ایکشن پلان کمیٹی میں فوجی عدالتوں مدارس اصلاحات پر عدم اتفاق

قومی ایکشن پلان کمیٹی کے ارکان کی اکثریت 18 نکات پرمتفق ہے، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار

میڈیا اورمدارس میں اصلاحات پرکمیٹی کام کرے گی ،انسداد دہشت گردی کی نئی عدالتوں کا نام ’’اسپیڈی ٹرائل کورٹس‘‘ رکھنے کی تجویز۔ فوٹو: پی آئی ڈی

انسداد دہشت گردی کیلیے نیشنل ایکشن پلان کمیٹی کا اجلاس فوجی عدالتوں کے قیام اور مدارس میں اصلاحات پر اتفاق رائے کے بغیر ختم ہوگیا، آج وزیراعظم کی زیرصدارت سول اور فوجی قیادت کے اجلاس میں دونوں معاملات پر بات ہوگی جبکہ کمیٹی اپنی سفارشات اجلاس میں پیش کرے گی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق فوجی عدالتوں کے قیام پر سیاسی جماعتوں میں اختلافات سامنے آگئے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے فوجی عدالتوں پر اپنا مؤقف دینے کیلئے آج تک کا وقت مانگ لیا۔ تحریک انصاف نے ان عدالتوں پر متبادل تجاویز دے دیں جبکہ جماعت اسلامی نے ان عدالتوں کے قیام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایک ٹی وی چینل نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ جماعت اسلامی کے دو نمائندوں فرید پراچہ اور طارق اللہ کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتیں بنانے سے گریز کیا جائے اور مدارس میں اصلاحات کیلئے مدارس انتظامیہ سے ہی مدد لی جائے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان نے کہا کہ وہ پارٹی قیادت سے مشاورت کے بعد مؤقف دیں گے تاہم عوامی نیشنل پارٹی نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی۔

وزیرداخلہ چوہدری نثارکے مطابق ارکان کی اکثریت 18 نکات پرمتفق ہے، جن تجاویز پر اختلاف ہے۔ ان پر آج فیصلہ ہوگا۔ میڈیا اور دینی مدارس میں اصلاحات پرکمیٹی کام کریگی۔ نئی عدالتوں کا نام ''اسپیڈی ٹرائل کورٹس'' تجویزکیا گیا ہے تاہم ان کے متعلق مسودہ کمیٹی کو نہیں دکھایا گیا۔ کمیٹی میں پیپلزپارٹی کے رکن قمر زمان کائرہ نے کہا کہ کمیٹی نے 18 نکات پر سیرحاصل گفتگو کی۔ قانون سازی اتفاق رائے سے کی جائے گی۔ سفارشات کو اے پی سی میں پیش کیا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کو قانون نافذکرنے والے اداروں پراعتماد ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ کمیٹی نے ملک میں انٹیلی جنس نظام مربوط اور فعال، کریمنل جسٹس سسٹم تیز بنانے، انٹیلی جنس معلومات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں فاصلے کم کرنے، مذہبی منافرت پھیلانے پر مکمل پابندی، فاٹا کیلیے فوری قانون سازی اور دہشت گردوں کے سوشل میڈیا کا استعمال روکنے سمیت 8 نکات پر اتفاق کیا۔


پارلیمانی جماعتوں کے ورکنگ گروپ کی جانب سے دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے17 سفارشات پیش کی گئی تھیں۔ اجلاس میں شیریں مزاری، رحمان ملک ، مشاہد حسین، قمر زمان کائرہ، اکرم درانی اور بابر غوری، فرید پراچہ، صاحبزادہ طارق اللہ، صالح شاہ، افراسیاب خٹک اور عارف علوی شریک ہوئے۔ بی بی سی کے مطابق کمیٹی کے ورکنگ گروپ نے پورے ملک میں سریع الحرکت فورس تعینات، ملک بھر میں شدت پسندوں کے کوائف اکھٹے کرنے کی سفارش کی تھی ۔

اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ شدت پسندانہ رجحان کو ہوا دینے والے قابل اعتراض مواد کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے شیڈول فور کے تحت جرم تصور کیا جائے جس میں پرنٹر اور پبلشر کیلئے خلاف بھی سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔ ایسے مذہبی اجتماعات پر پابندی پر اتفاق کیا گیا جن میں کسی مسلک کے خلاف نفرت پھیلایا جاتا ہو۔ اس کے علاوہ مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ پر پابندی لگانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ دہشتگردوں کو سرمائے کی فراہمی روکنے کیلیے ایف آئی اے میں خصوصی ونگ کا قیام عمل میں لایا جائے۔ دہشتگردوں کے کسی بھی قسم کے بیان یا پیغام نشر کرنے پر پابندی ہوگی۔ افغان مہاجرین کے تمام 'سٹیک ہولڈرز' کے ساتھ مشاورت کرکے انھیں اپنے وطن واپس بھجوانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق پارلیمانی پارٹیوں کے ورکنگ گروپ نے سفارشات میں کہا کہ وزیراعظم کی سربراہی میں انسداد دہشتگردی کونسل قائم کی جائے۔ کونسل میں وزیرداخلہ، پاک فوج، آئی ایس آئی، آئی بی اور دیگر اداروں کے حکام شامل ہوں۔ کراچی میں جاری آپریشن منطقی انجام تک پہنچانے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں دہشتگردوں کی تعریف کرنے کے عمل کو جرم سے تعبیر کیا جائے۔ اہم تجاویز کی حتمی منظوری آج وزیراعظم کی زیرصدارت پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس دی جائیگی۔
Load Next Story