کھیل کود اور دھاندلی پکڑی گئی
بھارت دھاندلی کے ذریعے پاکستان کو شکست دے کر ورلڈ کپ کی فتح کا جشن ہی منارہا تھا کہ پاکستان کا احتجاج رنگ لے آیا ۔
LONDON:
بھارت کی جانب سے زمانہ امن اور جنگ میں دھاندلی عام ہے۔ کسی بھی کام میں بھارت کی جانب سے دھاندلی اور جھوٹ، میرے اور آپ کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بات مذاکرات کی ہو،معاہدوں کی یا کھیل کے میدان کی، بھارت کی ہرموقع پر یہی کوشش ہوتی ہے کہ بس دھاندلی سے اپنا مفاد حاصل کیا جائے۔
پہلے ہم بھارت کا یہ رویہ خارجہ تعلقات کی حد تک دیکھتے تھے، لیکن نہ جانے کیوں اب تو بھارت نے کسی میدان کو خالی نہیں چھوڑا۔ جہاں وہ اپنے زور اور دھاندلی کی بنیاد پر اپنا مفاد حاصل نہ کر رہا ہو۔ ایسے ہی ایک میدان کا ذکر میں آج اپنی تحریر میں کررہا ہوں۔ جی ہاں یہ کوئی اور میدان نہیں بلکہ کھیل کا میدان ہے۔ جہاں اب بھارت نے اپنی جیت کے لئے دھاندلی کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔ اگر بھارت کی کھیل کے میدان میں تازہ دھاندلی کی بات کی جائےتو ہمیں جیتی جاگتی مثال پاک بھارت کے درمیان ہونے والے کبڈی ورلڈ کپ کے فائنل میں نظر آتی ہےجہاں بھارت نے اپنی عزت قائم رکھنے کے لئے سرعام دھاندلی کر ڈالی۔
ویسے تو دنیا میں یہی ہوتا ہے کہ جب میزبان ملک کسی دوسرے ممالک کی ٹیموں کو اپنے ملک میں بلاتا ہے تو اس کو شکوہ شکایات کا موقع نہیں دیتا۔ میزبان ملک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی مہمان ٹیم میزبانی پر سوال نہ اٹھائے۔لیکن بھارت کو ایسی کوئی فکر نہیں ہوتی، اور اس کا عملی ثبوت اسی فائنل میچ میں دیکھا گیا۔ جب پاکستانی کبڈی ٹیم کے ہیڈ کوچ اور کپتان کی جانب سے چیخ چیخ کر یہ اعتراض کیا جاتا رہا کہ بھارتی کھلاڑیوں کو میچ کے دوران جسم پر تیل اور بام استعمال کرنے دی جا رہی ہے، اور دوسری جانب کیوں ہمیں پانی پینے دیا جا رہا ہے تو انتظامیہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا اور بات یہاں ختم نہیں ہو ئی کہ رہی سہی کسر بھارت کے امپائرزنے پوری کر دی۔ بھارتی امپائرز نے عین آخری وقت میں بھارت کی جیت میں اہم کردارادا کیا اورجیسے ہی میچ ختم ہونے سے کچھ لمحے قبل بھارت نے ایک پوائینٹ کی سبقت حاصل کی میچ کو ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا اور نتیجہ پاکستان کی شکست کی صورت میں نکلا۔
یہ سب دیکھ کر، سن کر ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون سا رویہ ہے، یہ کون سی میزبانی ہے جہاں میزبان کی جانب سے مہمانوں کو دھمکیاں دے کر کھیل کا فیصلہ اپنے نام کر لیا جاتا ہے۔ایسے کھیلنے سے تو اچھا تھا کہ بھارت بلامقابلہ ہی جیت کا اعلان کردیتا۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زیادتی کبھی چھپتی نہیں۔ میچ کے اختتام پر جب پاکستانی کبڈی ٹیم کے کپتان احمد شفیق نے میڈیا سےاور اختتامی تقریب میں یہ آواز اٹھائی ہے کہ بھارت کا یہ رویہ کسی صورت اب قبول نہیں کیا جائے گا اوراگر بھارت نے یہ ورلڈ کپ اپنے گھر ہی رکھنا ہے تو پھر دوسری ٹیموں کو دعوت ہی نہ دیا کرے۔ اور اِس آواز اُٹھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ اس با ت کو اب انٹرنیشنل کبڈی فیڈریشن نے بھی تسلیم کرلیا کہ فائنل میچ میں بھارت کی جانب سے دھاندلی کی گئی ہےاور انٹرنیشنل کبڈی فیڈریشن نے بھارت کو عالمی چیمپئن ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کسی بھی کبڈی کے میچ میں نیوٹرل امپائر کو رکھا جاتا ہےجبکہ بھارت میں ہر بار اپنے ہی امپائر ز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جس کے باعث بھارت میں کھیلے جانے والے میچز پر تحفظات ضرورہیں۔ اگر دیکھا جائے تو انٹرنیشنل کبڈی فیڈریشن کے سی ای او کی جانب سے یہ بیان اتنے دن گزر جانے کے باوجود رپورٹ نہ آنے کی وجہ سے سامنے آئی ہے اور آخر کیسے یہ رپورٹ پیش کرے کیونکہ بھارت کو اب یہ تشویش ہے کہ کہیں ان کو دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑھ جائے لیکن اب سی ای او کے ان بیانات کے بعد بھارت کو پوری دنیا میں شرمندگی کا تو ضرور سامنا کرنا پڑے گا اور بھارت پر کھیلوں کے حوالے سے سوالات بھی ضرور پیدا ہوں گے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن سے گزارش ہے اس فائنل کی مکمل تحقیقات کروائے اور اس دھاندلی کو عیاں کرے تاکہ آئندہ کسی بھی ملک کو اِس طرح کی حرکت کرنے کی جرات تک نہ ہو۔ دوسرے جانب پاکستان کبڈی فیڈریشن کو بھی چائیے کہ وہ اس فائنل کی تحقیقات کئے بغیر اورآئندہ بھارت سے اپنے تحفظات دور کئے بغیر کبھی بھارت کھیلنے نہ جائے۔ میرے خیال سے کھیل تو ہار جیت کا نام ہے، کبھی ہار تو کبھی جیت، اس کا یہ تو ہرگز مطلب نہیں کہ ہار کے خوف سے ہر کوئی دھاندلی کرنا شروع کر دے۔مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب بھارتی کبڈی ٹیم لاہور کھیلنے کے لئے آئی تھی تو وہ ایک فیصلہ اپنے حق میں نہ ہونے کی وجہ سے میدان چھوڑ کر باہر بیٹھ گئی تھی۔ خود بھارت دوسروں کے میدانوں میں خوب ناز نخرے دیکھاتا ہے اور خود میزبانی کی بار اپنے ہوم گراوئنڈ کا فائدہ اٹھا کر دھاندلی کر تا ہے۔ بھارت کے لئے میرا ایک ہی پیغام ہے کہ اسپورٹس مین سپرٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ہارجیت کے علاوہ، کھلاڑی کو برداشت اورحوصلے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی کھیل کا اصل حسن ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
بھارت کی جانب سے زمانہ امن اور جنگ میں دھاندلی عام ہے۔ کسی بھی کام میں بھارت کی جانب سے دھاندلی اور جھوٹ، میرے اور آپ کے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بات مذاکرات کی ہو،معاہدوں کی یا کھیل کے میدان کی، بھارت کی ہرموقع پر یہی کوشش ہوتی ہے کہ بس دھاندلی سے اپنا مفاد حاصل کیا جائے۔
پہلے ہم بھارت کا یہ رویہ خارجہ تعلقات کی حد تک دیکھتے تھے، لیکن نہ جانے کیوں اب تو بھارت نے کسی میدان کو خالی نہیں چھوڑا۔ جہاں وہ اپنے زور اور دھاندلی کی بنیاد پر اپنا مفاد حاصل نہ کر رہا ہو۔ ایسے ہی ایک میدان کا ذکر میں آج اپنی تحریر میں کررہا ہوں۔ جی ہاں یہ کوئی اور میدان نہیں بلکہ کھیل کا میدان ہے۔ جہاں اب بھارت نے اپنی جیت کے لئے دھاندلی کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے۔ اگر بھارت کی کھیل کے میدان میں تازہ دھاندلی کی بات کی جائےتو ہمیں جیتی جاگتی مثال پاک بھارت کے درمیان ہونے والے کبڈی ورلڈ کپ کے فائنل میں نظر آتی ہےجہاں بھارت نے اپنی عزت قائم رکھنے کے لئے سرعام دھاندلی کر ڈالی۔
ویسے تو دنیا میں یہی ہوتا ہے کہ جب میزبان ملک کسی دوسرے ممالک کی ٹیموں کو اپنے ملک میں بلاتا ہے تو اس کو شکوہ شکایات کا موقع نہیں دیتا۔ میزبان ملک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی مہمان ٹیم میزبانی پر سوال نہ اٹھائے۔لیکن بھارت کو ایسی کوئی فکر نہیں ہوتی، اور اس کا عملی ثبوت اسی فائنل میچ میں دیکھا گیا۔ جب پاکستانی کبڈی ٹیم کے ہیڈ کوچ اور کپتان کی جانب سے چیخ چیخ کر یہ اعتراض کیا جاتا رہا کہ بھارتی کھلاڑیوں کو میچ کے دوران جسم پر تیل اور بام استعمال کرنے دی جا رہی ہے، اور دوسری جانب کیوں ہمیں پانی پینے دیا جا رہا ہے تو انتظامیہ کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا اور بات یہاں ختم نہیں ہو ئی کہ رہی سہی کسر بھارت کے امپائرزنے پوری کر دی۔ بھارتی امپائرز نے عین آخری وقت میں بھارت کی جیت میں اہم کردارادا کیا اورجیسے ہی میچ ختم ہونے سے کچھ لمحے قبل بھارت نے ایک پوائینٹ کی سبقت حاصل کی میچ کو ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا اور نتیجہ پاکستان کی شکست کی صورت میں نکلا۔
یہ سب دیکھ کر، سن کر ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ یہ کون سا رویہ ہے، یہ کون سی میزبانی ہے جہاں میزبان کی جانب سے مہمانوں کو دھمکیاں دے کر کھیل کا فیصلہ اپنے نام کر لیا جاتا ہے۔ایسے کھیلنے سے تو اچھا تھا کہ بھارت بلامقابلہ ہی جیت کا اعلان کردیتا۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زیادتی کبھی چھپتی نہیں۔ میچ کے اختتام پر جب پاکستانی کبڈی ٹیم کے کپتان احمد شفیق نے میڈیا سےاور اختتامی تقریب میں یہ آواز اٹھائی ہے کہ بھارت کا یہ رویہ کسی صورت اب قبول نہیں کیا جائے گا اوراگر بھارت نے یہ ورلڈ کپ اپنے گھر ہی رکھنا ہے تو پھر دوسری ٹیموں کو دعوت ہی نہ دیا کرے۔ اور اِس آواز اُٹھانے کا فائدہ یہ ہوا کہ اس با ت کو اب انٹرنیشنل کبڈی فیڈریشن نے بھی تسلیم کرلیا کہ فائنل میچ میں بھارت کی جانب سے دھاندلی کی گئی ہےاور انٹرنیشنل کبڈی فیڈریشن نے بھارت کو عالمی چیمپئن ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کسی بھی کبڈی کے میچ میں نیوٹرل امپائر کو رکھا جاتا ہےجبکہ بھارت میں ہر بار اپنے ہی امپائر ز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں، جس کے باعث بھارت میں کھیلے جانے والے میچز پر تحفظات ضرورہیں۔ اگر دیکھا جائے تو انٹرنیشنل کبڈی فیڈریشن کے سی ای او کی جانب سے یہ بیان اتنے دن گزر جانے کے باوجود رپورٹ نہ آنے کی وجہ سے سامنے آئی ہے اور آخر کیسے یہ رپورٹ پیش کرے کیونکہ بھارت کو اب یہ تشویش ہے کہ کہیں ان کو دنیا بھر میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑھ جائے لیکن اب سی ای او کے ان بیانات کے بعد بھارت کو پوری دنیا میں شرمندگی کا تو ضرور سامنا کرنا پڑے گا اور بھارت پر کھیلوں کے حوالے سے سوالات بھی ضرور پیدا ہوں گے۔
انٹرنیشنل فیڈریشن سے گزارش ہے اس فائنل کی مکمل تحقیقات کروائے اور اس دھاندلی کو عیاں کرے تاکہ آئندہ کسی بھی ملک کو اِس طرح کی حرکت کرنے کی جرات تک نہ ہو۔ دوسرے جانب پاکستان کبڈی فیڈریشن کو بھی چائیے کہ وہ اس فائنل کی تحقیقات کئے بغیر اورآئندہ بھارت سے اپنے تحفظات دور کئے بغیر کبھی بھارت کھیلنے نہ جائے۔ میرے خیال سے کھیل تو ہار جیت کا نام ہے، کبھی ہار تو کبھی جیت، اس کا یہ تو ہرگز مطلب نہیں کہ ہار کے خوف سے ہر کوئی دھاندلی کرنا شروع کر دے۔مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ جب بھارتی کبڈی ٹیم لاہور کھیلنے کے لئے آئی تھی تو وہ ایک فیصلہ اپنے حق میں نہ ہونے کی وجہ سے میدان چھوڑ کر باہر بیٹھ گئی تھی۔ خود بھارت دوسروں کے میدانوں میں خوب ناز نخرے دیکھاتا ہے اور خود میزبانی کی بار اپنے ہوم گراوئنڈ کا فائدہ اٹھا کر دھاندلی کر تا ہے۔ بھارت کے لئے میرا ایک ہی پیغام ہے کہ اسپورٹس مین سپرٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، ہارجیت کے علاوہ، کھلاڑی کو برداشت اورحوصلے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی کھیل کا اصل حسن ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