ناک اور بازوؤں کی آزادی کا تعین

ظالم حاکموں کی وجہ سے گھر،گوراورپشاور تینوں ایک ہیں ٹھیک ویسے ہی’’بازوؤں‘‘کی نگاہ میں ناک،عوام اورمرضی ایک برابر ہیں۔


Saad Ulllah Jaan Baraq December 23, 2014
[email protected]

ISLAMABAD: بہت دن ہوئے یا شاید مہینے ہوئے بلکہ ہو سکتا ہے کہ برس بھی ہوئے ہوں کیوں کہ دن ہفتے مہینے برس بلکہ صدیاں اور میلینم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے اور میٹریل سے بنتے ہیں یوں کہئے کہ دور جاہلیت میں ایک کہاوت یا حکایت کے بڑے چرچے تھے کہ ملک آزاد ہونے پر ایک شخص نے بے محابا اپنے بازو پھیلائے تو کسی کی ناک اس زد میں آ کر مجروح ہوئی ناک کے مالک نے بازوؤں کے مالک سے کہا کہ اپنے بازو ذرا دھیان سے پھیلائے اس پر بازؤوں والے نے کہا کہ میں ایک آزاد ملک کا شہری ہوں اور جہاں تک چاہوں اپنے بازو پھیلا سکتا ہوں۔

اس پر ناک والے نے کہا کہ بے شک ملک آزاد ہے لیکن تمہارے بازوؤں کی آزادی وہاں پر ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک کی حد شروع ہوتی ہے یہ لطیفہ یا کثیفہ یا عقیدہ یا نظریہ یا فلسفہ جو کچھ بھی تھا، اپنے زمانے میں بڑا مشہور تھا اور ہر کوئی جہاں دو بے چارے کان دیکھتا تھا ان میں بھوانڈ پلتا بلکہ گھساتا بلکہ کھیسڑتا تھا، سامعین یہ لطیفہ یا کثیفہ یا فلسفہ یا نظریہ سن کر عش عش کرنے لگتے تھے اور ثواب دارین سمجھ کر اسے دستیاب کانوں تک پہنچاتے تھے لیکن بہت زیادہ عش عش کرنے کے بعد جب ''غشی'' کا دورہ پڑا تو اسے بھی لوگ اپنے باپ دادا کی قبروں کی طرح بھول گئے پھر آیا وہ زمانہ جب جہاں میں جام جم نکلے، ۔۔۔ یعنی ''دور جاہلیت'' کا یہ نکتہ یا فلسفہ یا نظریہ یا لطیفہ یا کثیفہ جب ''دور جمہوریت'' میں پہنچا اور جمہوریت کی بھی مونچھیں نکل آئیں اور وہ عوامی جمہوریت کہلائیں تو پاکستان کے علماء فضلاء حکما ء فلاسفہ کلاسفہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے لگ بھگ اٹھاسٹھ برس تک سر جوڑنے کے بعد تمام سروں کی جوئیں چھاؤنیاں بدل کر دوسرے سروں میں پہنچ گئیں تو اس فلسفے نظریئے عقیدے نکتے یا لطیفے کو بھی باقاعدہ کسی کرتے بنیان یا کوٹ کی طرح الٹا کر نیا بنایا گیا، نیا نکتہ یا جو کچھ بھی کہئے یہ برآمد ہوا کہ ''ناک'' چونکہ عضوئے ضعیف ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح کسی ملک کے عوام ہوتے ہیں اور ''نزلہ'' کہیں سے بھی آئے اسی پر گرتا ہے اس لحاظ سے گویا ناک نہ ہوئی ''خانہ انوری'' ہوا کہ

ہر بلائے کہ زآسان آئد
خانہ انوریؔ تلاش کند

یعنی آسمان سے جو بھی بلا نازل ہوتی ہے وہ سب سے پہلے انوری کا ایڈریس پوچھتی ہے، ٹھیک اسی طرح ہر نزلے کو ہمیشہ ''ناک'' کا پتہ پوچھتے ہوا پایا گیا ہے، اس لیے ''ناک'' کے لیے لازم ہے کہ ''بازو'' کی حدود سے دور رہا کرے ورنہ اپنی ٹوٹ پھوٹ بلکہ کٹنے پچکنے کی ساری ذمے داری خود اس کے اپنے اوپر ہو گی، جن ناکوں نے یہ بات مان لی اور اپنی حد میں رہیں وہ تو بچ گئیں لیکن جو جو ''ناکیں'' سرکشی کا مظاہرہ کرتی ہوئی بازو کے منہ لگیں ان کے صرف تین انجام ہوئے یا تو وہ کٹ کر گر گئیں اور کسی ''کتے بلے'' کا کھاجا بن گئیں یا ٹوٹ کر ٹیڑھی ہو گئیں اور یا پچک کر چہرے میں ایسی گم ہوئیں کہ ماہر سے ماہر ناک شناس اور چہرہ شناس بھی یہ بتانے سے قاصر رہ گیا کہ ناک کہاں پر ختم ہوتی ہے اور چہرہ کہاں سے شروع ہوتا ہے، دونوں کا حدود اربعہ اس قدر بگڑ گیا کہ کوئی ریٹائرڈ پٹواری بھی ان کی تسلی بخش حد بندی نہیں کر پایا، ابتداء میں ناک بلکہ ناکوں نے اپنی حدود کے محدود ہونے پر کافی احتجاج کیا جلسے کیے جلوس نکالے بلکہ دھرنے تک دیے لیکن بازوؤں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ

میں ہوں تمہارے کٹنے کٹانے کی فکر میں
تو کہہ رہی ہے میرے لیے نتھ بنا کے لا

بازوؤں کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ اگر ناک کی کوئی حیثیت ہوتی تو نہ تو اس پر نزلہ گرتا اور نہ ہی اس میں نکیل یا نتھ وغیرہ ڈالی جاتی چنانچہ نئے دور جمہوریت میں اسے صرف اتنی اہمیت دی جا سکتی ہے کہ سانس لیا کرے جس طرح عوام کو صرف یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ صرف ووٹ دے سکتے ہیں باقی سارا کام بازوؤں کا ہے، یعنی ناک وہ جو ''سانس'' رکھتی ہو، عوام جو ووٹ رکھتے ہیں اور مرغی وہ جو انڈا دیتی ہے، لیکن ان تینوں کی جو پیداوار ہیں ناک کی سانس، بندے کا ووٹ اور مرغی کا انڈا... ان سے آگے کام لینا ''بازوؤں'' کا کام ہے، ناک سے جو سانسیں داخل خارج ہوتی ہیں ان کے مالک بھی بازو ہوتے ہیں، بندے سے جو ووٹ حاصل ہوتا ہے اس سے آگے کے سارے کام بلکہ اس کی ساری ''مصنوعات'' بازوؤں کی ملکیت ہوتی ہیں اور مرغی صرف انڈا دیتی ہے آگے بازوؤں کا کام ہے کہ اس سے کیا کیا بناتے ہیں، اس موقع پر رحمان بابا کی وہ غزل برمحل ہے جس میں انھوں نے کئی ایک ایسی چیزیں بتائی ہیں جو الگ ہوتے ہوئے بھی ''ایک'' ہیں یعنی نابیناؤں کی نظر میں گوہر موتی اور کنکر تینوں ایک ہیں اور آخر میں نچوڑ اس کا یہ نکالا ہے کہ

پہ سبب د ظالمانو حاکمانو
کور او گور پیخور دے وارہ یو دی

یعنی ظالم حاکموں کی وجہ سے گھر، گور اور پشاور تینوں ایک ہیں ٹھیک ویسے ہی ''بازوؤں'' کی نگاہ میں ناک، عوام اور مرضی ایک برابر ہیں، جن سے سانسیں، ووٹ اور انڈے حاصل ہوتے ہیں چنانچہ ان ہی دلائل کی بنیاد پر ''بازؤوں'' نے ''ناک'' کو ایک عضو ضعیف ڈیکلیئر کر دیا، بازوؤں کے پاس ان سب سے بڑھ کر مضبوط دلیل خود ''بازو'' تھے جو مٹھی بن کر ناک کو خطرناک بنا سکتے تھے، یہ قصہ طولانی ہم نے اس لیے بیان کیا کہ دور جہالت کا وہ لطیفہ یا قصہ یا نکتہ یا کلیہ اب اس نئے دور جمہوریت میں مکمل طور پر منسوخ کیا جا چکا ہے جس میں بازوؤں کے پھیلانے کے لیے حدود کا تعین کیا گیا، یعنی بازؤوں کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے ناک کی حد شروع ہوتی ہے لیکن دور جمہوریت میں ''ناک'' کو سمجھایا گیا کہ ہر اس مقام سے دور رہے اور گھسنے کی کوشش بالکل نہ کرے جہاں کہیں قرب و جوار میں بازو پائے جاتے ہیں یا پھیلے ہوئے ہوں یا مشق ناز یعنی اپنی آزادی استعمال کر رہے ہوں۔

ناک تو ہوتی ہی بے وقوف ہے بے وقوف نہ ہوتی تو یوں چہرے سے باہر نکل کر کگار پر نہ بیٹھی ہوتی اور ہر آنے جانے والے ضرب چوٹ اور نالے کا شکار نہ بنتی، اس لیے اس نے یہ بات نہیں مانی اور خواہ مخواہ بازوؤں کی حدود میں جا نکلتی اور اس کا بھی وہی حشر ہوتا جو چیونٹی کا پر نکل آنے پر ہوتا ہے، مرغی کا بانگ دینے پر ہوتا ہے اور گیڈر کے شہر میں وارد ہونے پر ہوتا ہے، چنانچہ ہر طرف سے بازوؤں کی زد میں آ کر بے چاری ''مضروب'' بھی ہو گئی ''نزلوب'' تو پہلے سے تھی لیکن آخر ہر طرف سے پچک کر مینڈک بن گئی، ظاہر ہے کہ ہاتھیوں اور سانڈوں کے جنگل میں مینڈک کا وہی حال ہوتا ہے جو جمہوریت میں عوام کا ہوتا ہے کبھی ایک ہاتھی کے پیر تلے تو کبھی دوسرے سانڈ کے نیچے... کبھی چکی کے اس پاٹ تلے اور کبھی چکی کے اس پارٹ تلے، یوں کہئے کہ اس گاڑی کی سی حالت ہو جاتی ہے۔

جسے الگ الگ شفٹوں میں الگ الگ ''ڈرائیور'' چلاتے ہوں دور جمہوریت کے علمائے کرام اور فضلائے عظام جو عرف عام میں منتخب نمایندے یا عوام کے نمایندے کہلاتے ہیں قرار دیا کہ ناک چونکہ عضو ضعیف ہے اور ہمیشہ نزلے کی زد میں رہتا ہے اس لیے بازؤوں کے لیے ''ناک بچانا'' ضروری نہیں ہے بلکہ خود ناک کو بازوؤں کے حلقہ اثر اور علاقہ نقل و حمل سے دور رہنا چاہیے یہ ڈیوٹی ناک کی ہے کہ وہ ذرا دیکھ بھال کر چلے اٹھے اور بیٹھے

گر تو مشاعرے میں صبا آج کل چلے
کہیو ''عظیم'' سے کہ ذرا وہ سبنھل چلے

جن جن ناکوں نے بازوؤں کی بات مان کر احتیاط سے کام لیا وہ وہ کٹنے، ٹوٹنے اور پچکنے سے بچ گئیں اور جن جن ناکوں نے بغاوت کرتے ہوئے بازوؤں کی حدود میں جو ناک کی جڑ تک ہوتی ہیں گھسنے کی کوشش کی ان کا حشر نشر ہو گیا بلکہ ہو رہا ہے کیوں کہ آج کل بھی ہم بہت سی نادان ''ناکوں'' کو دیکھتے ہیں جو بازوؤں کی حدود میں گھستی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں