مت سمجھو ہم نے بُھلادیا

بے نظیر بھٹو کی شہادت کے 7 سال بعد بھی قاتل انجام سے دور

بینظیر بھٹو کی ساری زندگی نشیب وفراز کا سامنا کرتے گزری۔ فوٹو: فائل

لاہور:
جانے یہ کیسا اتفاق۔۔۔ ملک کا پہلا وزیراعظم، پہلا منتخب وزیراعظم اور پہلی خاتون وزیراعظم۔۔۔ تینوں کا جائے مقتل ایک ہی شہر بنا۔ لیاقت علی کو 1951ء میں عوام سے مخاطب ہونے سے پہلے اور بے نظیر کو اسی جگہ عوام سے مخاطب ہونے کے بعد ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے، درمیان میں ذوالفقار علی بھٹو کو ایک مقدمے میں دار پر کھینچا جاتا ہے۔۔۔!

رخصت ہوتے2007ء کا ایک دن اپنے ڈھلتے ہوئے سورج کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی زندگی کو لے کر ڈوب جاتا ہے، سیاسی افق پر گہرا رنج چھا جاتا ہے۔ بے نظیر کے کروڑوں عقیدت مند اس ناقابل تصور سانحے کے گہرے غم میں ڈوب گئے۔ ہمیشہ کی طرح استفسار ہوتا ہے ''قاتل کون؟'' اس دن گولیاں بھی چلیں، خودکُش حملہ بھی ہوا۔ ڈاکٹر مصدق نے پہلے گولی لگنے کو جان لیوا قرار دیا، اگلے ہی روز اس کی وجہ سر پر کسی چیز کی ضرب بتائی۔ دوسری طرف جائے حادثہ کو دھو دیا جاتا ہے۔ 24 اپریل 2010ء کو بنی تحقیقاتی کمیٹی کو سعود عزیز کو ذمہ دار قرار دینے کے تحریری ثبوت نہ مل سکے۔

جانچ شروع ہوتی ہے۔۔۔ملزم اعتزاز شاہ پکڑا جاتا ہے، تفتیش کے نتیجے میں رفاقت، حسنین، عبدالرشید اور شیر زمان کی حراست عمل میں آتی ہے۔ فرد جرم عائد ہوتی ہے۔ پھر اسکاٹ لینڈ یارڈ سے تحقیقات ہوتی ہیں۔ 4 جنوری 2008ء تا 8 فروری 2008ء کی اس تحقیقات میں دھماکے میں سر کسی چیز سے ٹکرانے کو موت کی وجہ بتایا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی اسے مسترد کرتی ہے، 22 مئی 2008ء کو پیپلزپارٹی کی حکومت اقوام متحدہ سے تحقیقات کرانے کا اعلان کردیتی ہے۔

دوسری طرف 18 مارچ 2008ء کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کالعدم تحریک طالبان کے امیر بیت اﷲ محسود کو اشتہاری ملزم قرار دیتی ہے۔ اگست 2009ء کو وہ امریکی جاسوس طیارے کے حملے میں مارا جاتا ہے۔ 27 دسمبر 2008ء کو آصف زرداری یہ دعویٰ کرتے ہیںکہ وہ قاتلوں کو جانتے ہیں، لیکن چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی تحقیقات کے ذریعے بے نقاب کیا جائے۔

15 اپریل 2010ء کو اقوام متحدہ کی رپورٹ کہتی ہے کہ اس وقت کی حکومت بے نظیر کے تحفظ میں ناکام رہی، پیپلزپارٹی کا حفاظتی بندوبست ناقص تھا۔ ساتھ ہی پوسٹ مارٹم نہ کرانے اور نوعمر ملزم کو تمام منصوبہ بندی کا ذمہ دار قرار دینے پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور حکومت پر مزید تحقیقات کے لیے زور دیا جاتا ہے۔ 23 جولائی 2010ء کو اس وقت کے صدر آصف زرداری کہتے ہیں، رپورٹ عجلت میں جاری کی گئی، انہیں اسٹیبلشمنٹ نے نہیں، طالبان کی سوچ رکھنے والوں نے قتل کیا۔ اسی سال بے نظیر کی برسی پر انہوں نے ایک بار پھر اقوام متحدہ کی رپورٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا پرویز مشرف نے بے نظیر کو تحفظ نہیں دیا۔

17 اپریل 2010ء کو پرویز مشرف اور دیگر افراد کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ 18 اپریل 2010ء کو سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل، سابق سیکریٹری داخلہ کمال شاہ، سابق ڈی آئی جی اعجاز شاہ، سابق ڈی پی او راولپنڈی سعود عزیز، ڈی سی او راولپنڈی عرفان الٰہی، ڈی آئی جی عبدالحمید مروت، سابق ایس پی آپریشن یٰسین فاروق، ایس پی خرم شہزاد اور ایس پی اشفاق انور کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگادی جاتی ہے۔

25 مئی 2010ء کو ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد قریشی کی قیادت میں ازسرنو تحقیقات شروع ہوتی ہیں۔ 27 دسمبر 2010ء کو رحمٰن ملک کہتے ہیں کہ تحقیقات مکمل ہوچکیں اور قاتلوں کا پتا چل گیا۔ رپورٹ پارٹی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ ہمیں پتا ہے قاتل کون ہے، انہیں کس نے اور کس کے ذریعے قتل کرایا۔ رپورٹ صدر نے دیکھ لی پانچ سے سات روز میں عوام کے سامنے پیش کردیں گے۔ 31 دسمبر 2010ء کو ایک انگریزی اخبار سرکاری ذرایع سے انکشاف کرتا ہے کہ یہ رپورٹ صدر نے مجلس عاملہ کے اجلاس میں پیش کرنے سے روک دی ہے۔

اس رپورٹ میں بیت اللہ محسود کے کردار کو بھی تسلیم کیا گیا اور کہا گیا کہ قتل کا منصوبہ مبینہ طور پر 9 افراد نے مل کر ایک بریگیڈیر کے گھر بنایا اور ان نو میں سے چار لوگ مرچکے ہیں۔ رحمٰن ملک اس کی تردید کرتے ہیں۔ 19 نومبر 2011ء کو رحمٰن ملک کہتے ہیں کہ بے نظیر کے قتل میں پرویزمشرف کے علاوہ دیگر عناصر بھی ملوث ہیں۔ ہمارے پاس شواہد ہیں کہ قتل کی منصوبہ بندی کہاں کی گئی اور قاتل کن گاڑیوں میں آئے اور کس نے ان کا استقبال کیا۔ ہم قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ پارٹی نے فیصلہ کیا تو تمام سازش بے نقاب کردیں گے اور قاتلوں کو قوم کے سامنے پیش کریں گے۔



دوسری طرف ایف آئی اے کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم 13 دسمبر 2010ء کو اس وقت کے سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کو باقاعدہ شامل تفتیش کر لیتی ہے۔ 22 دسمبر 2010ء کو دونوں کی عبوری ضمانتیں منسوخ کردیں اور انہیں کمرۂ عدالت سے گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ 7 اپریل 2011ء کو یہ دونوں ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔ 5 نومبر 2011ء کو سی پی او سعود عزیز اور اسی پی راول ٹاؤن خرم شہزاد سمیت پانچ ملزمان اعتزاز شاہ، شیرزمان، رفاقت، حسنین گل، اور عبدالرشید ترابی پر فرد جرم عاید کر دی جاتی ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف کو 7 فروری 2011ء کو شامل کر کے مفرور قرار دیا جاتا ہے اور 12 فروری کو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہیں۔ اسی دن جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی سربراہی بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد قریشی کی جگہ واجد ضیا کو ذمہ داریاں ملتی ہیں۔ 19 فروری 2011ء اور5 مارچ کو دوبارہ وارنٹ جاری ہوتے ہیں۔ 26 مارچ کو انٹرپول کے ذریعے گرفتاری کا حکم ہوتا ہے، مگر برطانیہ 8 اپریل 2011ء کو معاہدہ نہ ہونے کے باعث وارنٹ گرفتاری پر عمل سے معذرت کرلیتا ہے۔ 30 مئی 2011ء کو پرویزمشرف کو اشتہاری قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم وہ 24 مارچ 2013ء کو وطن واپسی سے قبل ضمانت کروانے میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔

24 اپریل 2013ء کو گرفتار کرکے 26 اپریل 2013ء کو پرویزمشرف کا جسمانی ریمانڈ دیا جاتا ہے۔ 20 اگست 2013ء کو ان سمیت سات ملزمان پر فرد جرم عاید کردی جاتی ہے۔8 دسمبر 2013ء کی ایک خبر کے مطابق پرویزمشرف کے خلاف تفتیشی ٹیم نے وزارت داخلہ کے سابق ترجمان بریگیڈیر (ر) جاوید اقبال چیمہ، سابق ڈی جی آئی بی بریگیڈیر (ر) اعجاز شاہ، سابق سیکریٹری داخلہ سید کمال شاہ، دو امریکی صحافی مارک سیگل اور رون سسکنڈ کو اہم گواہ بنایا جاتا ہے، مگر یہ سب سابق صدر کے خلاف بطور گواہ پیش ہونے سے معذرت کر لیتے ہیں۔

یکم اپریل 2013ء کو عدالت پرویز مشرف کی آمد کے بعد مقدمے کی ازسرنو سماعت کا فیصلہ کرتی ہے۔ یوں اس وقت تک کے محفوظ کیے جانے والے 25 گواہان کے بیانات غیرموثر ہوجاتے ہیں۔ 4 ستمبر 2013ء کو بلاول بھٹو کی طرف سے دوبارہ سماعت چیلینج کی جاتی ہے۔ یکم اکتوبر 2013ء کو یہ درخواست خارج اور 22 اکتوبر 2013ء کو ازسرنو مقدمے کی سماعت شروع ہوجاتی ہے۔ اس دوران 3 مئی 2013 ء کو بے نظیر قتل کیس میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار اسلام آباد میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوجاتے ہیں۔

27 دسمبر 2013ء کو رحمٰن ملک کہتے ہیں کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے بے نظیر کے قاتلوں کو نہیں پکڑا وہ عدالتوں میں جاکر بیس روپے کا چالان جمع کراکے کیس کا پورا ریکارڈ چیک کرسکتے ہیں۔ گذشتہ ایک سال کے دوران مختلف وجوہات کی بنا پر بے نظیر بھٹو کے قتل کی سماعت کئی بار التوا کا شکار ہوئی۔ نام زَد تین ملزمان پرویزمشرف، سابق ڈی آئی جی سعود عزیز، اور ایس پی خرم شہزاد ضمانت پر ہیں، جب کہ باقی پانچ ملزمان اعتزاز شاہ، شیر زمان، رفاقت، حسنین اور رشید ترابی پونے سات سال سے اڈیالہ جیل میں ہیں۔

اشتہاری قرار دیے گئے سات ملزمان مختلف واقعات میں مارے جاچکے ہیں، جن میں بیت اﷲ محسود، خودکُش بم بار اکرام اﷲ، عبادالرحمٰن، عبداﷲ، فیض محمد کسکٹ، نصر اﷲ اور نادر شامل ہیں۔ مقدمے کے اہم گواہان عدالت میں بیان دینے سے گریزاں ہیں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی وکیل پیش نہیں ہو رہا۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چوہدری اظہر سیالکوٹ سے مقدمے کی سماعت کے لیے آتے ہیں۔ مقدمے کی آئندہ سماعت اب 10 جنوری 2015ء کو ہوگی۔



بینظیرؔ بھٹو: ایک تاریخ سازشخصیت

شاعر نے کہا ہے کہ

بچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

یہ شعر کسی پر صادق آئے یا نہ آئے لیکن محترمہ بینظیر بھٹو شہید پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ ایک ایس شخصیت جو صرف اپنی فیملی یا اپنی پارٹی کے لیے ہی اہم نہیں تھی، بل کہ ان کی موجودگی ہر پاکستانی کے لیے اہمیت رکھتی تھی۔ سیاسی و نظریاتی اختلافات کسی کے ساتھ بھی ہوسکتے ہیں لیکن آج جب وہ ہم میں نہیں تو ہر پاکستانی ان کی کمی شدت سے محسوس کررہا ہے۔ بینظیر بھٹو نے اپنی شخصیت، باوقار سراپے، مضبوط کردار، حوصلہ مندی، چیلینجوں سے نمٹنے کی صلاحیت، دوراندیشی اور ایسی ہی دیگر صلاحیتوں کے بل بوتے پر دنیا کے تقریباً ہر حصے میں پاکستان کی پہچان کرائی۔ آج بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ بینظیر بھٹو کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ساری زندگی نشیب و فراز کا سامنا کرتے گزری۔ اپنے یوم پیدائش 21 جون 1953 سے لے کر یوم شہادت 27 دسمبر 2007 ء تک ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی بیٹی ہونے کے ناتے وہ ہر مرحلے پر اپنے والد کے سیاسی ورثے کی حفاظت کے لیے آگے آگے رہیں۔ انھوں نے اپنے والد کی وزارت عظمیٰ کا دور بھی دیکھا اور پھر اپنے ان کی اسیری سے لے کر انھیں پھانسی دیے جانے تک وہ اپنے والد سے رابطے میں رہیں۔ اس سفر میں بینظیر بھٹو کو اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کا بھی بھر پور ساتھ میسر رہا، جو خاتون ہونے کے باوجود انتہائی مشکل حالات کا پامردی سے مقابلہ کرتی رہیں۔

بے نظیر بھٹو نے والد کے بعد مشکل حالات میں پارٹی کی ذمے داری سنبھالی تو قومی سیاست میں سب کو پیچھے چھوڑدیا۔ ہر قسم کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے اصولوں کو اپنا ہتھیار بناکر مخالفین کو زیر کیا۔ بے نظیر محب وطن، غریب پرور اور کرشماتی شخصیت کی مالک تھیں۔ نام کی طرح اُن کی زندگی بھی بے نظیر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں بے شمار اعزازات و انعامات کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے، جب کہ وہ پاکستان کی واحد خاتون ہیں جو وزیراعظم بنیں۔

بے نظیر بھٹو نے تو دو بار وزارت عظمیٰ سنبھال کر ایسا ریکارڈ بنایا ہے جو شاید ہی قومی تاریخ میں کوئی خاتون برابر کرسکے یا توڑسکے۔ والد کے بعد انھیں پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن مقرر کیا گیا، اس طرح انھیں یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ ملک کی کسی بڑی سیاسی جماعت کی خاتون سربراہ مقرر ہوئیں۔ بے نظیر نے اپوزیشن لیڈر کی بھی ذمے داریاں سنبھالیں۔ اپنے سیاسی کیریر کے دوران انھوں نے ملکی وغیرملکی میڈیا کو ان گنت انٹرویوز دیے، اور ہمیشہ پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوش حالی کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

مختلف حلقوں کی جانب سے ان کی بطور وزیراعظم تقرری کی مخالفت بھی کی گئی، لیکن بے نظیر بھٹو نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اور تدبر سے بہت جلد اس صورت حال پر قابو پالیا۔ ان کے مخالفین بھی رفتہ رفتہ ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے سنے گئے۔


