قائداعظم سے متعلق دستاویزات کا جائزہ
ان کی زندگی ان کے اٹل عزم اور آہنی قوتِ ارادی کی ایک بے مثل تصویر ہے
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تاریخ ساز شخصیت اور قیام پاکستان کی تاریخ گذشتہ نصف صدی سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر عوام و خواص کے لیے جاذب نظر ، پرکشش اور پر تاثیر رہی ہے۔ خصوصاً قائد اعظم کی شخصیت جو تحریک پاکستان سے لازم و ملزوم ہوگئی تھی مصنفین و محققین کی توجہ کا اب بھی مرکز ہے۔
قائد اعظم اور تحریک پاکستان سے متعلق بیش تردستاویزات اور کاغذات قیام پاکستان کے بعد بہت تاخیر سے منظر عام پر آئے۔ لہٰذا، اس طرح نہ صرف مستند تاریخ نویسی کا عمل متاثر ہوا بلکہ واقعاتی افراط و تفریط کی شکایت عام ہوئی ۔ غیر مستند ماخذ و ذرایع پر مبنی کتابیں اور تفصیلات سامنے آئیں، جو آج بھی استناد سے محروم ہیں۔
ادھر تیس سال کے دوران ہندوستان کی جدوجہد آزادی، تحریک پاکستان اور قائد اعظم سے متعلق تاریخی دستاویزات اور کاغذات کے جو بڑے ذخائر منظر عام پر آئے، ان میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن پیپرز، ٹرانسفر آف پاور والیومز، ویول جرنل، قائد اعظم پیپرز، شمس الحسن کلیکشن، آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، نشتر کلیکشن، سلیکٹیڈ ورکس آف گاندھی، نہرو پیپرز، پٹیل پیپرز، راجندر پرشاد کرسپانڈنس، سپر وپیپرز سلیکٹیڈ ورکس آف ایم این رائے، جناح اصفہانی کرسپانڈنس، سریامین خان کلیکشن ، میاں عبدالعزیز کلیکشن اور سر عبداﷲ ہارون کلیکشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان ذخائر کے منظر عام پر آنے کے بعد تحریک پاکستان اور قائد اعظم کی حیات و خدمات کے نہ صرف متعدد گوشے اجاگر ہوئے ہیں بلکہ ان کی تشریح کی مزید گنجایش پیدا ہوگئی ہے۔
قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے بارے میں بہ اعتبار مقدار سب سے زیادہ دستاویزات آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، قائد اعظم پیپرز اور شمس الحسن کلیکشن میں موجود ہیں۔ ٹرانسفر آف پاور پیپرز اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن پیپرز میں بھی اس ضمن میں اہم دستاویزات شامل ہیں، لیکن ان دستاویزات میں سرکاری نقطۂ نظر موجود ہے، جب کہ مذکورہ بالا ذخائر متعلقہ فریق کے نقطۂ نظر کے آئینہ دار ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ سے جماعتی سرگرمیوں کا پتا چلتا ہے جبکہ شمس الحسن کلیکشن اور قائد اعظم پیپرز میں موجود خطوط، دستاویزات اور بعض اہم کاغذات سے قائد اعظم کی نجی، عوامی اور سیاسی زندگی سے متعلق معلومات سامنے آتی ہیں۔
جو قومیں اپنی تاریخی دستاویزات اور کاغذات کی مناسب اور صحیح انداز میں نگہ داشت اور حفاظت کرتی ہیں، ان کا تاریخی پس منظر کبھی ماند نہیں پڑتا۔ آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، قائد اعظم پیپرز اور شمس الحسن کلیکشن ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔ ہماری قومی جدوجہد کا آئینہ ہیں۔ ہماری قومی شناخت ہیں اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت ہماری قومی ذمے داری ہے۔
قائد اعظم پیپرز کے نام سے قائد اعظم کی ذاتی دستاویزات و کاغذات پر مشتمل جو ذخیرہ معروف ہے، وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد سے ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی تحویل میں تھا اور جولائی 1967 میں محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد ان کی ذاتی رہایش گاہ موہٹہ پیلس سے برآمد ہوا۔ اس ذخیرے میں تقریباً ایک لاکھ سے زاید کاغذات شامل ہیں، جو قائد اعظم کے زمانۂ طالب علمی سے لے کر ان کے انتقال تک کے عرصے سے متعلق معلومات پر مشتمل ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے تقریباً تین سال بعد وزارت تعلیم نے قائداعظم پیپرز سیل قائم کیا جس کے تحت ایک مشاورتی کمیٹی کی نگرانی میں ان کاغذات و دستاویزات کی ترتیب اور موضوعاتی درجہ بندی کا کام شروع کیا گیا۔ مشاورتی کمیٹی میں وفاقی سیکریٹریز اور مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے علاوہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر شیخ محمد اکرام اور سید شریف الدین پیرزادہ بھی شامل تھے۔ قائداعظم پیپرز سیل پہلے وزارت تعلیم کی نگرانی میں کام کرتا رہا، بعد میں وزارت ثقافت کی نگرانی میں آگیا اور دستاویزات کا یہ ذخیرہ اب ڈپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز اسلام آباد میں موجود ہے۔
قائداعظم سے متعلق ان خطوط، دستاویزات اور کاغذات کی ترتیب ، موضوعاتی درجہ بندی، شناخت اور تدوین ایک دشوار ترین کام تھا، جسے قائداعظم پیپرز سیل نے بحسن و خوبی انجام دیا اور اب تک تقریباً 136 عنوانات کے تحت ان کاغذات و دستاویزات کی موضوعاتی ترتیب مکمل ہوچکی ہے۔ مزید برآں، ان تمام کاغذات و دستاویزات کی نہ صرف مائیکرو فلم بن چکی ہے بلکہ ان کی توضیحی فہرستیں بھی کتابی صورت میں شایع کی جاچکی ہیں۔ ان فہرستوں کی تعداد پانچ ہے اور یہ مجموعی طور پر تقریباً 265 صفحات پر مشتمل ہیں۔
ان پیپرز میں کاغذات و دستاویزات کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو سے متعلق کاغذات و دستاویزات موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود مسلم لیگی رہنماؤں، کارکنوں اور غیر مسلم لیڈروں کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے، جس سے اسکالرز نے ابھی تک قابل ذکر استفادہ نہیں کیا ہے۔
قائداعظم کی سیاسی خط و کتابت کے علاوہ ان پیپرز میں قائداعظم کی جائیدادوں، شیئرز کی خرید و فروخت، اخبارات و رسائل کے تراشے، بینک اکاؤنٹس، انشورنس پالیسیوں کے کاغذات، وکالت سے متعلق نوٹس اور کاغذات، دعوت نامے، تہنیت نامے، سیرو سیاحت اور بیرون ملک سفر سے متعلق کاغذات، ڈائریاں، نوٹ بُکیں اور فوٹو گراف وغیرہ کی کثیر تعداد موجود ہے۔ ان کاغذات کے مطالعے سے جہاں قائداعظم کے روز و شب کی مصروفیتوں پر روشنی پڑتی ہے، وہاں ان کے مزاج، عادات و اطوار اور مختلف ادوار میں ان کی خرید و فروخت میں پسند و نا پسند کا بھی پتا چلتا ہے۔
قائداعظم پیپرز کی موضوعاتی ترتیب و تعین کے بعد ان کی مرحلہ وار اشاعت ایک اہم ترین کام تھا۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے نیشنل آرکائیوز آف پاکستان کی عمارت میں قائداعظم پیپرز پروجیکٹ کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا، جس کا نگراں بین الاقوامی طور پر معروف محقق اور تاریخ داں ڈاکٹرز وار حسین زیدی کو مقرر کیا گیا۔ ڈاکٹر زیدی نہ صرف جنوبی ایشیا کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں، بلکہ اس خطہ میں موجود بیش تر دستاویزی ریکارڈ سے بھی کماحقہ، واقف ہیں۔ انھوں نے ایک طویل عرصہ تک انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ریکارڈ پر بھی تحقیق کی ہے۔
مزید یہ کہ تحریک پاکستان کے رہنما مرزا ابو الحسن اصفہانی اور قائداعظم محمد علی جناح کے درمیان ہونے والی طویل ترین خط و کتابت کو بھی انھوں نے Ispahani-Jinnah correspondence کے نام سے مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹرز وار حسین زیدی نے قائداعظم پیپرز میں شامل 20 فروری1947 سے 2 جون 1947 تک کی دستاویزات پر کام شروع کیا اور 1993 میں انھوں نے ایک نہایت وقیع اور جامع کتاب Jinnah Papers-Prelude to Pakistan شایع کی۔ یہ کتاب تقریباً دو جلدوں میں پونے دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ سے مراد وہ کاغذات و دستاویزات ہیں، جو آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی میں مرکزی دفتر اور دفتر سے ہونے والی کارروائیوں سے متعلق ہیں۔ یہ ریکارڈ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے بیسویں صدی کے نصف اول میں اسلامیان ہند کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں کی جدوجہد اور ماحصل سے متعلق تفصیلات و معلومات سامنے آتی ہیں۔
قیام پاکستان تک یہ ریکارڈ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی دفتر واقع دہلی میں موجود تھا لیکن قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس ریکارڈ کو بحفاظت کراچی منتقل کیاگیا۔ پاکستان میں 1958 میں مارشل لا کے نفاذ کی بناء پر جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا تو اس ریکارڈ کو پاکستان مسلم لیگ کے آفس سے ایک سرکاری دفتر میں منتقل کردیاگیا۔ اگرچہ اس ریکارڈ کی ابتدا ہی سے مناسب دیکھ بھال اور حفاظت کی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
یہ ایک قومی زیاں تھا جس کا چند ہمدردان قوم اور تاریخ دانوں کو شدت سے احساس تھا۔ لہٰذا، انھوں نے اس وقت کے وزیر خارجہ بیرسٹر منظور قادر سے رابطہ قائم کرکے اس ریکارڈ کو پاکستان سیکریٹریٹ کے ایک محفوظ بلاک میں منتقل کردیا۔ اس ریکارڈ کی حفاظت میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، شیخ محمد اکرم اور ڈاکٹر زوار حسین زیدی نے نہ صرف موثر کردار ادا کیا بلکہ بعد میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی کوششوں سے، جو اس زمانے میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر تھے، یہ ریکارڈ کراچی یونیورسٹی کی لائبریری میں منتقل کردیا گیا۔
