’’فکرِ اقبال کا المیہ‘‘ ایک مطالعہ

اقبال ’ایمان‘ کے تیقن کے لیے جس باطنی واردات کی اولیت و اہمیت سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔


عمران شاہد بھنڈر December 24, 2014
[email protected]

ملتِ اسلامیہ کے تصور، جدید تہذیب کے تعلق سے تحفظات کا اظہار، جدید علوم و تہذیب کے ارتقا سے جنم لینے والے اخلاقی بحران اور مذہبی و ثقافتی اقدار کی شکست ریخت کے بارے میں علامہ اقبال کی فکر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آزاد اور روشن خیالی کے حامی ان کے بارے میں معاندانہ نقطہ نظر رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

جواز کے طور پر، اقبال کے فکری نظام کو اس کی کلیت میں دیکھنے کی بجائے، وہ اپنے مخصوص تعصبات کے تحت اقبال کے ان اشعار کا حوالہ دیتے ہیں، جن میں ان کے اپنے فکری و نظری تعصبات سے ہم آہنگ ہونے کا رجحان موجود ہو۔ تاہم ''فکر اقبال کا المیہ'' ڈاکٹر صلاح الدین درویش کی ایک ایسی تصنیف ہے جس میں فکرِ اقبال کا تنقیدی جائزہ روایتی آزاد یا روشن خیالی کے برعکس جدید مادیت پسند فکر کے تحت پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں دلائل کی سطح بلند ہے، مصنف کا تجزیاتی طریقہ کار منطقی ہے، جو اشعار یا اقتباسات پیش کیے گئے ہیں وہ مصنف کے باطنی سطح پر مربوط نقطہ نظر کی تصدیق کرتے ہیں۔ اگر تو محض اشعار کو مدِ نظر رکھا جائے تو درویش صاحب کے موقف کا ابطال آسان نہیں ہے۔ اقبال کی ہر نظم خود میں مکمل اور ایک واضح نقطہ نظر کی حامل ہے۔

مصنف کی فکر اس مرکزی نکتے کے گرد گردش کرتی ہے کہ جدید تہذیب و تمدن کی تشکیل و ارتقا میں جدید تعقلی و سائنسی علوم، جن کی بنیاد تشکیک، مشاہدے اور تجربے پر استوار ہے، جو نوع انسانی کی مشترکہ فکری میراث ہیں، اپنی سرشت میں نہ مسلمان ہیں نہ کافر، بلکہ صدیوں کی نوعِ انسانی کی تفکری و مادی زندگی کے ارتقا کا ماحصل ہیں، صنعتی انقلاب ان کی مزید توسیع کا باعث بنا، اہلِ مغرب نے انھیں اپنے سیاسی، معاشی، تہذیبی اور ثقافتی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا ہے۔ ساکت و جامد مذہبی عقائد کے برعکس، تہذیب و تمدن میں تعقلی علوم کے رچ بس جانے سے نہ صرف تہذیب و تمدن کا ارتقا جاری رہتا ہے بلکہ ان علوم میں بھی توسیع ہوتی ہے جو تہذیب و تمدن کے مادی وجود سے ہم آہنگ ہونے کا رجحان رکھتے ہوں۔

درویش یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اقبال کا ان علوم و فنون، جدید تہذیب و تمدن اور اخلاقی اقدار کے بارے میں رویہ مکمل طور پر منفی ہے، وہ سائنسی و تعقلی علوم اور ان پر قائم تہذیب و تمدن کی عمارت کو کفر و الحاد میں تقسیم کرتے ہوئے صرف اس وجہ سے مسترد کر دیتے ہیں کہ یہ مذہبی عقائد کے زوال کا سبب بنے ہیں۔ اس طرح جدید مغربی تہذیب و تمدن کو زوال و بحران کی علامت قرار دے کر مسلمانوں کو اس متصوفانہ زندگی کی جانب مائل کرتے ہیں، جس کا جدید 'ترقی یافتہ' تہذیب و تمدن کی تشکیل اور سائنسی، تکنیکی اور تعقلی علوم کے احیا میں حصہ یکسر مفقود ہے۔

کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصے میں صرف شاعری پر تنقید ہے، اس کے مطالعے سے تاثر یہ ابھرتا ہے کہ درویش نے شاعری پر تنقید لکھنے کے بعد اقبال کے خطبات کی طرف رجوع کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے پہلے حصے میں جو مقدمات قائم کیے گئے ہیں اور جن کی بنیاد پر اقبال کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں، دوسرے حصے میں خود ہی ان کی نفی کر دیتے ہیں۔ پہلے حصے میں یہ خیال کثرت سے ملتا ہے اور اس کی تصدیق اقبال کے خطبات سے بھی ہوتی ہے کہ ''اقبال جدید تعقل پسند علمی و فکری روایت'' کو 'رد' کر دیتے ہیں، کیونکہ ''ان کے نزدیک عقلی تجربے اور مشاہدے سے گزرا ہوا علم خام اور ناپختہ ہوتا ہے۔'' کتاب کے دوسرے حصے میں پانچویں خطبے سے اقبال کا یہ اقتباس پیش کرتے ہیں کہ ''وارداتِ باطن کی کوئی بھی شکل ہو ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ عقل اور فکر سے کام لیتے ہوئے اس پر آزادی کے ساتھ تنقید کریں۔'' ان دونوں اقتباسات کا آپس میں کیا تعلق بنتا ہے اس کی وضاحت درکار تھی، مگر درویش کی مذکورہ بالا اقتباس کی یہ تاویل کہ اقبال نے ''عالم فطرت اور تاریخ میں تعقل کی بنیاد پر غور و فکر کی دعوت دی ہے'' غیر متعلقہ سی لگتی ہے۔

اقبال نے علم کے تین مآخذات بتائے ہیں جن میں باطنی واردات، جو ایمان یا مذہبی تیقن کے لیے لازمی ہے، جب کہ تاریخ اور فطرت کو وہ عقلیت کے تابع رکھتے ہیں۔ اقبال 'ایمان' کے تیقن کے لیے جس باطنی واردات کی اولیت و اہمیت سے آگاہ کرتے رہے ہیں، ان کا یہ اقتباس ان کے فکر ی نظام سے براہِ راست متصادم ہے۔ اگر عقلیت ایک کمتر صلاحیت ہے اور بقول اقبال حقیقت کو منطقی زمروں کے ذریعے جانا نہیں جا سکتا تو عقلیت اعلیٰ صلاحیت یعنی باطنی واردات کا تنقیدی جائزہ لینے کی صلاحیت کیسے حاصل کر لیتی ہے؟ جب کہ آخری خطبے میں یہ بھی باور کراتے ہیں کہ ''مذہب حقیقت کو جاننے کا واحد سنجیدہ طریقہ کار ہے'' جو عقلیت کے حوالے سے بھی تشکیک کو جنم دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا تضاد ہے جو فکر اقبال کے وسط میں موجود ہے۔ اگر عقلیت کی بالادستی کو تسلیم کر لیا جائے تو ایمانی تیقن کی وہ عمارت جو خود اقبال باطنیت پر استوار کرتے ہیں وہ ازخود منہدم ہو جاتی ہے۔ باطنی واردات یا وجدان اور عقلیت کے مابین حتمی تفریق کو قائم رکھنے کا مطلب یہی تھا کہ جس 'ثنویت' کو اقبال مسترد کرتے ہیں اسی کے لیے لاشعوری طور پر دوبارہ راستہ ہموار کر رہے ہیں، جب کہ عقل و وجدان میں تطابق کیسے قائم ہوتا ہے، اقبال یہ دکھانے سے قاصر رہے ہیں۔

