے بطن سے اٹھنے والی مضطربانہ اسلامی شدت پسندی ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہوشمندانہ عملی اسٹرٹیجی کی اشد ضرورت ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں