تذکرہ امام احمد رضا کانفرنس کا
کانفرنس میں پروفیسر محمد اطہر حسین نے اپنے مقالے میں کہا کہ مغرب نے انسان کو سماجی حیوان کے طور پر لیا ہے
ادارہ تحقیقات امام احمد رضا (انٹرنیشنل) کراچی کے زیر اہتمام 11 دسمبر کو شیخ زائد اسلامک سینٹر جامعہ کراچی میں امام احمد رضا کانفرنس کا انعقاد ہوا جس کا موضوع تھا ''امام احمد رضا کے تعلیمی نظریات اور عصر حاضر میں ان کا اطلاق'' موضوع کے اعتبار سے راقم کو اس کانفرنس میں شرکت کرنے کی بھرپور تمنا تھی کیونکہ تعلیمی نظام اور اساتذہ کی زبوں حالی عہد حاضر کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے چنانچہ اپنی مصروفیت کو مختصر کرتے ہوئے اس کانفرنس میں شرکت کی گوکہ دیر سے پہنچنے کے باعث چند علمی شخصیات کے مقالے سننے سے محروم رہا تاہم جتنا کچھ سننے کو ملا اس پر میں کانفرنس کے کوآرڈینیٹر اور جنرل سیکریٹری ادارہ تحقیقات امام احمد رضا (انٹرنیشنل) کراچی جناب پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادری صاحب کا بے حد شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اس اہم کانفرنس میں مدعو کیا۔
کانفرنس کے موضوع کے حوالے سے راقم کو بہت سے نقاط ایسے ملے جن کو قارئین تک پہنچانا ان کے شعور اور علم و آگہی میں اضافے کا باعث ہوگا اور ہمیں اپنی غلطیوں یا کوتاہیوں کا بھی اندازہ ہوگا۔ مقررین میں انوار احمد زئی نے امام احمد رضا کی تعلیمات کے حوالے سے کہا کہ آپ کے نزدیک عقائد سے متصادم چیزوں کو پڑھانا درست نہیں اسی طرح اخلاقیات اور سماجیات کے بغیر اقتصادیات پڑھانا بھی بے کار ہے کیونکہ اگر اقتصادیات پر یہ حاوی نہ ہوں گے تو پڑھنے والے انسان نہ بن سکیں گے۔
اخلاقیات کے حوالے سے امام احمد رضا کی یہ نشاندہی درحقیقت ہمارے آج کے اور عالمی سطح کے مسائل کے حل کی طرف اشارہ کر رہا ہے آج ملکی معاشی پالیسیاں بنانے والے ہوں یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ جیسے اہم اداروں کی پالیسیاں بنانے والے ہوں یا وال اسٹریٹ میں بیٹھے لوگ معاشی مسائل کی گتھیاں سلجھا رہے ہوں ان سب میں ہمیں یہ بات مشترکہ نظر آتی ہے کہ ان کے نزدیک ''اخلاقیات''کی کوئی اہمیت نہیں بس انھیں اپنے سرمائے اور منافعے سے غرض ہے ۔یہی سبب ہے کہ عالمی سطح پر تمام غریب ممالک کی بڑے اداروں اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے مالی امداد کے باوجود دنیا بھر میں غربت بجائے ختم ہونے کے بڑھ رہی ہے اور آیندہ بھی توقع یہی ہے کہ اخلاق سے عاری اقتصادیات کے ماہر اس خطہ زمین سے غربت ختم کرنا تو دور کی بات کم کرنے میں بھی ناکام رہیں گے۔
کانفرنس میں پروفیسر محمد اطہر حسین نے اپنے مقالے میں کہا کہ مغرب نے انسان کو سماجی حیوان کے طور پر لیا ہے اور اس کا تعلیمی نظام بھی اس فلسفے سے نکلتا ہے جب کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے انسان کو خلیفہ کہا ہے چنانچہ اسی سبب آج مغربی تعلیمی نظام سے بہت سی چیزیں مستعار لینے کے باوجود ہمارا تعلیمی نظام ہمیں فائدہ نہیں پہنچا رہا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد نے اپنے مقالے میں کہا کہ اعلیٰ حضرت کے مطابق تعلیم کی درست سمت کا تعین کرنا انتہائی ضروری ہے نیز پروقار اور پرسکون شخصیت کی تعمیر کرنا ہی تعلیم کی درست سمت ہے۔یہ بات ہمارے معاشرے کے لیے آج انتہائی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ مشاہدے کے مطابق اسکول تو کیا کالج اور جامعات سے فارغ التحصیل طلبا کی شخصیت میں عموماً ہمیں یہ سقم نظر آتا ہے۔
آج طلبا کی شخصیت میں وقار اور سکون نظر نہیں آتا۔ ہر کوئی دولت کے حصول، اچھی سے اچھی زیادہ ماہانہ والی ملازمت کے حصول میں پریشان نظر آتا ہے اور جن کو اچھی ملازمت مل بھی جائے وہ اعلیٰ اسٹیٹس یعنی بلند سے بلند معیار زندگی گزارنے کا خواہش مند نظر آتا ہے۔ وہ سکون اور وقار جو پہلے کبھی ہمارے معاشرے کے افراد میں نظر آتا تھا اب ناپید ہی ہوتا جا رہا ہے جس وقت انگریز لارڈ میکالے ہندوستان آیا تو اس نے یہاں کے لوگوں کے بارے میں کہا کہ ہندوستان میں لوگ ناخواندہ تو نظر آئے مگر جاہل نظر نہیں آئے۔ اسی طرح اس نے یہ بھی کہا کہ یہاں لوگ تھانیدار سے نہیں ڈرتے مگر پڑوسی کے ڈر سے چوری نہیں کرتے۔
لارڈ میکالے کی یہ بات گواہی دیتی ہے کہ اس وقت ہندوستان کے لوگوں کی شخصیت پروقار بھی تھی اور پرسکون بھی ہوا کرتی تھی کیونکہ انھیں کسی تعلیمی نظام نے مادہ پرست بننے کی تعلیم نہیں دی تھی اس فرق کو امام احمد رضا نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی۔پروفیسر ڈاکٹر اعجاز نے اپنے مقالے میں دو مزید اہم باتیں کہیں ایک یہ کہ امام احمد رضا مخلوط تعلیمی نظام کے ابتدائی درجے کے ہی خلاف تھے اور دوسرے یہ کہ وہ سن رسیدہ اساتذہ کو تعلیم دینے کے لیے اہمیت دیتے تھے کیونکہ ان کی ساری زندگی کا نچوڑ طلبا کو براہ راست منتقل ہوجاتا ہے۔ نیز امام رضا بچوں کو ان کی مادری زبان میں بھی تعلیم دینے کے حامی تھے ان کے نزدیک تعلیمی نفسیات کا تقاضا ہے کہ طالب علموں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔
اب یہاں راقم کیا عرض کرے سب ہی جانتے ہیں کہ اس ملک میں ہمیشہ قومی زبان اردو رائج کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا بلکہ اس مسئلے کو ''نان ایشو'' کردیا گیا اور تمام ''نان ایشوز'' کو سیاست کرنے کا وطیرہ بنالیا گیا اور یہ سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔کانفرنس کے ایک اور مقالہ نگار پروفیسر دلاور خان نے بھی اعلیٰ حضرت کی نہایت اہم فکر انگیز تعلیمات کو بیان کیا اور ایک شخص کا واقعہ بیان کیا کہ جو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اس نے میلاد کرنے کی منت مانگی تھی اور اب جب کہ وہ میلاد کا اہتمام کرنے والا ہے اسے ایک ایسا طالب علم ملا ہے کہ جو اپنی فیس ادا نہیں کرسکتا۔