درویش صاحب کا دعویٰ ہے کہ اقبال کا ''فلسفہ خودی من کی دنیا کو آباد کرتا ہے جس کا کوئی خارجی یا مادی مظہر نہیں ہوتا'' اور ''اقبال کا تصورِ خودی خارجی زندگی اور اس کے تمام شعبوں اور امور سے متعلق منفی رویہ رکھتا ہے۔'' میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ درویش صاحب نے اقبال کے علمیاتی اور اخلاقی نظامِ فکر کو ممیز کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ خودی کی تشکیل کا مقصد سائنسی اور تعقلی بنیادوں پر استوار مغربی تہذیب کے ارتقا کو روکنا نہیں تھا، بلکہ اس تہذیب، اس کے نوعِ انسانی اور عالم اسلام پر اثرات اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے انسان کے اس اخلاقی، سیاسی اور معاشی بحران کا حل تلاش کرنا تھا جس نے نوعِ انسانی کو آخر کار پہلی جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں پر مائل کیا تھا۔

اس تناظر میں اقبال کی مغرب ہی کے بے شمار فلسفیوں اور مفکروں کی طرح مغربی تہذیب اور اس کو منظم کرنے والی عقلیت پر تنقید غیر متعلقہ ہرگز نہیں ہے۔ اگرچہ درویش کی مادیت کی روشنی میں اقبال کا فلسفہ خودی قابلِ مدافعت نہیں ہے مگر اس کی تفہیم کے لیے لازمی ہے کہ اس تناظر کو ملحوظ خاطر رکھا جائے جس میں اس کی تشکیل کا خیال پیدا ہوا تھا۔ فلسفہ خودی کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ انسان مذہبی تیقن کی بنیاد پر اس ماحول پر قدرت حاصل کرے جس نے اسے 'بیگانگی' میں دھکیل دیا ہے۔ خودی کی تشکیل کا مقصد علمیات کے برعکس اخلاقی 'افعال' کے تسلسل کو قائم رکھنا ہے۔ چوتھے خطبے کے یہ الفاظ قابلِ توجہ ہیں کہ ''خودی کوئی جامد شے نہیں ہے۔ یہ زمان میں خود کو منظم کرتی ہے۔'' اور آخری خطبے میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ خود ی کی تشکیل کا مقصد 'میں ہوں' یا ''میں سوچتا ہوں'' اور متصوفانہ بے عملی کے برعکس کانٹ کے ''میں کر سکتا ہوں'' میں مضمر ہے۔

یہ درست ہے کہ ''فکر اقبال کا المیہ'' میں مصنف کا مطمع نظر فلسفہ مادیت کی ترویج ہے، مگر مصنف نے جدید تہذیب و تمدن کو جدلیاتی مادیت کے برعکس میکانکی مادیت کے نقطہ نظر سے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جدید مغربی تہذیب و تمدن میں مضمر اس وحشت و بربریت کا تجزیہ پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں جسے مغرب ہی سے تعلق رکھنے والے جدلیاتی مادیت کے حامی اور مابعد جدید مفکروں نے موضوع بحث بناتے ہوئے نہ صرف روشن خیال عقلیت میں مضمر تضادات کو واضح کیا ہے بلکہ جدید تہذیب و تمدن میں انسان کی 'بیگانگی' اور بُعد (Reification) کے سوال کو پوری شدت سے اٹھایا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریاں جدید سرمایہ دارانہ تہذیب اور اس کی تعقل پسند فکری روایت کا لازمی نتیجہ تھیں۔ اس کی صداقت کے پہلوؤں کو فکر ِ اقبال کے برعکس جدید مغربی تہذیب کے برپا کیے گئے مظاہر میں دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔

اقبال کی جدید مغربی تہذیب پر تنقید درست تھی مگر ان کا پیش کیا گیا حل جس کے مطابق صرف مذہب ہی جدید تہذیب کی ہولناکیوں کا مداوا کر سکتا ہے، درست معلوم نہیں ہوتا۔ تاہم اقبال قرون وسطیٰ کے ''تصوف، مولویت اور عقیدہ پرستی'' کو یکسر مسترد کرتے ہوئے مذہب کی جس اخلاقی شکل کا احیا چاہتے تھے اس کا عہد حاضر کی وحشت ناک اور دہشت انگیز تعبیروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