مسلمان ریاستیں تباہی کے راستے
ملک کی فلاح ممکن ہے ورنہ پاکستان کو فرقہ ورانہ اور نسلی دلدل میں ڈال کر خدانخواستہ اس کو نابود کرنے کا پروگرام ہے۔
ایک دہائی میں کم و بیش ہوا کہ ان ممالک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ایک جوالا مکھی کی کیفیت نے ان کو گھیر رکھا ہے، ساکنان کا قتل بے دخلی دربدری، حکومتوں میں بدنظمی اور اب عراق جیسے ملک میں کئی ممالک کے ابھرنے کی کیفیت، دنیا کے کئی مغربی ممالک وہاں کے تیل کی دولت کو لوٹنے میں مصروف، عراق جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ ڈک چینی نے اٹھایا۔ اسلحے کی فروخت میں بھی ڈک چینی کافی نمایاں رہے اور مختلف عسکری قوتیں مختلف سمتوں اور مختلف ملکوں سے اسلحے کی سپلائی میں مصروف ہیں۔
شام تو ریزہ ریزہ ہوا، شہر کے شہر جل گئے خاندان کئی نیم ہوئے بچے بڑوں سے بچھڑ گئے تاریخ کے ایک نہیں کئی ایسے المیے گزر گئے کس کو حق کہا جائے اور کس کو باطل بس ہر طرف المیہ ہی المیہ ہے۔ پاکستان جو ان جنگوں سے دور رہا اور افغان جنگ میں مبتلا رہا۔ رفتہ رفتہ جنگ اس قدر قریب آ گئی کہ خون کے چھینٹے نہیں بلکہ خون کے تالاب اسکول میں بن گئے۔ جسم پر مردہ خون آلود جسموں کی لاشیں اور ان کے مابین دبی ہوئی چند سانسیں لیتے ہوئے نیم مردہ بچے جو شقی القلبوں کی نظر میں مردہ تھے بچ گئے۔
یہ تو نائیجیریا میں بوکو حرام کی 300 لڑکیوں کے اغوا کیے جانے کی واردات سے بھی بھیانک سانحہ تھا کیونکہ حملہ آوروں نے جو تعداد میں 7 سے نو تھے اسکول میں داخل ہوتے ہی اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی اور لاشوں کے انبار لگا دیے گئے۔ اگر غور کر کے دیکھا جائے تو یہ واقعہ اس قدر بھیانک ہے کہ اس کا موازنہ تاریخ میں ہونے والے واقعات میں سب سے بڑھ کر ہے کیونکہ مرنے والوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ انھیں کس کام کی سزا مل رہی ہے۔
انھوں نے اور ان کے اساتذہ اور والدین کا آخر کون سا جرم ہے جو یہ لوگ اساتذہ کو زندہ جلا رہے ہیں اور بچوں کے سامنے ان کو جلا رہے ہیں سلام ہو ہمارا ان اساتذہ پر جنھوں نے قاتلوں سے کہا کہ پہلے ہمیں قتل کرو بعد میں ہمارے بچوں کو۔ اساتذہ نے تاریخ میں مقام حاصل کیا۔ آرمی پبلک اسکول کے اساتذہ سے اور طلبا سے دنیا بھر میں ایسی یکجہتی کی گئی جیسے دنیا کے ہر رنگ و نسل کے لوگ ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر ماضی قریب میں ہمارے بعض چینل آن ایئر کرتے وقت پروگرام پر طائرانہ جائزہ لے لیتے تو ایسے پروگراموں کو عوام میں روشناس نہ کراتے جو اشتعال انگیزی کا باعث ہوتے ہیں مگر کاروباری مصلحت اور غیر ملکی مفادات کو اولیت دیتے ہوئے یہ کارروائیاں روا رکھی گئیں۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اب وہ جس طرح پروگرام کو چلانا چاہیں ممکن نہ ہو سکے گا۔ 24 دسمبر 2014ء کو جو آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی ہے اس میں کل تک جو لوگ طالبان سے دوستی روا رکھنے کے لیے چاق و چوبند نظر آتے تھے آج وہ اسی سرعت سے ان کے خلاف اعلان جنگ کر رہے ہیں جب کہ ان کے اس اظہار میں کس قدر صداقت ہے اس کا علم تو تمام اہل پاکستان کو ہو گا کہ یہ کانفرنس اپنے مقاصد میں کس حد تک سنجیدہ ہے آج کی کانفرنس میں چوہدری نثار فرما رہے تھے کہ میڈیا ہاؤسز کو دہشت گردوں اور ان کے ہم نواؤں کا بلیک آؤٹ کرنا ہو گا۔ مگر ابھی بہت عرصہ نہ ہوا جب جنرل راحیل شریف نے ضرب عضب کا اعلان کیا گھنٹوں نسلی، فرقہ وارانہ منافرت میڈیا ہاؤسز پر پھیلائی جاتی تھی اور ان کی بہادری کے کارنامے سنائے جاتے تھے اور اب یکسر مختلف باتیں ہو رہی ہیں خیر اب درست باتیں ہو رہی ہیں۔
کم ازکم ان ہی راہوں پہ چلیں گے تو ملک کی فلاح ممکن ہے ورنہ پاکستان کو فرقہ ورانہ اور نسلی دلدل میں ڈال کر خدانخواستہ اس کو نابود کرنے کا پروگرام ہے اگر بھارت کی موجودہ حکومت اس راز کو سمجھ لے تو بہتر ہو گا کہ مستحکم پاکستان خود بھارت کے لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آسام اور جھاڑکھنڈ کے علاقے بھارتی سلامتی کے لیے مسلسل بدامنی کا باعث بن رہے ہیں اور اگر پاکستان کی سرحدیں بھی غیر مستحکم ہوئیں تو بھارتی ترقی کے سارے خواب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے برصغیر پاک و ہند میں طالع آزمائی نہیں کی جا سکتی بھارتی وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی جہاں اب ان کی نگاہ کچھ روشن نظر آ رہی ہے مگر پاکستان کے معاملے میں دور بینی جاتی رہتی ہے پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازشیں تواتر سے ہو رہی ہیں۔
جہاں ایک طرف عراق میں تین ممالک بنانے کا پروگرام بن رہا ہے جیسے کرد اسٹیٹ، شیعہ اور سنی اسٹیٹ، ایسے ہی بے پر کے پروگرام پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک اور لینڈ لاک کنٹری (Land Lock Country) کا خیال جنم پا رہا ہے ظاہر ہے جب تک پاکستان ایک مضبوط فوج کے زیر اثر ہے یہ خیال خواب ہی رہے گا اور جلد یہ دماغ میں تحلیل ہو جائے گا۔ آج پورے پاکستان میں عقائد اور نظریات کا تصادم چل رہا ہے دراصل یہ نظریہ پاکستان جس کے تحت قوم متحد ہے۔
اس میں دراڑ ڈالنے کے لیے پھیلایا جا رہا ہے یہ سب پاکستان کی وحدت کے خلاف ایک سازش ہے جس مشترکہ نظریے نے پاکستان کی تخلیق کا عمل مکمل کیا وہی دراصل اس کی قوت کا مظہر ہے نہ کہ نسلی اور مذہبی گروہ بندی کرسچن کے خلاف ملک میں جو وارداتیں ہوئیں ان کا مقصد کرسچن دنیا میں پاکستان کے خلاف زہر پھیلانا تھا تا کہ پاکستان کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے اور غیر ممالک میں جو پاکستانی خصوصاً مغربی دنیا میں آباد مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر میں وہ یکہ و تنہا رہ جاتیں۔ اور پاکستان ویسے ہی معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔
بیرونی زرمبادلہ پاکستان کی کمزور معیشت کو دھکا دے رہا ہے ملکی صورت حال یہ ہے کہ ہم قرض لے کر ملک چلا رہے ہیں تقریباً ملک کا ہر فرد 85,000 کا مقروض ہو چکا ہے اور اگر صورت حال یہ رہی تو ملک مزید مقروض ہو جائے گا خیر جو وقت گزر گیا سو گزر گیا آنے والے وقت میں تو پاکستانیوں کو اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے خاص طور سے ایسے موقع پر جہاں دشمن جنگ کے اصولوں پر کاربند ہیں اس کی نظر میں تین چار برس کے بچے بھی مجرم ہیں جنھیں یہ علم نہیں کہ دشمن کون ہوتا ہے۔
16 دسمبر کے سانحے کے ردعمل کے نتیجے میں پاکستانی لیڈر شپ پہلی مرتبہ عسکری قیادت کے ہمراہ آج بیٹھی ہے اور کھل کر گفتگو ہو رہی ہے خاص طور سے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بظاہر پورے زور و شور سے گفتگو کی اور سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ آج جہاں حکومتی آواز اپوزیشن آواز اور سول سوسائٹی ایک سمت کھڑی دوسری جانب فوجی قیادت بھی اس اجلاس میں شرکت کر کے اپنی عملی تائید کر رہی ہے۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ معاملات انتہائی نازک شکل اختیار کر چکے ہیں، ضرب عضب میں مزید تیزی آئے گی اور شہری علاقوں میں جو ٹارگٹ کلنگ کا عفریت بے قابو ہو چکا تھا اس کو بھی لگام دی جائے گی۔
کراچی شہر جہاں دنیا بھر کے جرائم پیشہ روپوش ہیں اور اپنی کارروائیوں میں مصروف ہیں ان کا دائرہ بھی محدود ہو گا مگر قتل و غارت کا وہ واقعہ جو 16 دسمبر کو ہوا اس نوعیت کے کسی اور واقعے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا مگر ایک مثبت پہلو اس سارے واقعے میں یہ ہے کہ جنرل راحیل نے افغانستان سے فوجی نوعیت کا تعاون حاصل کیا ہے اس کی مثال پاک افغان تعلقات میں ماضی میں نہیں ملتی ہے۔
اس عمل سے پاک افغان علاقوں میں تشدد کی کارروائیوں میں واضح کمی واقع ہو گی اگر حکومت نے سنجیدگی سے پشاور واقعے کو اہمیت نہ دی ہوتی اور اسی طرح ملک کو چلایا جاتا تو ملک مزید یکسوئی سے نہ چل سکتا اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی قتل و غارت کے یہ انداز پھیلتے چلے جاتے اور سول سوسائٹی کسی کام کے قابل نہ رہتی پڑھنے لکھنے کے تمام ادارے بتدریج بند ہو جاتے۔ کیونکہ خوف کے اس عالم میں تعلیمی عمل بھلا کیسے جاری رہتا کیونکہ والدین کے نزدیک اولاد کی جان تعلیم سے زیادہ قیمتی ہے۔ مگر آج کے دور میں ایک ان پڑھ نسل پروان چڑھے کوئی ملک اس کا متحمل کیوں کر ہو سکتا ہے۔