یہ ریکارڈ جب جامعہ کراچی پہنچا تو نہایت بوسیدہ حالت میں تھا اس لیے جامعہ کراچی کی لائبریری کی عمارت میں اس ریکارڈ کی حفاظت ، مرمت ، ترتیب اور شناخت کے لیے ایک علیحدہ شعبہ ''آرکائیوز آف فریڈم موومنٹ'' کے نام سے قائم کیاگیا جو گذشتہ پچیس سال سے زاید عرصے تک اس ریکارڈ کی ترتیب و تحفظ کا فریضہ انجام دیتا رہا اور اب یہ ریکارڈ ڈیپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز کو اسلام آباد منتقل کردیاگیا ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے مذکورہ ریکارڈ کی حفاظت کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کے چیئرمین ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور سیکریٹری پروفیسر شریف المجاہد تھے۔ کمیٹی کے ارکان میں ڈاکٹر محمود حسین ، پروفیسر اے بی اے حلیم، ڈاکٹر زوار حسین زیدی، ڈاکٹر ریاض الاسلام اور ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی شامل تھے۔ 123 بوریوں اور 46 صندوقوں میں بھرے ہوئے ریکارڈ کی ترتیب، مرمت ، حفاظت اور نگہ داشت کا کام اس کمیٹی نے شروع کیا۔ خصوصاً گذشتہ دو عشروں کے دوران میں ڈاکٹر ریاض الاسلام، ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی اور عقیل الظفر خان نے اس ریکارڈ کی ترتیب و تحفظ کے سلسلے میں جو خدمات انجام دی ہیں، وہ ناقابل فراموش اور علم دوستی کی نادر مثال ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ریکارڈ میں دستاویزات، خطوط، رپورٹس ، تصاویر، اشتہارات ، اخبارات کے تراشے، کتابچے، پمفلٹ، تقاریر کے مجموعے اور مختلف موضوعات پر کتابوں کی تعداد 5 لاکھ صفحات سے زاید ہے۔ فریڈم موومنٹ آرکائیوز نے 1996 تک ایک لاکھ سے زاید خطوط، دستاویزات اور کاغذات کو چھ سو زاید فائلوں میں مرتب کردیا ہے، جب کہ باقی ماندہ ریکارڈ پر ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی کی نگرانی میں عقیل الظفر خان اور مہتاب جہاں اس وقت تک کام کرتے رہے جب تک کہ یہ شعبہ ڈیپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز اسلام آباد کو منتقل نہیں ہوگیا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس ریکارڈ پر بہت تاخیر سے کام شروع ہوا اور اس کا بیش تر حصہ عدم توجہی کی بناء پر تلف ہوگیا۔
پروفیسر شریف المجاہد نے جو 1976 میں قائداعظم اکادمی کے بانی ڈائریکٹر مقرر ہوئے تھے، 1982 میں آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کی طباعت کا بیڑا اٹھایا۔ ریکارڈ کی طباعت کا خیال دراصل اس لیے آیا کہ 1980 تک آل انڈیا مسلم لیگ سے متعلق شایع ہونے والی کتابوں اور پی ایچ ڈی کے مقالوں میں اس ریکارڈ سے بہت کم استفادہ کیا گیا تھا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے لکھا ہے کہ ''سید شریف الدین پیرزادہ نے آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ سے اپنی کتاب Foundations of ،Pakistan مطبوعہ 1969، میں استفادہ کیا ہے لیکن ان کی بھی رسائی انہی دستاویزات تک ہوسکی جو اس ریکارڈ میں مطبوعہ صورت میں تھیں۔
1979 میں اے ۔ ایم زیدی کی مرتبہ کتاب Evolution of Political Thought in India چھ جلدوں میں دہلی سے شایع ہوئی لیکن اس میں بھی ریکارڈ میں شامل مطبوعہ دستاویزات ہی کو شامل کیاگیا جو قبل ازیں سید شریف الدین پیرزادہ کی مذکورہ بالا کتاب میں شایع ہوچکی تھیں۔ 1979 ہی میں بی این پانڈ کی مرتبہ کتاب The Indian Nationalist Movment لندن سے شایع ہوئی اور وہ بھی کوئی غیر مطبوعہ خط یا دستاویز اپنی کتاب میں شامل کرنے میں ناکام رہے۔ 1980 میں میرٹھ سے سات جلدوں پر مشتمل کتاب The Indian Muslim-A Documentation Record of Muslim Struggle for Independence شایع ہوئی۔ اس میں بھی آل انڈیا مسلم لیگ سے متعلق کوئی غیر مطبوعہ دستاویز شامل نہیں تھی اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ریکارڈ بہ آسانی دست یاب نہیں تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کے طباعتی منصوبے کے آغاز پر قائداعظم اکاڈمی کے عملے پر مشتمل ایک ریسرچ ٹیم نے، جس میں خواجہ رضی حیدر، مفتی رفیع الدین اور مہر السلام صدیقی شامل تھے۔ پروفیسر شریف المجاہد کی نگرانی میں اس ریکارڈ میں شامل خطی دستاویزات کی شناخت، تعین اور مطالعے پر کام شروع کیا۔ ان دستاویزات میں زیادہ ترخطوط، اجلاسوں کی کارروائیاں اور قراردادیں شامل تھیں۔ ریسرچ ٹیم نے اس ریکارڈ کی فوٹو کاپی کرکے دستاویزات کو اس مرحلہ تک پہنچایا، جہاں ان کی باقاعدہ تدوین کا کام شروع ہوسکے۔ اس ریکارڈ کی طباعت چوں کہ کئی جلدوں پر مشتمل ہوگی، اس لیے پہلی جلد کو 1900 سے 1908 تک کی دستاویزات تک محدود کردیاگیا، جو 1990 میں کتابی صورت میں شایع ہوگئی۔
پروفیسر شریف المجاہد نے اس جلد میں ریکارڈ میں شامل تمام بنیادی، ذیلی اور الحاقی دستاویزات شامل کردی ہیں، جب کہ بعض دستاویزات کو وقیع اور خود وضاحتی بنانے کے لیے ضمیمہ جات میں ایسی دستاویزات بھی شامل کردی گئی ہیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ میں موجود نہیں تھیں۔ شریف المجاہد کی تصنیف کردہ اس کتاب کا نام Muslim League Documents ہے۔ اگرچہ اس کتاب کی اب تک پہلی جلد ہی شائع ہوئی ہے، لیکن باور کیا جاتا ہے کہ اپنی تکمیل پر مسلم ہندوستان کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں یہ ایک اہم بنیادی کتاب ثابت ہوگی۔
شمس الحسن کلیکشن میں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری سید شمس الحسن کے نام سے منسوب ہے، قائداعظم محمد علی جناح کے تقریباً دس ہزار ذاتی کاغذات اور دستاویزات موجود ہیں۔ اس ذخیرے کو بھی بہ اعتبار موضوع تقریباً نوے جلدوں میں تقسیم کردیاگیا ہے۔ اس ذخیرے سے بھی اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے استفادہ کیا ہے، جب کہ خود سید شمس الحسن نے اس ذخیرے سے قائداعظم کی نجی زندگی اور تنظیمی جدوجہد کے بارے میں کچھ دستاویزات منتخب کرکے1976 میں ایک کتاب Plain Mr. Jinnah مرتب کی تھی۔
سید شمس الحسن چوں کہ تحریک پاکستان کے عینی شاہد تھے، اس لیے انھوں نے کتاب میں شامل دستاویزات کی وضاحت اور صراحت میں نوٹس بھی تحریر کیے ہیں، جو بہرحال تحریک پاکستان اور قائداعظم کے بارے میں کچھ جاننے کے خواہش مند افراد کے لیے معلومات افزا ہیں۔
شمس الحسن کلیکشن، قائداعظم پیپرز اور آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کے علاوہ قائداعظم اور تحریک پاکستان سے متعلق غیر مطبوعہ خطوط کی ایک بڑی تعداد پاکستان، بھارت، برطانیہ اور سری لنکا وغیرہ میں بھی انفرادی طور پر مختلف لوگوں کے پاس موجود ہے۔ ان خطوط و کاغذات کی بازیافت کے لیے ڈیپارٹمنٹ آف آرکائیوز برابر کوشش کررہا ہے اور اسے بڑی حد تک کام یابی بھی ہوئی ہے۔
دراصل یہ کاغذات اور دستاویزات ہمارا قومی سرمایہ ہیں، ہماری جدوجہد کا تاریخی ریکارڈ ہیں۔ ان سے نہ صرف قائداعظم محمد علی جناح کی حیات و خدمات کے پنہاں گوشوں پر روشنی پڑتی ہے بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لیے جدوجہد کے بھی بیش تر تشنہ و مخفی پہلو واضح اور اجاگر ہوتے ہیں۔ ان کاغذات اور دستاویزات کی حفاظت کرنا اور ان کے مندرجات سے واقفیت حاصل کرنا ہمارے قومی فرائض میں شامل ہے۔
پاکستان کا مقدمہ اور بیرسٹر محمد علی جناح
آزادی انسان کا بنیادی حق بھی ہے اور فطری ضرورت بھی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے عظیم قائد کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف ایک غلام قوم کو غاصب انگریزوں سے آزادی دِلائی بلکہ ان کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ملک بھی قائم کرکے دِکھایا لیکن اس کٹھن اور مشکل کام کے لیے انہیں کتنی محنت اور کوشش کرنی پڑی، یہ ایک طویل داستان ہے، ہم یہاں اس عظیم قائد اور نجات دہندہ کی صرف چند خوبیوں کا تذکرہ کریں گے، جن کی وجہ سے ایک ناممکن کام ممکن ہوسکا اور دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت وجود میں آسکی۔
قائد اعظمؒ ایک بااصول انسان اور سچے کھرے، مخلص اور بے باک سیاست دان تھے، انہیں اپنے دین سے عقیدت، تاریخ سے واقفیت اور قوم سے محبت تھی، وہ ہرقسم کی حرص و ہوس اور ذاتی غرض اور مفاد سے پاک تھے، وہ ہر بات کہنے سے پہلے اس پر خوب اچھی طرح غور و فکر کرتے پھر کہیں بولتے اور جو بات کہتے پھر اس پر اٹل رہتے۔ پاکستان کے مخالفوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، ہزار مشکلات اور رُکاوٹیں پیدا کیں لیکن قائدِ اعظمؒ کی بلند ہمت اور عظیم شخصیت کے آگے ان کی ایک نہ چل سکی اور آخرکار پاکستان بن کر رہا۔
قائدِ اعظم نے جب آنکھیں کھولیں تو پورے براعظم ایشیا میں دُور دُور تک آزادی کی کرن نظر نہیں آتی تھی، سارا خطہ غلامی کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ برصغیر میں چالاک ہندو بنیے نے اسی وقت انگریزوں سے یاری کرلی تھی جب انگریز مسلمانوں سے حکومت چھین کر اس ملک پر قابض ہوئے تھے۔ خود مسلمانوں نے بھی انگریز غاصبوں کو دِل سے کبھی اپنا حاکم اور آقا تسلیم نہیں کیا تھا، اس لیے انگریز مسلمانوں سے مخاصمت اور دشمنی رکھتے تھے اور ہندوؤں کو نوازتے اور مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھے ہوئے تھے۔
سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے قدیم علاقے کھارادر میں رہنے والے ایک تاجر جناح پونجا بھائی کے ہاں، ان کی رہایش گاہ، وزیر مینشن میں ایک ایسے بچے نے جنم لیا جس نے آگے چل کر اپنے ساتھ باپ کے نام کو بھی تاریخ کا حصّہ بنادیا۔پونجا بھائی کو تو ان کے معاشی حالات نے پڑھنے لکھنے نہیں دیا تھا، لیکن وہ اپنے بیٹے کو تعلیم سے محروم نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے محمد علی کو پہلے عام سے مشنری اسکول سی ایم اے اور پھر مسلمانوں کی واحد درس گاہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرادیا۔ ان دنوں سندھ، بمبئی کے زیرِ انتظام تھا۔
میٹرک کے امتحان بھی بمبئی بورڈ کے تحت ہوتے تھے۔ چناں چہ میٹرک میں کام یابی کے بعد پونجا بھائی نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیج دیا، جہاں اس ہونہار طالب علم نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر بن کر واپس ہوئے۔ اس وقت مسلمان ٹکڑوں میں بٹے ہوئے تھے، بکھری ہوئی حالت میں تھے، انہیں ایک جگہ اور ایک جھنڈے تلے جمع کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی۔ لیکن جو ایک مشکل کام تھا۔ اس کے لیے ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو مسلمانوں کے نزدیک اپنے قول و عمل میں سچا، کھرا، نہ بکنے والا اور نہ جُھکنے والا ہو۔ جب مسلمانوں نے خود کو ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہونے کا دعویٰ کیا اور ان کا ارادہ یہ ہوچلا کہ وہ اپنے لیے ایک الگ وطن بنائیں گے، تو اس دعوے کے ثابت کرنے اور اس مقدمے کو لڑنے اور جیتنے کے لیے انہیں ایک قابل اور جرأت مند وکیل کی ضرورت محسوس ہوئی۔
ایک الگ وطن کا قیام کوئی آسان کام نہیں تھا۔ کیوں کہ اس کی راہ میں ہندو اور انگریز دونوں ایک بڑی رُکاوٹ تھے۔ خصوصاً ہندو تو کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک الگ وطن قائم ہو، لہٰذا اس کا کہنا یہ تھا کہ انگریز حکمران مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہرگز تسلیم نہ کریں بلکہ ہندوستان کو آزاد کرکے اپنے ملک برطانیہ لوٹ جائیں۔ مسلمان ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہونے کے دعوے دار تھے اور اپنے لیے ایک الگ وطن بنانے کی تحریک چلا چکے تھے۔
گویا یہ ایک مقدمہ تھا جو برطانوی حکمرانوں کی عدالت میں اس وقت پیش تھا اور ممکن تھا کہ اگر ذرا بھی کمزوری دِکھائی جاتی تو انگریز ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دے دیتا یعنی ہندوستان کو آزادی دے کر یہاں سے چلا جاتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے اس مقدمے کو لڑنے کے لیے کیا یوں ہی بغیر سوچے سمجھے ہاں کردی تھی؟ محمد علی جناح جیسے بااصول شخص کے لیے یہ ممکن ہی نہ تھا۔ لہٰذا دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے اس مقدمے کو لڑنے کے لیے کیا اور کیسے تیاری کی؟
تو سب سے پہلے انہوں نے اپنی قوم کی تاریخ کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ اسلام سے قبل، ایک عرب کی سرزمین ہی نہیں بلکہ دُنیا میں ہر طرف ناانصافی، ظلم اور اندھیر کا دور دورہ تھا۔ قدرت کو اپنی مخلوق پر ترس آگیا۔ اس نے اپنے بندوں پر رحم کیا اور عرب کے شہر مکہ میں اپنے آخری پیغمبر ؐ کو مبعوث فرمایا، جس کے پیغامِ حق نے تمام جھوٹے خداؤں کی دُنیا اُجاڑ دی، ظلم کا راج ختم ہوا اور مظلوموں نے سُکھ کا سانس لیا۔ پھر اسلام کی یہ روشنی عرب سے نکل کر عجم اور دوسرے خطوں میں دُور دُور تک پھیلی۔ پھر ہندوستان میں بھی اس کا اجالا چاروں سمتوں پر محیط ہو گیا، اور رفتہ رفتہ پورا برصغیر ان کے زیر اقتدار آگیا۔ ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کی بے مثال رواداری کی داستانیں آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔
شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں کی باہمی لڑائیوں نے حکومت کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے اس کی مرکزیت کو کم زور کردیا۔ ہندوستان مختلف حصّوں میں تقسیم ہوگیا۔ انگریز عیّار جو تاجروں کے بھیس میں ہندوستان آئے تھے، بے نقاب ہوگئے۔ انہوں نے مسلمانوں کی کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ کچھ غیور مجاہدوں نے ان کا راستہ روکنے کی کوششیں کیں لیکن اپنوں کی غداری نے ایک طرف نواب سراج الدولہ کو شہید کرادیا، دوسری جانب انگریزوں کے راستے کا آخری پتھر سلطان ٹیپو بھی ان کی سازشوں کا شکار ہوگئے۔ اب انگریز کو کون روک سکتا تھا کہ انہوں نے ٹیپوؒ کی شہادت پر ہی تو پُرجوش نعرہ لگایا تھا کہ ''ہندوستان اب ہمارا ہے۔''
یہی ہوا کہ کچھ ہی مدت بعد آخر اسلامی اقتدار کی آخری علامت دہلی پر بھی ان کا قبضہ ہوگیا۔ مسلمانوں نے آخری معرکہ لڑا مگر ناکام ہوئے اور 1857 کی جنگ آزادی شکست سے دوچار ہوئی۔ آخری مسلمان بادشاہ بہادر شاہ ظفر گھیر لیے گئے۔ ظالم انگریزوں نے شہزادوں کو دھوکے سے قتل کیا اور بادشاہ کو گرفتار کرکے رنگون لے گئے، جہاں آسمان نے حیرت سے یہ منظر دیکھا ہوگا کہ غاصب قوم نے غصب شدہ حکومت کے والی پر اُلٹا بغاوت کا مقدمہ چلایا۔
محمد علی جناح کو اتنا تو پختہ یقین اور اعتبار پہلے بھی تھا کہ مسلمانوں کا مقدمہ طاقت و توانائی رکھتا ہے، اور ان کا یہ دعویٰ بھی دُرست ہے کہ وہ ہندوؤں سے ایک الگ اور جُدا قوم ہیں، البتہ قانون اور عدلیہ محض دعووں کو تسلیم نہیں کرتی، اسے ثبوت اور دلائل درکار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایک قابل اور ہوشیار وکیل کی حیثیت سے محمد علی جناح بیرسٹر نے پاکستان کا مقدمہ لڑنے سے پہلے وہ دلائل اور ثبوت جمع کیے جو اس مقدمے کے لیے ضروری تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کے اس دین و عقیدے کا مطالعہ کیا جس سے وہ خود بھی اس وقت تک بے بہرہ تھے۔ پھر پیغمبرِ اسلامؐ کی حیاتِ مبارکہ کا جائزہ لیا جس سے انہیں پوری طرح آگاہی نہیں تھی اور پھر جب وہ ان علوم کی سیر کرکے لوٹے تو جناح سے قائدِ اعظم بن چکے تھے۔
انہیں حیرت بھی تھی اور افسوس بھی کہ جس قوم کے پاس ایسا مکمل ضابطۂ حیات اور اتنے عظیم الشان پیغمبر کی بے مثال زندگی کا نمونہ موجود ہو اور جو ایک شان دار ماضی اور عظیم تاریخی ورثہ رکھتی ہو، وہ غلامی کی ذلت میں کیوں کر پڑی ہے! اس کا جواب بہت آسان تھا، جو انہیں ان کے اندر سے ہی مل گیا۔ اس ذلّت و خواری کا سبب یہی ہے کہ مسلمانوں نے اس دولت ہی کو گنوا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ دُنیا میں سرخ رو ہوئے تھے اور اب خود ہی کھوٹے سکّے کی طرح اس دُنیا میں بے وقعت ہو کر رہ گئے تھے۔
لیکن قائد نے اس گم شدہ خزانے کا سراغ لگا لیا تھا۔ انگریزوں کے چند پٹھوؤں کے سوا، اکثر مسلمانوں نے انگریزی حکومت کو دِل سے کبھی قبول نہیں کیا تھا اور خلافت کمیٹی جیسی تحریکوں کے ذریعے اپنی ناراضگی، ناپسندیدگی اور ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے رہے تھے۔ مسلمان بیدار ہوچکے تھے، مسلم لیگ کے جھنڈے تلے، قائد اعظمؒ کی قیادت میں اتفاق و اتحاد کا بے مثال مظاہرہ کررہے تھے۔ اب ان کی زبانوں پر آزادی کا نعرہ ہی نہیں، اپنے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ بھی تھا۔
مسلمانوں کا عظیم قائد اپنے حریفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان کا مقدمہ لڑ رہا تھا، مسلمانوں کو ایک الگ اور منفرد قوم ثابت کرنے کے لیے اب اس کے پاس دلائل اور ثبوت کی کمی نہیں تھی۔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور اﷲ کے رسولؐ کی مبارک زندگی اس کے سامنے تھی، مطالبۂ پاکستان کے حق میں ان کا یہی ایک تاریخی جملہ کافی تھا:''پاکستان تو اس وقت ہی معرض وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔''
لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کی ناقابلِ تردید اور جرأت مندانہ بات کون کہہ سکتا ہے؟ یہ اسی لیڈر کا شیوہ ہوسکتا ہے جو اپنے دین و عقیدے سے آگاہ اپنے پیغمبرؐ کی زندگی سے واقف اور اپنی تاریخ کا مطالعہ رکھتا ہو، ورنہ تو:
قائد بھی ہر اک قائد اعظم نہیں ہوتا
قائداعظم ... اول تا آخر
کھارا در کراچی میں نیو نہام روڈ چھاگلا اسٹریٹ کے رہایشی جناح پونجا کے گھر میں 25 دسمبر 1876 کو پیدا ہونے والے بچے کا نام محمد علی رکھا گیا۔ اس وقت دور دور تک کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ بچہ آگے چل کر ایک نئی مملکت کا بانی ہوگا اور وہ بھی اسلامی سلطنت کا بانی، جو بقیہ اسلامی ممالک کے لیے فخر کی علامت بن جائے گا۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح، جو اپنے والد جناح پونجا کی نسبت سے محمدعلی جناح کہلاتے تھے، اپنے ابتدائی دنوں میں صحت کے حوالے سے اور تعلیمی سرگرمیوں کے پس منظر میں ایسا رجحان نہیں رکھتے تھے کہ جس کی وجہ سے ان کے بارے میں کوئی غیر معمولی پیش گوئی کی جاسکتی۔
قائداعظم محمد علی جناح 9 سال کی عمر میں کراچی کے ایک پرائمری اسکول میں گجراتی کی چوتھی جماعت میں داخل ہوئے۔ 10 سال کی عمر میں انھیں گھڑ سواری کا شوق ہوا اور انھوں نے اس میں مہارت حاصل کی۔ گجراتی کی چار جماعتیں پاس کرنے کے بعد ان کا داخلہ انگریزی کی پہلی جماعت میں ہوا۔ 4 جولائی 1887 کو سندھ مدرسۃ الاسلام اسکول میں اسٹینڈرڈ ون میں ان کا داخلہ کرایا گیا لیکن پھر ان کے والد نے ان کو بمبئی میں ان کے ماموں قاسم موسیٰ کے پاس بھیج دیا، جہاں انجمن ہائی اسکول میں ان کا داخلہ کرایا گیا۔ لیکن ان کی والدہ ان کی جدائی برداشت نہ کرسکیں اور یوں 23 دسمبر 1887 کو انہیں واپس بلا کر سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخلہ کرادیا گیا۔
والد کی کاروباری اور مالی پریشانیوں اور طویل غیر حاضری کی وجہ سے جنوری 1891 کو قائداعظم کا نام اسکول سے خارج کردیا گیا، تاہم 9 فروری 1891 کو انہوں نے پھر اسی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ محمد علی جناح اسٹینڈرڈ V میں زیر تعلیم تھے کہ ان کے والد کے ایک انگریز دوست نے انھیں لندن میں اپنی فرم کے صدر دفتر میں تین سال کے لیے اپرینٹنس کی حیثیت سے کام کرنے کی آفر کی اور انھوں نے یہ آفر قبول کرلی۔ ان کی برطانیہ روانگی سے قبل ہی ان کی والدہ شیریں بی بی عرف مٹھی بائی نے ان کی شادی اپنے ایک عزیز میرا کھیر جی کی 14 سالہ بیٹی ایمی بائی سے کردی تھی۔ یوں 30 جنوری 1892 کو سندھ مدرسۃ الاسلام چھوڑ کر وہ لندن روانہ ہوگئے۔
وہ گئے تو کاروباری معاملات کی ٹریننگ کے لیے تھے لیکن یہ کام انھیں پسند نہ آیا۔ چناںچہ انھوں نے اپنے مزاج کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے قانون کی تعلیم کے لیے لنکزان (LINCONS INN) میں داخلہ لے لیا۔ اب قائد اعظم اپنا زیادہ وقت پڑھائی میں صرف کرنے لگے اور بھرپور محنت کے بل بوتے پر انھوں نے اپنے امتحانات دو سال میں پاس کرلیے۔ اس طرح تقریباً 19 برس میں بیرسٹر کہلانے والے وہ سب سے کم عمر ہندوستانی تھے۔ 1896 میں 20 سال کی عمر میں وہ بیرسٹر بن کر واپس لوٹے تو ان کا خاندانی کاروبار شکست و ریخت کا شکار ہوچکا تھا۔ انھوں نے سب سے پہلے تو ان قرضوں کو چُکایا جو ان کے خاندان پر چڑھ چکے تھے۔
یہ ایک سخت دور تھا جسے قائداعظم نے اپنی جواں ہمتی، بھرپور حوصلے اور بھرپور اعصابی قوت ارادی کے ساتھ برداشت کیا۔ بمبئی ہائی کورٹ میں ان کا نام درج تھا، تاہم ان کی عمر اور ناتجربہ کاری کو دیکھتے ہوئے بہت کم کیس انھیں مل پائے۔ انہی دنوں وہ ایک دوست کے توسط سے بمبئی کے قائم مقام ایڈووکیٹ جنرل جان میکفرسن سے متعارف ہوئے اور ان کے ساتھ کام شروع کردیا۔ چند مقدمات کے بعد سرکاری نوکری کا شوق انھیں عارضی پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے عہدے تک لے گیا۔ اس کے لیے میکفرسن نے محکمۂ انصاف کے رکن سرچارلس آلیونٹ کے پاس بھیجا تھا۔ چھ ماہ کے بعد ہی انھوں نے یہ عہدہ چھوڑ کر اپنا ذاتی دفتر کھول کر پریکٹس شروع کردی۔
قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی پانچ ادوار میں منقسم ہے۔ بیس سالہ پہلا دور 1876 سے1896 تک، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ دس سال کا دوسرا دور 1896 سے لے کر 1906 تک، جب انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے اپنی وکالت کا لوہا منوایا اور ان کی شہرت دور دور تک پہنچی۔ پھر دس سالہ تیسرا دور 1906 سے1916 تک، جب وہ زیادہ تر کانگریس سے وابستہ رہے۔ 20 سال پر محیط چوتھا دور 1916 سے 1936 تک، جب وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششیں کرتے رہے۔
تقریباً گیارہ سالہ پانچواں دور 1937 سے لے کر 1948 تک، جب انھوں نے وکالت چھوڑ کر تمام تر توجہ مسلمانان ہند کی قومی تنظیم اور پاکستان کے حصول و قیام کی جدوجہد پر صرف کیے۔ 15 اگست 1947 کو قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے اور اس کے تقریباً ایک سال بعد 71 سال 8 ماہ اور 18 دن کی عمر پاکر 11 ستمبر1948 کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ قائداعظم کی زندگی ہمیشہ کسی نہ کسی نصب العین کے حصول کے لیے مصروف کار رہی۔
قائداعظم نے چالیس برس (1896 سے1936 تک) وکالت کی اور ایسی شہرت اور نام وری پائی کہ پورے ہندوستان میں کسی نے اس وقت تک حاصل نہیں کی تھی۔ 1936-37 میں انھیں اندازہ ہونے لگا کہ ان کی قوم انتہائی خطرات میں گھرتی جارہی ہے۔ 21 جون 1937 کو علامہ اقبال نے ان سے کہا کہ ''ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے رہنمائی کی امید رکھے۔'' جناح اس سے تقریباً چار سال قبل جب مسلمان لیڈروں نے انھیں لندن میں تار ارسال کیا تھا، قوم کے اس حق اور اپنے فرض کا بخوبی اندازہ کرچکے تھے۔
1934 سے وہ مسلم لیگ کے مستقل صدر مقرر ہوئے۔ انھوں نے لوگوں اور خاص کر لیڈروں کی سوچ کو ان کے اصل وجود کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر کرنے کے لیے انتہائی جدوجہد کی۔ لیڈروں کی جاہ پرستی اور قوم کی غفلت اس قدر حوصلہ شکن تھی کہ قائداعظم کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کار دشوار کو ناممکن سمجھ کر اس سے ہاتھ کھینچ لیتا، مگر انھوں نے ان تمام مشکلات کا پوری دلیری ، عقل مندی اور ہوشیاری سے مقابلہ کیا اور 1939 میں آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مسلم لیگ کا ایک انتخابی بورڈ قائم کرکے زور و شور سے ہر صوبے میں انتخابی مہم کا آغاز کردیا۔
1937 میں کانگریس کے لیڈروں سے ہونے والی گفت و شنید لاحاصل اور بے نتیجہ رہی۔ کانگریس نے چھ سات صوبوں میں اکثریت حاصل کرکے وہاں اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ قائداعظم نے ملک بھر کے مسلمانوں کو لکھنؤ میں مسلم لیگ کے 25ویں سالانہ اجلاس منعقدہ اکتوبر 1937 میں جمع ہونے اور ہندو استبداد کے خطرے سے آگاہ کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔ یہ اجلاس دور رس نتائج کا حامل تھا۔ اس کے بعد قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے قوم کو پاکستان حاصل کرنے کی راہ پر لگادیا۔
ان کی گرجتی آواز نے ملت کے رگ و پے میں ایک برقی رو دوڑا دی اور یوں مسلم لیگ صحیح معنوں میں مسلمانوں کی ایک عوامی تحریک بن کر ابھری۔چٹان کی طرح حوصلہ رکھنے والے جناح بہرحال انسان بھی تھے اور اسی ناتے وہ زندگی کے ہر لمحوں کو محسوس کرتے تھے۔ ہاں، ان کے چہرے سے ان کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگانا کبھی بھی اور کسی کے لیے بھی آسان نہیں رہا۔ غالباً وہ اپنی زندگی میں دوبار جذباتی پن کا شکار ہوئے، ایک اس وقت جب وہ بسلسلہ تعلیم برطانیہ میں مقیم تھے اور ان کی والدہ انتقال کرگئیں اور اس صدمے پر وہ پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح روئے۔
دوسرا اس وقت جب وہ تن بائی کے حسن کے اسیر ہوئے رتن بائی بمبئی کے ایک معروف امیر پارسی تاجر سرڈنشا پیٹٹ کی صاحب زادی تھیں۔ سرڈنشا قائد کے دوستوں میں سے تھے اور اکثر قائداعظم ان کی نفیس و باوقار کوٹھی میں جاکر رات کا کھانا کھاتے اور گپ شپ کرتے تھے۔ یہ ان کی تھکن دور کرنے کا ایک ذریعہ بھی ثابت ہوا کرتا تھا۔ 41 سال کی عمر میں انھیں 17 سالہ رتن بائی بھاگئیں اور انھوں نے شادی کے لیے آفر کردی۔ اس شادی کے لیے سر ڈنشا پیٹٹ قطعی راضی نہ تھے مگر ان کی ناراضگی کے باوجود شادی ہوگئی۔ تاہم اس کے لیے قائداعظم کو ایک سال تک انتظار کرنا پڑا۔
رتن بائی 18 سال کی عمر میں بالغ ہونے کے بعد قانونی طریقے سے شادی کرنے کی اہل ہوئیں تو انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کا اسلامی نام مریم تجویز کیا گیا۔ 15 اگست 1919 کو ان کی اکلوتی اولاد دیناجناح کی پیدایش ہوئی۔ اس بچی کی عمر ساڑھے نو سال تھی کہ اس کی والدہ انتقال کرگئیں۔ جنوری1928 میں کلکتہ مسلم لیگ کے اجلاس سے واپسی پر رتی اور جناح میں علیحدگی ہوچکی تھی۔ کانجی دوار کاؤس لکھتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ مزاج اور عمر کا فرق بھی ہے جناح کا مزاج ایسا تھا کہ کوئی بھی شخص خواہ ان سے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو، ان کے ذاتی معاملات میں دخل نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے آج تک دونوں کی علیحدگی کے اصل اسباب کا پتہ نہیں چل سکا۔''
8 مارچ 1944 کو علی گڑھ یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے یہ تاریخی جملے ادا کیے:
''پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا، جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے، وطن نہیں، نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم نہیں رہا، وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا اور ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔''
سروجنی نائیڈو نے ایک آئرش عورت کی پیش گوئی دہراتے ہوئے کہا تھا کہ '' ہاں، مجھے معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ آدمی اپنے لیے مملکت پیدا کرے گا۔'' پاکستان کا وجود اسی پیش گوئی کا ایک حصہ ہے۔ یہ وہ عمل تھا، جس کے عمل پذیر ہونے کے بعد ہندوستان ٹائمز دہلی نے اپنے اداریے میں لکھا تھا ''تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کے عزم مصمم کے سامنے حقائق مٹ گئے اور ایک خواب حقیقت کی شکل میں مجسم ہوکر سامنے آگیا۔ انھوں نے اپنے زمانے کی عظیم ترین شخصیت کو للکارا اور بازی جیت لی۔
مسٹر جناح کے سیاسی مخالفین یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ اپنے ارادے کے پکے اور پرخلوص نیت کے مالک تھے۔ ممکن ہے، لوگ انھیں فرقہ پرستی کا طعنہ دیں لیکن تاریخ انھیں ہرگز فراموش نہیں کرسکتی کیوں کہ انھوں نے تاریخ بنائی ہے۔'' اچھوت لیڈر مسٹر ایم سی راجا نے کہا تھا کہ ''میں مسٹر جناح کی تکریم و توقیر کرتا ہوں اور ان کے لیے شکر گزاری محسوس کرتا ہوں، کیوںکہ جب وہ مسلمانوں کے مقاصد کی ترجمانی کرتے ہیں تو گویا وہ ان تمام طبقات کے مطالبات کی ترجمانی کرتے ہیں جنھیں ہندو اکثریت کے اسٹیم رولر تلے پسنے کا خطرہ ہو۔''
زندگی کے آخری دنوں میں قائد اعظم کی صحت اچھی نہیں رہی۔ ان کی ہر دل عزیز بہن محترمہ فاطمہ جناح نے جو مسلسل ان کے ساتھ ساتھ تھیں، محبت سے جب یہ کہا کہ وہ اتنا زیادہ کام نہ کریں تو قائداعظم نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیا تم نے کبھی یہ سنا ہے کہ کوئی جنرل عین اس وقت چھٹی پر چلا گیا ہو جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہو۔''
اپریل 1940 میں پشاور کی ایک جلسہ گاہ میں قائداعظم بارش میں بھیگنے سے کھانسی بخار میں مبتلا ہوگئے۔ وہ کراچی سے کوئٹہ آرام کرنے آگئے۔ یکم جولائی 1948 کو کراچی میں اسٹیٹ بینک کی تعارفی تقریب میں ہر شخص نے محسوس کیا کہ ان کی صحت خراب ہوچکی ہے۔ ان کو بولنے میں بھی دقت پیش آرہی تھی۔ 24 جولائی 1948 کو کرنل الٰہی بخش نے خون اور تھوک کے نمونے حاصل کیے اور کلینیکل معائنے کے بعد ٹی بی ڈکلیر کیا۔
اس موقع پر قائداعظم نے اپنی بہن سے کہا ''فاطی، تم درست ہی کہا کرتی تھیں۔ مجھے کسی ماہر ڈاکٹر سے بہت پہلے مشورہ کرلینا چاہیے تھا۔ مگر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ آدمی صرف جدوجہد کرسکتا ہے۔ تم جانتی ہو، میرا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ میں کبھی آنکھیں بند کرکے دوسروں کے مشورے قبول نہیں کرتا۔'' یکم ستمبر 1940 کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح سے مایوس لہجے میں کہا، قائد پر ہیمرج کا حملہ ہوا ہے۔ میں پریشان ہوں۔ انھیں کراچی لے جانا چاہیے، کوئٹہ ان کے لیے مناسب نہیں۔ 8 ستمبر1948 کو ڈاکٹروں نے فاطمہ جناح کو آگاہ کیا کہ اب امید کی کوئی کرن باقی نہیں اور اب کوئی معجزہ ہی ان کی زندگی بچاسکتا ہے۔
11 ستمبر کو دن کے دو بجے گورنر جنرل کے طیارے وائی کنگ سے قائداعظم کو بغرض علاج کراچی لایا گیا۔ طیارہ کوئٹہ سے کراچی دو گھنٹے کی پرواز کے بعد شام سوا چار بجے کے قریب کراچی کے ماری پور اڈے پر اترا۔ ایمبولینس تیارکھڑی تھی۔ لیکن جب قائداعظم کو اس پر سوار کرایا گیا تو نہایت آہستگی سے چلتی ہوئی ایمبولینس چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد پیٹرول ختم ہونے کی وجہ سے رک گئی۔ ایک گھنٹے بعد دوسری ایمبولینس آئی تو قائد کو شہر پہنچایا گیا، اور اسی شام ان کا انتقال ہوگیا۔
قائد اعظم اور تحریک پاکستان سے متعلق بیش تردستاویزات اور کاغذات قیام پاکستان کے بعد بہت تاخیر سے منظر عام پر آئے۔ لہٰذا، اس طرح نہ صرف مستند تاریخ نویسی کا عمل متاثر ہوا بلکہ واقعاتی افراط و تفریط کی شکایت عام ہوئی ۔ غیر مستند ماخذ و ذرایع پر مبنی کتابیں اور تفصیلات سامنے آئیں، جو آج بھی استناد سے محروم ہیں۔
ادھر تیس سال کے دوران ہندوستان کی جدوجہد آزادی، تحریک پاکستان اور قائد اعظم سے متعلق تاریخی دستاویزات اور کاغذات کے جو بڑے ذخائر منظر عام پر آئے، ان میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن پیپرز، ٹرانسفر آف پاور والیومز، ویول جرنل، قائد اعظم پیپرز، شمس الحسن کلیکشن، آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، نشتر کلیکشن، سلیکٹیڈ ورکس آف گاندھی، نہرو پیپرز، پٹیل پیپرز، راجندر پرشاد کرسپانڈنس، سپر وپیپرز سلیکٹیڈ ورکس آف ایم این رائے، جناح اصفہانی کرسپانڈنس، سریامین خان کلیکشن ، میاں عبدالعزیز کلیکشن اور سر عبداﷲ ہارون کلیکشن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان ذخائر کے منظر عام پر آنے کے بعد تحریک پاکستان اور قائد اعظم کی حیات و خدمات کے نہ صرف متعدد گوشے اجاگر ہوئے ہیں بلکہ ان کی تشریح کی مزید گنجایش پیدا ہوگئی ہے۔
قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے بارے میں بہ اعتبار مقدار سب سے زیادہ دستاویزات آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، قائد اعظم پیپرز اور شمس الحسن کلیکشن میں موجود ہیں۔ ٹرانسفر آف پاور پیپرز اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن پیپرز میں بھی اس ضمن میں اہم دستاویزات شامل ہیں، لیکن ان دستاویزات میں سرکاری نقطۂ نظر موجود ہے، جب کہ مذکورہ بالا ذخائر متعلقہ فریق کے نقطۂ نظر کے آئینہ دار ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ سے جماعتی سرگرمیوں کا پتا چلتا ہے جبکہ شمس الحسن کلیکشن اور قائد اعظم پیپرز میں موجود خطوط، دستاویزات اور بعض اہم کاغذات سے قائد اعظم کی نجی، عوامی اور سیاسی زندگی سے متعلق معلومات سامنے آتی ہیں۔
جو قومیں اپنی تاریخی دستاویزات اور کاغذات کی مناسب اور صحیح انداز میں نگہ داشت اور حفاظت کرتی ہیں، ان کا تاریخی پس منظر کبھی ماند نہیں پڑتا۔ آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ، قائد اعظم پیپرز اور شمس الحسن کلیکشن ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔ ہماری قومی جدوجہد کا آئینہ ہیں۔ ہماری قومی شناخت ہیں اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت ہماری قومی ذمے داری ہے۔
قائد اعظم پیپرز کے نام سے قائد اعظم کی ذاتی دستاویزات و کاغذات پر مشتمل جو ذخیرہ معروف ہے، وہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال کے بعد سے ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کی تحویل میں تھا اور جولائی 1967 میں محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد ان کی ذاتی رہایش گاہ موہٹہ پیلس سے برآمد ہوا۔ اس ذخیرے میں تقریباً ایک لاکھ سے زاید کاغذات شامل ہیں، جو قائد اعظم کے زمانۂ طالب علمی سے لے کر ان کے انتقال تک کے عرصے سے متعلق معلومات پر مشتمل ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے تقریباً تین سال بعد وزارت تعلیم نے قائداعظم پیپرز سیل قائم کیا جس کے تحت ایک مشاورتی کمیٹی کی نگرانی میں ان کاغذات و دستاویزات کی ترتیب اور موضوعاتی درجہ بندی کا کام شروع کیا گیا۔ مشاورتی کمیٹی میں وفاقی سیکریٹریز اور مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کے علاوہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر شیخ محمد اکرام اور سید شریف الدین پیرزادہ بھی شامل تھے۔ قائداعظم پیپرز سیل پہلے وزارت تعلیم کی نگرانی میں کام کرتا رہا، بعد میں وزارت ثقافت کی نگرانی میں آگیا اور دستاویزات کا یہ ذخیرہ اب ڈپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز اسلام آباد میں موجود ہے۔
قائداعظم سے متعلق ان خطوط، دستاویزات اور کاغذات کی ترتیب ، موضوعاتی درجہ بندی، شناخت اور تدوین ایک دشوار ترین کام تھا، جسے قائداعظم پیپرز سیل نے بحسن و خوبی انجام دیا اور اب تک تقریباً 136 عنوانات کے تحت ان کاغذات و دستاویزات کی موضوعاتی ترتیب مکمل ہوچکی ہے۔ مزید برآں، ان تمام کاغذات و دستاویزات کی نہ صرف مائیکرو فلم بن چکی ہے بلکہ ان کی توضیحی فہرستیں بھی کتابی صورت میں شایع کی جاچکی ہیں۔ ان فہرستوں کی تعداد پانچ ہے اور یہ مجموعی طور پر تقریباً 265 صفحات پر مشتمل ہیں۔
ان پیپرز میں کاغذات و دستاویزات کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو سے متعلق کاغذات و دستاویزات موجود ہیں۔ مگر اس کے باوجود مسلم لیگی رہنماؤں، کارکنوں اور غیر مسلم لیڈروں کے ساتھ ہونے والی خط و کتابت کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے، جس سے اسکالرز نے ابھی تک قابل ذکر استفادہ نہیں کیا ہے۔
قائداعظم کی سیاسی خط و کتابت کے علاوہ ان پیپرز میں قائداعظم کی جائیدادوں، شیئرز کی خرید و فروخت، اخبارات و رسائل کے تراشے، بینک اکاؤنٹس، انشورنس پالیسیوں کے کاغذات، وکالت سے متعلق نوٹس اور کاغذات، دعوت نامے، تہنیت نامے، سیرو سیاحت اور بیرون ملک سفر سے متعلق کاغذات، ڈائریاں، نوٹ بُکیں اور فوٹو گراف وغیرہ کی کثیر تعداد موجود ہے۔ ان کاغذات کے مطالعے سے جہاں قائداعظم کے روز و شب کی مصروفیتوں پر روشنی پڑتی ہے، وہاں ان کے مزاج، عادات و اطوار اور مختلف ادوار میں ان کی خرید و فروخت میں پسند و نا پسند کا بھی پتا چلتا ہے۔
قائداعظم پیپرز کی موضوعاتی ترتیب و تعین کے بعد ان کی مرحلہ وار اشاعت ایک اہم ترین کام تھا۔ اس مقصد کے لیے حکومت نے نیشنل آرکائیوز آف پاکستان کی عمارت میں قائداعظم پیپرز پروجیکٹ کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا، جس کا نگراں بین الاقوامی طور پر معروف محقق اور تاریخ داں ڈاکٹرز وار حسین زیدی کو مقرر کیا گیا۔ ڈاکٹر زیدی نہ صرف جنوبی ایشیا کی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں، بلکہ اس خطہ میں موجود بیش تر دستاویزی ریکارڈ سے بھی کماحقہ، واقف ہیں۔ انھوں نے ایک طویل عرصہ تک انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ریکارڈ پر بھی تحقیق کی ہے۔
مزید یہ کہ تحریک پاکستان کے رہنما مرزا ابو الحسن اصفہانی اور قائداعظم محمد علی جناح کے درمیان ہونے والی طویل ترین خط و کتابت کو بھی انھوں نے Ispahani-Jinnah correspondence کے نام سے مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹرز وار حسین زیدی نے قائداعظم پیپرز میں شامل 20 فروری1947 سے 2 جون 1947 تک کی دستاویزات پر کام شروع کیا اور 1993 میں انھوں نے ایک نہایت وقیع اور جامع کتاب Jinnah Papers-Prelude to Pakistan شایع کی۔ یہ کتاب تقریباً دو جلدوں میں پونے دو ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ سے مراد وہ کاغذات و دستاویزات ہیں، جو آل انڈیا مسلم لیگ کے دہلی میں مرکزی دفتر اور دفتر سے ہونے والی کارروائیوں سے متعلق ہیں۔ یہ ریکارڈ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس سے بیسویں صدی کے نصف اول میں اسلامیان ہند کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی سرگرمیوں کی جدوجہد اور ماحصل سے متعلق تفصیلات و معلومات سامنے آتی ہیں۔
قیام پاکستان تک یہ ریکارڈ آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی دفتر واقع دہلی میں موجود تھا لیکن قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس ریکارڈ کو بحفاظت کراچی منتقل کیاگیا۔ پاکستان میں 1958 میں مارشل لا کے نفاذ کی بناء پر جب ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا تو اس ریکارڈ کو پاکستان مسلم لیگ کے آفس سے ایک سرکاری دفتر میں منتقل کردیاگیا۔ اگرچہ اس ریکارڈ کی ابتدا ہی سے مناسب دیکھ بھال اور حفاظت کی جانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
یہ ایک قومی زیاں تھا جس کا چند ہمدردان قوم اور تاریخ دانوں کو شدت سے احساس تھا۔ لہٰذا، انھوں نے اس وقت کے وزیر خارجہ بیرسٹر منظور قادر سے رابطہ قائم کرکے اس ریکارڈ کو پاکستان سیکریٹریٹ کے ایک محفوظ بلاک میں منتقل کردیا۔ اس ریکارڈ کی حفاظت میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، شیخ محمد اکرم اور ڈاکٹر زوار حسین زیدی نے نہ صرف موثر کردار ادا کیا بلکہ بعد میں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی کوششوں سے، جو اس زمانے میں جامعہ کراچی کے وائس چانسلر تھے، یہ ریکارڈ کراچی یونیورسٹی کی لائبریری میں منتقل کردیا گیا۔
یہ ریکارڈ جب جامعہ کراچی پہنچا تو نہایت بوسیدہ حالت میں تھا اس لیے جامعہ کراچی کی لائبریری کی عمارت میں اس ریکارڈ کی حفاظت ، مرمت ، ترتیب اور شناخت کے لیے ایک علیحدہ شعبہ ''آرکائیوز آف فریڈم موومنٹ'' کے نام سے قائم کیاگیا جو گذشتہ پچیس سال سے زاید عرصے تک اس ریکارڈ کی ترتیب و تحفظ کا فریضہ انجام دیتا رہا اور اب یہ ریکارڈ ڈیپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز کو اسلام آباد منتقل کردیاگیا ہے۔
آل انڈیا مسلم لیگ کے مذکورہ ریکارڈ کی حفاظت کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی جس کے چیئرمین ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی اور سیکریٹری پروفیسر شریف المجاہد تھے۔ کمیٹی کے ارکان میں ڈاکٹر محمود حسین ، پروفیسر اے بی اے حلیم، ڈاکٹر زوار حسین زیدی، ڈاکٹر ریاض الاسلام اور ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی شامل تھے۔ 123 بوریوں اور 46 صندوقوں میں بھرے ہوئے ریکارڈ کی ترتیب، مرمت ، حفاظت اور نگہ داشت کا کام اس کمیٹی نے شروع کیا۔ خصوصاً گذشتہ دو عشروں کے دوران میں ڈاکٹر ریاض الاسلام، ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی اور عقیل الظفر خان نے اس ریکارڈ کی ترتیب و تحفظ کے سلسلے میں جو خدمات انجام دی ہیں، وہ ناقابل فراموش اور علم دوستی کی نادر مثال ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ریکارڈ میں دستاویزات، خطوط، رپورٹس ، تصاویر، اشتہارات ، اخبارات کے تراشے، کتابچے، پمفلٹ، تقاریر کے مجموعے اور مختلف موضوعات پر کتابوں کی تعداد 5 لاکھ صفحات سے زاید ہے۔ فریڈم موومنٹ آرکائیوز نے 1996 تک ایک لاکھ سے زاید خطوط، دستاویزات اور کاغذات کو چھ سو زاید فائلوں میں مرتب کردیا ہے، جب کہ باقی ماندہ ریکارڈ پر ڈاکٹر ایم ایچ صدیقی کی نگرانی میں عقیل الظفر خان اور مہتاب جہاں اس وقت تک کام کرتے رہے جب تک کہ یہ شعبہ ڈیپارٹمنٹ آف نیشنل آرکائیوز اسلام آباد کو منتقل نہیں ہوگیا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس ریکارڈ پر بہت تاخیر سے کام شروع ہوا اور اس کا بیش تر حصہ عدم توجہی کی بناء پر تلف ہوگیا۔
پروفیسر شریف المجاہد نے جو 1976 میں قائداعظم اکادمی کے بانی ڈائریکٹر مقرر ہوئے تھے، 1982 میں آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کی طباعت کا بیڑا اٹھایا۔ ریکارڈ کی طباعت کا خیال دراصل اس لیے آیا کہ 1980 تک آل انڈیا مسلم لیگ سے متعلق شایع ہونے والی کتابوں اور پی ایچ ڈی کے مقالوں میں اس ریکارڈ سے بہت کم استفادہ کیا گیا تھا۔ پروفیسر شریف المجاہد نے لکھا ہے کہ ''سید شریف الدین پیرزادہ نے آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ سے اپنی کتاب Foundations of ،Pakistan مطبوعہ 1969، میں استفادہ کیا ہے لیکن ان کی بھی رسائی انہی دستاویزات تک ہوسکی جو اس ریکارڈ میں مطبوعہ صورت میں تھیں۔
1979 میں اے ۔ ایم زیدی کی مرتبہ کتاب Evolution of Political Thought in India چھ جلدوں میں دہلی سے شایع ہوئی لیکن اس میں بھی ریکارڈ میں شامل مطبوعہ دستاویزات ہی کو شامل کیاگیا جو قبل ازیں سید شریف الدین پیرزادہ کی مذکورہ بالا کتاب میں شایع ہوچکی تھیں۔ 1979 ہی میں بی این پانڈ کی مرتبہ کتاب The Indian Nationalist Movment لندن سے شایع ہوئی اور وہ بھی کوئی غیر مطبوعہ خط یا دستاویز اپنی کتاب میں شامل کرنے میں ناکام رہے۔ 1980 میں میرٹھ سے سات جلدوں پر مشتمل کتاب The Indian Muslim-A Documentation Record of Muslim Struggle for Independence شایع ہوئی۔ اس میں بھی آل انڈیا مسلم لیگ سے متعلق کوئی غیر مطبوعہ دستاویز شامل نہیں تھی اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا ریکارڈ بہ آسانی دست یاب نہیں تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کے طباعتی منصوبے کے آغاز پر قائداعظم اکاڈمی کے عملے پر مشتمل ایک ریسرچ ٹیم نے، جس میں خواجہ رضی حیدر، مفتی رفیع الدین اور مہر السلام صدیقی شامل تھے۔ پروفیسر شریف المجاہد کی نگرانی میں اس ریکارڈ میں شامل خطی دستاویزات کی شناخت، تعین اور مطالعے پر کام شروع کیا۔ ان دستاویزات میں زیادہ ترخطوط، اجلاسوں کی کارروائیاں اور قراردادیں شامل تھیں۔ ریسرچ ٹیم نے اس ریکارڈ کی فوٹو کاپی کرکے دستاویزات کو اس مرحلہ تک پہنچایا، جہاں ان کی باقاعدہ تدوین کا کام شروع ہوسکے۔ اس ریکارڈ کی طباعت چوں کہ کئی جلدوں پر مشتمل ہوگی، اس لیے پہلی جلد کو 1900 سے 1908 تک کی دستاویزات تک محدود کردیاگیا، جو 1990 میں کتابی صورت میں شایع ہوگئی۔
پروفیسر شریف المجاہد نے اس جلد میں ریکارڈ میں شامل تمام بنیادی، ذیلی اور الحاقی دستاویزات شامل کردی ہیں، جب کہ بعض دستاویزات کو وقیع اور خود وضاحتی بنانے کے لیے ضمیمہ جات میں ایسی دستاویزات بھی شامل کردی گئی ہیں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے ریکارڈ میں موجود نہیں تھیں۔ شریف المجاہد کی تصنیف کردہ اس کتاب کا نام Muslim League Documents ہے۔ اگرچہ اس کتاب کی اب تک پہلی جلد ہی شائع ہوئی ہے، لیکن باور کیا جاتا ہے کہ اپنی تکمیل پر مسلم ہندوستان کی سیاسی جدوجہد کے بارے میں یہ ایک اہم بنیادی کتاب ثابت ہوگی۔
شمس الحسن کلیکشن میں جو آل انڈیا مسلم لیگ کے آفس سیکریٹری سید شمس الحسن کے نام سے منسوب ہے، قائداعظم محمد علی جناح کے تقریباً دس ہزار ذاتی کاغذات اور دستاویزات موجود ہیں۔ اس ذخیرے کو بھی بہ اعتبار موضوع تقریباً نوے جلدوں میں تقسیم کردیاگیا ہے۔ اس ذخیرے سے بھی اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے استفادہ کیا ہے، جب کہ خود سید شمس الحسن نے اس ذخیرے سے قائداعظم کی نجی زندگی اور تنظیمی جدوجہد کے بارے میں کچھ دستاویزات منتخب کرکے1976 میں ایک کتاب Plain Mr. Jinnah مرتب کی تھی۔
سید شمس الحسن چوں کہ تحریک پاکستان کے عینی شاہد تھے، اس لیے انھوں نے کتاب میں شامل دستاویزات کی وضاحت اور صراحت میں نوٹس بھی تحریر کیے ہیں، جو بہرحال تحریک پاکستان اور قائداعظم کے بارے میں کچھ جاننے کے خواہش مند افراد کے لیے معلومات افزا ہیں۔
شمس الحسن کلیکشن، قائداعظم پیپرز اور آل انڈیا مسلم لیگ ریکارڈ کے علاوہ قائداعظم اور تحریک پاکستان سے متعلق غیر مطبوعہ خطوط کی ایک بڑی تعداد پاکستان، بھارت، برطانیہ اور سری لنکا وغیرہ میں بھی انفرادی طور پر مختلف لوگوں کے پاس موجود ہے۔ ان خطوط و کاغذات کی بازیافت کے لیے ڈیپارٹمنٹ آف آرکائیوز برابر کوشش کررہا ہے اور اسے بڑی حد تک کام یابی بھی ہوئی ہے۔
دراصل یہ کاغذات اور دستاویزات ہمارا قومی سرمایہ ہیں، ہماری جدوجہد کا تاریخی ریکارڈ ہیں۔ ان سے نہ صرف قائداعظم محمد علی جناح کی حیات و خدمات کے پنہاں گوشوں پر روشنی پڑتی ہے بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے لیے جدوجہد کے بھی بیش تر تشنہ و مخفی پہلو واضح اور اجاگر ہوتے ہیں۔ ان کاغذات اور دستاویزات کی حفاظت کرنا اور ان کے مندرجات سے واقفیت حاصل کرنا ہمارے قومی فرائض میں شامل ہے۔
پاکستان کا مقدمہ اور بیرسٹر محمد علی جناح
آزادی انسان کا بنیادی حق بھی ہے اور فطری ضرورت بھی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ہر انسان آزاد پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے عظیم قائد کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف ایک غلام قوم کو غاصب انگریزوں سے آزادی دِلائی بلکہ ان کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ملک بھی قائم کرکے دِکھایا لیکن اس کٹھن اور مشکل کام کے لیے انہیں کتنی محنت اور کوشش کرنی پڑی، یہ ایک طویل داستان ہے، ہم یہاں اس عظیم قائد اور نجات دہندہ کی صرف چند خوبیوں کا تذکرہ کریں گے، جن کی وجہ سے ایک ناممکن کام ممکن ہوسکا اور دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت وجود میں آسکی۔
قائد اعظمؒ ایک بااصول انسان اور سچے کھرے، مخلص اور بے باک سیاست دان تھے، انہیں اپنے دین سے عقیدت، تاریخ سے واقفیت اور قوم سے محبت تھی، وہ ہرقسم کی حرص و ہوس اور ذاتی غرض اور مفاد سے پاک تھے، وہ ہر بات کہنے سے پہلے اس پر خوب اچھی طرح غور و فکر کرتے پھر کہیں بولتے اور جو بات کہتے پھر اس پر اٹل رہتے۔ پاکستان کے مخالفوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، ہزار مشکلات اور رُکاوٹیں پیدا کیں لیکن قائدِ اعظمؒ کی بلند ہمت اور عظیم شخصیت کے آگے ان کی ایک نہ چل سکی اور آخرکار پاکستان بن کر رہا۔
قائدِ اعظم نے جب آنکھیں کھولیں تو پورے براعظم ایشیا میں دُور دُور تک آزادی کی کرن نظر نہیں آتی تھی، سارا خطہ غلامی کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ برصغیر میں چالاک ہندو بنیے نے اسی وقت انگریزوں سے یاری کرلی تھی جب انگریز مسلمانوں سے حکومت چھین کر اس ملک پر قابض ہوئے تھے۔ خود مسلمانوں نے بھی انگریز غاصبوں کو دِل سے کبھی اپنا حاکم اور آقا تسلیم نہیں کیا تھا، اس لیے انگریز مسلمانوں سے مخاصمت اور دشمنی رکھتے تھے اور ہندوؤں کو نوازتے اور مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھے ہوئے تھے۔
سندھ کے ساحلی شہر کراچی کے قدیم علاقے کھارادر میں رہنے والے ایک تاجر جناح پونجا بھائی کے ہاں، ان کی رہایش گاہ، وزیر مینشن میں ایک ایسے بچے نے جنم لیا جس نے آگے چل کر اپنے ساتھ باپ کے نام کو بھی تاریخ کا حصّہ بنادیا۔پونجا بھائی کو تو ان کے معاشی حالات نے پڑھنے لکھنے نہیں دیا تھا، لیکن وہ اپنے بیٹے کو تعلیم سے محروم نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے محمد علی کو پہلے عام سے مشنری اسکول سی ایم اے اور پھر مسلمانوں کی واحد درس گاہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرادیا۔ ان دنوں سندھ، بمبئی کے زیرِ انتظام تھا۔
میٹرک کے امتحان بھی بمبئی بورڈ کے تحت ہوتے تھے۔ چناں چہ میٹرک میں کام یابی کے بعد پونجا بھائی نے اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن بھیج دیا، جہاں اس ہونہار طالب علم نے قانون کی تعلیم حاصل کی اور بیرسٹر بن کر واپس ہوئے۔ اس وقت مسلمان ٹکڑوں میں بٹے ہوئے تھے، بکھری ہوئی حالت میں تھے، انہیں ایک جگہ اور ایک جھنڈے تلے جمع کرنا وقت کی اہم ضرورت تھی۔ لیکن جو ایک مشکل کام تھا۔ اس کے لیے ایک ایسے لیڈر کی ضرورت تھی جو مسلمانوں کے نزدیک اپنے قول و عمل میں سچا، کھرا، نہ بکنے والا اور نہ جُھکنے والا ہو۔ جب مسلمانوں نے خود کو ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہونے کا دعویٰ کیا اور ان کا ارادہ یہ ہوچلا کہ وہ اپنے لیے ایک الگ وطن بنائیں گے، تو اس دعوے کے ثابت کرنے اور اس مقدمے کو لڑنے اور جیتنے کے لیے انہیں ایک قابل اور جرأت مند وکیل کی ضرورت محسوس ہوئی۔
ایک الگ وطن کا قیام کوئی آسان کام نہیں تھا۔ کیوں کہ اس کی راہ میں ہندو اور انگریز دونوں ایک بڑی رُکاوٹ تھے۔ خصوصاً ہندو تو کسی صورت نہیں چاہتا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک الگ وطن قائم ہو، لہٰذا اس کا کہنا یہ تھا کہ انگریز حکمران مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہرگز تسلیم نہ کریں بلکہ ہندوستان کو آزاد کرکے اپنے ملک برطانیہ لوٹ جائیں۔ مسلمان ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہونے کے دعوے دار تھے اور اپنے لیے ایک الگ وطن بنانے کی تحریک چلا چکے تھے۔
گویا یہ ایک مقدمہ تھا جو برطانوی حکمرانوں کی عدالت میں اس وقت پیش تھا اور ممکن تھا کہ اگر ذرا بھی کمزوری دِکھائی جاتی تو انگریز ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دے دیتا یعنی ہندوستان کو آزادی دے کر یہاں سے چلا جاتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انہوں نے اس مقدمے کو لڑنے کے لیے کیا یوں ہی بغیر سوچے سمجھے ہاں کردی تھی؟ محمد علی جناح جیسے بااصول شخص کے لیے یہ ممکن ہی نہ تھا۔ لہٰذا دیکھنا ہوگا کہ انہوں نے اس مقدمے کو لڑنے کے لیے کیا اور کیسے تیاری کی؟
تو سب سے پہلے انہوں نے اپنی قوم کی تاریخ کا مطالعہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ اسلام سے قبل، ایک عرب کی سرزمین ہی نہیں بلکہ دُنیا میں ہر طرف ناانصافی، ظلم اور اندھیر کا دور دورہ تھا۔ قدرت کو اپنی مخلوق پر ترس آگیا۔ اس نے اپنے بندوں پر رحم کیا اور عرب کے شہر مکہ میں اپنے آخری پیغمبر ؐ کو مبعوث فرمایا، جس کے پیغامِ حق نے تمام جھوٹے خداؤں کی دُنیا اُجاڑ دی، ظلم کا راج ختم ہوا اور مظلوموں نے سُکھ کا سانس لیا۔ پھر اسلام کی یہ روشنی عرب سے نکل کر عجم اور دوسرے خطوں میں دُور دُور تک پھیلی۔ پھر ہندوستان میں بھی اس کا اجالا چاروں سمتوں پر محیط ہو گیا، اور رفتہ رفتہ پورا برصغیر ان کے زیر اقتدار آگیا۔ ہندوؤں کے ساتھ مسلمانوں کی بے مثال رواداری کی داستانیں آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔
شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں کی باہمی لڑائیوں نے حکومت کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے اس کی مرکزیت کو کم زور کردیا۔ ہندوستان مختلف حصّوں میں تقسیم ہوگیا۔ انگریز عیّار جو تاجروں کے بھیس میں ہندوستان آئے تھے، بے نقاب ہوگئے۔ انہوں نے مسلمانوں کی کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ کچھ غیور مجاہدوں نے ان کا راستہ روکنے کی کوششیں کیں لیکن اپنوں کی غداری نے ایک طرف نواب سراج الدولہ کو شہید کرادیا، دوسری جانب انگریزوں کے راستے کا آخری پتھر سلطان ٹیپو بھی ان کی سازشوں کا شکار ہوگئے۔ اب انگریز کو کون روک سکتا تھا کہ انہوں نے ٹیپوؒ کی شہادت پر ہی تو پُرجوش نعرہ لگایا تھا کہ ''ہندوستان اب ہمارا ہے۔''
یہی ہوا کہ کچھ ہی مدت بعد آخر اسلامی اقتدار کی آخری علامت دہلی پر بھی ان کا قبضہ ہوگیا۔ مسلمانوں نے آخری معرکہ لڑا مگر ناکام ہوئے اور 1857 کی جنگ آزادی شکست سے دوچار ہوئی۔ آخری مسلمان بادشاہ بہادر شاہ ظفر گھیر لیے گئے۔ ظالم انگریزوں نے شہزادوں کو دھوکے سے قتل کیا اور بادشاہ کو گرفتار کرکے رنگون لے گئے، جہاں آسمان نے حیرت سے یہ منظر دیکھا ہوگا کہ غاصب قوم نے غصب شدہ حکومت کے والی پر اُلٹا بغاوت کا مقدمہ چلایا۔
محمد علی جناح کو اتنا تو پختہ یقین اور اعتبار پہلے بھی تھا کہ مسلمانوں کا مقدمہ طاقت و توانائی رکھتا ہے، اور ان کا یہ دعویٰ بھی دُرست ہے کہ وہ ہندوؤں سے ایک الگ اور جُدا قوم ہیں، البتہ قانون اور عدلیہ محض دعووں کو تسلیم نہیں کرتی، اسے ثبوت اور دلائل درکار ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایک قابل اور ہوشیار وکیل کی حیثیت سے محمد علی جناح بیرسٹر نے پاکستان کا مقدمہ لڑنے سے پہلے وہ دلائل اور ثبوت جمع کیے جو اس مقدمے کے لیے ضروری تھے۔ انہوں نے اپنی قوم کے اس دین و عقیدے کا مطالعہ کیا جس سے وہ خود بھی اس وقت تک بے بہرہ تھے۔ پھر پیغمبرِ اسلامؐ کی حیاتِ مبارکہ کا جائزہ لیا جس سے انہیں پوری طرح آگاہی نہیں تھی اور پھر جب وہ ان علوم کی سیر کرکے لوٹے تو جناح سے قائدِ اعظم بن چکے تھے۔
انہیں حیرت بھی تھی اور افسوس بھی کہ جس قوم کے پاس ایسا مکمل ضابطۂ حیات اور اتنے عظیم الشان پیغمبر کی بے مثال زندگی کا نمونہ موجود ہو اور جو ایک شان دار ماضی اور عظیم تاریخی ورثہ رکھتی ہو، وہ غلامی کی ذلت میں کیوں کر پڑی ہے! اس کا جواب بہت آسان تھا، جو انہیں ان کے اندر سے ہی مل گیا۔ اس ذلّت و خواری کا سبب یہی ہے کہ مسلمانوں نے اس دولت ہی کو گنوا دیا تھا جس کی وجہ سے وہ دُنیا میں سرخ رو ہوئے تھے اور اب خود ہی کھوٹے سکّے کی طرح اس دُنیا میں بے وقعت ہو کر رہ گئے تھے۔
لیکن قائد نے اس گم شدہ خزانے کا سراغ لگا لیا تھا۔ انگریزوں کے چند پٹھوؤں کے سوا، اکثر مسلمانوں نے انگریزی حکومت کو دِل سے کبھی قبول نہیں کیا تھا اور خلافت کمیٹی جیسی تحریکوں کے ذریعے اپنی ناراضگی، ناپسندیدگی اور ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے رہے تھے۔ مسلمان بیدار ہوچکے تھے، مسلم لیگ کے جھنڈے تلے، قائد اعظمؒ کی قیادت میں اتفاق و اتحاد کا بے مثال مظاہرہ کررہے تھے۔ اب ان کی زبانوں پر آزادی کا نعرہ ہی نہیں، اپنے لیے ایک الگ وطن کا مطالبہ بھی تھا۔
مسلمانوں کا عظیم قائد اپنے حریفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان کا مقدمہ لڑ رہا تھا، مسلمانوں کو ایک الگ اور منفرد قوم ثابت کرنے کے لیے اب اس کے پاس دلائل اور ثبوت کی کمی نہیں تھی۔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور اﷲ کے رسولؐ کی مبارک زندگی اس کے سامنے تھی، مطالبۂ پاکستان کے حق میں ان کا یہی ایک تاریخی جملہ کافی تھا:''پاکستان تو اس وقت ہی معرض وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔''
لیکن سوال یہ ہے کہ اس طرح کی ناقابلِ تردید اور جرأت مندانہ بات کون کہہ سکتا ہے؟ یہ اسی لیڈر کا شیوہ ہوسکتا ہے جو اپنے دین و عقیدے سے آگاہ اپنے پیغمبرؐ کی زندگی سے واقف اور اپنی تاریخ کا مطالعہ رکھتا ہو، ورنہ تو:
قائد بھی ہر اک قائد اعظم نہیں ہوتا
قائداعظم ... اول تا آخر
کھارا در کراچی میں نیو نہام روڈ چھاگلا اسٹریٹ کے رہایشی جناح پونجا کے گھر میں 25 دسمبر 1876 کو پیدا ہونے والے بچے کا نام محمد علی رکھا گیا۔ اس وقت دور دور تک کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ بچہ آگے چل کر ایک نئی مملکت کا بانی ہوگا اور وہ بھی اسلامی سلطنت کا بانی، جو بقیہ اسلامی ممالک کے لیے فخر کی علامت بن جائے گا۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح، جو اپنے والد جناح پونجا کی نسبت سے محمدعلی جناح کہلاتے تھے، اپنے ابتدائی دنوں میں صحت کے حوالے سے اور تعلیمی سرگرمیوں کے پس منظر میں ایسا رجحان نہیں رکھتے تھے کہ جس کی وجہ سے ان کے بارے میں کوئی غیر معمولی پیش گوئی کی جاسکتی۔
قائداعظم محمد علی جناح 9 سال کی عمر میں کراچی کے ایک پرائمری اسکول میں گجراتی کی چوتھی جماعت میں داخل ہوئے۔ 10 سال کی عمر میں انھیں گھڑ سواری کا شوق ہوا اور انھوں نے اس میں مہارت حاصل کی۔ گجراتی کی چار جماعتیں پاس کرنے کے بعد ان کا داخلہ انگریزی کی پہلی جماعت میں ہوا۔ 4 جولائی 1887 کو سندھ مدرسۃ الاسلام اسکول میں اسٹینڈرڈ ون میں ان کا داخلہ کرایا گیا لیکن پھر ان کے والد نے ان کو بمبئی میں ان کے ماموں قاسم موسیٰ کے پاس بھیج دیا، جہاں انجمن ہائی اسکول میں ان کا داخلہ کرایا گیا۔ لیکن ان کی والدہ ان کی جدائی برداشت نہ کرسکیں اور یوں 23 دسمبر 1887 کو انہیں واپس بلا کر سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخلہ کرادیا گیا۔
والد کی کاروباری اور مالی پریشانیوں اور طویل غیر حاضری کی وجہ سے جنوری 1891 کو قائداعظم کا نام اسکول سے خارج کردیا گیا، تاہم 9 فروری 1891 کو انہوں نے پھر اسی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ محمد علی جناح اسٹینڈرڈ V میں زیر تعلیم تھے کہ ان کے والد کے ایک انگریز دوست نے انھیں لندن میں اپنی فرم کے صدر دفتر میں تین سال کے لیے اپرینٹنس کی حیثیت سے کام کرنے کی آفر کی اور انھوں نے یہ آفر قبول کرلی۔ ان کی برطانیہ روانگی سے قبل ہی ان کی والدہ شیریں بی بی عرف مٹھی بائی نے ان کی شادی اپنے ایک عزیز میرا کھیر جی کی 14 سالہ بیٹی ایمی بائی سے کردی تھی۔ یوں 30 جنوری 1892 کو سندھ مدرسۃ الاسلام چھوڑ کر وہ لندن روانہ ہوگئے۔
وہ گئے تو کاروباری معاملات کی ٹریننگ کے لیے تھے لیکن یہ کام انھیں پسند نہ آیا۔ چناںچہ انھوں نے اپنے مزاج کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے قانون کی تعلیم کے لیے لنکزان (LINCONS INN) میں داخلہ لے لیا۔ اب قائد اعظم اپنا زیادہ وقت پڑھائی میں صرف کرنے لگے اور بھرپور محنت کے بل بوتے پر انھوں نے اپنے امتحانات دو سال میں پاس کرلیے۔ اس طرح تقریباً 19 برس میں بیرسٹر کہلانے والے وہ سب سے کم عمر ہندوستانی تھے۔ 1896 میں 20 سال کی عمر میں وہ بیرسٹر بن کر واپس لوٹے تو ان کا خاندانی کاروبار شکست و ریخت کا شکار ہوچکا تھا۔ انھوں نے سب سے پہلے تو ان قرضوں کو چُکایا جو ان کے خاندان پر چڑھ چکے تھے۔
یہ ایک سخت دور تھا جسے قائداعظم نے اپنی جواں ہمتی، بھرپور حوصلے اور بھرپور اعصابی قوت ارادی کے ساتھ برداشت کیا۔ بمبئی ہائی کورٹ میں ان کا نام درج تھا، تاہم ان کی عمر اور ناتجربہ کاری کو دیکھتے ہوئے بہت کم کیس انھیں مل پائے۔ انہی دنوں وہ ایک دوست کے توسط سے بمبئی کے قائم مقام ایڈووکیٹ جنرل جان میکفرسن سے متعارف ہوئے اور ان کے ساتھ کام شروع کردیا۔ چند مقدمات کے بعد سرکاری نوکری کا شوق انھیں عارضی پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے عہدے تک لے گیا۔ اس کے لیے میکفرسن نے محکمۂ انصاف کے رکن سرچارلس آلیونٹ کے پاس بھیجا تھا۔ چھ ماہ کے بعد ہی انھوں نے یہ عہدہ چھوڑ کر اپنا ذاتی دفتر کھول کر پریکٹس شروع کردی۔
قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی پانچ ادوار میں منقسم ہے۔ بیس سالہ پہلا دور 1876 سے1896 تک، جب انھوں نے تعلیم پائی اور انگلستان میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ دس سال کا دوسرا دور 1896 سے لے کر 1906 تک، جب انھوں نے مکمل یک سوئی اور محنت سے اپنی وکالت کا لوہا منوایا اور ان کی شہرت دور دور تک پہنچی۔ پھر دس سالہ تیسرا دور 1906 سے1916 تک، جب وہ زیادہ تر کانگریس سے وابستہ رہے۔ 20 سال پر محیط چوتھا دور 1916 سے 1936 تک، جب وہ کانگریس اور لیگ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی کوششیں کرتے رہے۔
تقریباً گیارہ سالہ پانچواں دور 1937 سے لے کر 1948 تک، جب انھوں نے وکالت چھوڑ کر تمام تر توجہ مسلمانان ہند کی قومی تنظیم اور پاکستان کے حصول و قیام کی جدوجہد پر صرف کیے۔ 15 اگست 1947 کو قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے اور اس کے تقریباً ایک سال بعد 71 سال 8 ماہ اور 18 دن کی عمر پاکر 11 ستمبر1948 کو اس دار فانی سے رخصت ہوئے۔ قائداعظم کی زندگی ہمیشہ کسی نہ کسی نصب العین کے حصول کے لیے مصروف کار رہی۔
قائداعظم نے چالیس برس (1896 سے1936 تک) وکالت کی اور ایسی شہرت اور نام وری پائی کہ پورے ہندوستان میں کسی نے اس وقت تک حاصل نہیں کی تھی۔ 1936-37 میں انھیں اندازہ ہونے لگا کہ ان کی قوم انتہائی خطرات میں گھرتی جارہی ہے۔ 21 جون 1937 کو علامہ اقبال نے ان سے کہا کہ ''ہندوستان میں صرف آپ ہی ایک ایسے مسلمان لیڈر ہوسکتے ہیں جو اپنی قوم کو اس طوفان سے جو ان پر آنے والا ہے، بچاسکتا ہے۔ اس لیے قوم کو حق ہے کہ وہ آپ سے رہنمائی کی امید رکھے۔'' جناح اس سے تقریباً چار سال قبل جب مسلمان لیڈروں نے انھیں لندن میں تار ارسال کیا تھا، قوم کے اس حق اور اپنے فرض کا بخوبی اندازہ کرچکے تھے۔
1934 سے وہ مسلم لیگ کے مستقل صدر مقرر ہوئے۔ انھوں نے لوگوں اور خاص کر لیڈروں کی سوچ کو ان کے اصل وجود کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر کرنے کے لیے انتہائی جدوجہد کی۔ لیڈروں کی جاہ پرستی اور قوم کی غفلت اس قدر حوصلہ شکن تھی کہ قائداعظم کی جگہ کوئی اور ہوتا تو اس کار دشوار کو ناممکن سمجھ کر اس سے ہاتھ کھینچ لیتا، مگر انھوں نے ان تمام مشکلات کا پوری دلیری ، عقل مندی اور ہوشیاری سے مقابلہ کیا اور 1939 میں آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مسلم لیگ کا ایک انتخابی بورڈ قائم کرکے زور و شور سے ہر صوبے میں انتخابی مہم کا آغاز کردیا۔
1937 میں کانگریس کے لیڈروں سے ہونے والی گفت و شنید لاحاصل اور بے نتیجہ رہی۔ کانگریس نے چھ سات صوبوں میں اکثریت حاصل کرکے وہاں اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ قائداعظم نے ملک بھر کے مسلمانوں کو لکھنؤ میں مسلم لیگ کے 25ویں سالانہ اجلاس منعقدہ اکتوبر 1937 میں جمع ہونے اور ہندو استبداد کے خطرے سے آگاہ کرنے اور اس کا مقابلہ کرنے کی دعوت دی۔ یہ اجلاس دور رس نتائج کا حامل تھا۔ اس کے بعد قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے قوم کو پاکستان حاصل کرنے کی راہ پر لگادیا۔
ان کی گرجتی آواز نے ملت کے رگ و پے میں ایک برقی رو دوڑا دی اور یوں مسلم لیگ صحیح معنوں میں مسلمانوں کی ایک عوامی تحریک بن کر ابھری۔چٹان کی طرح حوصلہ رکھنے والے جناح بہرحال انسان بھی تھے اور اسی ناتے وہ زندگی کے ہر لمحوں کو محسوس کرتے تھے۔ ہاں، ان کے چہرے سے ان کی اندرونی کیفیت کا اندازہ لگانا کبھی بھی اور کسی کے لیے بھی آسان نہیں رہا۔ غالباً وہ اپنی زندگی میں دوبار جذباتی پن کا شکار ہوئے، ایک اس وقت جب وہ بسلسلہ تعلیم برطانیہ میں مقیم تھے اور ان کی والدہ انتقال کرگئیں اور اس صدمے پر وہ پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح روئے۔
دوسرا اس وقت جب وہ تن بائی کے حسن کے اسیر ہوئے رتن بائی بمبئی کے ایک معروف امیر پارسی تاجر سرڈنشا پیٹٹ کی صاحب زادی تھیں۔ سرڈنشا قائد کے دوستوں میں سے تھے اور اکثر قائداعظم ان کی نفیس و باوقار کوٹھی میں جاکر رات کا کھانا کھاتے اور گپ شپ کرتے تھے۔ یہ ان کی تھکن دور کرنے کا ایک ذریعہ بھی ثابت ہوا کرتا تھا۔ 41 سال کی عمر میں انھیں 17 سالہ رتن بائی بھاگئیں اور انھوں نے شادی کے لیے آفر کردی۔ اس شادی کے لیے سر ڈنشا پیٹٹ قطعی راضی نہ تھے مگر ان کی ناراضگی کے باوجود شادی ہوگئی۔ تاہم اس کے لیے قائداعظم کو ایک سال تک انتظار کرنا پڑا۔
رتن بائی 18 سال کی عمر میں بالغ ہونے کے بعد قانونی طریقے سے شادی کرنے کی اہل ہوئیں تو انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان کا اسلامی نام مریم تجویز کیا گیا۔ 15 اگست 1919 کو ان کی اکلوتی اولاد دیناجناح کی پیدایش ہوئی۔ اس بچی کی عمر ساڑھے نو سال تھی کہ اس کی والدہ انتقال کرگئیں۔ جنوری1928 میں کلکتہ مسلم لیگ کے اجلاس سے واپسی پر رتی اور جناح میں علیحدگی ہوچکی تھی۔ کانجی دوار کاؤس لکھتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ مزاج اور عمر کا فرق بھی ہے جناح کا مزاج ایسا تھا کہ کوئی بھی شخص خواہ ان سے کتنا ہی قریب کیوں نہ ہو، ان کے ذاتی معاملات میں دخل نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے آج تک دونوں کی علیحدگی کے اصل اسباب کا پتہ نہیں چل سکا۔''
8 مارچ 1944 کو علی گڑھ یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے یہ تاریخی جملے ادا کیے:
''پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا، جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے، وطن نہیں، نہ ہی نسل۔ ہندوستان کا جب پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم نہیں رہا، وہ ایک جداگانہ قوم کا فرد ہوگیا اور ہندوستان میں ایک نئی قوم وجود میں آگئی۔''
سروجنی نائیڈو نے ایک آئرش عورت کی پیش گوئی دہراتے ہوئے کہا تھا کہ '' ہاں، مجھے معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ آدمی اپنے لیے مملکت پیدا کرے گا۔'' پاکستان کا وجود اسی پیش گوئی کا ایک حصہ ہے۔ یہ وہ عمل تھا، جس کے عمل پذیر ہونے کے بعد ہندوستان ٹائمز دہلی نے اپنے اداریے میں لکھا تھا ''تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کے عزم مصمم کے سامنے حقائق مٹ گئے اور ایک خواب حقیقت کی شکل میں مجسم ہوکر سامنے آگیا۔ انھوں نے اپنے زمانے کی عظیم ترین شخصیت کو للکارا اور بازی جیت لی۔
مسٹر جناح کے سیاسی مخالفین یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ اپنے ارادے کے پکے اور پرخلوص نیت کے مالک تھے۔ ممکن ہے، لوگ انھیں فرقہ پرستی کا طعنہ دیں لیکن تاریخ انھیں ہرگز فراموش نہیں کرسکتی کیوں کہ انھوں نے تاریخ بنائی ہے۔'' اچھوت لیڈر مسٹر ایم سی راجا نے کہا تھا کہ ''میں مسٹر جناح کی تکریم و توقیر کرتا ہوں اور ان کے لیے شکر گزاری محسوس کرتا ہوں، کیوںکہ جب وہ مسلمانوں کے مقاصد کی ترجمانی کرتے ہیں تو گویا وہ ان تمام طبقات کے مطالبات کی ترجمانی کرتے ہیں جنھیں ہندو اکثریت کے اسٹیم رولر تلے پسنے کا خطرہ ہو۔''
زندگی کے آخری دنوں میں قائد اعظم کی صحت اچھی نہیں رہی۔ ان کی ہر دل عزیز بہن محترمہ فاطمہ جناح نے جو مسلسل ان کے ساتھ ساتھ تھیں، محبت سے جب یہ کہا کہ وہ اتنا زیادہ کام نہ کریں تو قائداعظم نے فوری جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیا تم نے کبھی یہ سنا ہے کہ کوئی جنرل عین اس وقت چھٹی پر چلا گیا ہو جب اس کی فوج میدان جنگ میں اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہو۔''
اپریل 1940 میں پشاور کی ایک جلسہ گاہ میں قائداعظم بارش میں بھیگنے سے کھانسی بخار میں مبتلا ہوگئے۔ وہ کراچی سے کوئٹہ آرام کرنے آگئے۔ یکم جولائی 1948 کو کراچی میں اسٹیٹ بینک کی تعارفی تقریب میں ہر شخص نے محسوس کیا کہ ان کی صحت خراب ہوچکی ہے۔ ان کو بولنے میں بھی دقت پیش آرہی تھی۔ 24 جولائی 1948 کو کرنل الٰہی بخش نے خون اور تھوک کے نمونے حاصل کیے اور کلینیکل معائنے کے بعد ٹی بی ڈکلیر کیا۔
اس موقع پر قائداعظم نے اپنی بہن سے کہا ''فاطی، تم درست ہی کہا کرتی تھیں۔ مجھے کسی ماہر ڈاکٹر سے بہت پہلے مشورہ کرلینا چاہیے تھا۔ مگر مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ آدمی صرف جدوجہد کرسکتا ہے۔ تم جانتی ہو، میرا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ میں کبھی آنکھیں بند کرکے دوسروں کے مشورے قبول نہیں کرتا۔'' یکم ستمبر 1940 کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے فاطمہ جناح سے مایوس لہجے میں کہا، قائد پر ہیمرج کا حملہ ہوا ہے۔ میں پریشان ہوں۔ انھیں کراچی لے جانا چاہیے، کوئٹہ ان کے لیے مناسب نہیں۔ 8 ستمبر1948 کو ڈاکٹروں نے فاطمہ جناح کو آگاہ کیا کہ اب امید کی کوئی کرن باقی نہیں اور اب کوئی معجزہ ہی ان کی زندگی بچاسکتا ہے۔
11 ستمبر کو دن کے دو بجے گورنر جنرل کے طیارے وائی کنگ سے قائداعظم کو بغرض علاج کراچی لایا گیا۔ طیارہ کوئٹہ سے کراچی دو گھنٹے کی پرواز کے بعد شام سوا چار بجے کے قریب کراچی کے ماری پور اڈے پر اترا۔ ایمبولینس تیارکھڑی تھی۔ لیکن جب قائداعظم کو اس پر سوار کرایا گیا تو نہایت آہستگی سے چلتی ہوئی ایمبولینس چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد پیٹرول ختم ہونے کی وجہ سے رک گئی۔ ایک گھنٹے بعد دوسری ایمبولینس آئی تو قائد کو شہر پہنچایا گیا، اور اسی شام ان کا انتقال ہوگیا۔