کچھ تاریخ کے تناظر میں
سانحہ پشاور نے ریاستی انتظامی ڈھانچے کے زمیں بوس ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے ۔
سانحہ پشاور نے ریاستی انتظامی ڈھانچے کے زمیں بوس ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے ۔ سیاسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جب ریاست کمزور پڑتی ہے، توغیر ریاستی عناصر مضبوط ہوجاتے ہیں ۔ اگر ریاست تسلسل کے ساتھ مختلف امور میں عدم دلچسپی یا اہلیت میں کمی کا مظاہرہ کرتی ہیں، تو پھر یہ عناصر ریاستی انتظامی ڈھانچے کو بھی متاثر کرنے لگتے ہیں ۔ معاشرے میں جن مختلف مافیاؤں کا تذکرہ ہوتا ہے، وہ دراصل یہی غیر ریاستی ایکٹر ہیں، جو حکومتی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مافیا بن چکے ہیں ۔ جیسے ٹرانسپورٹ مافیا یا بجلی پیدا اور سپلائی کرنے والی کارپوریشنیں یا جرائم پیشہ افراد کے گروہ وغیرہ ۔
اسی طرح ریاستی سیکیورٹی ایجنسیوں کے کمزور ہوجانے کی صورت میں مختلف نوعیت کے ہتھیار بند دھرے وجود میں آجاتے ہیں ۔ ان میں کچھ عقیدے کی بنیاد پر منظم ہوتے ہیں ، کچھ لسانی اور قومیتی بنیادوں پر ۔یہ اپنے مسلک یا لسانی اکائی کو یقین دلاتے ہیں کہ حکومت چونکہ انھیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوچکی ہے، اس لیے اپنی کمیونٹی کو تحفظ فراہم کرنے کی ذمے داری ان کے کاندھوں پر آگئی ہے ۔ یہی سبب ہے کہ عوام اپنے مخصوص عقیدے یا لسانی شناخت کی بنیاد پر ہنسی خوشی ان غیر ریاستی ایکٹروں کو بھاری رقوم دیتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اکثر کثیر اللسانی اور کثیر العقیدہ شہروں کے اندر کئی ریاستیں قائم ہوجاتی ہیں ۔
اگر مسلم دنیا میں مذہبی شدت پسندی کے حالیہ ابھار کا تاریخ ، سیاسیات اور عمرانیات کی روشنی میں مطالعہ کیا جائے تو اس کے کئی اسباب سامنے آتے ہیں ۔اول، مسلم دنیاکے 56ممالک میں سے کسی ایک میں بھی جمہوریت اس کی اصل شکل میں موجود نہیں ہے۔ دوئم، تقریباً سبھی حکمران اپنے کردار میں گماشتہ ہیں ، جو مغرب کی کاسہ لیسی کو اپنے اقتدار کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ سوئم ، ان تمام ممالک میں تعلیم کی شرح بہت کم ہے، جب کہ جو تعلیم دی جا رہی ہے، اس کا معیار انتہائی پست ہے۔ چہارم،مسلم دنیا کے حکمران اور فیصلہ ساز حلقے اپنے اپنے ممالک میں پیداواری نظام میں بہتری لانے میں ناکام ہیں ، جس کی وجہ سے روزگار کے نئے ذرایع پیدا نہیں ہو پا رہے ۔
بے روزگاری کی شرح میں اضافہ نوجوانوں کو مذہبی شدت پسندی کی طرف دھکیلنے کا سبب بنا ہوا ہے ۔پنجم، جمہوریت اور جمہوری حکمرانی سے انکار قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم میں رکاوٹ ہے ۔ ششم ، بیشتر مسلم معاشرے ہنوز قبائلیت اور جاگیردارانہ ذہنیت میں مبتلاہونے کے باعث معاشرتی نظام میں میرٹ ، جوابدہی اور شفافیت جیسے اہم سماجی اورانتظامی اقدامات سے صرف نظرکے مرتکب ہو رہے ہیں،جس کی وجہ سے سماجی انصاف کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں ۔
حکمران اشرافیہ کے درج بالا رویے دنیا بھر کے مسلم عوام میں غم وغصہ کو بڑھانے اور متبادل راہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔عصری علوم کی کماحقہ آگہی میں کمی اور شناخت کا بحران انھیں ماضی میں مراجعت کرنے پر مجبور کررہا ہے ۔ جس میں علماء کے ایک مخصوص طبقے کا اہم کردار ہے ، جو اپنے سیاسی مفادات کی خاطر مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔جس کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
اس کے علاوہ مغربی دنیا کا استحصالی کردار اور اپنے حکمرانوں کی غیر ذمے دارانہ روش بھی مسلم نوجوانوں میں جھنجھلاہٹ بڑھانے کا سبب ہے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اگر سعودی عرب میں جمہوریت ہوتی تو اسامہ بن لادن یوں دربدر خاک بسرنہ ہوتا اور نہ ہی یوں دیار غیر میں بے یار و مددگار مارا جاتا ۔بلکہ اپنے ہی ملک میں سیاست کر رہا ہوتا ۔ ہوسکتا تھا کہ وہ ملک کا وزیراعظم ہوتا یا پھر قائد حزب اختلاف ۔ لیکن ہر دوصورتوں میں اس کا ایک قومی منصب و مقام ہوتا ۔
پہلے بھی تحریر کیا ہے کہ مسلم دنیا میں دو واقعات ایسے رونماء ہوئے جنہوں نے مسلمان اہل دانش کو بالخصوص اور مسلم عوام کو بالعموم بدترین احساس کمتری میں مبتلاکردیا۔ پہلا واقعہ 1258ء میں بغداد کی تاتاریوں کے ہاتھوں تباہی ہے ، جب کہ دوسرا واقعہ1492ء میں اسپین میں مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ اور ان کا انخلاء ہے ۔ان دو سانحات کے بعد مسلم معاشرے پھر کبھی سنبھل نہ پائے ۔ کیونکہ ان کے اہل دانش تبدیل ہوتی دنیا کے تقاضوں کے مطابق کوئی عمرانی معاہدہ ترتیب دینے میں اس لیے ناکام رہے کہ علماء نے خوف کے عالم میں اجتہاد کا راستہ بند کردیا تھا ۔ حالانکہ فکری جمود کی ابتداء ان دونوں سانحات سے بہت پہلے 11ویں صدی میں ہوگئی تھی ۔
یہی سبب ہے کہ گذشتہ9صدیوں کے دوران مسلم معاشروں میں پیداواری ذرایع میں تبدیلی کے لیے کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ جس کی وجہ سے نہ نیاعمرانی معاہدہ تشکیل پا سکا اور نہ ہی نظم حکمرانی میں بہتری کے لیے اقدامات کیے جا سکے۔ اس کے برعکس جب یورپ سولہویں صدی سے تیزی کے ساتھ آگے بڑھا اور اس نے کار از رفتہ معاشروں کو روندتے ہوئے ان کے وسائل پر قبضہ کرنا شروع کیا تو فرسودگی کی گرد میں لپٹے مسلم معاشرے سب سے پہلے اس کی زد میں آئے ۔
نوآبادیاتی نظام کے اپنے مفادات ہوتے ہیں ، جو ترجیحات کو جنم دیتے ہیں ۔غیر متعصبانہ انداز میں وسیع النظری کے ساتھ دیکھا جائے توساتویں سے آٹھویں صدی کے دوران مسلمانوں نے بھی جن خطوں پر قبضہ کیا ، وہاںاپنا عقیدہ، اپنی ثقافت اوراپنا طرز حکمرانی نافذ کیا۔ اس سے پہلے بھی تاریخ میں یہی کچھ ہوتا آیا تھا ۔ لہٰذا یورپ نے بھی اپنی نوآبادیات میں اپنے طرز حکمرانی ، اپنے عقائد کی تبلیغ کی اور اپنی ثقافت روشناس کرائی ۔یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں نوآبادیات کے خلاف مقامی عوام منظم ہوکر تحاریک چلاتے ہیں اور نوآبادیات سے چھٹکارا پانے کے لیے کہیں عقیدے اور کہیں قومی شناخت کو بنیاد بناتے ہیں ۔18ویں صدی سے بالخصوص مسلم معاشروں میں ایسی ان گنت تحاریک شروع ہوئیں ۔ لیکن ان میں سے بیشترآج تک ماضی کی نرگسیت میں مبتلاہونے کی وجہ سے پر تشدد تو ضرور ہوئی ہیں،لیکن زماں ومکاں کے تقاضوں کے مطابق مسلم عوام کے لیے کوئی قابل عمل سیاسی، سماجی اور اقتصادی ماڈل بنانے میں ناکام رہیں ۔
اس صورتحال نے بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد مسلمان معاشروں میں موجود فکری ہیجان اورجذباتی بے چینی کو مزید بڑھاوا دیا ۔اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد آزاد ہونے والی بیشتر نوآبادیات میں جمہوریت اور جمہوری طرز حکمرانی کے نئے نئے تجربات ہو رہے تھے۔ یہ ممالک اپنے وسائل کے مناسب استعمال کرنے کے نئے نئے طریقے دریافت کر رہے تھے ۔ جب کہ مسلم ممالک پر قابض حکمران اپنے وسائل اغیار کے ہاتھوں سستے داموں بیچ رہے تھے ۔ ان ممالک میں فکری آزادی، سماجی ترقی اورسماجی انصاف جیسی خصوصیات عنقا تھیں ۔ یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے اول تو بہت کم ، لیکن جو موجودہیں ان میں آزادانہ تحقیق کا ماحول پیدا نہیں ہونے دیا جا رہا تھا ۔ مسلم معاشروں میں ابن رشد ، الکندی ، بوعلی سینا اور فارابی جیسے دانشوروں نے روشن خیالی اور خرد افروزی کی جو شمع روشن کی تھی، اسے بعض سخت گیر علماء نے حکمرانوں کے تعاون سے بہت پہلے بجھاکر دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی روایت کا گلا گھونٹ دیا تھا ۔
1980 کی دہائی مسلم معاشروں میں نئی سیاسی تفہیم کے ساتھ فرقہ وارانہ تقسیم کی نئی شدت کے ساتھ آئی ۔ایک طرف ایران میں مذہبی انقلاب نے علمائے دین کو اقتدار میں آنے کا حوصلہ بخشا ۔دوسری طرف افغانستان میں روسی فوجوں کی آمد کے نتیجے میں عسکریت ایک نئی شکل میں سامنے آئی ۔ گو کہ افغانستان میں لڑی جانے والی لڑائی میںامریکی امداد اورجنگی حکمت عملیوں کا بہت بڑا دخل تھا ، جو سوویت یونین سے ویت نام کا بدلہ لینے کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات استعمال کر رہا تھا ۔مگر پاکستان میں ایک مخصوص حلقے نے نہ جانے کیوں یہ سمجھ لیا کہ سوویت یونین کی افغانستان میں ناکامی اس کی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے اور اب وہ ہر عالمی قوت کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں ۔اس غلط فہمی نے عالمی قوتوں کو چیلنج کرنے پراکسایا۔ یہیں سے نئے عالمی تضادات ابھرنا شروع ہوئے ۔
پاکستان مسلم دنیا کے دیگر ممالک سے قطعی مختلف ملک ہے ۔یہ ملک برصغیر کے آزاد خیال اور وسیع المشرب مسلمانوں کی اجتماعی دانش کا نتیجہ ہے ، جنہوں نے جید علماء کی قیادت کو رد کرتے ہوئے ایک آزاد خیال اور سیکولرمزاج رہنماء کی قیادت میں مجتمع ہونے کو ترجیح دی ۔مگر سیاسی قیادت کا ایک بڑا حصہ اور منصوبہ سازوں کا ٹولہ جو تہذیبی نرگسیت کا شکار تھا ، اس ملک کو تھیوکریٹک ریاست بنانے پر تل گیا ۔اسی روش نے ملک کو فلاحی کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کیا اور اسی طرز عمل نے مذہبی عناصر کو غیر ضروری طور پر ریاستی امور میں مداخلت کا حوصلہ بخشا ۔وفاقیت سے انکار اور مذہبیت کی بنیاد پر وحدانی ریاست قائم کرنے کی خواہش نے ریاست کو کئی سنگین بحرانوں میں مبتلا کردیا ۔سقوط ڈھاکا کے سانحے کے بعد بھی منصوبہ سازوں کی ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔
جنہوں نے افغانستان میں دو سپر پاورز کے درمیان ہونے والی پراکسی لڑائی میں پاکستان کو ملوث کر کے نئے مسائل اور بحران اپنے سر پر مسلط کر لیے ۔آج عالمی سطح پر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ مسلمانوں میں پیدا شدہ احساس کمتری اور شناخت کے بحران کا ردعمل ہے ۔ جب کہ پاکستان جس بھنور میں پھنسا ہوا ہے، وہ حکمرانوں اور منصوبہ سازوں کی 68برس کی غلط پالیسیوںکا شاخسانہ ہے۔لہٰذا جب تک حکمران اشرافیہ فکری مغالطوں سے باہر نکل کر جرأت مندانہ فیصلے نہیں کرتی، تمام اقدامات بے سود رہیں گے۔