بطور وزیراعظم اور سربراہ پیپلزپارٹی، بے نظیر بھٹو جہاں لاکھوں کروڑوں دلوں کی دھڑکن بنی رہیں، وہیں نہ صرف عوام کی ایک بڑی تعداد جس کا پی پی سے کوئی تعلق نہیں، ان کی شخصیت کا ہمیشہ گرویدہ نظر آیا۔ بے نظیر بھٹو نے معاشی، سیاسی، سماجی اور قومی و بین الاقوامی محاذوں پر متعدد کام یابیاں حاصل کیں۔ مردوں کی بالادستی والے معاشرے میں انھوں نے ہر قسم کے حالات کا جرأت مندی سے مقابلہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ان کے مخالفین بھی ''آئرن لیڈی'' کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔ اُن کی وزارت عظمیٰ کا پہلا دور 1988 سے 1990 رہا جب کہ وہ دوسری بار 1993 تا 1996 وزیراعظم رہیں۔



1997 میں منعقدہ عام انتخابات میں پارٹی کی شکست کے بعد وہ دبئی چلی گئیں جہاں انھوں نے کئی سال جلاوطنی میں گزارے۔ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں والد کی سزائے موت، اس پر عمل درآمد، دونوں بھائیوں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کی اموات دیکھیں۔ اپنے شریک سفر آصف زرداری کی طویل قید بھی برداشت کی، تو دوسری طرف بلاول بھٹو، بختاور اور آصفہ جیسے بچوں کی موجودگی نے بینظیر کے بہت سے غموں پر مرہم بھی رکھا۔ آج بھی پیپلز پارٹی کا ہر کارکن بلاول، بختاور اور آصفہ کو دیکھتا ہے تو اُسے ان بچوں میں بی بی کا عکس دکھائی دیتا ہے۔

بینظیر بھٹو نے عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص جس طرح اجاگر کیا ، اُس کا کھلا اعتراف ملکی و غیر ملکی میڈیا نے بار بار کیا ہے۔ کراچی کے لیڈی جیننگ نرسری اسکول سے لے کر امریکا کی معروف ہارورڈ یونیورسٹی تک کی تعلیم اور خاندانی قابلیت کا نچوڑ ان کی زندگی کے ہر پل میں نظر آتا تھا۔ انھوں نے اپنے کئی انٹرویوز میں ہارورڈ یونیورسٹی میں گزارے گئے وقت کو اپنے بہترین لمحات میں شمار کیا۔ 1995 میں جب بے نظیر وزیراعظم بنیں تو انھوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے ہارورڈ لااسکول کے لیے تحائف بھی بھیجے، جو ان کی اپنے اس تعلیمی ادارے سے محبت کا ثبوت تھا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے بعد انھوں نے معروف برطانوی یونیورسٹی آکسفورڈ کے لیڈی مارگریٹ ہال میں معاشیات، سیاست، اور فلسفے کے مضامین پڑھے۔ اس کے علاوہ آکسفورڈ کے ہی سینٹ کیتھرین کالج سے بین الاقوامی قانون اور سفارت کاری پر حاصل کی گئی تعلیم نے اُن کی قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی قابلیت کو مزید نکھارا۔ یہ بینظیر بھٹو کی قائدانہ صلاحیتوں کا اعتراف ہی تھا کہ 1976 میں انھیں آکسفورڈ یونین کا صدر منتخب کیا گیا۔ وہ اس عہدے پر کام کرنے والی ایشیا کی پہلی خاتون تھیں۔

محترمہ بینظیر بھٹو سابق صدر پرویزمشرف سے ایک معاہدے کے تحت 2007 میں پاکستان واپس آئیں، گوکہ انھیں شدید سیکیوریٹی خطرات کے بارے میں آگاہ کردیا گیا تھا، لیکن بے نظیر نے جگہ جگہ عوامی جلسوں میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا۔ بے نظیر کی آمد کے وقت ہی دہشت گردوں نے ان پر پہلا حملہ کیا۔ کراچی پہنچنے کے بعد جب ہزاروں کارکنوں پر مشتمل اُن کا قافلہ کراچی ایئرپورٹ سے مزارقائد کی جانب رواں دواں تھا تو کارساز پر دو زوردار دھماکوں نے فضا خون آلود کردی، دہشت گردی کی اس بزدلانہ کارروائی میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں، ہم دردوں سمیت تقریباً 150 افراد جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔

یہ دھماکے بھی بے نظیر کے پائے استقلال میں کوئی لرزش پیدا نہ کرسکے۔ وہ اپنی پارٹی کی انتخابی مہم کے لیے شہر شہر جلسے کرکے عوام سے مخاطب ہوتی رہیں، ہر شہر اور ہر علاقے میں عوام نے ''چاروں صوبوں کی زنجیر، بے نظیر بے نظیر '' کے نعروں سے اُن کا استقبال کیا۔

پھر 27 دسمبر 2007 کی خوں آشام شام آگئی۔ راولپنڈی میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب میں بینظیر بھٹو نے پاکستان دشمنوں کو بھرپور انداز میں للکارا، جلسے کے فوری بعد جب بی بی بینظیر جلسہ گاہ سے باہر نکلیں تو دہشت گردوں نے انھیں فائرنگ اور دھماکے کا نشانہ بنایا۔ اس حملے میں پاکستانی قوم بے نظیر جیسی بے مثال راہ نما سے محروم ہوگئی۔

بطور مسلمان ہم سب جانتے ہیں کہ موت برحق ہے ، ایک نہ ایک دن سب کو خالق حقیقی کے پاس واپس جانا ہے لیکن کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن سے براہ راست تعلق نہ ہونے کے باوجود ان کی غیرموجودگی ہر کوئی محسوس کرتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت اور اُن کی جدائی کا دکھ اگر لاڑکانہ کے عوام کو ہوا تو کراچی میں بھی اس لرزہ خیز واقعے پر آنکھیں نم ہوگئیں۔ لاہور، اسلام آبار، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ غرض کہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر اور گاؤں میں بے نظیر کی شہادت پر افسوس بھی ہوا اور احتجاج بھی۔ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا غم تو فطری امر تھا لیکن بینظیر کی شہادت کا درد ہر خاص و عام نے شدت سے محسوس کیا ہے۔

آج 27 دسمبر 2014 کو، جب کہ اس واقعے کو 7 سال گزرچکے ہیں، کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ بے نظیر بھٹو ہمارے درمیان نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج بھی پیپلزپارٹی کے ہر جلسے اور ہر تقریب میں ''زندہ ہے بی بی، زندہ ہے'' کے نعرے لگتے ہیں اور تمام جیالے اس نعرے کی تکرار سے دنیا والوں کو بتاتے ہیں کہ ان کی لیڈر، ان کی قائد آج بھی ان کی راہ نمائی کے لیے موجود ہے۔ یہ بات طے ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا نام قومی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ انتہائی عزت و احترام سے لیا جاتا رہے گا۔



واپسی کا سفر

18 اکتوبر 2007ء کے روز کراچی کے قائداعظم انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر قدم رکھتے ہوئے میں جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہوگئی۔ سیاست میں سرگرم عمل زیادہ تر خواتین کی طرح، میں بھی اس معاملے میں بہت حساس ہوں کہ ہر موقع پر اپنے آپ پر قابو رکھوں اور اپنے محسوسات کو جھلکنے کی اجازت کبھی نہ دوں۔

کاروبار سیاست یا حکومت میں حصہ لینے والی کسی بھی خاتون کے لیے جذبات کا اظہار ایک ایسی کمزوری کی تصدیق ہوتا ہے جو ایسی خواتین سے وابستہ کیے جانے والے روایتی تصورات اور مضحکہ خیز حکایتوں کو تقویت دیتی ہے، مگر جب جلاوطنی کے آٹھ تنہا اور کٹھن سالوں کے بعد میرے قدموں نے پیارے پاکستان کی سرزمین کو چھوا تو میں اپنی آنکھوں سے امڈنے والے آنسوؤں کو نہ روک سکی اور میں نے اپنے ہاتھ بلند کردیے، اظہار عقیدت کے لیے، اظہار تشکر کے لیے اور دعا کے لیے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے کندھوں سے ایک بھاری، کچل دینے والا بوجھ ہٹ گیا ہو۔ یہ آزادی کا احساس تھا۔ بالآخر میں گھر واپس آگئی تھی۔ میں جانتی تھی کہ کیوں۔ میں جانتی تھی کہ مجھے کیا کرنا ہے۔

21 سال بعد، دبئی سے کراچی کو پرواز کرتے ہوئے مجھے علم تھا کہ میرے 2007ء کے استقبال کا موازنہ 1986ء کے استقبال سے کیا جائے گا۔ میں جانتی تھی کہ جنرل پرویزمشرف کے مصاحبین یہ موہوم سی آس لگائے بیٹھے تھے کہ میری واپسی کا روکھا پھیکا استقبال ان کی مطلق العنان حکومت کو جائز ثابت کردے گا۔ 18 اکتوبر کے روز جب میں نے طیارے سے باہر قدم رکھا تو مجھے علم نہ تھا کہ مجھے کیا توقع کرنی چاہیے۔

اس روز جو کچھ میرے سامنے آیا وہ میرے خوابوں اور میری توقعات سے کہیں بڑھ کر تھا۔ ایک مطلق العنان ریاست میں بھی، واقعتاً لاکھوں لوگ دور دور سے سفر کرکے میرا اور جمہوریت کی واپسی کا خیرمقدم کرنے کو آئے تھے۔ یہ حقیقی معنوں میں دم بخود کردینے والا نظارہ تھا اور اسے پاکستانی ٹیلی ویژن پر براہ راست پوری دنیا میں بی بی سی اور سی این این پر دکھایا جارہا تھا ۔ پوری دنیا دیکھ رہی تھی اور جو انہوں نے دیکھا وہ ایک قوم کا دوسرا جنم تھا۔

جنرل مشرف کی طرف سے بھیجے جانے والے پیغامات سے مجھے علم ہوا تھا کہ میری واپسی پر مجھے فوراً قتل کرنے کی کوشش کے لیے سرحد اور قبائلی علاقوں سے خودکش دستے بھیجے جا سکتے ہیں۔ درحقیقت ایک ہمدرد غیرملکی مسلم حکومت کی طرف سے مجھے مقرر کردہ قاتلوں کے نام اور موبائل فون نمبر بھی فراہم کردیے گئے تھے۔ جنرل مشرف کی حکومت مجھے لاحق مخصوص خطرات سے واقف تھی، ان کے علم میں ان لوگوں کے نام اور نمبر بھی تھے جو مجھے قتل کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے اور دوسروں کے نام بھی، جن میں سے کچھ ان کے اندرونی حلقے اور پارٹی میں شامل تھے، جو ہمارے یقین کے مطابق سازش تیار کر رہے تھے۔

ہماری درخواست کے باوجود ہمیں یہ نہ بتایا گیا کہ میری آمد سے پہلے فراہم کردہ مواد کی بنیاد پر، ان انتباہات پر کیا کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ ہمار ے طیارے کے اترنے کے دوران بھی، جنرل کے ساتھی مجھے واپس آنے سے روکنے کے لیے، مجھے مزار قائد پر تقریر کرنے سے روکنے کے لیے، ایئرپورٹ سے مزار تک میرے جلوس کو منسوخ کرنے کے لیے فون پر فون کر رہے تھے، مگر میں جانتی تھی کہ جمہوریت پر اور میری قیادت پر یقین رکھنے والے لوگ کراچی کی گلیوں میں میرے منتظر تھے۔

تاریک ہوتے آسمان اور پھیلتے ہوئے ہجوم میں سے ایک ایک انچ کرکے آگے بڑھتے ہوئے، ایک عجیب اور پریشان کن عنصر میری نگاہ میں آنے لگا۔ یہ ایک عجیب بات تھی کہ جب ہم کسی گلی کی نکڑ کے نزدیک پہنچتے، اسٹریٹ لائٹس دھندلانے اور پھر بجنے لگتیں۔ یہ محسوس کرنے کے بعد یہ کوئی اِکّا دُکّا واقعہ نہیں بلکہ ایک منظم انداز میں ظہور پذیر ہو رہا ہے، میں نے اپنے اسٹاف سے کہا کہ وہ جتنے زیادہ ہوسکیں پرنٹ اور الیکٹرانک خبری ذرائع سے رابطہ کریں اور انہیں بتائیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پہنچنے پر گلیوں کی روشنیاں دانستہ طور پر بجھا کر ایک انتہائی خطرناک صورت حال پیدا کی جارہی ہے۔



آصف یہ دیکھ کر بہت پریشان تھے کہ وہ میرے ٹرک پر موجود افراد کو موبائل فونوں پر بات کرتے ہوئے دیکھ سکتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر جیمر حقیقتاً کام کر رہے ہوں تو میری گاڑی کے نزدیک کوئی بھی موبائل فون کام نہیں کرے گا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ جیمر کام کیوں نہیں کر رہے۔ میرے سیکیوریٹی مشیر نے جنرل مشرف کے قومی سلامتی کونسل کے مشیر طارق عزیز سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر کام یاب نہ ہوسکے۔

جب پہلا بم میرے جائے وجود کے بالکل متوازی پھٹا تو ٹرک کے ساتھ ساتھ میں بھی، اور ٹرک کے اندر اور اوپر موجود دیگر افراد بھی، سرتاپا ہل گئے۔ دھماکے کی قوت درد کی ایک تیز لہر بن کر میرے کان میں اترگئی ۔ ٹرک سے ابلنے والے پی پی پی کے ترانے یک لخت خاموش ہوگئے۔ ایک اعصاب شکن سناٹا، جو بے یقینی کے اس لمحے سے پوری طرح ہم آہنگ تھا، ہر طرف مسلط ہوگیا۔ پھر دوسرا دھماکا ہوا، پہلے سے کہیں زیادہ بلند، طاقتور اور تباہ کن۔ دونوں دھماکوں کے تقریباً ساتھ ہی، کوئی چیز ٹرک سے ٹکرائی اور یہ جھول گیا۔ یہ بکتربند ٹرک تھا مگر پھر بھی اس کا یہ حال ہوا۔ بعدازاں میں نے ٹرک کے بائیں جانب دو واضح ڈینٹ پڑے دیکھے، ٹھیک اسی جگہ جہاں میں بیٹھی ہوئی تھی۔

ٹرک کے گرد آگ لگ گئی۔ ہرطرف خون جلتا ہوا گوشت اور جسمانی اعضاء پھیل گئے۔ ہمارے پیارے لڑکے، سفید ٹی شرٹوں میں ملبوس، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اور میرے ٹرک کے نزدیک انسانی ڈھال بنائے کھڑے، پہلے شہیدوں میں شامل تھے۔ وہ جو صرف چند منٹ پہلے زندگی سے اتنے بھرپور تھے، ناچ رہے تھے، مسکرا رہے تھے، ٹرک کے اوپر کھانا اور مشروبات پہنچا رہے تھے، اب مرے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوئے پڑے تھے۔ یہ قتل عام تھا۔ یہ میری زندگی کا بدترین منظر تھا اور مجھے یقین ہے کہ میری زندگی میں، میری نگاہوں کے سامنے آنے والا بھیانک ترین منظر ہمیشہ یہی ہوگا۔

٭٭٭٭

(بے نظیر بھٹو کی کتاب Reconciliation Islam, Democracy and The West کے اردو ترجمے مفاہمت اسلام، جمہوریت اور مغرب سے اقتباس، مترجم: جہانگیر بدر)
Load Next Story