نگہ بلند‘ سخن دلنواز جاں پُرسوز

اسلام اپنے نام کی روح کے مطابق سلامتی اور امن کا دین ہوتا اور ہمارے بچے اس کی چھاؤں تلے پروان چڑھتے۔

Amjadislam@gmail.com

25 دسمبر 1876 کو برصغیر پاک و ہند کے آسمان پر ایک ایسا سورج طلوع ہوا جس نے اپنی آنکھوں سے ایک اور سورج کو طلوع ہوتے ہوئے دیکھا آج اس سورج کے جنم کا ایک سو انتالیسواں سال شروع ہو رہا ہے۔ کیلنڈر کی تقویم کے حساب سے تو اس کا غروب 66 برس پہلے ہو گیا تھا لیکن اس کی دھوپ میں پروان چڑھنے والی فصلوں اور آنکھ کھولنے والی نسلوں کے لیے وہ آج بھی زندہ ہے کہ روشنی نہ کبھی مرتی ہے اور نہ پرانی ہوتی ہے محمد علی جناح بھی ایک ایسی ہی روشنی کا نام ہے جسے ہم سب قائداعظم کے محبوب خطاب کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔

افسوس کہ ان کی عظمت کا 10% حصہ بھی بعد میں آنے والے کسی سیاسی رہنما کو حاصل نہیں ہوا اگر ایسا ہو جاتا تو مجھے یقین ہے کہ آج پاکستان ایک مہذب، متمدن، تعلیم اور ترقی یافتہ ملک ہوتا جس میں انصاف، مساوات، برداشت، قانون اور میرٹ کا دور دورہ ہوتا اور جس کے پاسپورٹ کے حامل کو دنیا کے ہر ایئر پورٹ پر خصوصی تعظیم پیش کی جاتی کہ پاکستان کے نام کے ساتھ عزت، احترام، سچائی، دیانت، محنت تہذیب، رواداری اور بھائی چارے کا احساس نتھی ہو کر چلے آتے اگر وہ قیام پاکستان کے بعد دس برس بھی زندہ رہ جاتے تو آج ہم ایک بہت بہتر قوم ہوتے اور یہاں کبھی دینی مسالک اور پراکسی وار کا وہ فساد کھڑا نہ ہوتا جس نے آج ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اسلام اپنے نام کی روح کے مطابق سلامتی اور امن کا دین ہوتا اور ہمارے بچے اس کی چھاؤں تلے پروان چڑھتے اور غیر مسلم اقلیتیں حقوق اور تحفظ کی سطح پر اپنے آپ کو برابر کا شہری محسوس کرتیں کہ قائد کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کے مطابق شہریت کے حوالے سے ہر طرح کی تفریق ختم ہو چکی ہوتی۔

اب جب کہ67 برس گزرنے کے بعد سانحہ پشاور کے ردعمل میں ایک بار پھر قوم اتحاد کے اس رستے کی طرف بڑھ رہی ہے جس پر اپنی پوری تاریخ میں اس نے (جزوی سطح پر) دو تین بار ہی قدم رکھا ہے میرا جی چاہ رہا ہے کہ آج میں شکوے شکایت، تنقید اور سینہ کوبی کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف اس خواب کی باتیں کروں جو ہمارے بڑوں نے قائد کے ساتھ مل کر دیکھا تھا یہ کام اگرچہ بے حد مشکل ہے لیکن آئیے کوشش کر کے دیکھتے ہیں جس زیارت ریذیڈنسی میں قائد نے اپنے آخری چٰند دن گزارے تھے (میں اس کا ذکر بھی نہیں کروں گا کہ اس ریذیڈنسی کو کیوں اور کیسے راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا) چند برس قبل مجھے یوم قائد کے حوالے سے پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر کے ایک مشاعرے میں اس قومی یادگار کو دیکھنے کا موقع ملا تھا کہ یہ مشاعرہ اس کے سبزہ زار میں ہی ریکارڈ کیا گیا تھا۔

عمارت میں گھومتے پھرتے ہوئے یکایک میرا دھیان ان دنوں کی طرف چلا گیا جب قائد یہاں مقیم تھے اور مجھے یک دم یوں محسوس ہوا جیسے وہ اب بھی یہیں کہیں میرے ارد گرد ہی موجود ہیں اس تاثر سے ایک نظم نے جنم لیا جس کا نام ،،زیارت ریذیڈنسی میں ایک شام،، رکھا گیا مزید کوئی بات کرنے سے قبل میں آپ کے ساتھ مل کر اس نظم کو پڑھتا ہوں کہ اس کی ایک ایک سطر سے مجھے قائد اور ان کے اس پیغام کی خوشبو آتی ہے جسے ہم نے دفتروں اور کرنسی نوٹوں پر چھاپنے کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ اس سے پہلے کہ بات پھر اس طرف مڑ جائے جس سے گریز کا میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے آئیے نظم پڑھتے ہیں۔

یہیں کہیں تھی وہ خوشبو کہ جس کے ہونے سے
ہمیں بہار کے آنے کا اعتبار آیا
یہیں کہیں تھا وہ بادل کے جس کے سائے میں
نجانے کتنی ہی صدیوں کے دھوپ کھائے ہوئے
ہر ایک دل کو، ہر اک جان کو قرار آیا
یہیں کہیں کسی دالان میں رکی ہو گی
سمے کے رخ کو بدلتی وہ خوش خبر آواز
کہ جس نے چاروں طرف روشنی سی کر دی تھی
کہ جس کو سن کے ہوا تھا یہ گل سفر آغاز
یہیں کہیں تھا وہ بستر کہ جس کی ہر سلوٹ
گماں میں رینگتے خدشوں کی اک گواہی تھی
وہ دیکھتا تھا اپنی کھڑکیوں کے شیشوں سے
سنہری دھوپ کے دامن میں جو سیا ہی تھی
وہی فضا، وہی منظر ہے اور وہی موسم