اب اگر میں اس طالب علم کی مدد کرتا ہوں تو میلاد نہیں کرسکتا۔ بتائیے! میں کیا عمل کروں؟ اس مسئلے پر امام احمد رضا نے جواب دیا کہ تم میلاد کرتے ہو تو تمہیں دس گنا ثواب ملے گا اور اگر تم طالب علم کی ضرورت پوری کرتے ہو تو تمہیں سات سو گنا ثواب ملے گا۔اس ملک میں عوام کی بھاری اکثریت امام احمد رضا ؒ کو اور ان کی تعلیمات کو نہایت ادب و احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ آج یہاں ان کی تعلیمات کا تذکرہ کرنے کا مقصد تھا کہ ہم اپنا اپنا جائزہ لیں کہ ہم دعویٰ تو امام احمد رضاؒ سے محبت کا بہت کرتے ہیں اور دھواں دھار تقاریر بھی بہت مگر عمل کے معاملے میں ...؟ آئیے غور کریں۔
کانفرنس کے موضوع کے حوالے سے راقم کو بہت سے نقاط ایسے ملے جن کو قارئین تک پہنچانا ان کے شعور اور علم و آگہی میں اضافے کا باعث ہوگا اور ہمیں اپنی غلطیوں یا کوتاہیوں کا بھی اندازہ ہوگا۔ مقررین میں انوار احمد زئی نے امام احمد رضا کی تعلیمات کے حوالے سے کہا کہ آپ کے نزدیک عقائد سے متصادم چیزوں کو پڑھانا درست نہیں اسی طرح اخلاقیات اور سماجیات کے بغیر اقتصادیات پڑھانا بھی بے کار ہے کیونکہ اگر اقتصادیات پر یہ حاوی نہ ہوں گے تو پڑھنے والے انسان نہ بن سکیں گے۔
اخلاقیات کے حوالے سے امام احمد رضا کی یہ نشاندہی درحقیقت ہمارے آج کے اور عالمی سطح کے مسائل کے حل کی طرف اشارہ کر رہا ہے آج ملکی معاشی پالیسیاں بنانے والے ہوں یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ جیسے اہم اداروں کی پالیسیاں بنانے والے ہوں یا وال اسٹریٹ میں بیٹھے لوگ معاشی مسائل کی گتھیاں سلجھا رہے ہوں ان سب میں ہمیں یہ بات مشترکہ نظر آتی ہے کہ ان کے نزدیک ''اخلاقیات''کی کوئی اہمیت نہیں بس انھیں اپنے سرمائے اور منافعے سے غرض ہے ۔یہی سبب ہے کہ عالمی سطح پر تمام غریب ممالک کی بڑے اداروں اور ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے مالی امداد کے باوجود دنیا بھر میں غربت بجائے ختم ہونے کے بڑھ رہی ہے اور آیندہ بھی توقع یہی ہے کہ اخلاق سے عاری اقتصادیات کے ماہر اس خطہ زمین سے غربت ختم کرنا تو دور کی بات کم کرنے میں بھی ناکام رہیں گے۔
کانفرنس میں پروفیسر محمد اطہر حسین نے اپنے مقالے میں کہا کہ مغرب نے انسان کو سماجی حیوان کے طور پر لیا ہے اور اس کا تعلیمی نظام بھی اس فلسفے سے نکلتا ہے جب کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے انسان کو خلیفہ کہا ہے چنانچہ اسی سبب آج مغربی تعلیمی نظام سے بہت سی چیزیں مستعار لینے کے باوجود ہمارا تعلیمی نظام ہمیں فائدہ نہیں پہنچا رہا ہے۔پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد نے اپنے مقالے میں کہا کہ اعلیٰ حضرت کے مطابق تعلیم کی درست سمت کا تعین کرنا انتہائی ضروری ہے نیز پروقار اور پرسکون شخصیت کی تعمیر کرنا ہی تعلیم کی درست سمت ہے۔یہ بات ہمارے معاشرے کے لیے آج انتہائی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ مشاہدے کے مطابق اسکول تو کیا کالج اور جامعات سے فارغ التحصیل طلبا کی شخصیت میں عموماً ہمیں یہ سقم نظر آتا ہے۔
