پاکستان میں کم ہوتی ہوئی کرپشن
جو کہ ایک بڑی بہتری گردانی جا رہی ہے۔ اس فہرست میں صومالیہ اور شمالی کوریا آخری نمبر پر ہیں
KARACHI:
ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان 2014ء میں پچھلے سال کے مقابلے میں ایک درجہ بہتری کے ساتھ 126 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ 2013ء میں پاکستان کا 127 واں، 2012ء میں 139 واں، 2011ء میں 134واں، 2010ء میں 178واں اور 2009ء میں 139 واں تھا۔ یہ اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ پچھلے کچھ سالوں میں اس انڈیکس میں بہتری ریکارڈ کی گئی ہے۔ جب کہ بھارت 2012ء اور 2013ء میں 94 ویں نمبر سے85 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
جو کہ ایک بڑی بہتری گردانی جا رہی ہے۔ اس فہرست میں صومالیہ اور شمالی کوریا آخری نمبر پر ہیں، جب کہ افغانستان کا نمبر 172واں ہے، بنگلہ دیش کا نمبر 145، اور سری لنکا 85 ویں نمبر پر براجمان ہے۔ ملکی معاملات میں کرپشن اور بدعنوانی ایک طویل عرصے سے ہمارے ملک کے گمبھیر مسائل میں سے ایک ہے اور تقریباً ہمارے تمام سرکاری اور نیم سرکاری ادارے اس کا شکار ہیں اور شاید یہ اب ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے۔ پولیس سے لے کر ماتحت عدالتیں ہوں یا ریلوے سے لے کر پی آئی اے، ہر طرف بدعنوانی، اقربا پروری اور جعلسازی کے تانے بانے ملتے نظر آتے ہیں، سرکاری اداروں میں ہونے والی جعلسازی اور کرپشن سے قومی خزانے کو اربوں روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے اور ایک ایسی قوم جس کو پہلے ہی دہشت گردی، فرقہ واریت، مہنگائی اور لوڈشیڈنگ وغیرہ کے مسائل کا سامنا ہے۔
اس کے لیے کرپشن کا عفریت اس کی معیشت کی بنیادیں کھوکھلی کرنے کے مترادف ہے، ملک میں ہر حکومت نے ہمیشہ اپنی کرسی بچانے اور اقتدار کو طول دینے کے لیے اس مسئلے سے چشم پوشی برقرار رکھی۔ اور اپنے سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ایک دوسرے پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کیا اور بجائے قانون پر عملدرآمد کرنے کے اس کو اپنے لیے بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال کیا۔ جو کہ یقینا ایک مجرمانہ فعل سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ پچھلے سال پلڈاٹ کے کیے گئے سروے میں 54 فیصد لوگوں نے کرپشن سے لڑنے میں وفاقی حکومت کی پرفارمنس کو سراہا جب کہ 41 فیصد لوگوں کی رائے اس بارے میں منفی تھی اس طرح نیٹ رینکنگ 13 فیصد مثبت رہی۔ رپورٹ کے مطابق نیٹ رینکنگ میں پنجاب سے سے آگے یعنی 30 فیصد۔ جس کے بعد خیبر پختونخوا 18 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔
بلوچستان کی نیٹ رینکنگ زیرو جب کہ سندھ کی حالت انتہائی مخدوش یعنی منفی 25 فیصد رہی۔ جب کہ اقربا پروری (جو کہ کرپشن کی ہی ایک قسم نظر آتی ہے) میں وفاقی حکومت کو 45 فیصد مثبت پوائنٹس ملے جب کہ 48 فیصد پوائنٹس منفی تھے۔ جس کی وجہ سے نیٹ رینکنگ منفی 3 فیصد تھی جو کہ یقینا قابل ستائش نہیں ہے، ملکی اداروں میں سربراہوں کی تقرری میں شفافیت کا مسئلہ ایک طویل عرصے سے چلتا نظر آ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں پچھلی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جب کہ موجودہ حکومت بھی اس مسئلے سے موثر طریقے سے نمٹنے میں قاصر نظر آتی ہے اور ملک کے انتہائی اہم اداروں میں یا تو مستقل تعیناتی موجود نہیں یا پھر بہت سی اہم آسامیاں خالی ہیں، ایک اندازے کیمطابق اگر ملکی معاملات پر کرپشن کے عفریت پر قابو پالیا جائے تو ملک کو سالانہ اربوں روپے کی بچت کے ساتھ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کے چنگل سے نجات پائی جا سکتی ہے۔
اس وقت نیب کا ادارہ فی الحال عضو معطل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بڑے اور سرکردہ عہدوں پر براجمان افسروں اور سیاسی رہنماؤں پر مبینہ الزامات کی صحیح تحقیقات کبھی بھی نہ ہو سکیں اور آج تک کسی مشہور اور نامور حکومتی عہدیدار یا سیاسی رہنما پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔ نتیجتاً ہر ایک رہنما کو اپنے مخالفین پر آوازیں کسنے اور طعنہ زنی کا موقع ملتا رہا اور اگر کسی حکمران نے بدعنوان افراد پر ہاتھ ڈالنے کا حوصلہ بھی کیا تو اسے ہر جگہ سیاسی انتقام سے گردانا گیا۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے آج تک کسی حکمران نے اس مسئلے کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ الیکشن کی مہم کے دوران ساری پارٹیوں نے بہت بلند و بانگ دعوے تو کیے لیکن وہ صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہوئے۔
کچھ صوبائی حکومتوں نے بدعنوانی کے الزام میں اپنے وزرا کو فارغ بھی کیا اور کچھ نے ان سے وزارتوں کے قلمدان واپس بھی لیے۔ لیکن صرف اس پر اکتفا کیا گیا اور ذمے داروں کے خلاف نہ تو کوئی مقدمہ درج کیا گیا اور نہ ہی کوئی قانونی کارروائی کی گئی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اپنی جماعت کی جگ ہنسائی سے بچنے کے لیے ملکی مفاد کو قربان کر دیا گیا، جب بھارت میں ایک صوبے کی وزیر اعلیٰ کو کرپشن کے الزام میں ایک عدالت جیل بھیج سکتی ہے تو ہمارے یہاں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ اس وقت ملک میں کرپشن سے نمٹنے کے لیے کوئی موثر قانون ہی موجود نہیں۔ اور روایتی قوانین موجودہ سسٹم کو ملزمان اپنے قابل وکیلوں کے ذریعے استعمال کرنے میں کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں، نہ تو ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں وائٹ کالر کریمنل کو پکڑنے کی سکت رکھتی ہیں، اور نہ ہی ان میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کوئی عزم موجود ہے، بلکہ یہ تحقیقاتی ادارے بھی بدعنوانیوں اہلکاروں کے وجود سے آلودہ ہیں۔
آج بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے اہلکار اور ٹیکس جمع کرنیوالے افسران خود عام شہریوں کو بدعنوانی کے راستے دکھانے میں مگن نظر آتے ہیں اور پورا نظام بدعنوانی سے اس قدر آلودہ ہو چکا کہ ایماندار افراد کا گزارہ کرنا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔ اور یہ پورا نظام اس تنگ گلی کی مانند ہو چکا جہاں سے گزرنے کے لیے آپ کو خود بھی ٹیڑھا ہونا ہی پڑے گا۔ عدالتوں میں لگے مقدمات اپنی طوالت کی وجہ سے اپنی افادیت کھونے لگے ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسیوں پر یہ الزامات اب عام ہیں کہ ان کی طرف سے مقدموں کے چالان اس قدر کمزور بنائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے عدالتوں کو ثبوتوں کی عدم موجودگی کے باعث ملزمان کو رہا کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے۔ اب یہ ایجنسیوں کی سادہ لوحی ہے یا ملی بھگت؟ فیصلہ صاف عیاں ہے۔
ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی بھی نظام نہ ہونے کی وجہ سے معاملات ہر گزرتے روز بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اگرچہ موجودہ حکومت کے دور میں بدعنوانی اور کرپشن کی کوئی بڑی کہانی اب تک منظر عام پر نہیں آئی ہے۔ اور کرپشن انڈیکس میں بھی بہتری ریکارڈ کی گئی ہے ، لیکن نچلی سطح تک اداروں سے بدعنوانی کو ختم کرنے کے لیے اب تک کوئی ٹھوس کوشش نظر نہیں آ رہی۔ شاید فی الوقت یہ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ اس ملک کو بدعنوانی کے اس عفریت سے نکالنے کے لیے ایک جہاد کی ضرورت ہے اس جنگ میں انتہائی کٹھن اور مشکل فیصلوں کی ضرورت ہے ایک دوسرے پر الزام اور پھر جوابی الزامات مسئلے کا حل قطعاً مہیا نہیں کرتے۔ اس وقت عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ جس کے لیے موثر قوانین کی تیاری اور ان کا نفاذ سزاؤں کا اعلان اور ان پر عمل اور کرپشن کے خاتمے کے لیے زیروtolerance یعنی عدم برداشت کی اشد ضرورت ہے، لیکن فی الحال ہر طرف سیاسی عدم برداشت ہی نظر آتی ہے۔