دہشت گرد ابنارمل نہیں ہوتے

پاکستان میں سالانہ صرف دس سے بیس نیورولوجسٹ تیار ہو رہے ہیں اور ان میں بھی 50فیصد پاکستان سے باہر منتقل ہوجاتے ہیں۔



دہشت کیا ہے، دہشت کسے کہتے ہیں اور انسان دہشت زدہ کیوں ہوجاتا ہے، اسے سمجھنے کے لیے ہم اسے مختلف لفظوں سے سمجھنے کی کوشش کرسکتے ہیں ، جیسے کسی کو دہشت دلانا یا ڈرانا ، یا کسی امر سے ہولناکی جتانا یا کسی عمل سے ہمت شکنی پیدا کرنا یا پھر دہشت ایک اعصابی ہسٹریا کی بیماری کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔بد قسمتی سے پاکستان میں ذہنی صحت اور دماغی بیماریوں سے متعلق کوئی ڈیٹا نہیں ہے ۔ نیورولوجی ایورینس (awareness) اور اس پر ریسرچ کی ضرورت ہے ۔

پاکستان میں فالج کے مریضوں میں سالانہ تین لاکھ پچاس ہزار افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔پاکستان میں روزانہ فالج سے چارسو افراد کی موت واقع ہوجاتی ہے جب کہ اس ضمن میں پاکستان گورنمنٹ کی جانب سے اقدامات نہ ہونا افسوس ناک ہے، جس کی وجہ سے فالج کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔یہ بیماری بلڈ پریشر ، سگریٹ نوشی اور کولیسٹرول میں اضافے کی وجہ سے ہوتی ہے۔جب کہ 63فیصد افراد طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے فالج کا شکار ہو جاتے ہیں ، پاکستان میں بیس لاکھ کے قریب افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ڈائینشیا ، رعشہ سمیت دیگر دماغی اور اعصابی امراض میں مبتلا ہے۔

صرف رعشہ (یارکنسنز) سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق چالیس لاکھ سے زائد ہے جب کہ عالمی سطح پر یہ تعداد چھ ملین سے تجاوز کرچکی ہے اسی طرح صرف برطانیہ میں تقریبا سات لاکھ افراد حافظے کی کمزوری کا شکار ہیں ۔دماغ سے متعلق علاج موجود ہے لیکن اس کے لیے بروقت تشخیص ضروری ہے ، بد قسمتی سے پاکستان میں ہم اعصابی بیماری کو کسی قسم کی بیماری ہی نہیں سمجھتے ۔پاکستان میںصرف170نیورولوجسٹ بتائے جاتے ہیں یعنی اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کے لیے۔جب کہ پاکستان کے 75فیصدسرکاری اسپتالوں ، میڈیکل یونیورسٹی اور کالجوں جب کہ 95فیصد ڈسٹرکٹ اسپتالوں میں نیورولوجسٹ کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔

پاکستان میں سالانہ صرف دس سے بیس نیورولوجسٹ تیار ہو رہے ہیں اور ان میں بھی 50فیصد پاکستان سے باہر منتقل ہوجاتے ہیں۔ دراصل میں حکومت کی جانب سے عدم توجہ اور سہولیات کی فراہمی نہ ہونے کے سبب نیورولوجسٹ کی تعداد باہر ملک منتقل ہونے پر مجبور ہوتی ہے۔ترقی پذیر ممالک میں 80فیصد افراد ذہنی امراض کا علاج اس کے مہنگے ہونے کی وجہ سے نہیں کرا پاتے ، جب کہ یورپین برین کونسل کی تحقیق کے مطابق یورپ میں 798بلین یورو دماغی بیماریوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔

امریکا میں دو سال قبل ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں ایک مسافر طیارے کے پائلٹ کو دوران پرواز اچانک ہسٹریا کا دورہ پڑا جس کے باعث قریب تھا کہ طیارہ گر کر تباہ ہوجاتا تاہم مسافروں نے ''دماغی توازن کھوجانے والے'' پائلٹ کے اوسان بحال کرانے میں مدد کی، جس کے بعد مسافروں میں موجود ایک پائلٹ نے طیارے کو بہ حفاظت ہوائی اڈے پر اتار لیا۔عینی شاہدین کے مطابق طیارے کا پائلٹ 49سالہ کلائٹون اوسپورن کاک پٹ سے نکل کے ٹائلٹ گیا اور کافی دیر تک واپس نہ آیا جب ٹائلٹ سے باہر نکلا تو وہ ہوش و حواس میں نہ تھا اس کی زبان پر القاعدہ ، دہشت گردی ، اسرائیل ، عراق اور افغانستان کے الفاظوں کی گردان تھی اور وہ نہایت خوف کے عالم میں مسافروں سے دعاؤں کی درخواست کر رہا تھا ۔وہ بار بار القاعدہ ، افغانستان اور عراق کا نام لیتا اور کہتا یہ طیارہ ابھی ہمارے اوپر گرنے والا ہے ، آپ سب لوگ دعا کریں ، اپنے رب کو یاد کریں ، اسی کیفیت میں ایک دوسرے مسافر نے طیارے کا کنٹرول سنبھال کر اسے ہنگامی طور پر ایک قریبی ہوائی اڈے پر اتار دیا ۔ ہوائی اڈے پر ایف بی آئی کے اہلکار اور دماغی معائنہ کار موجود تھے جو متاثرہ پائلٹ کو اپنے ساتھ لے گئے۔

دراصل ہم اپنے اطراف میں دیکھیں تو ہمیں خود یہ احساس ہوگا کہ کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود اس بیماری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ۔امریکا میں نائن الیون کے واقعے کے بعد دیگر شعبہ ہائے علم کے ساتھ ساتھ ماہرین نفسیات نے بھی دہشت گردی کے اسباب کو سمجھنے ، انسانی شخصیت اور کردار کے ان عوامل کا کھوج لگانے کی کوششیں تیزکردی جو فردکو تشدد،جارحیت اور دہشت گردی کی طرف لے جاتے ہیں ۔انسانی تاریخ دہشت گردی کے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن آج کے اس جدید دور میں دنیا ایک گلوبل ولیج کی شکل اختیار کرچکا ہے۔دہشت گردی کے حوالے سے اگر اسے یہ سمجھا جائے کہ کسی سیاسی یا ذاتی مقصد کے حصول کے لیے تشدد کا استعمال یا استعمار کی دھمکی ایک بڑے گروپ کے خلاف چھوٹے گروپ سے ہو تو یہ دہشت گردی کہلائی جائے گی۔اس ضمن میں چھوٹے گروپ کے لوگ بڑے گروپ کے غیر مسلح افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اگر بڑے طاقت ور گروپ کوئی کارروائی کرتے ہیں تو اسے دہشت گردی قرار نہیں دیا جاتا جب کہ چھوٹے گروپ کی کسی بھی کارروائی کو دہشت گردی قرار دے دیا جاتا ہے۔

دہشت گردی اگر قوت کا استعمال ہے ، جارحیت اور تشدد سے کسی سیاسی یا سماجی مقصد کے حصول کے لیے تو پھر یہ کسی بھی طرح کے گروپ کی طرف سے کسی کے خلاف بھی روا رکھی جائے اسے دہشت گردی کہا جائے گا۔اس حوالے سے ہم اس بات کو بھی نظر انداز کرتے ہیں کہ میڈیا یا اطراف میں ہونے والے واقعات کے توسط سے فرد کی نفسیات تبدیل ہوجاتی ہے۔ فرد کے حوالے سے جن پر ہم دہشت گردی پر نگاہ ڈالیں تو ہم اپنی توجہ انفرادی عوامل پر لگاتے ہیں ، یہاں ہم فرد کو شرارتی ، خودکشی کرنے والے، سائیکو پیتھ ، اخلاقیات سے عاری ، دوسروں کے احساسات کا خیال نہ کرنے والا قرار دیتے ہیں ۔شائد یہ تحقیق دوسروں کے لیے حیران کن ہو کہ دہشت گردی کے اسباب میں فرد کو ابنارمل سمجھا جاتا ہے جو ضروری نہیں ، دہشت گردی کرنے والے اپنی شخصیت اور ذہنی بگاڑ کے اعتبار سے نارمل افراد سے مخلتف نہیں ہوتے بلکہ بعض ماہرین مانتے ہیں کہ دہشت گرد مکمل طور پر نارمل افراد ہوتے ہیں اور دہشت گردی کسی وقتی اشتعال کا فوری جواب نہیں ہوتی بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہوتا ہے ۔

ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دہشت گردی کے لیے فرد ایک دم مائل نہیں ہوتا بلکہ وہ فرد رفتہ رفتہ دہشت گردی کی طرف مائل ہوتا ہے ، سماجی ، سیاسی اور بین الاقوامی حالات فرد کی سوچ میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں۔وہ جب خود کو اپنے دشمن کے سامنے مکمل طور پر بے بس پاتا ہے تو آخری چارہ گر کے طور پر وہ خود کو تباہ کرکے اپنے دشمن کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایک نارمل فرد غیر محسوس انداز میں انتقامی تصورات کو اپنے دماغ پر طاری کرنا شروع کردیتا ہے اور اس کے پیچھے اخلاقی تصورات کو منطق بنا لیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ لوگ ان تصورات کو لے کر جان لینے یا جان دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتے ہیں کہ زندگی میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو زندگی میں ، زندگی سے بھی زیادہ اہم ہے اس لیے جب وہ تصورات اس پر قابض ہوجاتے ہیں تو وہ ان کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے برین واش ہوجاتا ہے۔یعنی ہمیں دہشت گرد اخلاقی اعتبار سے نارمل افراد جیسے ہی نظر آتے ہیں۔

معاشرے کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا ۔ میڈیا کو اپنا کردار دیکھنا ہوگا کیونکہ اس سے عام فرد نہایت متاثر ہو رہا ہے ۔سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو اپنے قول و عمل کو دیکھنا ہوگا۔حکومت کو ایسی پالیسی وضع کرنا ہوگی کہ فرد سماج کے مثبت پہلوؤں کو اپنائے۔دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات رونما ہو رہے ہیں اس کی اصل بنیادی وجہ کو دیکھنا ہوگا اور اسے ختم کرنا ہوگا ، جن طبقات میں احساس محرومی پیدا ہوئی ہے یا پیدا ہو رہی ہے اسے دور کرنا ہوگا۔فرد پر دہشتگردی کے اثرات جن ذرایع سے پیدا ہو رہے ہیں ان اسباب کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔ دہشت گردی کو بزور طاقت ختم نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ مائنڈ سیٹ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں