شدت پسندی کا خاتمہ ضروری
کوئی بھی شخص اپنی تمام تر توانائیاں ان خواہشات کی تکمیل پر صَرف کرتا رہتا ہے
لاہور:
انسان کے وسائل محدود اور خواہشات لامحدود ہیں، کوئی بھی شخص اپنی تمام تر توانائیاں ان خواہشات کی تکمیل پر صَرف کرتا رہتا ہے، اگرچہ وہ ایک خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر خواہشات کا لامتناہی سلسلہ اس کے تعاقب میں لگا رہتا ہے، ایک کے بعد ایک خواہش اس کے دل میں پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ایک بچے کو کسی کھلونے کا شوق ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اگر اسے وہ کھلونا مل جائے تو اس کی تمام خواہشات پوری ہو جائیں گی اور وہ مزید کسی شے کی خواہش نہیں کرے گا۔
کھلونا ملنے پر وہ اس سے کھیلتا، چمکارتا، پیار کرتا اور لوگوں کو دکھاتا ہے، لیکن جوں جوں دن گزرتے ہیں تو اس کھلونے کی کشش کم ہونے لگتی ہے، پھر یہی کھلونا اس کے لیے ایک عام سی شے بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کھلونے کے بعد اس کے اندر کسی اور کھلونے یا شے کے حصول کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، یہ خصلت بچوں ہی میں نہیں بلکہ بڑی عمر کے لوگوں میں بھی اسی طرح پائی جاتی ہے۔ انسانی رویوں کا مطالعہ کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان اپنی لامحدود خواہشات کے ساتھ اس محدود وسائل والی دنیا میں خوش نہیں ہے، شاید اسی لیے کہ لامحدود خواہشات کی تکمیل کے لیے ذرایع کا لامحدود ہونا بھی ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے لیکن کوئی نہ کوئی چیز ایسی موجود رہتی ہے جو اسے ملنا باقی ہوتی ہے۔
خواہشات اور ان کی تکمیل کے درمیان انسان کو اکثر وسائل کی دستیابی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے اور جب وہ وسائل کی دستیابی سے محروم ہوتا ہے تو نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے، وہ متبادل وسائل تلاش کرتا ہے، اگر پھر بھی اس کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ ناراضی کا اظہار کرتا ہے، اسے غصہ آتا ہے، وہ اداس ہو جاتا ہے، مایوسیوں کے بادل اس کے گرد منڈلانے لگتے ہیں، اس میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے، ان تمام نفسیاتی عوامل کے دوران اس میں عدم برداشت کا مادہ پرورش پاتا رہتا ہے جس سے انسان مستقل طور پر چڑچڑا اور غصیلا ہو جاتا ہے۔ انسانی مزاج میں پیدا ہونے والی یہ نفسیاتی تبدیلیاں اسے بہت سی جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا کر دیتی ہیں، جن میں فشار خون، عارضہ قلب اور شوگر جیسے امراض سرفہرست ہیں۔
مایوسی دراصل ایک شیطانی عمل ہے، شیطان جس کا اصل نام عزازیل ہے، اس کو ابلیس اسی لیے کہا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کے بعد اس کی رحمت سے نا امید ہو گیا تھا، سو وہ انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے ناامید کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ شیطان پہلے وسوسوں کے ذریعے انسان کے اندر جائز و ناجائز خواہشات کے انبار لگاتا ہے، پھر ان کی عدم تکمیل پر اسے ناامید کرتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
غصے کا اظہار انسان کا فطری عمل ہے، جب کوئی بھی شخص یا شے اس کی خواہش کی تکمیل کے آڑے آئے تو غصے میں مبتلا ہو جاتا ہے، وہ اسے نقصان پہنچا کر یا ملامت کے ذریعے اسے زائل کرتا ہے۔ غصے کی حالت میں لڑائی جھگڑا، مار کٹائی اور گالم گلوچ ہمارے معاشرے میں عام طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں، ضروری نہیں کہ یہ کام غصے میں مبتلا شخص خود ہی کرے بلکہ کوئی تیسرا شخص بھی یہ کام کر دے تو پہلے شخص کے غصے میں کمی آ جاتی ہے۔
اگر ایک شخص کو دوسرے پر غصہ ہو، فرد دوم کو پولیس اٹھا کر لے جائے، یا عدالت سزا دے دے تو غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہے، اسی طرح اگر کوئی تیسرا شخص اس کو گالی دے یا ملامت کرے تو بھی فرد اول کا غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہم اپنے گھر یا اردگرد اکثر دیکھ سکتے ہیں، ایک چھوٹے سے بچے کو کوئی دوسرا بچہ ستائے تو وہ غصے کا اظہار کرتا ہے، اگر کوئی بڑا شخص چھوٹے بچے کی حمایت کرتے ہوئے بڑے بچے کو جھوٹ موٹ ہی مارے تو چھوٹا بچہ اپنا غصہ ختم کر کے ہنسنے لگ جاتا ہے، اسی طرح اگر بچہ زمین پر گر کر رونے لگے اور آپ زمین کو جھوت موٹ معمولی پیٹ دیں تو اس بچے کا غصہ ختم ہو جاتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں انسان کا غصہ، مایوسی یا احساس محرومی نقصان پہنچانیوالے یا اس کی خواہشات کی تکمیل میں حائل ہونیوالے کو ہی ایذا دے کر زائل ہو بلکہ بسا اوقات وہ اپنا غصہ کسی دوسرے فرد کو نشانہ بنا کر بھی اتار لیتا ہے۔ جیسے گھر میں بیوی سے لڑ کر دفتر آنیوالا افسر اپنے ماتحتوں کو جھاڑ پلا کر غصہ اتار لیتا ہے، یا افسر کی جھاڑ کا غصہ گھر جا کر بچوں کی پٹائی کے ذریعے اتار لیتا ہے۔
ہمارے یہاں غصہ، مایوسی، احساس محرومی اور عدم برداشت کے رجحانات انتہائی تیزی سے فروغ پا رہے ہیں، ہم میانہ روی، رواداری، تحمل مزاجی، ایک دوسرے کو برداشت کرنے، معاف کر دینے اور انصاف جیسے اوصاف سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں، جن کا خمیازہ ہمیں معاشرے میں بے چینی، بدامنی، شدت پسندی، جارحیت، تشدد، لاقانونیت اور بگاڑ کی دیگر صورتوں میں بھگتنا پڑ رہا ہے، اور اسی رجحان کے فروغ سے ہمیں تشدد کے ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جن کا ذکر کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پیش آنے والا دلسوز واقعہ انھی رجحانات کی ایک کڑی ہے، اگرچہ ایسے سانحات میں اور بھی کئی عوامل کارفرما ہیں، مگر ان عوامل کو راستہ فراہم کرنے والے یہی رجحانات ہیں۔
ان رجحانات کے فروغ میں خود سیاسی رہنماؤں کا اپنا کردار بھی ہے، سیاستدانوں کے قول و فعل کا تضاد، جھوٹ، کرپشن، اقربا پروری کے علاوہ ان کی نااہلی کے باعث مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر عوامل بھی عوام میں یہ رجحانات پیدا کرتے ہیں۔
حکومت چاہے کتنی ہی کمیٹیاں بنا لے، پاک فوج کتنے ہی آپریشن کر لے مگر ان رجحانات کو ختم کیے بغیر امن و آشتی کی منزل ہم نہیں پا سکتے۔ اگر حکومت یا پاک فوج چاہتی ہے کہ ملک سے دہشتگردی اور بدامنی کا مکمل خاتمہ ہو جائے تو پھر چور کو نہیں چور کی ماں کو مارنا ہو گا، پاک فوج کے ترجمان کے 'دہشت گردوں کے معاونین اور حمایت کرنیوالوں کی صفائی' کے عزم کو پورا کرنا ہو گا، قوم کو آنکھیں کھلی رکھنے کا مشورہ دینے کے ساتھ ایسے عناصر کی نشاندہی بھی کرنا ہو گی تا کہ قوم کو پتہ چل سکے کہ ان کے ساتھ کیسا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل کے اصل کھلاڑی کون ہیں؟، ورنہ دہشت گردوں کی حمایت اور مدد کرنیوالے حتیٰ کہ خود دہشت گردوں کی قیادت کرنیوالے لوگ بھی ''شدید الفاظ میں مذمتیں'' کرتے ہوئے ''چور بھی کہے چور چور'' کے مصداق دہشتگردی کے خلاف ہونے والی جنگ اور دیگر اقدامات میں شامل ہو جائیں گے، جس کا بجائے فائدے کے ملک اور قوم کو نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔
اب وقت آ گیا ہے، ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، حکومت کو آگے بڑھنا ہو گا، عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے، تعلیمی اداروں اور خصوصاً دینی مدارس کو بھی اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کا پابند بنانا ہو گا، طالبعلم کو کورس کی کتابوں کے علاوہ طرز زندگی کے بنیادی اصول سکھانے کا بھی اہتمام کرنا ہو گا۔ علما کرام کو بھی اپنی مذہبی اور ملی ذمے داری کو مکمل طریقے سے نبھانا ہو گا، سیاست اور منافرت سے ہٹ کر لوگوں میں حلال اور حرام کی تمیز اجاگر کرنا ہو گی۔
مساجد میں دوسرے مسالک اور مذاہب پر بے جا تنقید کے بجائے خطبات میں نمازیوں کی اخلاقی تربیت کرنا ہو گی۔ معاشرے میں تیزی سے پھیلتے مغربی رسم و رواج کو روکنا ہو گا۔ حال ہی میں سانحہ پشاور پر بڑے بڑے اداروں اور آرگنائزیشز میں افسوس کے اظہار کے لیے ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی گئی، یقینا اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے آگہی ہی نہی ملی تھی، ورنہ وہ اس اظہار کے لیے قرآن خوانی یا دعا کا اہتمام کرتے۔
ابھی وقت ہے، علما اپنی ذمے داریوں کی جانب آئیں، پرتشدد راستہ اپنا کر اکثریت میں اسلام کا منفی تاثر پیش کرنے کے بجائے، تعلیم و تربیت کے ذریعے ان کی کردار سازی پر توجہ دیں، اپنی قوم کو غیروں کے رسم و رواج اپنانے سے روک لیں، انھیں گمراہی سے بچا لیں۔ علما کرام اسی معذور جمہوری نظام کی حمایت کرتے ہوئے لوگوں کی درست راہنمائی کریں، اچھے برے امیدوار کی پہچان کرائیں، انھیں ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کریں، وہ خلاف شرع کام کرنیوالی قوتوں کو ٹھوس دلائل کے ساتھ زیر کریں، اس طریقہ کار کے ذریعے بہت جلد منزل پا لیں گے، جسے پرتشدد ذہنیت کے ذریعے وہ پینتیس سالوں میں بھی حاصل نہ کر سکے بلکہ اس طریقہ کار کو اپنا کر ملک اور قوم کو اسلامی تعلیمات سے اور بھی دور کر دیا۔
انسان کے وسائل محدود اور خواہشات لامحدود ہیں، کوئی بھی شخص اپنی تمام تر توانائیاں ان خواہشات کی تکمیل پر صَرف کرتا رہتا ہے، اگرچہ وہ ایک خواہش پوری کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر خواہشات کا لامتناہی سلسلہ اس کے تعاقب میں لگا رہتا ہے، ایک کے بعد ایک خواہش اس کے دل میں پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ایک بچے کو کسی کھلونے کا شوق ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اگر اسے وہ کھلونا مل جائے تو اس کی تمام خواہشات پوری ہو جائیں گی اور وہ مزید کسی شے کی خواہش نہیں کرے گا۔
کھلونا ملنے پر وہ اس سے کھیلتا، چمکارتا، پیار کرتا اور لوگوں کو دکھاتا ہے، لیکن جوں جوں دن گزرتے ہیں تو اس کھلونے کی کشش کم ہونے لگتی ہے، پھر یہی کھلونا اس کے لیے ایک عام سی شے بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کھلونے کے بعد اس کے اندر کسی اور کھلونے یا شے کے حصول کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، یہ خصلت بچوں ہی میں نہیں بلکہ بڑی عمر کے لوگوں میں بھی اسی طرح پائی جاتی ہے۔ انسانی رویوں کا مطالعہ کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان اپنی لامحدود خواہشات کے ساتھ اس محدود وسائل والی دنیا میں خوش نہیں ہے، شاید اسی لیے کہ لامحدود خواہشات کی تکمیل کے لیے ذرایع کا لامحدود ہونا بھی ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ انسان بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہوتا ہے لیکن کوئی نہ کوئی چیز ایسی موجود رہتی ہے جو اسے ملنا باقی ہوتی ہے۔
