پاکستان ایک نظر میں غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کیا جائے

کوئی بھی جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی جب تک پچھلی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم نہ کیا جائے۔


جنید رضا December 24, 2014
کوئی بھی جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی جب تک پچھلی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم نہ کیا جائے۔ فوٹو فائل

FAISALABAD: اگر اقوام عالم کو پڑھا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب جب قوموں کے حالات تبدیل ہوئے ہیں ان کے پیچھے ہمیشہ عوامل کارفرماء رہے ہیں۔ ہجوم جب ایک پالیسی ترتیب دیتے ہوئے ایک نقطے پہ جمع ہوجائے تو قوم بن جاتی ہے۔ ترقی یافتہ اقوام کو زوال اور غیرترقی یافتہ اقوام کے عروج کا زمانہ گواہ ہے۔ فارسی کی مثل ہے 'ہر زوال را کمال ہر کمال را زوال '۔ لیکن ہر زوال کے اور ہر عروج کے پیچھے وجوہات ہوتی ہیں۔

اقوام عالم کے حالات پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ کسی پستہ حال قوم کے منظم قوم بننے اور پھر اس کی ترقی کے پیچھے تین عوامل میں سے کوئی ایک کارفرما رہا کرتا ہے۔ اوّل کوئی طلسماتی رہنما مل جائے کہ جس کے پیچھے قوم اکٹھی ہو اور وہ ایسے فیصلے کرے کہ قوم ترقی کے سفر پہ گامزن ہوجائے، اس کی بہترین مثالوں میں قاعداعظم محمد علی جناح، مصطفی کمال اتاترک اور مہاتیر محمد شامل ہیں۔ دوسرا یہ کہ جب کسی قوم کی معیشت اس حد تک زوال پذیر ہوجائے کہ بھوکے پیٹ ننگے بدن لوگ اہل اشرافیہ کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کریں اور ازسرنو ریاست کی عوامی مفاد میں مختصر و طویل المعیاد پالیسیاں بنیں، اس کی بہترین مثال فرانس ہے۔ تاہم اس قسم کی تبدیلی کے لئے خاندانی یا جدی پشتی لیڈر ہونا کبھی بھی ضروری نہیں رہا۔ ایسی صورتحال میں متوسط معیار کے لیڈر بھی بہت بڑے بڑے فیصلے کرجاتے ہیں۔

تبدیلی کی تیسری صورت قوم کے ساتھ کسی بہت بڑے واقعے کا یا کسی المناک حادثے کا رونما ہونا ہوتا ہے، جو بکھرے ہوئے لوگوں کو ایک قوم بنا دیتا ہے اور پھر وہ اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے مستقبل کا لائحہ عمل نئی روشنی میں ترتیب دیتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال جاپان ہے، کہ کیسے جاپان تباہ ہوا، اور پھر جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ جاپان نے غم منایا نہیں پالا ہے۔ جاپان کی ترقی اس بات کا واضح ثبوت بھی ہے۔ اسی قسم کی تبدیلی کی ایک مثال امریکہ کا نائن الیون 9/11 ہے، اس حادثے کے نتیجے میں امریکہ میں بسنے والا امریکی چاہے وہ کالا ہو یا گورا ،ڈیموکریٹ ہو یا ری پبلکن، دہشتگردی کے خلاف یک آواز بنے اور اتنی مضبوط آواز بنے کہ دنیا کی ہر آواز ان کی آواز کے ساتھ مل گئی۔

پاکستان میں کوئی طلسماتی لیڈر فی الحال تو میسر نہیں، لیکن پاکستان میں 16 دسمبر کے سانحہ پشاور کو پاکستان کا نائن الیون قرار دیا جارہا ہے، اور قومی قیادت کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ قوم 65 کی جنگ کے بعد اب پہلی دفعہ یک زبان ہوئی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ اب پالیسیز تبدیل ہوں گی۔ ساتھ ہی قومی قیادت کا دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم بھی قابل تعریف ہے۔

کوئی بھی جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جاسکتی جب تک پچھلی غلطیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم نہ کیا جائے، اور سابقہ ناکامیوں کے اسباب کو ختم نہ کیا جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ قومیں غلطیاں نہیں کیا کرتیں بالکل کرتی ہیں اور جب انہیں احساس ہوجائے تو مان بھی جاتی ہیں۔ اس کی مثال امریکہ ہی کو لے لیجئے کہ ویتنام اور عراق میں امریکہ کا جانا امریکی غلطی تھی جس کا انہوں نے اعتراف کیا اور اپنی پالیسیز پہ نظر ثانی بھی کی۔ دوسری بڑی مثال جرمنی کی ہے، جو برطانیہ کے ہاتھوں تباہ ہوا اور تباہی بھگتنے کے بعد عزم نو کے ساتھ ترقی کا سفر شروع کیا۔

کہا جارہا ہے کہ 135 بچوں نے بھی خوب شرارت کی کہ جس کے نتیجے میں 18 کروڑ عوام اب یک زبان ہوگئے ہیں کہ دہشت گردی کے ناسور سے جان چھڑائی جائے، لیکن حقیقی معنوں میں اس کا مثبت نتیجہ تب آئے گا جب سوچ اور ترجیحات بدلی جائیں گی۔ سوچنے کا مقام ہے کہ یورپ اور انڈیا نے بھرپور سوگ منایا لیکن ترکی کے علاوہ کسی بھی اسلامی ملک نے نہ سوگ کا اعلان کیا نہ جھنڈا سرنگوں کیا۔ ہمیں اپنے غم اور اپنے دکھ خود ہی جھیلنے ہیں، اس کٹھن وقت میں اپنی مدد آپ ہی کرنی ہے تو عبداللہ کی شادی میں دیوانے کے رول کو ختم کرنا ہوگا۔ اپنے بجٹ میں تعلیم ،صحت اور دفاع کو خاطر خواہ حصہ دینا ہوگا۔ ہمیں مسئلہ کشمیر پر بھی اپنی پالیسی پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے کیونکہ کسی ریاست کے لاکھوں افراد کی آزادی کے خاطر اپنی ریاست کے 18 کروڑ کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا کہاں کا انصاف ہے؟ ساتھ ہی میڈیا کو بھی اپنا رول نبھانا ہوگا۔ پاکستان پینل کوڈ کے تحت میڈیا پابند ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کو ائرٹائم نہ دیا جائے تو اسٹیٹ کا باغی ہو جو پشاور سانحہ یا کسی بھی سانحے کی مذمت کرنے میں ہچکچائے اور چوں چونکہ اور کیونکر کا سہارا لے، کیونکہ اس قوم میں اب اور کسی سانحے کو برداشت کی قوت نہیں ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں