پاکستان ایک نظر میں غائبانہ صدارت
غائبانہ جنازہ اورغائبانہ ہاتھ کے بعد پیش خدمت ہےغائبانہ صدارت جو پاکستان میں صدر ممنون حسین کے نام کی صورت نظر آتی ہے۔
جب میں کم عمر تھا اور جب کبھی اس حوالے سے کوئی خبر سُننے کو یا پڑھنے کو ملتی تھی کہ فلاں شخص کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی تومیں سوچ میں پڑجاتا تھا کہ یہ غائبانہ نمازِ جنازہ کیا ہوتی ہے ؟ تب میرے والد صاحب نے سمجھایا کہ بیٹا کہ اگر کسی حادثاتی طور پریا کسی دیگر وجوہات کے باعث مرنے والے شخص کی میت دستیاب نہ ہو اور یہ تصدیق ہو جائے کہ اُس کا انتقال ہوچکا ہے تو اُس شخص کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی جاتی ہے۔اُن کے اس جواب پر میں نے پوچھا تو پھر جس کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی اُس کی یادگار قبر میں کسے دفن کیا جاتا ہے؟
مجھے یاد ہے میرے اس سوال پر والد صاحب چُپ ہوگئے تھے اور ان کی اس خامشی نے مجھے یہ باور کرادیا تھا کہ میں نے شاید وہ سوال پوچھ لیا ہے جس کا جواب دینے سے بہتر اس سوال پر ہی مٹی ڈالنا بہتر تصور کیا جاتا ہے۔
جیسے جیسے وقت گزرا غائبانہ نمازِ جنازہ کی طرح مجھے پاکستان میں بڑھتے ہوئے خراب حالات، ہنگاموں اور دھماکوں میں میں غائبانہ ہاتھوں کے ملوث ہونے کا ذکر پڑھنے اور سننے کو ملنے لگاتو میں نے اپنے سوال کی صورت ایک بار پھر والد صاحب کو زحمت دی والد صاحب نے سمجھا یا کہ بیٹا ہمارے ملک کے اندر یہ جوبگڑتے حالات ہیں ہنگامے و دھماکے ہیں یہ سب انہی غائبانہ اور بیرونی ہاتھوں کی بدولت ہیں۔
اُن کے اس جواب پر اس بار میرے پاس پوچھنے کو دو سوال تھے:۔
اگر ان ہاتھوں کا پھیلایا فساد ہمارے سامنے ہے تو پھر ان ہاتھوں کے غائبانہ ہونے کی وجہ؟
اگربیرونی ہاتھ ہیں بھی تو یہ ہاتھ ہمارے بعض اپنوں ہی کے جسم پر کیوں لگے ہوئے ہیں؟
اس بار میرے ان دو سوالوں پر والد صاحب کی خاموشی بھی دہری تھی!
خیر وقت گذرتا رہا اور میرا ذہن اس غائبانہ کے فلسفے کی الجھن کو سلجھانے کے چکر میں مزید الجھتا چلا گیااور یہ الجھن اُس وقت اور بڑھ گئی جب غائبانہ نمازِ جنازہ اور غائبانہ ہاتھ میں تیسرے غائبانہ کا اضافہ ہواگو کہ یہ تیسرا غائبانہ پہلے اور دوسرے کے بعد آیا تھا مگر یہ ان دونوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ جی ہاں میں غائبانہ صدارت کی بات کررہا ہوں جو پاکستان میں صدر ممنون حسین کے نام کی صورت نظر آتی ہے !
گو جناب خاموش طبیعت کے نظر آتے ہیں مگر ان کی خاموشی بعض اوقات اتنی طویل ہوتی ہے کہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ اپنے عہدے کے طرح یہ زبان سے بھی کوئی کام نہیں لیتے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت وہ حادثات و واقعات ہیں جو ان کے عرصہ حکومت میں رونما ہورہے ہیں اورغلطی سے کہیں ان کا اُس واقعے یا سانحے پر کوئی مذمت کا بے جان سا بیان ان کی صدارت زندہ ہونے کی گواہی دے دیتا ہے!
تنقید کا نشانہ تو سابق صدر آصف زرداری بھی بنتے تھے اور بعض اوقات ان کا حوالہ ایس ایم ایس والے صدر کے بھی دیا جاتا تھا ۔ گذشتہ دورِ حکومت کی ایک یہ چیز خاص تھی کہ وزیراعظم سے زیادہ صدر خبروں میں رہتا تھا
کاروباری بازارمیں جیسے کوئیSleeping Partner ہوتا ہے بالکل اسی طرح ممنون حسین حکومتی بازار کے Sleeping Presidentمعلوم ہوتے ہیں ۔ جب تک ملک میں حادثہ ، سانحہ یا کوئی بڑا ایونٹ نہ ہوجائے یہ نیند سے بیدار ہوتے ہی نہیں۔
جب ان کے حوالے سے کوئی سوال ذہن میں اُٹھتا ہے تو بچپن میں دیکھی ہوئی وہ فلم یاد آجاتی ہے جس میں ہیرو ایک گھڑی کلائی پر باندھ کر جب چاہے نمودار ہو جاتا تھا جب چاہے غائب ہوجاتا تھا۔ اگرچہ صدر ممنون حسین صاحب کے پاس گو وہ گھڑی نہیں مگر ان کے غائب اور نمودار ہونے کے عمل کو ان کی صدارتی کرسی وہی کام سرانجام دیتی ہے ۔بس اُس فلم کے ہیرو کے کردار اورصدرکے کردار میں اتنا فرق ہے کی وہ ہیروغائب ہوکر بھی بھلائی کے سب کام سرانجام دے رہا ہوتا تھا اور یہ جب موجود ہوں تب بھی کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتے جس کے باعث ان کے بھلے کا تو نہیں پتہ مگر پاکستان کا کوئی بھلاہوتا نظر نہیں آرہا ۔
یہاں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ عہدہ چاہے وزیراعظم کا ہو یا صدر کا ، یہ ہمارے لیے انتہائی مقدم ہیں۔ ہم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ اِس عہدے پر معمور شخص پر تنقید کی جائے یا اعتراض یا مذاق بنایا جائے ۔ لیکن جو لوگ اِن عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں اُن کو بھی چاہیے کہ اپنی پسند نہ پسند کی وجہ سے ملک کے متعین عہدے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں ۔ پاکستان کے آئین میں جو اختیارات وزیراعظم اور صدر کو حاصل ہیں ہمارے سیاسی رہنما بھی اُن کو ویسے ہی رہنے دیں ۔ یہ نہ ہو کہ وزیراعظم بننا پسند ہے تو سارے اختیارات وزیراعظم کے حوالے کردیے جائیں اور اگر صدر کا عہدہ پسند ہے تو سب اختیارات صدر کے سپرد کردیے جائیں ۔ بس آخر میں ہماری تو دعا ہے کہ ان کا یہ غائبانہ صدارت کا کردار ختم ہو اور یہ اتنے ہی فعال نظر آئیں جیسے آج وزیراعظم میاں نواز شریف یا دیگر وزراء نظر آتے ہیں اور وہ وقت نہ آئے کہ ان غائبانہ صدارت پر ہمیں ظاہری قُل پڑھنے پڑھ جائیں !
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مجھے یاد ہے میرے اس سوال پر والد صاحب چُپ ہوگئے تھے اور ان کی اس خامشی نے مجھے یہ باور کرادیا تھا کہ میں نے شاید وہ سوال پوچھ لیا ہے جس کا جواب دینے سے بہتر اس سوال پر ہی مٹی ڈالنا بہتر تصور کیا جاتا ہے۔
جیسے جیسے وقت گزرا غائبانہ نمازِ جنازہ کی طرح مجھے پاکستان میں بڑھتے ہوئے خراب حالات، ہنگاموں اور دھماکوں میں میں غائبانہ ہاتھوں کے ملوث ہونے کا ذکر پڑھنے اور سننے کو ملنے لگاتو میں نے اپنے سوال کی صورت ایک بار پھر والد صاحب کو زحمت دی والد صاحب نے سمجھا یا کہ بیٹا ہمارے ملک کے اندر یہ جوبگڑتے حالات ہیں ہنگامے و دھماکے ہیں یہ سب انہی غائبانہ اور بیرونی ہاتھوں کی بدولت ہیں۔
اُن کے اس جواب پر اس بار میرے پاس پوچھنے کو دو سوال تھے:۔
اگر ان ہاتھوں کا پھیلایا فساد ہمارے سامنے ہے تو پھر ان ہاتھوں کے غائبانہ ہونے کی وجہ؟
اگربیرونی ہاتھ ہیں بھی تو یہ ہاتھ ہمارے بعض اپنوں ہی کے جسم پر کیوں لگے ہوئے ہیں؟
اس بار میرے ان دو سوالوں پر والد صاحب کی خاموشی بھی دہری تھی!
