’’بادِ نسیم‘‘
ملک برطانیہ کبھی سپرپاورتھا اوراس کی سلطنت پرسورج غروب نہیں ہوتاتھالیکن وہ سمٹ کرایک چھوٹےسےکمزورجزیرےتک محدودہو گیا ۔
ان دنوں حضرت نسیم انور بیگ کی یاد میں مجالس منعقد ہو رہی ہیں اور ان کی ذات گرامی پر ،،باد نسیم،، کے نام سے ایک ضخیم کتاب بھی چھپ چکی ہے اس کتاب کے مرتب جناب جسٹس چوہدری اعجاز احمد صاحب نے نسیم مرحوم کے بارے میں ان کے نیاز مندوں کی تحریریں جمع کی ہیں اور خود حضرت کے خیالات بھی نقل کیے ہیں۔ اس کتاب میں میرا ایک کالم بھی موجود ہے جو 12 اپریل 2000ء میں شایع ہوا تھا۔ عنوان تھا ،،اسلام آباد کا آستانہ،، آج میں اسی کالم کو نقل کر رہا ہوں جو مضمون کے لحاظ سے اتنا پرانا نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
اسلام آباد کے مختصر سے قیام میں جس سے بھی ملاقات ہوئی اس نے مجھے پذیرائی بخشی، یہ ان لوگوں کی فراخدلی اور بڑا پن تھا ورنہ میرے جیسے خبروں کے سوالیوں کی اس شہر میں کمی نہیں۔ کئی دوسروں کے علاوہ مقتدرہ قومی زبان کے افتخار عارف ہوں اور نہایت ہی واجب الاحترام نسیم انور بیگ ہوں یا اس مایوس قوم میں حوصلہ پیدا کرنے والے اس کے محسن ڈاکٹر عبدالقدیر ہوں۔ یہ ان لوگوں کی کمال شائستگی تھی کہ جو بھی ملا یوں ظاہر کیا جیسے وہ میری آمد کا مدت سے منتظر تھا۔
عالی مرتبت نسیم انور بیگ جو اس شہر کے دانشوروں، نوجوانوں اور بڑے لوگوں کے مرجع ہیں اور جن کی مجلس میں یہ لوگ اپنے اپنے اضطراب سے تشفی پاتے ہیں میرے لیے بھی مہربان تھے۔ ڈائننگ روم کے ایک کونے میں کھانے کی بڑی سی میز آراستہ تھی اسلام آباد کی بیکریاں اور گھروں کے باورچی سہ پہر کی چائے کے ساتھ جو کچھ تیار کیا کرتے ہیں وہ سب اس میز پر رکھا تھا لوگ آ رہے تھے جن میں اکثریت نوجوان کی تھی اور سلام و دعا کے بعد کسی کرسی پر بیٹھ رہے تھے میں نے تعارف کرایا تو بیگ صاحب نے کہا آج سے ستائیس برس پہلے لاہور میں ملاقات ہوئی تھی میں ان دنوں کچھ وقت کے لیے پیرس سے آیا تھا۔ تب مجھے بھی اسی نرم گفتار محترم سے یہ پہلی ملاقات یاد آ گئی میں ان دنوں رپورٹر تھا انھوں نے ایک محفل میں کچھ گفتگو کی تھی میں نے وہ رپورٹ کی ہو گی اس سے زیادہ کچھ یاد نہ آ سکا مگر وہاں نہ صرف اس ملاقات کی تفصیلات یاد تھیں بلکہ مہربانی اور کرم فرمائی کا ایک نہ رکنے والا سیلاب تھا جو مجھ چھوٹے بندے کو پریشان کر رہا تھا۔ میرے ساتھ شجاع فرید تھے، ہارون الرشید بھی آ گئے اور ڈاکٹر شعیب سڈل بھی اور محترم طارق جان پہلے سے تشریف فرما تھے۔
الحمد اللہ کہ زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی، دانش و حکمت کی اس مجلس میں یہ نوجوان عہد حاضر کے وسوسے، خدشے اور شکوک دور کرنے آئے تھے۔ جناب بیگ صاحب یونیسکو سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد میں مقیم ہو گئے ہیں اور اس بنجر زمین کو گل و گلزار بنا رہے ہیں ان کے پاس مغرب کے صحافی اور دانشور بھی حاضر ہوتے ہیں اور پاکستان دشمنی کو برنگ دوستی بیان کرتے ہیں۔ بیگ صاحب کی ایک عمر اِن کاری گروں کے ساتھ گزری ہے وہ انھیں لاجواب اور اپنی بات ان کے سامنے رکھ کر انھیں رخصت کر دیتے ہیں۔ ایک مغربی صحافی نے پاکستان کو ناکام ریاست کہا تو بیگ صاحب نے اپنی دھیمی آواز اور ملائم لہجے میں اسے یاد دلایا کہ اس کا ملک برطانیہ کبھی سپر پاور تھا اور اس کی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن وہ سمٹ کر ایک چھوٹے سے کمزور جزیرے تک محدود ہو گیا جو اس وقت اپنی ایک سابقہ کالونی امریکا کی غلامی میں زندگی بسر کر رہا ہے اب بتائیے ناکام ریاست کسے کہتے ہیں۔
بدنیت دانشوروں کو ایسے ہی جواب ملنے چاہئیں۔ جتنی دیر میں علم و عرفان کی اس مجلس میں بیٹھا رہا یہ سوچتا رہا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت کو کسی ایسے شخص کی شدید ضرورت تھی۔ اس شہر کے سرتاپا غلامانہ خیالات میں لتھڑے ہوئے افسروں پر برگشتہ نوجوانوں، حالات سے پریشان دانشوروں اور اس ملک کے نظریات معتقدات پر ہر وقت حملہ آور غیر ملکیوں اور نام نہاد پاکستانیوں کو کہیں سے تو جواب ملنا چاہیے یہ صومع، یہ خانقاہ، یہ دربار اور یہ مجلس یہاں بہت تاخیر سے جمی لیکن اس کے قیام کی شاید اسی وقت کی منظوری تھی۔ مجھ پر جو مہربانی جاری تھی وہ میری رخصت کی اجازت کے وقت اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔
بیگ صاحب نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے طارق صاحب سے کچھ کہا اور پھر مجھ سے فرمانے لگے کہ سیرت رسولﷺ پر انگریزی زبان میں طارق صاحب کی معرکتہ الاراء کتاب کا ایک نسخہ جو انھوں نے مجھے عنایت کیا تھا ان کی اجازت سے میں وہ تمہیں دے رہا ہوں میں نے کتاب کھولی تو پہلے صفحہ پر مصنف نے اپنے ہاتھ سے لکھا تھا ،،محترم نسیم انور بیگ صاحب کی خدمت میں جن کے دم سے اسلام آباد اچھا لگتا ہے... طارق جان،، کیا عجیب تحفہ ہے ایک کتاب کا موضوع دوسرے ایسے دو ہاتھوں سے ملنے والا شیخ سعدی کے ایک قطعہ کا ایک مصرع ہے۔
رسید از دست محبوبے بد ستم
عالی مرتبت بیگ صاحب کو میرے بارے میں اس قدر غلط فہمی ہو گئی یہ میں ایسی باصفا شخصیت سے سوچ بھی نہیں سکتا تھا لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے اور ہوتا رہا ہے کہ مولانا روم کبھی کسی کو تسبیح کا ایک دانہ مرحمت کر دیتے تھے اور کبھی کسی درویش سے بانسری لے کر کسی اجنبی ملاقاتی کو دے کر رخصت ہو جانے کا حکم دیتے تھے۔ تقدیریں بدل بھی جاتی ہیں۔