ہم تو شرمندہ ہیں

آج وہ فصلیں خوب بارآور ہوچکی ہیں، جاہل تو جاہل ہیں مگر پڑھے لکھے لوگ اس منافرت کی آگ کا ایندھن بن گئے۔


نجمہ عالم December 26, 2014
[email protected]

آج پورا ملک سوگوار اور ہر آنکھ اشک بار ہے۔ سیاسی گہما گہمی دھرنے، جلسے، جلوس سب خاموش ہیں اور مختلف مقامات پر معصوم کلیاں جو بنا کھلے مرجھا دی گئیں کی یاد میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں ، یہ تڑپتے دکھی دلوں کے احساسات کا اظہار ہے مگر کیا ہمارے جذبات دکھی دل، ماؤں کے تڑپتے دل کو پرسکون کرسکیں گے ان کی تمنا کو قرار آجائے گا؟ کیسی بے چینی اور بے قراری پوری قوم کا مقدر بنی ہے۔ ہمارے دکھ میں پوری دنیا شریک ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں؟اورکیسے ہوا؟ ہر دل سوچ رہا ہے ہر ایک کے سامنے ایک سوالیہ نشان ہے۔

آزادی کے ابتدائی چند برسوں کو چھوڑ کر ہر آنے والے وقت میں وہ تمام رابطے، کوششیں جو قومی یکجہتی و اتحاد کو پروان چڑھاتیں رفتہ رفتہ ان کو کمزور کیا گیا۔ وہ تمام ذرایع جو ہمیں ایک محب وطن قوم میں ڈھالتے معدوم کردیے گئے اور پھر دوسرے مرحلے میں علاقائی، لسانی، مذہبی اور سیاسی عصبیت اور نفرت کی آبیاری میں صرف کیے گئے۔ اگرچہ ملک کے عوام کی اکثریت محب وطن اور غیر متعصب تھی۔ رواداری، یکجہتی ان کے دلوں کی آواز اور خواہش تھی مگر مٹھی بھر مفاد پرستوں، مراعات یافتہ لوگوں سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔

اس لیے کبھی علاقائی برتری، کبھی لسانی چپقلش اورکبھی مذہبی و سیاسی منافرت کے بیج بوئے گئے۔ آج وہ فصلیں خوب بارآور ہوچکی ہیں، جاہل تو جاہل ہیں مگر پڑھے لکھے لوگ اس منافرت کی آگ کا ایندھن بن گئے۔ آج حالت یہ ہے کہ جن علاقوں میں تمام زبانیں بولنے والے تمام سیاسی نظریات اور تمام علاقوں کے لوگ پہلو بہ پہلو رہتے تھے ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہوتے تھے۔

کسی کے گھر کوئی مخصوص کھانا پکتا تو محلے کے چار چھ گھروں میں ضرور بھیجا جاتا تھا۔ مالی حالات اتنے بہتر نہ تھے مگر دل کشادہ پھر یہ گھاٹے کا سودا بھی نہیں تھا اس طرح آپس میں محبت، پیار اور اپنائیت تو فروغ پاتی ہی تھی پھر صرف ایک کھانا پکا کر ہر گھر میں کم ازکم دو تین طرح کے کھانے دستر خوان کی زینت الگ بنتے تھے۔ مگر آج حالات یہ ہیں کہ آپس کا لین دین خواب ماضی بن چکا ہے، پڑوسی پڑوسی کے حالات سے ناواقف ہیں۔ جب یہ صورت حال ہو تو قومی جذبہ حب الوطنی کیوں اور کیسے پروان چڑھے لہٰذا ہم ایک قوم ہوتے ہوئے بھی قوم کی بجائے ایک ریوڑ بن گئے جس کا کوئی نگہبان بھی نہیں جس کا دل چاہے کسی طرف بھی چل پڑے۔ ہمارے اس انتشار سے دشمن نے خوب فائدہ اٹھایا ہمیں ٹکڑوں میں بانٹ کر ہر ٹکڑے پر وار کیا اور مزید ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ قومی غیرت و حمیت پاش پاش ہوگئی۔

اس صورت حال میں جن سانپوں کو دودھ پلاپلا کر پالا گیا تھا وہ آج پورے ملک کو ڈس رہے ہیں۔ ضیا دور کو گزرے بھی برسوں بیت گئے مگر وہ ذہنیت اور انداز فکر جو اس دوران پروان چڑھ چکا تھا ہم آج بھی اس سے نجات حاصل نہ کرسکے۔ حد یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اقتدار کی خاطر ان کی حمایت و تائید کے سائے میں کرسی اقتدار پر قبضے کی کوشش کرتی رہیں اور ہماری آنکھیں نہ کھلیں۔ ہم ان ہی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے رہے جو کبھی مذاکرات کے نام پر کبھی مفاہمت کے نام پر ان کو خوب پنپنے کا موقع دیتے رہے اور آج جب پچاس ہزار بے گناہ شہریوں کے بعد معصوم بچے بھی ان کی بربریت کا نشانہ بن گئے تو ان کا نام تک لینے سے گریزاں ہیں جب کہ وہ خود بڑے فخر سے اس دلدوز واقعے کی ذمے داری قبول کر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ ہمارے لبوں پر اب بھی مہر ثبت ہے۔ دہشت گرد کہہ کر بات کی جا رہی ہے جب کہ ٹی ٹی پی کے ترجمان نے برملا کہا کہ یہ کارروائی شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا ردعمل ہے۔

یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ اس انسانیت سوز سانحے میں اندر سے بھی مدد فراہم کی گئی جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف مخصوص علاقوں میں آپریشن کے علاوہ اپنے ہر شعبے کے اندر موجود دشمن پر بھی نہ صرف نظر رکھی بلکہ اس کا موثر تدارک بھی کرنا ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ پوری قوم فرد واحد کی طرح کھڑی ہو، طالبان ہوں یا القاعدہ ان کا براہ راست خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں موجود ان کے ہمدردوں، سہولت کاروں اور نظریاتی ساتھیوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا۔ ورنہ یہ آگ آرمی پبلک اسکول پشاور تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ ملک کے ہر تعلیمی ادارے کو خدانخواستہ اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں مگر قبل اس کے اس عفریت کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں مہذب قوموں کی طرح ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو آیندہ کے لیے تمام اندیشوں کا سدباب کرسکیں۔ ہمیں اپنے حفاظتی اداروں کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا، ہمیں ہر شعبے سے کالی بھیڑوں کو نکالنا ہوگا۔

مخصوص مکاتب فکر کے مدارس کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہوگا۔ اگرچہ یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں مگر ناممکن ہرگز نہیں۔ بہت سے افراد، اداروں اور عناصر کو یہ سب کچھ بہت گراں گزرے گا مگر ہم اپنے بچوں کو اپنے مستقبل کو مزید داؤ پر لگانے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں۔اس سانحے کے اثرات ماند پڑنے کا انتظارکرنا فضول ہے قوم اس بربریت کو ہرگز فراموش نہیں کرسکتی۔ ہمیشہ کی طرح قوم کی تسلی کے لیے کمیشن بنا دیا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ آیا یہ کمیٹی بھی کچھ کرے گی یا ہمیشہ کی طرح غیر فعال رہے گی؟ بظاہر صورتحال تو یہ ہے کہ کسی بھی جماعت کے لبوں سے تحریک طالبان کا نام تک نہیں نکل رہا بعض تو وہ لوگ ہیں جو ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرنے کے حامی تھے۔ کئی مواقعے پر دہشت گردی کے ثبوت کے باوجود کارروائی نہیں کی گئی ۔ بہرحال جب آگ ہمارے دروازے تک آچکی ہے، جب ہمارے پھول مرجھا گئے ہیں جب ہمارا مستقبل دہشت گردی کی نذر ہوگیا ہے تو ہمیں کچھ نہ کچھ تو سنجیدگی اختیار کرنا پڑے گی۔ اس کے لیے جیساکہ پہلے عرض کیا کہ مختلف شعبوں میں چھپے طالبان کے ہمدردوں پر بھی گرفت کی جائے اس کے علاوہ پورے ملک میں یکساں نصاب رائج کیا جائے۔ تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر قومی زبان کو ذریعہ تعلیم قرار دیا جائے کیونکہ آج قومی یکجہتی کی جتنی ضرورت ہے اتنی شاید پہلے نہ تھی۔ یکساں نظام تعلیم اور ایک ہی ذریعہ تعلیم پوری قوم کو ایک انداز فکر یکساں سوچ اور ایک دوسرے کو قریب لانے کے لیے موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔

پاکستان طویل عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ جی ایچ کیو، کامرہ، مہران ایئربیس، کراچی ایئرپورٹ کے علاوہ اور بھی کئی بڑے اور خوفناک سانحے ہوچکے ۔ امریکا میں 9/11 کے بعد پھر کوئی بڑا حادثہ رونما نہ ہوا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ انھوں نے اپنے پورے نظام کا بغور جائزہ لیا اور جہاں جہاں کمزوری تھی اس کو دور کیا۔ کیا ہم اپنے پھول سے 132 بچوں اور کئی اساتذہ کی قربانی کو مدنظر رکھ کر بھی کوئی مثبت اور فعال حکمت عملی تیار نہیں کریں گے؟ اگر نہیں کریں گے تو ہمارے سر شرم سے ان معصوموں کے سامنے روز حشر جھکیں گے ضرور۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں