ذکر کچھ پی آئی اے کی سواری باد بہاری کا
ہر سفر جوکھوں کا سفر بن جاتا ہے۔ خیر وہ زمانہ کب کا گزر گیا۔ اب ہم اونٹ کی سواری سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔
ہنوز دلی دور است۔ اور واقعی دلی آج بھی مسافروں کے لیے بہت دور ہے۔ ارے صاحب لاہور سے دلی کا سفر تو کالے کوسوں کا سفر ہے۔ اس پر مت جائیے کہ ہوائی جہاز کے ذریعہ لاہور سے دلی تک کا سفر چالیس پنتالیس منٹ کا سفر ہے۔ اس کے بارے میں ہم صرف اتنا کہیں گے کہ ع
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
پی آئی اے کو ملحوظ رکھ کر ہم کہتے ہیں کہ یہ محض ہوائی بات ہے۔
ابھی ابھی ہم اسی پی آئی اے کے ذریعہ سے لاہور سے دلی گئے تھے اور پی آئی اے ہی سے واپس آئے۔ اس سفر سے پہلے کی روئداد یہ ہے کہ غالبؔ انسٹی ٹیوٹ (دلی) نے اس برس اپنے سالانہ غالبؔ سیمینار کے دو روزہ اجلاس کو اردو کے تین بڑوں کے لیے وقف کیا تھا۔ مولانا حالی' مولانا شبلی' مولانا محمد حسین آزاد۔ پاکستان سے کتنے نقادوں اور محققوں کو مدعو کر رکھا تھا مگر وہ سب ہائے ویزا وائے ویزا کرتے رہ گئے۔ اور اس سیمینار میں شرکت کی سعادت کسے حاصل ہوئی۔ دو مسافروں کو۔ ایک اس خانماں خراب کو' ایک اصغر ندیم سید کو۔ ہاں ان کے شریک سفر ان کی شریک حیات بھی تھیں یعنی بی بی شیبا۔
خیر یہ تو ہمیں پہلے سے معلوم ہے کہ ع
ہوتے ہیں بہت رنج مسافر کو سفر میں
آخر ہم نے الف لیلہ پڑھ رکھی ہے۔ خالی سند باد جہازی نہیں وہاں تو ہر سوداگر زادہ اور ہر شہزادہ مشکل ہی سے نچلا بیٹھتا ہے۔ اس کے تلوے میں کھجلی ہوتی ہے اور بس سفر کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ پھر اللہ دے اور بندہ لے۔ ہر سفر جوکھوں کا سفر بن جاتا ہے۔ خیر وہ زمانہ کب کا گزر گیا۔ اب ہم اونٹ کی سواری سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ بیل گاڑی کی جگہ ریل گاڑی آ گئی۔ اونٹ کی سواری کو کوسوں پیچھے چھوڑ کر ہوائی جہاز آ گیا۔ لیکن آخر تاریخ بھی تو کوئی معنی رکھتی ہے۔
عرب سے ہم اپنے رشتہ سے کیسے انکار کریں۔ ہمارے لیے تو ہوائی کے جہاز بھی اونٹ کی سواری بن جاتے ہیں۔ اب یہ سمجھ لو کہ ہم نے لاہور سے دلی کا سفر جو کہنے کو چالیس پنتالیس منٹ کا سفر ہے اونٹ کے سفر کے حساب سے طے کیا۔ پی آئی اے والے مقررہ وقت سے ڈھائی گھنٹہ پہلے بلاتے ہیں۔ جہاز ان ڈھائی گھنٹوں میں اپنی طرف سے ڈھائی گھنٹہ کا اضافہ کرتا ہے مگر یہ تو معمول ہوا۔ اس ڈھائی گھنٹوں میں وقت اور موقعہ کی نزاکتوں کے حساب سے اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ تو پی آئی اے نے دلی کی فلائٹ کا وقت بارہ بجے دوپہر مقرر کر رکھا ہے۔ بہر حال اس نے بارہ بجے رات سے پہلے ہمیں دلی پہنچا دیا۔