خواہشات اور ان کی تکمیل کے درمیان انسان کو اکثر وسائل کی دستیابی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے اور جب وہ وسائل کی دستیابی سے محروم ہوتا ہے تو نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے، وہ متبادل وسائل تلاش کرتا ہے، اگر پھر بھی اس کی خواہشات پوری نہیں ہوتیں تو وہ ناراضی کا اظہار کرتا ہے، اسے غصہ آتا ہے، وہ اداس ہو جاتا ہے، مایوسیوں کے بادل اس کے گرد منڈلانے لگتے ہیں، اس میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے، ان تمام نفسیاتی عوامل کے دوران اس میں عدم برداشت کا مادہ پرورش پاتا رہتا ہے جس سے انسان مستقل طور پر چڑچڑا اور غصیلا ہو جاتا ہے۔ انسانی مزاج میں پیدا ہونے والی یہ نفسیاتی تبدیلیاں اسے بہت سی جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا کر دیتی ہیں، جن میں فشار خون، عارضہ قلب اور شوگر جیسے امراض سرفہرست ہیں۔
مایوسی دراصل ایک شیطانی عمل ہے، شیطان جس کا اصل نام عزازیل ہے، اس کو ابلیس اسی لیے کہا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی کے بعد اس کی رحمت سے نا امید ہو گیا تھا، سو وہ انسان کو بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے ناامید کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ شیطان پہلے وسوسوں کے ذریعے انسان کے اندر جائز و ناجائز خواہشات کے انبار لگاتا ہے، پھر ان کی عدم تکمیل پر اسے ناامید کرتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
غصے کا اظہار انسان کا فطری عمل ہے، جب کوئی بھی شخص یا شے اس کی خواہش کی تکمیل کے آڑے آئے تو غصے میں مبتلا ہو جاتا ہے، وہ اسے نقصان پہنچا کر یا ملامت کے ذریعے اسے زائل کرتا ہے۔ غصے کی حالت میں لڑائی جھگڑا، مار کٹائی اور گالم گلوچ ہمارے معاشرے میں عام طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں، ضروری نہیں کہ یہ کام غصے میں مبتلا شخص خود ہی کرے بلکہ کوئی تیسرا شخص بھی یہ کام کر دے تو پہلے شخص کے غصے میں کمی آ جاتی ہے۔
اگر ایک شخص کو دوسرے پر غصہ ہو، فرد دوم کو پولیس اٹھا کر لے جائے، یا عدالت سزا دے دے تو غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہے، اسی طرح اگر کوئی تیسرا شخص اس کو گالی دے یا ملامت کرے تو بھی فرد اول کا غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہے۔ ایسی بہت سی مثالیں ہم اپنے گھر یا اردگرد اکثر دیکھ سکتے ہیں، ایک چھوٹے سے بچے کو کوئی دوسرا بچہ ستائے تو وہ غصے کا اظہار کرتا ہے، اگر کوئی بڑا شخص چھوٹے بچے کی حمایت کرتے ہوئے بڑے بچے کو جھوٹ موٹ ہی مارے تو چھوٹا بچہ اپنا غصہ ختم کر کے ہنسنے لگ جاتا ہے، اسی طرح اگر بچہ زمین پر گر کر رونے لگے اور آپ زمین کو جھوت موٹ معمولی پیٹ دیں تو اس بچے کا غصہ ختم ہو جاتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں انسان کا غصہ، مایوسی یا احساس محرومی نقصان پہنچانیوالے یا اس کی خواہشات کی تکمیل میں حائل ہونیوالے کو ہی ایذا دے کر زائل ہو بلکہ بسا اوقات وہ اپنا غصہ کسی دوسرے فرد کو نشانہ بنا کر بھی اتار لیتا ہے۔ جیسے گھر میں بیوی سے لڑ کر دفتر آنیوالا افسر اپنے ماتحتوں کو جھاڑ پلا کر غصہ اتار لیتا ہے، یا افسر کی جھاڑ کا غصہ گھر جا کر بچوں کی پٹائی کے ذریعے اتار لیتا ہے۔
ہمارے یہاں غصہ، مایوسی، احساس محرومی اور عدم برداشت کے رجحانات انتہائی تیزی سے فروغ پا رہے ہیں، ہم میانہ روی، رواداری، تحمل مزاجی، ایک دوسرے کو برداشت کرنے، معاف کر دینے اور انصاف جیسے اوصاف سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں، جن کا خمیازہ ہمیں معاشرے میں بے چینی، بدامنی، شدت پسندی، جارحیت، تشدد، لاقانونیت اور بگاڑ کی دیگر صورتوں میں بھگتنا پڑ رہا ہے، اور اسی رجحان کے فروغ سے ہمیں تشدد کے ایسے ایسے لرزہ خیز واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جن کا ذکر کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پیش آنے والا دلسوز واقعہ انھی رجحانات کی ایک کڑی ہے، اگرچہ ایسے سانحات میں اور بھی کئی عوامل کارفرما ہیں، مگر ان عوامل کو راستہ فراہم کرنے والے یہی رجحانات ہیں۔
ان رجحانات کے فروغ میں خود سیاسی رہنماؤں کا اپنا کردار بھی ہے، سیاستدانوں کے قول و فعل کا تضاد، جھوٹ، کرپشن، اقربا پروری کے علاوہ ان کی نااہلی کے باعث مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر عوامل بھی عوام میں یہ رجحانات پیدا کرتے ہیں۔
حکومت چاہے کتنی ہی کمیٹیاں بنا لے، پاک فوج کتنے ہی آپریشن کر لے مگر ان رجحانات کو ختم کیے بغیر امن و آشتی کی منزل ہم نہیں پا سکتے۔ اگر حکومت یا پاک فوج چاہتی ہے کہ ملک سے دہشتگردی اور بدامنی کا مکمل خاتمہ ہو جائے تو پھر چور کو نہیں چور کی ماں کو مارنا ہو گا، پاک فوج کے ترجمان کے 'دہشت گردوں کے معاونین اور حمایت کرنیوالوں کی صفائی' کے عزم کو پورا کرنا ہو گا، قوم کو آنکھیں کھلی رکھنے کا مشورہ دینے کے ساتھ ایسے عناصر کی نشاندہی بھی کرنا ہو گی تا کہ قوم کو پتہ چل سکے کہ ان کے ساتھ کیسا گھناؤنا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور اس کھیل کے اصل کھلاڑی کون ہیں؟، ورنہ دہشت گردوں کی حمایت اور مدد کرنیوالے حتیٰ کہ خود دہشت گردوں کی قیادت کرنیوالے لوگ بھی ''شدید الفاظ میں مذمتیں'' کرتے ہوئے ''چور بھی کہے چور چور'' کے مصداق دہشتگردی کے خلاف ہونے والی جنگ اور دیگر اقدامات میں شامل ہو جائیں گے، جس کا بجائے فائدے کے ملک اور قوم کو نقصان ہی اٹھانا پڑے گا۔
اب وقت آ گیا ہے، ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، حکومت کو آگے بڑھنا ہو گا، عملی اقدامات اٹھانا ہوں گے، تعلیمی اداروں اور خصوصاً دینی مدارس کو بھی اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کا پابند بنانا ہو گا، طالبعلم کو کورس کی کتابوں کے علاوہ طرز زندگی کے بنیادی اصول سکھانے کا بھی اہتمام کرنا ہو گا۔ علما کرام کو بھی اپنی مذہبی اور ملی ذمے داری کو مکمل طریقے سے نبھانا ہو گا، سیاست اور منافرت سے ہٹ کر لوگوں میں حلال اور حرام کی تمیز اجاگر کرنا ہو گی۔
مساجد میں دوسرے مسالک اور مذاہب پر بے جا تنقید کے بجائے خطبات میں نمازیوں کی اخلاقی تربیت کرنا ہو گی۔ معاشرے میں تیزی سے پھیلتے مغربی رسم و رواج کو روکنا ہو گا۔ حال ہی میں سانحہ پشاور پر بڑے بڑے اداروں اور آرگنائزیشز میں افسوس کے اظہار کے لیے ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی گئی، یقینا اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے آگہی ہی نہی ملی تھی، ورنہ وہ اس اظہار کے لیے قرآن خوانی یا دعا کا اہتمام کرتے۔
ابھی وقت ہے، علما اپنی ذمے داریوں کی جانب آئیں، پرتشدد راستہ اپنا کر اکثریت میں اسلام کا منفی تاثر پیش کرنے کے بجائے، تعلیم و تربیت کے ذریعے ان کی کردار سازی پر توجہ دیں، اپنی قوم کو غیروں کے رسم و رواج اپنانے سے روک لیں، انھیں گمراہی سے بچا لیں۔ علما کرام اسی معذور جمہوری نظام کی حمایت کرتے ہوئے لوگوں کی درست راہنمائی کریں، اچھے برے امیدوار کی پہچان کرائیں، انھیں ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کریں، وہ خلاف شرع کام کرنیوالی قوتوں کو ٹھوس دلائل کے ساتھ زیر کریں، اس طریقہ کار کے ذریعے بہت جلد منزل پا لیں گے، جسے پرتشدد ذہنیت کے ذریعے وہ پینتیس سالوں میں بھی حاصل نہ کر سکے بلکہ اس طریقہ کار کو اپنا کر ملک اور قوم کو اسلامی تعلیمات سے اور بھی دور کر دیا۔