پھر آج جیسے ستاروں سے بھر گئی ہے رات
اتر رہی ہے تھکن بے جہت مسافت کی
مہک رہی ہے سماعت میں اس کی ایک اک بات
ابھر رہی ہے کہیں دور سے وہی منزل
کہ جس کو بھولے ہوئے ہم کو اک زمانہ ہوا
یہیں کہیں پہ وہ لمحہ کھڑا ہے بار دگر
کہ جس نے بھیڑ کو اک قافلے کی صورت دی
پھر اس کے سائے میں وہ کارواں روانہ ہوا
کروں میں بند جو آنکھیں تو ایسا لگتا ہے
کہ جیسے رکھا ہو اس نے دل حزیں پر ہاتھ
یہیں کہیں پہ جو اس کے لبوں سے نکلتی تھی
اُسی دعا کا اثر چل رہا ہے میرے ساتھ

چند برس قبل میرے دوست ریٹائرڈ ایرکموڈور خالد چشتی نے ایک روز مجھے اپنے لیپ ٹاپ پر قائد کی کچھ ایسی تصویریں دکھائیں جو اس سے پہلے کبھی میری نظر سے نہیں گزری تھیں معلوم ہوا کہ یہ ان کی کئی سال کی محنت اور تحقیق کا نتیجہ ہیں جو انھوں نے پتہ نہیں کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر نکالی ہیں عام طور پر قائد کی جو تصویریں ٹی وی، کتابوں، کیلنڈروں، دفاتر اور کرنسی نوٹوں میں استعمال کی جاتی ہیں ان میں شاذ ہی آپ کو قائد مسکراتے ہوئے نظر آتے ہیں زیادہ تر تصویروں میں ان کا موڈ سنجیدہ اور قدرے خشکی آمیز نظر آتا ہے لیکن برادرم چشتی کی دریافت کردہ تصویروں میں بہت سی ایسی تھیں جن میں وہ باقاعدہ ہنستے ہوئے اور خوشگوار موڈ میں دکھائی دے رہے تھے جن کا تاثر بھی بہت فرحت بخش تھا کہ ان میں ایک ایسی کشش تھی ۔

جس میں احترام اور محبوبیت یکجان ہو گئے تھے ہم دونوں اس بات پر متفق تھے کہ اگر قائد کی اس طرح کی تصویریں نوجوانوں بالخصوص بچوں کو دکھائی جائیں تو وہ انھیں دلوں سے زیادہ قریب محسوس کریں گے کہ ایک حدیث کے مطابق مسکراہٹ بھی صدقے کی ایک قسم ہے اتفاق سے کچھ دنوں بعد الفلاح انشورنش کے CEO اور عزیز دوست نصر الحمد قریشی سے اس موضوع پر بات ہوئی تو انھوں نے نہ صرف ہمارے خیال سے اتفاق کیا بلکہ ان تصویر کو دیکھنے کی خواہش بھی ظاہر کی اور یوں ان کی معرفت ایک ایسا ٹیبل کیلنڈر تشکیل پایا جس میں قائد کم و بیش ہر تصویر میں مسکراتے یا ہنستے ہوئے نظر آ رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مشاہیر اور ان کے ہم عصروں کی قائد کے بارے میں آرا بھی درج کی گئیں جو بلاشبہ نئی نسل کے لیے قائد سے متعلق ایک خوب صورت اور دل کو چھونے والے احساس کی حامل تھیں اور ثابت ہوا کہ بڑے انسانوں کے اندر موجود دیکھے بھالے اور قابل تقلید انسانی اوصاف دیکھنے والوں پر زیادہ اثر کرتے ہیں نہ یہ کہ ان کو انتہائی غیر معمولی اور تقریباً مافوق الفطرت آدم زادوں کے روپ میں پیش کیا جائے۔

چلتے چلتے قائد کی ایک بات بغیر کسی تبصرے کے (کہ تبصرے کی صورت میں مجھے پھر وعدہ خلافی کرنا پڑے گی)

زیارت ریذیڈنسی کے قیام کے دوران قائد کی گرتی ہوئی صحت اور انتہائی کم اشتہا کے پیش نظر محترمہ فاطمہ جناح اور قائد کے معالج نے مشورہ کر کے لاہور سے ایک ایسے باورچی کو بلوایا جس کے ہاتھ کا پکا کھانا قائد پسند کرتے تھے لیکن قائد نے اس باورچی کو اپنی جیب سے خرچہ دے کر واپس بھجوا دیا اور اس موقع پر جو جملہ کیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے آپ نے فرمایا

،،میں ایک غریب ملک کا گورنر جنرل ہوں اور مجھے زیب نہیں دیتا کہ میں سرکار کے خرچے پر اپنی پسند کے کھانے پکواتا رہوں،،
اگر ہمارے ،،ہر طرح،، کے حکام بالا پسند فرمائیں تو میں اس عبارت کی حامل تختیاں اپنے خرچے پر ہر سرکاری افسر اور سیاسی عہدیدار کی دفتری میز پر لگوانے کی پیش کش کرتا ہوں۔
Load Next Story