واپسی کا احوال سنئے۔ واپسی کے لیے بھی ہماری تقدیر میں یہی لکھا تھا کہ پی آئی اے کی باد بہاری۔ ناقہ کی سواری۔ ہم صبح ہی صبح اپنی سرائے سے نکل پڑے۔ اصل میں یہ جامعہ ملیہ کا گیسٹ ہاؤس تھا۔ مگر گیسٹ ہاؤس تو انگریزی میں رکھا ہوا نام ہے۔ اس سے کچھ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ اپنی زبان میں اسے سرائے جانئے یا مسافر خانہ کہئے۔ یہ گیسٹ ہاؤس اپنی سرائے والی روایت کا امین ہے۔ مگر ہم جو وہاں سے صبح ہی
صبح نکل آئے' اس میں اپنی سرائے کی کوئی خطا نہیں تھی ع
اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا
صبح ہی صبح شور مچا کہ نائب صدر جمہوریہ ہند تشریف لانے والے ہیں۔ ان کے آنے سے پہلے سیکیورٹی والے یہاں وارد ہوں گے اور پھر سیکیورٹی کا نقشہ اس طرح بچھے گا کہ آپ کے لیے اطمینان سے یہاں سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ سو ہم صبح کے مسافر بن کر اس سرائے سے نکلے اور چلے ہوائی اڈے کی طرف۔ خیر وہاں تو خیریت سے پہنچ گئے۔ ارے اب تو دلی کا ہوائی اڈا بھی اپنی جگہ ایک سیرگاہ ہے۔ پی آئی اے کے جہاز کو شیڈول کے مطابق ساڑھے تین بجے اڑنا تھا اور چار بج کر دس منٹ پر ہمیں لاہور لے جا کر انڈیل دینا تھا۔ مگر وہاں جا کر پتہ چلا کہ فلائٹ تین گھنٹے تاخیر سے محو پرواز ہو گی۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ تین گھنٹے کی تاخیر تو اس کا معمول سمجھئے۔ مگر جب تین گھنٹے قریب آئے تو اصغر ندیم سید انکوائری کے سفر پر روانہ ہوئے اور یہ خبر وحشت اثر لے کر پھرے کہ وہ سواری جس میں بیٹھ کر ہمیں لاہور پہنچنا ہے ابھی تو لاہور ہی سے نہیں اڑی ہے۔ کب وہاں سے اڑے گی۔ کچھ پتہ نہیں۔
خدا خدا کرکے جہاز لاہور سے اڑا اور پلک جھپکتے دلی کے اڈے پر آن اترا۔ اور خبر ملی کہ جلدی ہی واپسی کے سفر پر اڑے گا۔ یہی کوئی سات بجے شام کو۔ خیر سات بجے نہ سہی آٹھ بجے سہی۔ جہاز حرکت میں آیا اور ہماری جان میں جان آئی۔ ارے یہ جان میں جان کتنی دیر کے لیے آئی تھی۔
جہاز حرکت میں ہے لیکن بس ہوائی اڈے کی حدود میں چکر کاٹ رہا ہے۔ پھریری لیتا ہے اور پھر سست پڑ جاتا ہے۔ یہ عمل اتنا لمبا کھچا کہ مسافر دعا مانگنے لگے۔ دلی خیریت سے آئے تھے' خیریت سے واپس گھر پہنچیں۔ اور ہمیں باری باری الف لیلہ کے کئی سفر یاد آئے۔ اب اونٹ کی سواری سے گزر کر بحری جہاز کی سواری ہے۔ بغداد سے دور واپسی کے لیے ساحل سمندر پر کھڑی ہے۔ مسافر اصفہان نصف جہان کی سیر کر کے جہاز میں آن بیٹھے ہیں۔ مگر جہاز حرکت میں نہیں آ رہا۔ تب جہاز کا کپتان اعلان کرتا ہے کہ جہاز میں ضرور کوئی غلط آدمی سوار ہو گیا ہے یا کوئی ایسا مسافر جو اصفہان نصف جہان میں کوئی ضروری خریداری کرنا بھول گیا ہے جب تک وہ یہ ضروری خریداری کے لیے بازار نہیں جائے گا اور مطلوبہ خریداری نہیں کرے گا تو جہاز نہیں چلے گا۔ ادھر ہم سوچ رہے تھے کہ اس جہاز کے مسافروں میں جو غلط آدمی شامل ہے وہ ہم تو نہیں ہیں۔
