انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں
پورا انتخابی عمل نہایت شفاف، آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں تکمیل پاتا ہے
MANCHESTER:
دنیا کے تمام مہذب و باشعور جمہوری ملکوں میں پارلیمانی نظام حکومت کی خوبصورتی و کامیابی اور استحکام کا راز وہاں کے شفاف و منصفانہ انتخابی عمل میں پوشیدہ ہوتا ہے اور ایک آزاد، خودمختار اور با اختیار الیکشن کمیشن پورے انتخابی عمل کو ایسے منظم و مربوط طریقے سے ترتیب دینے کا ذمے دار ہوتا ہے کہ جس میں کسی بھی دوسرے ریاستی ادارے کو مداخلت کا موقع ملتا ہے اور نہ ہی کسی ''خفیہ ہاتھ'' کو اپنی کارستانی دکھانے کی جرأت ہوتی ہے۔
پورا انتخابی عمل نہایت شفاف، آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں تکمیل پاتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے تمام امیدوار وسیاسی جماعتیں نتائج کو قبول کرتی ہیں کسی جانب سے دھونس، دھمکی، دھاندلی اور بدعنوانی کا نعرہ بلند نہیں ہوتا، کسی انتخابی حلقے کو کھولنے اور ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ نہیں ہوتی۔ ایسا شفاف انتخابی نظام ہی درحقیقت جمہوریت کا حسن اور مضبوط پارلیمانی نظام کا ضامن ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں روز اول ہی سے جمہوری نظام ہچکولے کھاتا چلا آرہا ہے۔
کبھی سول آمریت اور کبھی خاکی آمریت کے جھٹکوں نے جمہوریت کے حسن کو داغ دار کیا یہاں تک کہ ملک دولخت ہوگیا تو کبھی انتخابی عمل میں دھاندلی، بدعنوانی، جعلی ووٹنگ اور جاگیرداروں، وڈیروں و سرمایہ داروں کی بے جا مداخلت کاری اور خفیہ ہاتھوں کی فنکاری کے باعث نتائج کا توازن اس بری طرح اپ ڈاؤن ہوتا رہا کہ شکست فتح میں اور فتح شکست میں تبدیل ہوتی رہی نتیجتاً ایوان اقتدار میں ناپسندیدہ عناصر داخل ہوتے رہے اور پارلیمانی جمہوری نظام کو استحکام نصیب نہ ہوسکا۔
یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ملک میں ایک آزادانہ، خودمختار اور بااختیار الیکشن کمیشن اور ایک بارعب، بے خوف، بے باک اور پاور فل الیکشن کمشنر کے نہ ہونے کے باعث آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا آج تک ہونے والے تمام انتخابات میں دھاندلی و بدعنوانی کا عامل اپنے ''سرپرستوں'' کی تمام تر چالاکیوں کے ساتھ پیش پیش رہا نتیجتاً ملک میں شفاف و منصفانہ انتخابات اور مستحکم جمہوری و پارلیمانی نظام کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔
2013ء کے عام انتخابات بھی ماضی کی طرح دھاندلی زدہ قرار پائے اور ملک کی تقریباً تمام قابل ذکر سیاسی جماعتوں پی پی پی، (ق) لیگ، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم، اے این پی اور جماعت اسلامی وغیرہ کی جانب سے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شکایات منظر عام پر آتی رہیں اگرچہ سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے تسلسل کی خاطر دھاندلی زدہ الیکشن بھی قبول کر لیے تاہم پی ٹی آئی وہ واحد جماعت ہے جو 2013ء کے الیکشن میں برتری حاصل کر کے حکومت بنانے والی مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کو قبول کرنے پر کسی صورت آمادہ نہیں۔ اس کا مطالبہ ہے کہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے جس میں ایجنسیوں کے لوگ بھی شامل ہوں نیز دھاندلی والے حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرائی جائے۔ دھاندلی ثابت ہونے پر نواز حکومت مستعفی ہو جائے اور ملک میں نئے انتخابات کا ڈول ڈال دیا جائے۔
ملک کی تمام جمہوریت پسند سیاسی قوتوں اور عوام کی بھی یہی خواہش ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں تا کہ دودھ اور پانی کا فرق سامنے آ سکے۔ ہم سب اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ملک کے انتخابی نظام میں ایسی بے شمار خامیاں، کمزوریاں اور نقائص موجود ہیں جو نہ صرف یہ کہ مخصوص طبقوں، خاندانوں، گروہوں کے مفاد پرست اور بے ضمیر لوگوں کو اقتدار کی راہداریوں میں بار بار نقب لگانے کا موقع فراہم کرتے ہیں بلکہ قابل اور اہل عوامی نمایندوں کو بااثر قوتوں کے دباؤ اور چیرہ دستیوں کے ذریعے انتخابی عمل سے بے دخل کر دیتے ہیں جس سے ملک کے انتخابی نظام کو دباؤ اور تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اب اس نظام انتخاب کی اصلاح ازبس ضروری ہو گئی ہے تا کہ ملک میں منصفانہ، شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی راہ ہموار ہو سکے یہ اسی وقت ممکن ہے جب ایک آزاد، ذمے دار، خودمختار اور بااختیار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے اور ایک باکردار، ایماندار، بااختیار اور پاور فل الیکشن کمشنر بھی منصب جلیلہ پر متمکن ہو۔ ماضی میں اس چیز کی کمی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہی ہے جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں انتخابی عمل میں بے شمار ''غیبی ہاتھ'' اپنی اپنی ''ہنرمندی'' کے جوہر دکھانے میں ماہر ہوں اور الیکشن کمیشن کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں انھیں ملکہ حاصل ہو تو وہاں الیکشن کمشنر جیسے باوقار عہدے پر براجمان شخص کے لیے عزت بچانا مشکل ہو جاتا ہے جس کی تازہ مثال سابق چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس (ریٹائرڈ) فخرالدین جی ابراہیم المعروف فخرو بھائی کی ''پذیرائی'' سے دی جا سکتی ہے۔ یہ ایسے ہی ماحول کا نتیجہ ہے کہ ان کے جانے کے بعد سوا سال تک چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے ملک کی معروف عدالتی شخصیات معذوری ظاہر کرتی رہی ہیں بالآخر ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے جسٹس سردار رضا خان نے آگے بڑھ کر اس مشکل چیلنج کو قبول کیا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم، اے این پی، جماعت اسلامی اور تحریک انصاف و دیگر سیاسی جماعتوں نے انھیں اتفاق رائے سے اس منصب جلیلہ پر فائز کیا ہے۔ قوم کو ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں کہ بطور چیف الیکشن کمشنر بھی وہ جرأت و ایمانداری کا بے مثال مظاہرہ کریں گے۔
ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں اس ضمن میں سینیٹر اسحاق ڈار کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کام کر رہی ہے پیپلز پارٹی کے سینیٹر جناب تاج حیدر صاحب نے جو انتخابی تجاویز مذکورہ کمیٹی کو بھیجی ہیں وہ نہایت اہم اور قابل توجہ ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایسا انتخابی نظام وضع کیا جائے جس میں اسٹیبلشمنٹ یا عسکریت پسندوں کی مداخلت کی گنجائش نہ ہو۔
نئی مردم شماری کی بجائے نادرا کے اعدادوشمار کو بنیاد بناکر آئین کے آرٹیکل 51(5)کے تحت صوبوں کے لیے قومی اسمبلی کی نشستیں ازسرنو مختص کی جائیں اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین لازمی استعمال کی جائے آزمائشی طور پر یہ الیکٹرانک مشینیں بلدیاتی انتخابات میں استعمال کی جائیں بعدازاں 2018ء کے عام انتخابات میں پورے ملک میں انھیں لازمی قرار دیا جائے۔ یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ انتخابی فہرستیں شناختی کارڈ پر دیے گئے عارضی پتے کی بنیاد پر شایع کی جائیں جن میں ووٹرز کا اندراج ہو اور یہ فہرستیں ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہوں۔ یہ تجاویز بلاشبہ قابل عمل ہیں۔ بیلیٹ باکس پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا جدید اور نقائص سے پاک انتخابی نظام تشکیل دیا جائے کہ دھاندلی اور خفیہ ہاتھوں کی چیرہ دستیوں کے تمام دروازے بند ہو جائیں۔ بدعنوان اور مفاد پرستوں کی بجائے قابل، مخلص، اہل اور دیانت دار لوگوں کے اقتدار کے ایوانوں میں جانے کی راہ ہموار ہو سکے اور ملک میں جمہوریت و پارلیمانی نظام کو استحکام و تسلسل حاصل ہو سکے۔