آج طلبا کی شخصیت میں وقار اور سکون نظر نہیں آتا۔ ہر کوئی دولت کے حصول، اچھی سے اچھی زیادہ ماہانہ والی ملازمت کے حصول میں پریشان نظر آتا ہے اور جن کو اچھی ملازمت مل بھی جائے وہ اعلیٰ اسٹیٹس یعنی بلند سے بلند معیار زندگی گزارنے کا خواہش مند نظر آتا ہے۔ وہ سکون اور وقار جو پہلے کبھی ہمارے معاشرے کے افراد میں نظر آتا تھا اب ناپید ہی ہوتا جا رہا ہے جس وقت انگریز لارڈ میکالے ہندوستان آیا تو اس نے یہاں کے لوگوں کے بارے میں کہا کہ ہندوستان میں لوگ ناخواندہ تو نظر آئے مگر جاہل نظر نہیں آئے۔ اسی طرح اس نے یہ بھی کہا کہ یہاں لوگ تھانیدار سے نہیں ڈرتے مگر پڑوسی کے ڈر سے چوری نہیں کرتے۔
لارڈ میکالے کی یہ بات گواہی دیتی ہے کہ اس وقت ہندوستان کے لوگوں کی شخصیت پروقار بھی تھی اور پرسکون بھی ہوا کرتی تھی کیونکہ انھیں کسی تعلیمی نظام نے مادہ پرست بننے کی تعلیم نہیں دی تھی اس فرق کو امام احمد رضا نے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی۔پروفیسر ڈاکٹر اعجاز نے اپنے مقالے میں دو مزید اہم باتیں کہیں ایک یہ کہ امام احمد رضا مخلوط تعلیمی نظام کے ابتدائی درجے کے ہی خلاف تھے اور دوسرے یہ کہ وہ سن رسیدہ اساتذہ کو تعلیم دینے کے لیے اہمیت دیتے تھے کیونکہ ان کی ساری زندگی کا نچوڑ طلبا کو براہ راست منتقل ہوجاتا ہے۔ نیز امام رضا بچوں کو ان کی مادری زبان میں بھی تعلیم دینے کے حامی تھے ان کے نزدیک تعلیمی نفسیات کا تقاضا ہے کہ طالب علموں کو ان کی مادری زبان میں تعلیم دی جائے۔
اب یہاں راقم کیا عرض کرے سب ہی جانتے ہیں کہ اس ملک میں ہمیشہ قومی زبان اردو رائج کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا بلکہ اس مسئلے کو ''نان ایشو'' کردیا گیا اور تمام ''نان ایشوز'' کو سیاست کرنے کا وطیرہ بنالیا گیا اور یہ سلسلہ ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔کانفرنس کے ایک اور مقالہ نگار پروفیسر دلاور خان نے بھی اعلیٰ حضرت کی نہایت اہم فکر انگیز تعلیمات کو بیان کیا اور ایک شخص کا واقعہ بیان کیا کہ جو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اس نے میلاد کرنے کی منت مانگی تھی اور اب جب کہ وہ میلاد کا اہتمام کرنے والا ہے اسے ایک ایسا طالب علم ملا ہے کہ جو اپنی فیس ادا نہیں کرسکتا۔
اب اگر میں اس طالب علم کی مدد کرتا ہوں تو میلاد نہیں کرسکتا۔ بتائیے! میں کیا عمل کروں؟ اس مسئلے پر امام احمد رضا نے جواب دیا کہ تم میلاد کرتے ہو تو تمہیں دس گنا ثواب ملے گا اور اگر تم طالب علم کی ضرورت پوری کرتے ہو تو تمہیں سات سو گنا ثواب ملے گا۔اس ملک میں عوام کی بھاری اکثریت امام احمد رضا ؒ کو اور ان کی تعلیمات کو نہایت ادب و احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ آج یہاں ان کی تعلیمات کا تذکرہ کرنے کا مقصد تھا کہ ہم اپنا اپنا جائزہ لیں کہ ہم دعویٰ تو امام احمد رضاؒ سے محبت کا بہت کرتے ہیں اور دھواں دھار تقاریر بھی بہت مگر عمل کے معاملے میں ...؟ آئیے غور کریں۔