خیر ہمارے جہاز کے کپتان نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا۔ ایک مرتبہ واقعی اس نے ایسی ایڑ لگائی کہ جہاز نے زور کی پھریری لی اور ہوا میں اڑنے لگا۔ اور آخر کے تئیں اس نے ہمیں نو ساڑھے نو بجے رات کے لگ بھگ ہمیں لاہور کے ہوائی اڈے پر جا انڈیلا۔ اور پھر خیر سے بدھو گھر کو آئے۔
کمال ہے صاحب لاہور سے دلی کا سفر اب کتنا مختصر ہو گیا ہے۔ ہفتے میں ایک فلائٹ۔ اور سواریاں اتنی کہ مٹھی میں آ جائیں۔ ویزا کا حصول ان دنوں بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ اس حساب سے مسافر بھی کم رہ گئے ہیں ۔یہ مختصر سفر ہفتے میں ایک بار کتنا بھاری پڑتا ہے۔ یہی پی آئی اے ایک زمانے میں کتنا مستعد تھا۔ اس کے جہاز کتنی پابندی وقت کے ساتھ اڑتے تھے اور فضا میں فراٹے بھر بھر کر دور کے شہروں میں جا اترتے تھے۔ اب اس کا کیا حال ہو گیا ہے۔
لاہور سے دلی تک کا مختصر سفر اس پر کتنا بھاری پڑتا ہے۔ عالمی فضا میں ملک ملک کے رنگا رنگ جہاز فراٹے بھرتے پورب پچھم اتر دکھن کہاں کہاں جاتے ہیں۔ پی آئی اے کے جہاز بھی پاکستان کے بھلے وقت میں ایسے ہی فراٹے بھرتے تھے۔ اب رینگتے ہیں۔ قسمت کا مارا ایک جہاز ہفتے میں ایک اڑان دلی کی لیتا ہے اور کن مشکلوں سے لیتا ہے۔ پی آئی اے کو کسی بدخواہ کی نظر لگ گئی۔
لیجیے غالب انسٹی ٹیوٹ میں جو ہم نے دیکھا اور پڑھا۔ حالی، شبلی، آزاد کے بارے میں کیا کیا کہا گیا' وہ ذکر تو رہ ہی گیا۔ خیر وہ بھی کریں گے۔ اس کھوٹے سفر کی روئداد بھی سنانی بھی ضروری تھی۔
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
پی آئی اے کو ملحوظ رکھ کر ہم کہتے ہیں کہ یہ محض ہوائی بات ہے۔
ابھی ابھی ہم اسی پی آئی اے کے ذریعہ سے لاہور سے دلی گئے تھے اور پی آئی اے ہی سے واپس آئے۔ اس سفر سے پہلے کی روئداد یہ ہے کہ غالبؔ انسٹی ٹیوٹ (دلی) نے اس برس اپنے سالانہ غالبؔ سیمینار کے دو روزہ اجلاس کو اردو کے تین بڑوں کے لیے وقف کیا تھا۔ مولانا حالی' مولانا شبلی' مولانا محمد حسین آزاد۔ پاکستان سے کتنے نقادوں اور محققوں کو مدعو کر رکھا تھا مگر وہ سب ہائے ویزا وائے ویزا کرتے رہ گئے۔ اور اس سیمینار میں شرکت کی سعادت کسے حاصل ہوئی۔ دو مسافروں کو۔ ایک اس خانماں خراب کو' ایک اصغر ندیم سید کو۔ ہاں ان کے شریک سفر ان کی شریک حیات بھی تھیں یعنی بی بی شیبا۔
خیر یہ تو ہمیں پہلے سے معلوم ہے کہ ع
ہوتے ہیں بہت رنج مسافر کو سفر میں
آخر ہم نے الف لیلہ پڑھ رکھی ہے۔ خالی سند باد جہازی نہیں وہاں تو ہر سوداگر زادہ اور ہر شہزادہ مشکل ہی سے نچلا بیٹھتا ہے۔ اس کے تلوے میں کھجلی ہوتی ہے اور بس سفر کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ پھر اللہ دے اور بندہ لے۔ ہر سفر جوکھوں کا سفر بن جاتا ہے۔ خیر وہ زمانہ کب کا گزر گیا۔ اب ہم اونٹ کی سواری سے بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ بیل گاڑی کی جگہ ریل گاڑی آ گئی۔ اونٹ کی سواری کو کوسوں پیچھے چھوڑ کر ہوائی جہاز آ گیا۔ لیکن آخر تاریخ بھی تو کوئی معنی رکھتی ہے۔
عرب سے ہم اپنے رشتہ سے کیسے انکار کریں۔ ہمارے لیے تو ہوائی کے جہاز بھی اونٹ کی سواری بن جاتے ہیں۔ اب یہ سمجھ لو کہ ہم نے لاہور سے دلی کا سفر جو کہنے کو چالیس پنتالیس منٹ کا سفر ہے اونٹ کے سفر کے حساب سے طے کیا۔ پی آئی اے والے مقررہ وقت سے ڈھائی گھنٹہ پہلے بلاتے ہیں۔ جہاز ان ڈھائی گھنٹوں میں اپنی طرف سے ڈھائی گھنٹہ کا اضافہ کرتا ہے مگر یہ تو معمول ہوا۔ اس ڈھائی گھنٹوں میں وقت اور موقعہ کی نزاکتوں کے حساب سے اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ تو پی آئی اے نے دلی کی فلائٹ کا وقت بارہ بجے دوپہر مقرر کر رکھا ہے۔ بہر حال اس نے بارہ بجے رات سے پہلے ہمیں دلی پہنچا دیا۔
واپسی کا احوال سنئے۔ واپسی کے لیے بھی ہماری تقدیر میں یہی لکھا تھا کہ پی آئی اے کی باد بہاری۔ ناقہ کی سواری۔ ہم صبح ہی صبح اپنی سرائے سے نکل پڑے۔ اصل میں یہ جامعہ ملیہ کا گیسٹ ہاؤس تھا۔ مگر گیسٹ ہاؤس تو انگریزی میں رکھا ہوا نام ہے۔ اس سے کچھ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ اپنی زبان میں اسے سرائے جانئے یا مسافر خانہ کہئے۔ یہ گیسٹ ہاؤس اپنی سرائے والی روایت کا امین ہے۔ مگر ہم جو وہاں سے صبح ہی
صبح نکل آئے' اس میں اپنی سرائے کی کوئی خطا نہیں تھی ع
اس میں کچھ شائبہ خوبی تقدیر بھی تھا
صبح ہی صبح شور مچا کہ نائب صدر جمہوریہ ہند تشریف لانے والے ہیں۔ ان کے آنے سے پہلے سیکیورٹی والے یہاں وارد ہوں گے اور پھر سیکیورٹی کا نقشہ اس طرح بچھے گا کہ آپ کے لیے اطمینان سے یہاں سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ سو ہم صبح کے مسافر بن کر اس سرائے سے نکلے اور چلے ہوائی اڈے کی طرف۔ خیر وہاں تو خیریت سے پہنچ گئے۔ ارے اب تو دلی کا ہوائی اڈا بھی اپنی جگہ ایک سیرگاہ ہے۔ پی آئی اے کے جہاز کو شیڈول کے مطابق ساڑھے تین بجے اڑنا تھا اور چار بج کر دس منٹ پر ہمیں لاہور لے جا کر انڈیل دینا تھا۔ مگر وہاں جا کر پتہ چلا کہ فلائٹ تین گھنٹے تاخیر سے محو پرواز ہو گی۔ کوئی مضائقہ نہیں۔ تین گھنٹے کی تاخیر تو اس کا معمول سمجھئے۔ مگر جب تین گھنٹے قریب آئے تو اصغر ندیم سید انکوائری کے سفر پر روانہ ہوئے اور یہ خبر وحشت اثر لے کر پھرے کہ وہ سواری جس میں بیٹھ کر ہمیں لاہور پہنچنا ہے ابھی تو لاہور ہی سے نہیں اڑی ہے۔ کب وہاں سے اڑے گی۔ کچھ پتہ نہیں۔
