محلہ کمیٹیاں اور دہشت گرد

عوام اس جنگ میں شریک ہونا بھی چاہتے ہیں جو ان کی آنے والی نسلوں کے سروں پر تلوار بن کر لٹک رہی ہے۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

نواز شریف کہتے ہیں دہشت گردی کی جنگ عوام کی شرکت کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی شمولیت ضروری ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت میں خود کروں گا۔ وزیر اعظم نواز شریف 16/12 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جو اقدامات کر رہے ہیں اس کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ اس حوالے سے موصوف کی دو باتیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ایک ان کی عوام سے یہ اپیل کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں شرکت کریں، دوسرے یہ کہ وہ بہ نفس نفیس دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کریں گے۔

جہاں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی شرکت کا مسئلہ ہے دہشت گردی کے خلاف ہی جنگ نہیں بلکہ کوئی بھی جنگ عوام کی شرکت کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کی شرکت کی اپیل منطقی بھی ہے اور بامعنی بھی، عوام اس جنگ میں شریک ہونا بھی چاہتے ہیں جو ان کی آنے والی نسلوں کے سروں پر تلوار بن کر لٹک رہی ہے، لیکن عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ اس جنگ میں کس طرح شریک ہوں؟ عوام محاذ جنگ پر جا کر تو یہ جنگ نہیں لڑ سکتے کیوں کہ وہ جنگی تربیت سے محروم ہوتے ہیں لہٰذا اس جنگ میں عوام کی شرکت کے طریقے بتانا حکومت کی ذمے داری ہے۔

دہشت گردی کے خلاف مظاہرے، ریلیاں، جلسے جلوس بھی دہشت گردی کی جنگ میں عوام کی شمولیت کا ایک حصہ ہیں لیکن اس خوفناک جنگ میں عوام کی شرکت کے اور زیادہ موثر طریقے بھی موجود ہیں اور حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کی اس جنگ میں شرکت کے طریقوں کی وضاحت کرے تا کہ عوام اس قومی جنگ کا حصہ بن سکیں۔ اگر خالی خولی اپیلیں ہی کی جاتی رہیں گی تو یہ اپیلیں ڈی چوک پر طاہر القادری کی طرف سے کی جانے والی اپیلوں کی طرح بے معنی ہو کر رہ جائیں گی۔

قادری صاحب مزدور عوام سے یہ اپیل کرتے تھے کہ وہ اسلام آباد آ کر ان کے انقلاب مارچ میں شرکت کریں۔ بلا شبہ عوام کی اکثریت اس استحصالی نظام کے خلاف جنگ میں شرکت کی خواہش مند تھی لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ وہ ملازمتیں، کاروبار وغیرہ چھوڑ کر اسلام آباد کیسے آئیں اور ایک غیر معینہ مدت تک دھرنوں میں کس طرح بیٹھے رہیں۔ عمران خان اور قادری کی عوام سے اس تحریک میں شرکت کی اپیل یقیناً جائز تھی لیکن یہ حضرات یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ایک غیر محدود مدت تک عوام کا ملازمتیں اور کاروبار چھوڑ کر ان کے دھرنوں میں بیٹھنا ممکن نہیں۔ لیکن جب عمران خان نے ملک کے بڑے شہروں میں جلسوں کا سلسلہ شروع کیا تو عوام ان جلسوں میں لاکھوں کی تعداد میں شریک ہونے لگے کیوں کہ وہ ظلم و نا انصافی کے 67 سالہ نظام کا خاتمہ چاہتے تھے اور اپنے شہروں میں اس جنگ کا حصہ بننا ان کے لیے ممکن بھی تھا اور آسان بھی اور اس جنگ میں عوام کی شرکت کا یہ طریقہ اس قدر موثر ثابت ہو رہا تھا کہ حکومت کے اوسان خطا ہو رہے تھے۔

اصل مسئلہ اس قسم کی جنگوں میں عوام کی شرکت کو آسانی کے ساتھ موثر بتانا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری افواج ضرب عضب کے حوالے سے لڑ رہی ہیں جن علاقوں میں یہ جنگ لڑی جا رہی ہے وہاں ہماری افواج کو کامیابی حاصل ہو رہی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گرد صرف شمالی وزیرستان تک محدود نہیں بلکہ وہ کراچی سے کشمیر تک سرگرم عمل ہیں اور آزادی کے ساتھ بڑی بڑی دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں ان کارروائیوں میں 12/12 کی پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں کی جانے والی وہ وحشیانہ کارروائی کل کی بات ہے جس نے پاکستان کے عوام کو نہیں بلکہ دنیا بھر کے عوام کو دہلا کر رکھ دیا۔ اور یہی وحشیانہ کارروائی دہشت گردوں کی تباہی کا پیغام بن گئی ہے۔ جس نے عوام کو بھی اس جنگ میں شرکت پر مجبور کر دیا ہے۔


دہشت گردی کی اس وبا کو اگر اس کے پھیلاؤ سے پہلے روک دیا جاتا تو آج یہ وبا ایک خطرناک عفریت کی شکل نہ اختیار کرتی لیکن افسوس کہ ہمارا حکمران طبقہ خاموشی سے اس وبا کو پھلتے پھولتے دیکھتا رہا۔ کیا یہ رویہ حکمران طبقات کی بزدلی کا مظہر تھا یا سیاسی مفادات کا؟ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا لیکن ملک آج جن سنگین حالات اور دہشت گردی کی جس صورت حال سے گزر رہا ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ عوام کو اس جنگ میں شرکت کے معقول اور بامعنی طریقے فراہم کیے جائیں۔

اگرچہ کہ یہ کام حکمران طبقے کا ہے کہ وہ اس جنگ میں عوام کی شرکت کے قابل عمل طریقے وضع کرے لیکن ایک طریقہ ایسا ہے جو عوام کی سمجھ میں بھی آ سکتا ہے اور موثر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ دہشت گرد صرف شمالی وزیرستان ہی میں موجود نہیں بلکہ ملک کے چپے چپے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور تجارتی شہر ہی نہیں بلکہ سیکڑوں میل پر پھیلا ہوا ایک ایسا شہر ہے جس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے اس قدر وسیع و عریض شہر میں دہشت گردوں کو پکڑنا اور دہشت گردی کو روکنا نہ پولیس کے بس کی بات ہے نہ رینجرز کے بس کی بات ہے بلکہ فوج بھی ایسے شہروں میں دہشت گردی کو روکنے سے قاصر ہوتی ہے کیوں کہ ہزاروں کچی آبادیوں اور شہر کی ہر گلی محلے تک ان فورسز کی رسائی ممکن نہیں۔

دہشت گرد کراچی کے ہر علاقے میں موجود ہیں خاص طور پر مضافاتی علاقوں اور کچی آبادیوں کو انھوں نے اپنا محفوظ مسکن بنایا ہے ہر گلی، ہر محلے، ہر بستی کے لوگ اپنے ارد گرد رہنے والے لوگوں سے عام طور پر واقف ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر محلہ کمیٹیوں کا منظم اور منصوبہ بند نظام ہی وہ طریقہ ہے جو دہشت گردوں کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائیوں میں موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ ضرب عضب اب دہشت گردوں کے لیے ضرب غضب بن گیا ہے اور یہ بھیڑیے شمالی وزیرستان سے فرار ہو کر ملک کے مختلف شہروں میں آ رہے ہیں۔

جس کی وجہ سے شہری علاقے اور زیادہ مخدوش اور خطرناک ہو گئے ہیں۔ ہماری افواج بڑی بہادری سے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں اور جانی قربانیاں بھی دے رہی ہیں لیکن شہروں کے گنجان علاقوں میں گلی گلی، محلہ محلہ، فوج تعینات کی جا سکتی ہے نہ اس کا کوئی بامعنی نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے۔

صرف اور صرف محلہ کمیٹیاں ہی وہ ذریعہ ہو سکتی ہے جو گلی گلی، محلہ محلہ پھیلے ہوئے دہشت گردوں کی نشان دہی کر سکتی ہیں اور دہشت گردی کا راستہ روک سکتی ہیں، محلہ کمیٹیوں کی تشکیل ایک منظم طریقے سے ہونی چاہیے، ان کمیٹیوں کا فورسز سے رابطہ ہونا چاہیے اور ان کے اختیارات اور اختیارات کے جائز استعمال کی منصوبہ بندی اور حدود کا تعین ہونا چاہیے یہی ایک ایسا موثر طریقہ ہے جس کے ذریعے عوام کو بامعنی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شریک کیا جا سکتا ہے اس کی تفصیلات اختیارات اور فورسز سے اس کے رابطوں کا تعین کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس حوالے سے میڈیا بھی ایک موثر کردار ادا کر سکتا ہے اگر اسے محلہ کمیٹیوں کی کارکردگی کا حصہ بنایا جائے۔

وزیر اعظم نے جو دوسری اہم بات کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کی قیادت کریں گے یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اصولی طور پر تو حکومتیں ہی جنگوں کی قیادت کرتی ہیں لیکن جنگوں کی اصل قیادت فوجی جنرل کرتے ہیں جو میدان جنگ میں اپنی حکمت عملیوں کے ذریعے موجود ہوتے ہیں اور جنگوں کے نشیب و فراز سے واقف ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کی اس جرأت مندانہ پیشکش سے البتہ انھیں سیاسی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں اور سیاسی بحرانوں سے نکلنے میں مدد مل سکتی ہے۔
Load Next Story