’’تھوڑا ہندو بنو‘‘
ذہین اور جوشیلا نو عمر طالب علم محمد علی جناح بھلا اس ماحول سے کیوں نہ متاثر ہوتا ۔
محمد علی جناح نوجوانی میں انگلستان چلے گئے تھے ۔ وہاں زندگی خوشیوں سے بھر پور تھی اور نوجوانی کی زندگی تو جنت کا نمونہ پیش کرتی تھی(To Be Yourg Was Just Heaven)انیسویں صدی کی آخری دہائی میں انگلش سوسائٹی طاقت و عظمت کے نشہ سے چُور تھی اور دنیا بھر سے لوٹی ہوئی دولت کی وجہ سے بیحد خوشحال بھی تھی۔ انگریزی زبان ساری دنیا پر اپنا سکّہ جمارہی تھی۔'' انگریز علم اور سائنس کو بہت فروغ دے رہے تھے ۔ شاعر' ادیب ' ڈرامہ نویس بھی بہت مصروف تھے ۔
بے شمار کتابیں چھپ رہی تھیں اور اخبارات شائع ہورہے تھے۔ فنِ تقریر کے ساتھ ساتھ جملہ بازی اور حاضر جوابی کے میدان میں آسکر وائلڈ' فرینک ہیرس' برنرڈ شا اور نوجوان لفٹننٹ ونسٹن چرچل جیسے لوگ محفلوں کو گرمارہے تھے ۔ لیڈی ایسٹر Lady Astor نے جو ایک بہت دبنگ خاتون اور پہلی خاتون پارلیمنٹرین تھی' چرچل سے کہا '' میں اگر تمہاری بیوی ہوتی تو تمہاری مارننگ کافی میں زہر ملادیتی'' جواب میں چرچل فوراً بولا ''میں وہ کافی ضرور پیتا ۔''
ذہین اور جوشیلا نو عمر طالب علم محمد علی جناح بھلا اس ماحول سے کیوں نہ متاثر ہوتا ۔ وہ انگلستان صرف علم حاصل کرنے نہیں آیا تھا بلکہ مغرب کی تمام خوبیوںپر اس کی نظر تھی۔ لہٰذا ''گفتگو کا فن '' بھی اس کے لیے بہت اہم تھا ۔ حاضر دماغی' حاضر جوابی اور بذلہ سنجی میں مہارت بھی لازمی تھی۔انگلستان کے مشہور قانونی Inns اور Temples میں نوجوان طالب علموں کو صرف عدالت میں جرح کرنا ہی نہیں سکھایا جاتاتھا بلکہ تقریر کرنے اور ترکی بہ ترکی جواب دینے کی بھی تعلیم دی جاتی تھی۔
قائد اعظم ایک بہت قابل آدمی تھے اور بہت اصول پرست اور محنتی۔ ان کو سخت مزاج بھی تصور کیا جاتاتھا ۔ لیکن وہ سخت مزاج ہرگز نہیں تھے ۔ وہ بہت خوش مزاج اور زندہ دل تھے۔ ورنہ وہ نہ تو بیرسٹر کی حیثیت سے کامیاب ہوتے اور نہ ایک عظیم رہنما کے طور پر ۔
ممبئی میں حنیف آزاد اُن کا ڈرائیور رہاتھا ۔ حنیف نے بعد میں فلموں میں اداکاری بھی کی۔ وہ بتاتا ہے کہ قائد اعظم شام کے وقت اپنی پیکارڈ گاڑی میں میرین ڈرائیوکی سیر کو نکلتے ۔ ایک دن وہ اچھے موڈ میں تھے لہٰذا حنیف نے موقع غنیمت جان کر اُن سے کہا '' سر آج موسم بہت اچھا ہے اورعید بھی آنے والی ہے۔''قائد اعظم نے کچھ ہی دن پہلے اس کو''انعام'' دیاتھا ۔
''ویل ویل'' قائد اعظم نے بہت خوش دلی سے جواب دیا '' ہم دیکھتا ہے کہ تم ایک دم بہت پکّا مسلمان بن گیا ہے ۔ تھوڑا ہندو بنو۔''یہ اشارہ تھا مسلمانوں کی ''فضول خرچی'' اور ہندوئوںکی '' کنجوسی'' کی طرف ۔ لیکن حنیف آزاد اور دوسرے ملازمین مایوس نہیں ہوئے ۔ قائد اعظم نے ان سب کو بہت اچھی''عیدی'' دی۔
1937ء میں قائد اعظم لاہور میں تھے ۔ مقصد تھا آنے والے الیکشن کے سلسلے میں مسلم لیگ کا پارلیمنٹری بورڈ تشکیل دینا۔ ایک دن جب وہ پنجاب مسلم لیگ کے سیکریٹری پیر تاج الدین کے ساتھ پارٹی کے معاملات پر بات کررہے تھے انہوں نے اچانک موضوع بدل کر کہا'' آپ کو معلوم ہے مسز - مجھ سے برابر ملتی رہتی ہے۔''
''وہ خاتون کیا کہتی ہے۔ '' پیر صاحب نے پوچھا
''و ہ کہتی ہے کہ مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ نہ بنایاجائے۔''... ''کیوں؟''...''اس کے خیال میں مسلم لیگ پنجاب میں ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی۔''
''مسٹر جناح '' پیر صاحب مسکرا کر بولے '' میرے خیال میں یہ خاتون ضرورت سے زیادہ آپ کی توجہ حاصل کررہی ہے ۔ کہیں آپ اس کے سحر میں گرفتار تو نہیں ہوگئے ہیں؟'' ساٹھ سال کی عمر میں بھی Wisower محمد علی جناح بہت جاذب نظر تھے۔ انہوں نے قہقہہ لگا کر جو جواب دیا وہ اس مشہور شعر کے مطابق تھا:
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
1946میں بلوچستان کے قاضی عیسیٰ دہلی میں مسلم لیگ پبلسٹی کے نگراں تھے ۔ ایک دن جب قاضی عیسیٰ 10اورنگزیب پہنچے تو قائد اعظم نے پبلسٹی کی کامیابی کے بارے میں دریافت کیا '' کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔'' قاضی عیسیٰ نے مایوسی کے ساتھ کہا ۔'' یہاںہمارے کیمپ میں کیا دھرا ہے ۔ لے دے کے ایک بڑے میاں سید شمس الحسن ہیں اور وہاں کانگریسی لیڈروں نے تو کئی نوجوان لڑکیوں' یعنی دیویوں کو بھرتی کررکھا ہے ۔''
''اچھا یہ بات ہے ۔'' قائد اعظم نے کہا ''اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہماری پبلسٹی کامیاب ہے۔''
''اگر آپ اجازت دیں ۔'' قاضی عیسیٰ بولے ۔''تو میںاُن کے یہاں جا کر دیکھوں کہ وہاں کیسے کام ہورہا ہے ؟''
''ضرور جائو ینگ مین ۔''قائد اعظم نے ہنستے ہوئے کہا ۔'' مجھے یقین ہے کہ تمہارے مردانہ جمال پر وہ دیویاں مر مٹیں گی۔''
وکیل اور بیرسٹر بھی مقرروں کی طرح اپنے خطاب میں شعر وادب کا سہارا لیتے ہیں اپنے دلائل مضبو ط کرنے کے لیے ۔ قائد اعظم شکسپیر کو بہت پسند کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ ممبئی میں وہ قرض کے ایک مقدمے کی پیروی کررہے تھے ۔اُن کے موکل نے کچھ رقم قرض لی تھی جسے وہ ادا کرنے کے لیے تیار تھا لیکن لالچی مارواڑی سیٹھ سود درسود وصول کرنے پر بضد تھا ۔ شکسپیر کے ڈرامے ''مرچنٹ آف وینس '' کے یہودی ساہوکار ''شائی لک''کی طرح قائد اعظم نے اپنے خطاب میں پورشیا کی پوری تقریر سنادی۔یاد رہے کہ پورشیا بھیس بدل کر انٹونیو (مرچنٹ آف وینس) کی وکیل بن گئی تھی اور اس نے کہاتھا کہ شائی لک ایک پائونڈ گوشت مقروض کے جسم سے ضرور نکالے لیکن خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہے ۔ یوں پورشیا کی طرح قائد اعظم مقدمہ جیت گئے۔
قائد اعظم گفتگو میں بہت شائستہ اور خوش کلام تھے اور دل دُکھانے والی بات چیت سے ہمیشہ پرہیز کرتے تھے۔لیکن ایک بار انہوں نے سخت لہجہ بھی اختیار کیا ۔ برطانوی وزیر اعظم سر رامزے میکڈانلڈ نے رائونڈ ٹیبل کانفرنس کے موقع پر قائد اعظم سے اپنی ملاقات میں ہوم رول کا ذکر کرتے ہوئے کہا '' مسٹر جناح ہمیں صوبوں کے گورنروں کے لیے قابل ہندو ستانیوں کی ضرورت ہے۔''
''سر رامزے کیا آپ مجھے رشوت پیش کررہے ہیں؟'' قائد اعظم کے اس کڑے سوال پر برطانوی وزیر اعظم بغلیں جھانکنے لگا۔
سب سے مزیدار ڈش آخر میں... لارڈ مائونٹ بیٹن آخری وائسرائے بن کر ہندوستان آیا۔ اور جلد ہی اس نے اور ا س کی خوبرو بیوی اوڈینا Edwina نے گاندھی اور نہرو دونوں کے دل جیت لیے ۔ لیکن وہ قائد اعظم کو ''رام '' نہ کرسکے ۔ دونوں کے درمیان فاصلہ رہا۔اگست 1947 میں ایک موقع ایسا آیا جب وائسرائے نے محسوس کیا کہ وہ مسلم لیگ کے رہنما پر ''احسان'' کرکے ان کو اپنا پرستار بناسکتاہے۔
11اگست کو کراچی کی دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظم اور وائسرائے دونوں نے قیامِ پاکستان کا اعلان کیا ۔ اس کے بعد دونوں لیڈر سیاہ رولز رائس گاڑی میں ایک جلوس کی شکل میں گورنر ہائوس روانہ ہوئے ۔ دہلی میں مائونٹ بیٹن کو بتایاگیاتھا کہ پاکستان کی دشمن ہندو تنظیم راشٹریا سیوک سنگھ نے منصوبہ بنایا ہے کہ جب قائد اعظم نے اعلان ِ پاکستان کے بعد جلوس میںروانہ ہوں گے تو ان پر بم پھینکا جائے گا۔ لہٰذ ا جب رولز رائس گاڑی روانہ ہوئی تو ملکۂ وکٹوریہ کا پڑپوتا خوف کے مارے کانپ رہاتھا ۔
سڑک کے دونوں طرف ''ہجومِ قاتلاں'' موجودتھا اور کھلی ہوئی اسٹیٹ کار میں دونوں لیڈر کسی گولی یا بم کا آسان نشانہ تھے ۔ راستے بھر وائسرائے اسٹیچو کی طرح چپ بیٹھارہا۔ جیسے ہی سفر ختم ہوا اور گورنر جنرل ہائوس کی روشنیاں نظر آئیں اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے ایک لمبا سانس لیا اور قبل اس کے کہ وہ کچھ بولتا قائد اعظم نے مسکراتے ہوئے اس کے گھٹنے کو تھپتھپایا اور کہا ''خدا کا شکر ہے کہ میں آپ کو زندہ لے آیا۔''
مائونٹ بیٹن کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔ یہی الفاظ اس کی زبان پر بھی تھے لیکن اس کے بولنے سے پہلے ہی قائد اعظم نے یہ جملہ ادا کردیا۔ اور وائسرائے ہکّا بکّا رہ گیا ۔ اب محمد علی جناح جیسی شخصیتیں کہاں؟