سال 2014 ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر کیلیے چیلنجز سے بھرپور

تھری جی اور فورجی ٹیکنالوجی سے ملک میں تقریباً 1ارب ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوئی۔

2015میں کاروباری لاگت کو کم کرتے ہوئے ریونیو میں اضافہ ٹیلی کام کمپنیوں کیلیے سب سے بڑ اچیلنج ہوگا۔ فوٹو: فائل

TEHRAN:
پاکستان میں رواں سال ٹیلی کمیونی کیشن ٹیکنالوجی میں نئے باب کا اضافہ کرگیا، اس سال پاکستان میں نیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی۔

تھری جی اور فورجی ٹیکنالوجی کے لیے اسپیکٹرم لائسنس کے ذریعے جہاں ملک میں تقریباً 1ارب ڈالر کی غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوئی وہیں پاکستانی صارفین کو بھی انٹرنیٹ اور کمیونی کیشن کی جدید اور تیزرفتار سہولت میسر آگئی، ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے نیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے لیے رول آؤٹ اور انفرااسٹرکچر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری رہا، ساتھ ہی ٹیلی کام کمپنیوں کو خدمات پر ٹیکسوں کی بھرمار اور بلند کاروباری لاگت کے چیلنجز درپیش رہے۔

پاکستان میں ٹیلی کام کا شعبہ مجموعی طور پر40 فیصد تک محصولات ادا کررہا ہے جو دنیا کے کسی بھی ملک میں ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکسوں کی بلند ترین شرح ہے، ان ٹیکسوں میں جنرل سیلز ٹیکس، ودہولڈنگ، سم ایکٹیویشن چارجز اور ہینڈ سیٹ پر لگنے والے چارجز شامل ہیں، ٹیکسوں کی بھرمار سے ایک جانب ٹیلی کام صارفین کو خدمات کی بلند لاگت کا سامنا ہے جبکہ دوسری طرف یہ کمپنیوں کے لیے بلند کاروباری لاگت اور مسابقت کے ماحول میں ریونیو کے حصول کے لیے بھی بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔


پاکستان میں سیکیورٹی خدشات کے سبب سمز کی فروخت اور تصدیق کے لیے بائیو میٹرک نظام کی تنصیب سے بھی سمز کی فروخت کو دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، کمپنیوں نے بائیومیٹرک سسٹم کی تنصیب پر 2.5ارب روپے کی سرمایہ کاری کی ہے، اس کے باوجود دہشت گردی کی وارداتوں میں سمز کے غیرقانونی استعمال کا راستہ بند نہیں ہوسکا، عوام کے تحفظ اور قومی سلامتی کی خاطر حکومت کی جانب سے حساس دنوں میں سال 2014کے دوران بھی سروس معطل کی جاتی رہی جس سے کمپنیوں کو ریونیو میں کمی کا سامنا کرنا پڑا، ملک میں جاری توانائی کا بحران بھی ٹیلی کام انڈسٹری کیلیے بدستور ایک چیلنج بنا رہا۔

ملک کے دور دراز علاقوں تک کمیونی کیشن کی سہولت فراہم کرنے کیلیے بنایا گیا یونیورسل سروس فنڈ حکومت نے مالیاتی توازن قائم کرنے کیلیے استعمال کیا حالانکہ یہ فنڈ ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمیونی کیشن کا دائرہ وسیع کرنے کیلیے قائم کیا گیا تھا، کمپنیوں کو کمیونی کیشن ٹاورز کو ڈاؤن ہونے سے بچانے کیلیے متبادل انتظامات جنریٹرز، بیک اپ بیٹریوں پر بھاری سرمایہ کاری کرنا پڑی، اسی طرح امن و امان کے مسائل کا شکار علاقوں میں تنصیبات اور عملے کی حفاظت پر اٹھنے والے اضافی اخراجات نے بھی انڈسٹری کے مسائل میں اضافہ کیا۔

انڈسٹری کی ترقی اور رکاوٹوں کے خاتمے کیلیے قومی ٹیلی کام پالیسی وضع نہیں کی جاسکی، ٹیلی کام کمپنیوں نے ٹاور شیئرنگ کی طرح اسپیکٹرم شیئرنگ کی بھی تجویز پیش کی ہے، کمپنیوں کی جانب سے ٹیکسوں میں کمی کا مطالبہ بھی حکومت کی توجہ کا منتظر ہے۔

2015میں کاروباری لاگت کو کم کرتے ہوئے ریونیو میں اضافہ ٹیلی کام کمپنیوں کیلیے سب سے بڑ اچیلنج ہوگا، دہشت گردی کی وارداتوں میں غیرقانونی سمز کا استعمال روکنے کیلیے حکومت کی ہدایت پر پہلے بھی 2 مرتبہ سسٹم متعارف کرایا جاچکا تاہم موجودہ خدشات مزید اقدامات کے متقاضی ہیں، اسی طرح غیرتصدیق شدہ سمز کی 28 روز میں تصدیق بھی ٹیلی کام سیکٹر اور ریگولیٹر پی ٹی اے کیلیے وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
Load Next Story