قائداعظمؒ ایک با ہمت پر عزم شخصیت

جو عمر بھر اپنے مقاصد سے جڑے رہے جنھوں نے کبھی اپنی راہ کھو ٹی نہیں ہونے دی

ایک صاحب استقلال کی داستان حیات! جو عمر بھر اپنے مقاصد سے جڑے رہے جنھوں نے کبھی اپنی راہ کھو ٹی نہیں ہونے دی، انھوں نے اپنے طے کردہ ہدف کو حاصل بھی کیا اور اس پر کبھی کسی زعم کا شکار بھی نہ ہوئے، ایک اجلے برتر خواب کی تعبیر آدمی کو کیا بنا دیتی ہے قدرت جب کسی اہم کام کے لیے کسی کا انتخاب کر لیتی ہے تو وہ دوسروں جیسا نہیں رہتا۔ قائد اعظمؒ کی پوری زندگی بھی عام لو گوں سے مختلف تھی انھوں نے اپنے اس قول کی عملی تفسیر بن کر ساری زندگی گزاری کہ کسی کام کو کرنے سے پہلے سو بار سوچو کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا ایسا کرنا چاہیے جب تمھارا ذہن فیصلہ دے کہ ہا ں ایسا کرنا درست ہے تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کر لو اور دم اس وقت لو جب اسے پورا کر لو اس با ت سے نہ گھبراؤ کہ را ستے میں مشکلیں آئیں گی رکا وٹیں ہوں گی، اپنی منزل کی جانب نگا ہ کر کے آگے بڑھتے چلے جاؤ انشاء للہ کا میا بی تمھارے قدم چومے گی۔ ہم جتنی زیادہ تکلیفیں قربانیاں دینا سیکھیں گے اتنے ہی زیا دہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم بن کر ابھریں گے جیسے سونا آگ میں تپ کر کند ن بن جا تا ہے۔''

اس کند ن جیسی شخصیت نے 25 دسمبر1876ء نیونیہام روڈ کراچی کے ایک گھر میں آنکھ کھو لی 6 بر س کی عمر میں مدرسہ اور پھر سندھ مد رستہ اسلا م اسکو ل میں دا خل ہو ئے جس کے دروازے پر لکھا تھا کہ '' علم حاصل کرنے کے لیے آؤ اور خدمت کے لیے جاؤ'' زمانہ طالب علمی میں ان کے جوہرکھلنا شروع ہوئے۔ چچا زاد بھا ئی کی بیوہ فا طمہ با ئی کا کہنا ہے 'کہ مجھے محمدعلی کی صحت کا بڑا خیا ل رہتا تھا میں اکثر ان سے کہتی کہ ''اتنی رات تک نہ جاگا کر یں صحت پر برا اثر پڑے گا'' اس پر محمد علی مسکر اکر کہتے کہ ''بائی میں اس لیے زیادہ پڑھتا ہوں کہ مجھ کو ایک دن بڑا آدمی بننا ہے کیاآپ پسند نہیں کرتیں کہ میں بڑا آدمی بنوں۔'' دسویں جماعت امتیا زی نمبروں سے پاس کی جس کے بعد آپ کی شادی مٹھی بائی سے ہو گئی والد کاروبار میں شریک کرنا چا ہتے تھے لیکن بیٹے کے مزید تعلیمی شوق کی خاطر انگلستا ن بھیجنے پر را ضی ہو گئے لند ن پہنچ کر لنکن انِ میں داخلہ لیا جس کے صدر دروازے پر عظیم ترین قا نو ن سازوں کے نا م درج تھے جن میں سر فہر ست محمد ﷺ کا نا م مبا رک تھا۔ لندن میں بڑی محنت سے قلیل مدت میں تعلیم حا صل کی مگر لنکن انِ کی رسم پو را کر نے کے لیے انھیں مزید دو سال وہا ں رکنا پڑا، آپ انگلستا ن بار میں شامل ہو نے والوں میں سب سے کم عمر طا لب علم تھے، قدرت نے آپ کو انگلستان میں دوران قیام لبرل مکتب خیال سے ملنے کا موقع دیا نتیجہ آپ ان کے نقطہ نظر کو بخو بی سمجھنے لگے۔

قائد اعظم ؒ1896ء کولندن سے قانو ن کی اعلیٰ ڈگری لے کر واپس ہندوستان آئے اس دوران آپ کی شفیق والدہ اور بیوی کا انتقال ہو چکا تھا والد کی طویل علا لت کے باعث علاج پر پیسہ پانی کی طرح بہایا دوسری جانب کاروبار پر بھی توجہ نہ دے سکے جس کے با عث کاروبار بھی تباہ ہو گیا۔ گویا کراچی آتے ہی قا ئد اعظم ؒکو گھریلو پریشانیوں سے دوچار ہو نا پڑا مگر آپ ہمت ہارنا نہ جانتے تھے کر اچی کی بعض فرموں نے آپ کوکام کی پیشکش کی۔ قا ئد اعظم کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا تو اس آفر کو قبول کر لیتا مگر آپ بڑے عزائم لے کر آئے تھے۔


سو بمبئی میں بہتر مواقعے کی تلا ش میں چل دیے، تین سال انتہائی تنگ دستی اور عسرت میں گزارے مگر اپنے کام کو انتہائی تندہی، محنت اور جرات سے کرتے رہے وہ لوگ جنھیں دنیا میں عظیم کا م کرنا ہو تے ہیں وہ مشکلا ت کی پروا کیے بغیر منزل مقصود کی جانب بڑھتے چلے جا تے ہیں اور اللہ تعا لیٰ بھی ایسے لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ 1900ء میں ریذیڈینسی مجسٹریٹ کے انتخابات میںبڑ ے بڑے کامیاب وکیلوں کے مقابلے میں آپ کامیاب ہو ئے، گرچہ یہ ملازمت تین ما ہ کے لیے تھی مگر آپ کی محنت و جانفشانی کو دیکھ کر افسران بالا نے اسے مزید تین ما ہ بڑھا دیا۔ محکمہ عدلیہ کے سربراہ سر چارلس اولیونٹ نے آپ کو مستقل اس عہدے کو قبول کرنے کی پیشکش کی لیکن آپ نے اس سے انکارکر دیا، اب آپ کے مالی حالات پہلے سے بہت بہتر تھے آپ اعلیٰ سوسائٹی میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ قائد کا فرما ن تھا کہ ' زندگی ہر شعبے میں کردار کی بلند ی ضروری چیز ہے آپ میں احساس خودی کردار اعلیٰ کے ساتھ ساتھ یہ صنف بھی ہونا چاہیے کہ آپ دنیا میں کسی کے ہا تھ بک نہ جا ئیں ' قائد اعظمؒ خود اس قول کا جیتا جاگتا نمو نہ تھے۔

ہر بڑے آدمی کی کچھ خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو اسے دوسروں سے ممتازکر تی ہیں، قائداعظمؒ میں ایسی بہت سی خو بیاں تھیں آپ کی خوش لباسی ضرب المثل بن چکی تھی آپ کی نشست و برخاست اورگفتار دیکھ کر ایک امریکی ڈرامہ نو یس کو کہنا پڑا کہ ''صد افسوس دنیائے اسٹیج نے ایک عظیم آرٹسٹ کو کھو دیا ِ' قائد اعظم ؒوقت کی پا بندی کا بڑا خیال رکھتے تھے جس طرح وہ اپنی رائے کا اظہار نہایت بیباکی ا ور جرات سے کرتے تھے اسی طرح دوسروں سے بھی اس کی امید رکھتے تھے جب کوئی فیصلہ ہو جاتا تو اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے تھے۔ قائد اعظمؒ نے اپنی زندگی میں رتن با ئی کو شامل کر نے کا فیصلہ کئی مخالفتوں کے با وجود کیا 19 اپریل 1908ء کو رتن با ئی نے اسلام قبول کیا اور دونوں کی شادی ہو گئی۔ قا ئد اعظمؒ کی ذاتی زندگی سے الگ آپ اپنی قوم کی محبت اور ان کی فلاح کے جذبے سے بھی سر شار تھے۔ دادا بھا ئی نوروجی کی تربیت نے قا ئد اعظم ؒکے دل میں وطن کی محبت کا جذبہ بھر دیا تھا یہا ں سے ایک نئے سفر نئی منزل اور ولولے کا آغا زہوتا ہے۔ قائد اعظمؒ کی قیا دت میں مسلمانوں کا کاروان آزادی حصول پا کستان کی جا نب رواں دواں ہوا۔

1940ء میں قرار داد پاکستا ن کامیاب ہوئی اور صرف سات سال کے قلیل عرصے میں پا کستان معرض وجود میں آ گیا اسے معجزہ کہ لیں یا اس مرد مجا ہد کی شب و روزکی انتھک محنت کا نتیجہ کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک بڑی اسلامی ریا ست بن کر ابھرا، ہمارے سیاسی قائدین کے لیے ان کی سیاسی زندگی کا یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ سیاست میں شرکت کے لیے آپ نے اپنی مالی حالت بہتر ہو نے کا انتظارکیا حقیقت یہ ہے کہ صرف وہی شخص خلوص سے وطن کی خدمت انجا م دے سکتا ہے جو قومی چندے کی فر اہمی کا محتاج نہ ہو، قائد کی ساری زندگی شاہد ہے کہ انھوں نے کبھی ایک پیسہ بھی حکومت وقت سے نہیں لیا تھا۔ بانی پاکستان نے قوم کو اتحاد، تنظیم اور یقین محکم کا درس دیا بابائے قوم نے جی جان سے اپنی قوم کے لیے تن من دھن کی قر با نی دی ایسے لوگ مرکر زندہ وجا وید رہتے ہیں اور ان کی کا میابی پوری قوم کو آسودہ کر تی ہے۔
Load Next Story