خیر وقت گذرتا رہا اور میرا ذہن اس غائبانہ کے فلسفے کی الجھن کو سلجھانے کے چکر میں مزید الجھتا چلا گیااور یہ الجھن اُس وقت اور بڑھ گئی جب غائبانہ نمازِ جنازہ اور غائبانہ ہاتھ میں تیسرے غائبانہ کا اضافہ ہواگو کہ یہ تیسرا غائبانہ پہلے اور دوسرے کے بعد آیا تھا مگر یہ ان دونوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ جی ہاں میں غائبانہ صدارت کی بات کررہا ہوں جو پاکستان میں صدر ممنون حسین کے نام کی صورت نظر آتی ہے !
گو جناب خاموش طبیعت کے نظر آتے ہیں مگر ان کی خاموشی بعض اوقات اتنی طویل ہوتی ہے کہ یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ اپنے عہدے کے طرح یہ زبان سے بھی کوئی کام نہیں لیتے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت وہ حادثات و واقعات ہیں جو ان کے عرصہ حکومت میں رونما ہورہے ہیں اورغلطی سے کہیں ان کا اُس واقعے یا سانحے پر کوئی مذمت کا بے جان سا بیان ان کی صدارت زندہ ہونے کی گواہی دے دیتا ہے!
تنقید کا نشانہ تو سابق صدر آصف زرداری بھی بنتے تھے اور بعض اوقات ان کا حوالہ ایس ایم ایس والے صدر کے بھی دیا جاتا تھا ۔ گذشتہ دورِ حکومت کی ایک یہ چیز خاص تھی کہ وزیراعظم سے زیادہ صدر خبروں میں رہتا تھا
کاروباری بازارمیں جیسے کوئیSleeping Partner ہوتا ہے بالکل اسی طرح ممنون حسین حکومتی بازار کے Sleeping Presidentمعلوم ہوتے ہیں ۔ جب تک ملک میں حادثہ ، سانحہ یا کوئی بڑا ایونٹ نہ ہوجائے یہ نیند سے بیدار ہوتے ہی نہیں۔
جب ان کے حوالے سے کوئی سوال ذہن میں اُٹھتا ہے تو بچپن میں دیکھی ہوئی وہ فلم یاد آجاتی ہے جس میں ہیرو ایک گھڑی کلائی پر باندھ کر جب چاہے نمودار ہو جاتا تھا جب چاہے غائب ہوجاتا تھا۔ اگرچہ صدر ممنون حسین صاحب کے پاس گو وہ گھڑی نہیں مگر ان کے غائب اور نمودار ہونے کے عمل کو ان کی صدارتی کرسی وہی کام سرانجام دیتی ہے ۔بس اُس فلم کے ہیرو کے کردار اورصدرکے کردار میں اتنا فرق ہے کی وہ ہیروغائب ہوکر بھی بھلائی کے سب کام سرانجام دے رہا ہوتا تھا اور یہ جب موجود ہوں تب بھی کچھ کرتے دکھائی نہیں دیتے جس کے باعث ان کے بھلے کا تو نہیں پتہ مگر پاکستان کا کوئی بھلاہوتا نظر نہیں آرہا ۔
یہاں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ عہدہ چاہے وزیراعظم کا ہو یا صدر کا ، یہ ہمارے لیے انتہائی مقدم ہیں۔ ہم میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ اِس عہدے پر معمور شخص پر تنقید کی جائے یا اعتراض یا مذاق بنایا جائے ۔ لیکن جو لوگ اِن عہدوں پر براجمان ہوتے ہیں اُن کو بھی چاہیے کہ اپنی پسند نہ پسند کی وجہ سے ملک کے متعین عہدے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں ۔ پاکستان کے آئین میں جو اختیارات وزیراعظم اور صدر کو حاصل ہیں ہمارے سیاسی رہنما بھی اُن کو ویسے ہی رہنے دیں ۔ یہ نہ ہو کہ وزیراعظم بننا پسند ہے تو سارے اختیارات وزیراعظم کے حوالے کردیے جائیں اور اگر صدر کا عہدہ پسند ہے تو سب اختیارات صدر کے سپرد کردیے جائیں ۔ بس آخر میں ہماری تو دعا ہے کہ ان کا یہ غائبانہ صدارت کا کردار ختم ہو اور یہ اتنے ہی فعال نظر آئیں جیسے آج وزیراعظم میاں نواز شریف یا دیگر وزراء نظر آتے ہیں اور وہ وقت نہ آئے کہ ان غائبانہ صدارت پر ہمیں ظاہری قُل پڑھنے پڑھ جائیں !
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