خدا خدا کرکے جہاز لاہور سے اڑا اور پلک جھپکتے دلی کے اڈے پر آن اترا۔ اور خبر ملی کہ جلدی ہی واپسی کے سفر پر اڑے گا۔ یہی کوئی سات بجے شام کو۔ خیر سات بجے نہ سہی آٹھ بجے سہی۔ جہاز حرکت میں آیا اور ہماری جان میں جان آئی۔ ارے یہ جان میں جان کتنی دیر کے لیے آئی تھی۔
جہاز حرکت میں ہے لیکن بس ہوائی اڈے کی حدود میں چکر کاٹ رہا ہے۔ پھریری لیتا ہے اور پھر سست پڑ جاتا ہے۔ یہ عمل اتنا لمبا کھچا کہ مسافر دعا مانگنے لگے۔ دلی خیریت سے آئے تھے' خیریت سے واپس گھر پہنچیں۔ اور ہمیں باری باری الف لیلہ کے کئی سفر یاد آئے۔ اب اونٹ کی سواری سے گزر کر بحری جہاز کی سواری ہے۔ بغداد سے دور واپسی کے لیے ساحل سمندر پر کھڑی ہے۔ مسافر اصفہان نصف جہان کی سیر کر کے جہاز میں آن بیٹھے ہیں۔ مگر جہاز حرکت میں نہیں آ رہا۔ تب جہاز کا کپتان اعلان کرتا ہے کہ جہاز میں ضرور کوئی غلط آدمی سوار ہو گیا ہے یا کوئی ایسا مسافر جو اصفہان نصف جہان میں کوئی ضروری خریداری کرنا بھول گیا ہے جب تک وہ یہ ضروری خریداری کے لیے بازار نہیں جائے گا اور مطلوبہ خریداری نہیں کرے گا تو جہاز نہیں چلے گا۔ ادھر ہم سوچ رہے تھے کہ اس جہاز کے مسافروں میں جو غلط آدمی شامل ہے وہ ہم تو نہیں ہیں۔
خیر ہمارے جہاز کے کپتان نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا۔ ایک مرتبہ واقعی اس نے ایسی ایڑ لگائی کہ جہاز نے زور کی پھریری لی اور ہوا میں اڑنے لگا۔ اور آخر کے تئیں اس نے ہمیں نو ساڑھے نو بجے رات کے لگ بھگ ہمیں لاہور کے ہوائی اڈے پر جا انڈیلا۔ اور پھر خیر سے بدھو گھر کو آئے۔
کمال ہے صاحب لاہور سے دلی کا سفر اب کتنا مختصر ہو گیا ہے۔ ہفتے میں ایک فلائٹ۔ اور سواریاں اتنی کہ مٹھی میں آ جائیں۔ ویزا کا حصول ان دنوں بہت مشکل سے ہوتا ہے۔ اس حساب سے مسافر بھی کم رہ گئے ہیں ۔یہ مختصر سفر ہفتے میں ایک بار کتنا بھاری پڑتا ہے۔ یہی پی آئی اے ایک زمانے میں کتنا مستعد تھا۔ اس کے جہاز کتنی پابندی وقت کے ساتھ اڑتے تھے اور فضا میں فراٹے بھر بھر کر دور کے شہروں میں جا اترتے تھے۔ اب اس کا کیا حال ہو گیا ہے۔
لاہور سے دلی تک کا مختصر سفر اس پر کتنا بھاری پڑتا ہے۔ عالمی فضا میں ملک ملک کے رنگا رنگ جہاز فراٹے بھرتے پورب پچھم اتر دکھن کہاں کہاں جاتے ہیں۔ پی آئی اے کے جہاز بھی پاکستان کے بھلے وقت میں ایسے ہی فراٹے بھرتے تھے۔ اب رینگتے ہیں۔ قسمت کا مارا ایک جہاز ہفتے میں ایک اڑان دلی کی لیتا ہے اور کن مشکلوں سے لیتا ہے۔ پی آئی اے کو کسی بدخواہ کی نظر لگ گئی۔
لیجیے غالب انسٹی ٹیوٹ میں جو ہم نے دیکھا اور پڑھا۔ حالی، شبلی، آزاد کے بارے میں کیا کیا کہا گیا' وہ ذکر تو رہ ہی گیا۔ خیر وہ بھی کریں گے۔ اس کھوٹے سفر کی روئداد بھی سنانی بھی ضروری تھی۔