کیا ڈرجائوں یا ڈٹ جائوں

ڈرانے والے اب بھی ڈرانے سے باز نہیں آتے کہ اگر پھانسیاں دی گئیں تو بڑا سخت رد عمل ہوگا۔

دشمن فوجوں کے لیے قلعہ کا دروازہ کھولنے والے قلعے کے باہر نہیں بلکہ اندر ہوتے ہیں۔ اگر ان کا معقول بندوبست نہ کیا گیا تو جنگ کے بغیر ہی ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد آج پاکستان کے ہر شہری کی زبان پر یہ سوال ہے کہ ڈر جاؤں یا ڈٹ جاؤں؟

ڈرانے والے اب بھی ڈرانے سے باز نہیں آتے کہ اگر پھانسیاں دی گئیں تو بڑا سخت رد عمل ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا سانحہ پشاور سے زیادہ بھیانک، بزدلانہ اور بے رحمانہ رد عمل بھی ہوسکتا ہے؟علاوہ ازیں اب پاکستان کے پاس گنوانے کو رہ ہی کیا گیا ہے؟ تباہ و برباد تو ہوچکے۔ پاکستان میں کون سی دودھ شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں جن کی فکر کریں۔ جہاں ستیاناس وہاں سوا ستیاناس جب مرنا ویسے بھی تھا اب مرنا ایسے بھی ہے تو شہید کی موت کیوں نہ مریں؟

سانحہ پشاور کے معصوم شہیدوں نے معاشرے پر کیسے کیسے حیرت انگیز اثرات مرتب کیے ہیں (خاص کر کراچی میں مہاجر پختون تعلقات کے تناظر میں) ملاحظہ کیجیے۔

میں سانحہ کے دوسرے دن MQM کے غیر سیاسی ونگ گہوارہ ادب کے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، موضوع سانحہ پشاور ہی تھا۔ بابر صاحب نے مجھ سے کہا ''شریف علی رعنا نے بھی کل کے حادثے پر ایک مضمون لکھا ہے لیکن اس کے عنوان پر مطمئن نہیں ہے آپ کو یاد کررہے تھے۔

شریف علی رعنا کا مختصر تعارف یہ ہے کہ وہ الطاف بھائی کا دیوانہ اور MQM کا کارکن ہے۔ شاید انھوں نے فون بھی کھڑکا دیا۔ اتنے میں ایک اور بی بی تشریف لائیں۔ شاہد وہ نائن زیرو کی شہیدوں کی یاد میں شمعیں جلانے کی تقریب میں شرکت کرکے آئی تھیں۔ بابر صاحب نے ان کے مانگے بغیر ہی ایک گلاس ٹھنڈا پانی ان کے آگے رکھ دیا۔ چند گھونٹ پانی پینے کے بعد انھوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا ''میرے بچے بھی اسکول جاتے ہیں جب بھی کل کا واقعہ یاد آتا ہے میں لرزجاتی ہوں'' اور اپنے آنسو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگتیں۔ لگتا تھا وہ دھاڑیں مار مار کر رونا چاہتی تھیں۔ شاید مجھ اجنبی کی وجہ سے مجبور تھیں۔


اتنے میں شریف علی رعنا بھاگے بھاگے تشریف لائے اور لفافے سے مضمون نکالتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے ''آپ نے دیکھ لیا کل پشاور میں 132 ننھے فرشتوں کے ساتھ کیا ہوا ؟ میں رات بھر سو نہیں سکا۔ میں نے اندازہ لگایا کہ ان کے بچے بھی اسکول جاتے ہیں۔ ان کے مضمون کا عنوان تھا ''سکتہ'' میں نے مضمون پڑھنے کے لیے کہا۔ مضمون کیا تھا بندے نے گویا اپنا غم زدہ بین کرتا ہوا دل کاغذ پر رکھ دیا تھا۔ ان کے چہرے اور کاغذ پر لکھی تحریر گواہی دے رہی تھی کہ واقعی وہ رات بھر سو نہیں سکے۔ میں نے مضمون کا عنوان سکتہ ہی پسند کیا تھا کیونکہ اس واردات کو دیکھ کر پوری قوم پر ''سکتہ'' طاری ہوگیا تھا اور وہ سیاسی، لسانی، فرقہ وارانہ، مسلکی تعصبات سے بے گانہ ہوگئی تھی۔ ان کو صرف اتنا یاد رہ گیا تھا کہ 132 ننھے شہید ہم سب کے جگر کے ٹکڑے تھے۔ اس کے بعد شریف علی رعنا اور کارکن بی بی یکے بعد دیگرے روانہ ہوگئے ہم سب کا دل بھی اچاٹ ہوگیا۔

محفل برخواست کرکے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔ میں اپنی بہو کو روزانہ دیکھتا ہوں کہ وہ کیسے لاڈ و پیار اور چاہت و چاؤ سے اپنے لاڈلے کو اسکول جانے کے لیے تیار کرتی ہے۔ منہ ہاتھ دھلانا، یونی فارم پہنانا، بالوں میں کنگھی کرنا اور ساتھ ساتھ نوالے منہ میں ڈالنا، جوتوں کو پالش کرنا اور فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنا اور موزے اور جوتے پہنانا، گلے میں پانی کی بوتل اور پیٹھ پر بستہ لٹکانا اس دوران شہزادے صرف دو کام کرتے ہیں۔ جب نوالہ منہ کے قریب آجاتا ہے تو منہ کھول دیتے ہیں اور جب مما فرش پر آلتی پالتی مارکر بیٹھتی ہیں تو پیر آگے کردیتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں جب پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے پھول جیسے بچوں پر کلاشنکوف کے برسٹ مارے گئے ہوں گے تو مما کو آواز دینے کی مہلت بھی نہیں ملی ہوگی۔

ہم پہلے سنی شیعہ میں تقسیم ہوئے، پھر 73 فرقوں میں بٹ گئے اس کے علاوہ لسانی، سیاسی، نسلی، قبائلی تقسیم الگ ہے۔ تقسیم در تقسیم ہونے کا آخر وہ کون سا بہانہ ہے جس کو ہم نے گلے نہیں لگایا۔ آج یہ سارے تعصبات ہمارے گلے کا ہار بن گئے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہر ایک کا یہ دعویٰ ہے کہ صرف وہی صراط مستقیم کا راہی ہے باقی سب کے سب واجب القتل فی سبیل اﷲ ۔

بے شک انسان نشے کی حالت، غصے کے عالم میں ہی نہیں بلکہ قومی سانحات کے دوران بھی منافقت اختیار نہیں کرسکتا۔ آج پوری قوم سانحہ پشاور کے معصوم شہیدوں کے صدقے پلک جھپکتے میں سارے تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر بانہیں پھیلائے دہائی دے رہی ہے یہ بچے ہمارے بچے تھے۔ ان کے قاتل کس کے ایجنٹ ہیں؟ اس سوال کا جواب ملنے تک قوم کا ہر باپ رات بھر سو نہیں سکتا۔ ہر ماں اپنے آنسو ضبط نہیں کرسکتی اور تو اور عالمی گاؤں (Global Village) کے ہر انسان پر سکتہ طاری ہے انسانیت بال کھولے بین کررہی ہے۔

میرے پیارے پیارے معصوم شہیدو! یہ تو ہمارا فرض تھا کہ تمہارے مستقبل کو محفوظ اور خوشگوار بنانے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے لیکن ہم شرمندہ ہیں کہ ہمیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے، گردن کاٹنے سے اور پیٹھ میں خنجر گھونپنے سے ہی فرصت کہاں تھی؟ تم نے ٹھیک ہی کیا اپنا چھوٹا سا ہی سہی، نرم اور ملائم ہی سہی لیکن خون میں لت پت جوتا گویا ہمارے منہ پر کھینچ مارا۔
Load Next Story