مقبوضہ کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ
بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی کی تو خواہش تھی کہ یہاں بھی کچھ ایسا چمتکار ہوجائے کہ ان کی پارٹی جیت جائے
LONDON:
جنت نظیرکشمیر پربزورطاقت قبضہ قائم رکھنے کی روش اور ہٹ دھرمی نے بھارت کو مجبورکیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کردے ۔کشمیر کے تنازع پر پاک بھارت جنگیں بھی ہوچکی ہیں، دنیا کے دکھانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں بوگس انتخابات منعقد کروائے جاتے ہیں ، جس کا کشمیری عوام کی اکثریت بائیکاٹ کرتی ہے اور ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہتا ہے۔
انتہاپسند جماعت بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی کی تو خواہش تھی کہ یہاں بھی کچھ ایسا چمتکار ہوجائے کہ ان کی پارٹی جیت جائے تاکہ وہ پروپیگنڈا کر کے دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونک سکیں ،لیکن ان کے نام نہاد سیکولر جمہوری ایجنڈے کے بلندبانگ دعوے اور نوعدد انتخابی دورے بھی کسی کام نہ آئے ، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے نام نہاد انتخابات کے بعد ایک معلق ریاستی اسمبلی وجود میں آنے کا امکان ہے ، کیونکہ کسی بھی گروپ کے پاس مطلوب اکثریت یعنی 44 نشستیں نہیں ہیں، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی) سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے جسے 28 سیٹیں ملی ہیں، بی جے پی کو تمام تر سرکاری وسائل استعمال کرنے اور زور لگانے کے باوجود صرف جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں کامیابی ملی، وادی سے اس کا صفایا بلکہ کریا کرم ہوگیا،کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کو 15 سیٹیںملی ہیں ۔ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی اتحادی جماعت کانگریس کو 12 سیٹوں پر کامیاب ہوئی ہے ۔
باقی سیٹوں میں جموں کشمیر پیپلزکانفرنس نے 2 ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ نے ایک ، جموں کشمیر پیپلزڈیموکریٹک فرنٹ نے ایک جب کہ آزاد امیدواروں نے تین نشستوں پرکامیابی حاصل کی ہے۔ کیا نام نہاد انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی ریاستی اسمبلی اس قابل ہوگی کہ وہ دلی سرکار سے اپنے مطالبات منوا سکے ، توجواب نفی میں ہے، ویسے بھی بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی بھارتی آئین کے تحت حاصل کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں ۔
تو بھلا ان سے خیرکی توقع تو مسلمان ویسے ہی نہیں رکھتے ہیں ، انتخابات کی شفافیت پر بھی کئی سوال اٹھے ہیں، اسی ضمن میں جموں وکشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی کے سرپرست بھیم سنگھ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ہیرا پھیری کی گئی تھی، ہیرا پھیری والے الیکشن کس طرح کشمیریوں کے حقوق کے ضامن ہوسکتے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سچی بات کبھی نہ کبھی زبان پر آہی جاتی ہے بلکہ ایسا ہی ہوا ہے انتخابات کے بعد ایک پریس کانفرس میں مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا مقبوضہ کشمیر میں ریاستی انتخابات کسی بھی طرح عوام کے حق خود ارادیت کا متبادل نہیں ہوسکتے ہیں ۔
بھارت کو اب زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ جبر کے ذریعے کشمیریوں کے بنیادی حق خود ارادیت کو دبا تو سکتا ہے لیکن ختم نہیں کرسکتا ۔ کشمیری عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں ، یہی سچ ہے جسے نریندرمودی کی سرکار کو جلد یا بدیر تسلیم کرنا ہوگا ۔
جنت نظیرکشمیر پربزورطاقت قبضہ قائم رکھنے کی روش اور ہٹ دھرمی نے بھارت کو مجبورکیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کردے ۔کشمیر کے تنازع پر پاک بھارت جنگیں بھی ہوچکی ہیں، دنیا کے دکھانے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں بوگس انتخابات منعقد کروائے جاتے ہیں ، جس کا کشمیری عوام کی اکثریت بائیکاٹ کرتی ہے اور ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہتا ہے۔
انتہاپسند جماعت بی جے پی کے وزیراعظم نریندر مودی کی تو خواہش تھی کہ یہاں بھی کچھ ایسا چمتکار ہوجائے کہ ان کی پارٹی جیت جائے تاکہ وہ پروپیگنڈا کر کے دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونک سکیں ،لیکن ان کے نام نہاد سیکولر جمہوری ایجنڈے کے بلندبانگ دعوے اور نوعدد انتخابی دورے بھی کسی کام نہ آئے ، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے نام نہاد انتخابات کے بعد ایک معلق ریاستی اسمبلی وجود میں آنے کا امکان ہے ، کیونکہ کسی بھی گروپ کے پاس مطلوب اکثریت یعنی 44 نشستیں نہیں ہیں، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی) سب سے بڑی پارٹی بن کر سامنے آئی ہے جسے 28 سیٹیں ملی ہیں، بی جے پی کو تمام تر سرکاری وسائل استعمال کرنے اور زور لگانے کے باوجود صرف جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں کامیابی ملی، وادی سے اس کا صفایا بلکہ کریا کرم ہوگیا،کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کو 15 سیٹیںملی ہیں ۔ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی اتحادی جماعت کانگریس کو 12 سیٹوں پر کامیاب ہوئی ہے ۔
باقی سیٹوں میں جموں کشمیر پیپلزکانفرنس نے 2 ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ نے ایک ، جموں کشمیر پیپلزڈیموکریٹک فرنٹ نے ایک جب کہ آزاد امیدواروں نے تین نشستوں پرکامیابی حاصل کی ہے۔ کیا نام نہاد انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی ریاستی اسمبلی اس قابل ہوگی کہ وہ دلی سرکار سے اپنے مطالبات منوا سکے ، توجواب نفی میں ہے، ویسے بھی بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی بھارتی آئین کے تحت حاصل کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں ۔
تو بھلا ان سے خیرکی توقع تو مسلمان ویسے ہی نہیں رکھتے ہیں ، انتخابات کی شفافیت پر بھی کئی سوال اٹھے ہیں، اسی ضمن میں جموں وکشمیر نیشنل پینتھرز پارٹی کے سرپرست بھیم سنگھ نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ہیرا پھیری کی گئی تھی، ہیرا پھیری والے الیکشن کس طرح کشمیریوں کے حقوق کے ضامن ہوسکتے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں کہ سچی بات کبھی نہ کبھی زبان پر آہی جاتی ہے بلکہ ایسا ہی ہوا ہے انتخابات کے بعد ایک پریس کانفرس میں مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اعتراف کرتے ہوئے کہا مقبوضہ کشمیر میں ریاستی انتخابات کسی بھی طرح عوام کے حق خود ارادیت کا متبادل نہیں ہوسکتے ہیں ۔
بھارت کو اب زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ جبر کے ذریعے کشمیریوں کے بنیادی حق خود ارادیت کو دبا تو سکتا ہے لیکن ختم نہیں کرسکتا ۔ کشمیری عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں ، یہی سچ ہے جسے نریندرمودی کی سرکار کو جلد یا بدیر تسلیم کرنا ہوگا ۔