مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے

اے زمین تیرا خراج بڑا ہی اٹل ہے کہ جوان تو لے لیتی ہو اور خالی پلنگ واپس کر دیتی ہو۔


Saad Ulllah Jaan Baraq December 26, 2014
[email protected]

FAISALABAD: لکھنا تو ہم چاہتے ہیں لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا لکھیں، کیوں کہ ایسا کچھ بچا ہی نہیں ہے جو لکھا نہ جا چکا ہو، بولا نہ جا چکا ہو، رویا نہ جا چکا ہو، چیونٹی کے گھر میں ''ماتم''کی بات تو کوئی بات ہی نہیں جہاں روزانہ جنازے اٹھتے ہیں دن رات ماتم ہو رہا ہو ہر وقت قبریں کھودی جارہی ہوں ہر گھڑی کفن سلے جا رہے ہوں ہر آنکھ نم ہو ہر منہ سے چیخیں نکل رہی ہوں، ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہوں، موت ناچ رہی ہو، ابلیس رقص کر رہا ہو اور پورا ملک لہولہان ہو رہا ہو وہاں کوئی کہے بھی تو کیا کہے، بولے بھی تو کیا بولے اور لکھے بھی تو کیا لکھے، جو لکھنے کی باتیں تھیں جو کہنے کی باتیں تھیں جو رونے کی باتیں تھیں بلکہ جو باتوں کی باتیں تھیں وہ بار بار بہ تکرار لگاتار موسلادھار کہی بولی اور لکھی جا چکی ہیں، زیادہ سے زیادہ ہم یہ لکھیں گے کہ ظلم ہوا وحشت ہے بربریت ہے لیکن یہ سب کچھ تو سکہ بند بیانوں میں آچکا ہے مذمتیں بھی ہو چکی ہیں کیفر کردار تک پہنچانے خون کا حساب لینے، ذمے داروں کو نہ چھوڑنے، شر پسندوں، تشدد پسندوں طالبان وغیرہ وغیرہ کی کمر توڑنے قلع قمع کرنے اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی باتیں بھی دن رات بیانات میں ہو چکی ہیں یہاں تو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ

ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے

کیوں کہ مرگ ناگہانی نے تو اب اپنے ہاں مستقل رہائش اختیار کی ہوئی ہے اب اگر کچھ باقی ہے تو وہ دن جس کا وعدہ ہے اور جو لوح ازل میں لکھا ہے جو آ کے رہے گا اور کسی کے روکنے سے رکنے والا نہیں لیکن کہیں... ہمارا وہ دن بھی تو آ کر نہیں گیا، اس دن کی نشانیاں یہی تو ہیں کہ کسی کو کسی جگہ امان نہیں ملے گی، زمین تانبے کی ہو جائے گی اور آسمان سرخ ہو جائے گا، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، انسان پروں کی طرح اڑتے بکھرتے رہ جائیں گے، جہاں تک ہمارا اندازہ ہے تو تقریباً یہ سب کچھ بھی ہو چکا ہے، تصدیق کرنا ہو تو ان گھرانوں میں جا کر پتہ کریں جہاں قیامتیں گزر چکی ہیں جہاں سے پھولوں کی طرح ترو تازہ کھکھلاتے اور ہنستے مسکراتے چہرے جاتے ہیں اور پتی پتی ریزہ ریزہ لہو لہو ہو کر لائے جاتے ہیں، ایک پشتو ٹپے میں زمین سے مخاطب ہو کر کہا گیا ہے اور وہ ''زمین'' ہماری اس سرزمین کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے کہ

زمکے قلنگ دے زور ور دے
زلمی ترے واخلے رالیگے تش پالنگونہ

یعنی اے زمین تیرا خراج بڑا ہی اٹل ہے کہ جوان تو لے لیتی ہو اور خالی پلنگ واپس کر دیتی ہو، میں ہنستے ہوئے نکلتا ہوں اور روتا ہوا واپس آتا ہوں، اب اگر پہاڑ ریزہ ریزہ نہیں ہوئے ارض خدا کے بت نہیں ٹوٹے تو اس کا صرف ایک ہی مطلب ہے کہ یہ پہاڑ انتہائی بے شرم اور ڈھیٹ ہیں اور یہ بت حد درجہ بے حس اور بے غیرت ہیں، اب تک تو ہم نے دیکھا سنا اور پڑا ہے کہ ریل گاڑی کے حادثے پر وزیر مستعفی ہو جاتے ہیں اتنے لوگوں کی حفاظت زرکثیر خرچ کر کے بھی ''نہ کر سکنے والی حکومتیں'' استعفا دے کر اعتراف گناہ کر لیتی ہیں اور اگر وہ خود ڈھیٹ ہوں تو گھر کا مالک ایسے حکمرانوں کو دھکے دے دے کر نکال باہر کر دیتا ہے۔

جس کے ہوتے ہوئے ہر روز وہ گھر لٹ جاتا ہو، لیکن یہاں ''موت کی مکھیاں'' چند روز گلی کوچوں میں بھنبھاتی ہیں اور پھر آرام سے اپنے گھروں میں جا کر بیٹھ جاتی ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ذرا کھانے کے لیے کچھ لاؤ بہت تھک گئی ہوں، ہمارے گاؤں میں جب اچانک گلی کوچوں میں سفید برقعوں اور چادروں کی تعداد بڑھ جاتی ہیں اور بھاری بھرکم قسم کی بوڑھی اور ادھیڑ عمر عورتیں کچھ زیادہ آنے جانے لگتی ہیں تو لوگوں کو دور سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ گاؤں میں پھر کوئی میت ہو گئی ہے کچھ بڑے بزرگ ان برقعہ پوش خواتین کو ''موت کی مکھیاں'' کہتے ہیں کہ کسی گھر میں میت ہوتے ہی یہ وہاں جاتی اور بھنبھاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

ہمارا قاعدہ ہے کہ باہر سے گاؤں پہنچتے ہی سب سے پہلے گلی کوچوں پر نظر ڈالتے ہیں اگر برقعے ادھر ادھر ہو رہے ہوں تو ہم سمجھ لیتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو ہوا ہے اور گلیاں اگر معمول کے مطابق ہوں تو اطمینان کی سانس لیتے ہیں کہ چلو آج تو خیریت ہے، یہ خاص عمر اور خاص جثے جسامت کی عورتیں جب کسی کی موت کا سنتی ہیں تو دل ہی دل میں ویسی ہی خوشی محسوس کرتی ہیں جیسی کسی شاعر کو مشاعرے کی دعوت ملنے پر محسوس ہوتی ہے، شاعر تو اپنی بیاض ڈھونڈنے اور اپنی کوئی ہٹ نظم و غزل گنگنانے لگتا ہے اور یہ موت کی مکھیاں فوراً کپڑے بدل کر خود کو پف کر کے اور نیا برقعہ ڈاٹ کر نکلتی ہیں ساتھ ہی محلے میں اپنی جیسیوں کو بیٹی یا بہو کے ذریعے مطلع بھی کر دیتی ہیں کہ تیار ہو جاؤ موقع واردات پر جانے کے لیے...پھر جب موقع پر پہنچتی ہیں تو سب سے پہلے میت کی لواحقین بیوہ ماں بہن یا بیٹی سے باری باری بغل گیر ہوتی ہیں اور وہی کچھ دہراتی ہیں جو چالیس پچاس سال سے ہر مردے پر دہراتی رہتی آئی ہیں۔

تھوڑی دیر تک یہ شغل کرنے کے بعد بھرائی ہوئی آواز اور سڑکتی ناک کا مظاہرہ کرتے ہوئے جب خود کو خوب اچھی طرح رجسٹرڈ کر لیتی ہیں تو کسی چارپائی پر اپنی خاص الخاص اور راز دار ہم پیشہ ؤں کے ساتھ بیٹھ جاتی ہیں اور نہایت آرام اور دل جمعی کے ساتھ دوسروں کی غیبت کرنے میں مصروف ہو جاتی ہیں بلکہ زیادہ تر کرنٹ موضوع یا میت یا اس کی تاریخ و جغرافیہ کھنگالنے اور اعمال نامہ مرتب کرنے لگ جاتی ہیں ہرہر طرف دیکھتی ہیں لوگوں کو دیکھتی ہیں انتظامات کا جائزہ لیتی ہیں اور آیندہ دو چار دنوں کے مواد اکٹھا کرتی ہیں کہ کون آئی تھی کیسے آئی تھی کیا کیا پہنا ہوا تھا کس کس سے گلے ملیں اور کس کس کو نظر انداز کیا۔

اکثر تو یہاں سے اٹھ کر پڑوس میں کسی شادی یا بچے کی پیدائش مبارک باد بھی نمٹا لیتی ہیں جہاں میت کو بھول کر دوسرے دھندوں میں مصروف ہو جاتی ہیں، دیکھا جائے تو ملکی سطح پر ایسے واقعات و سانحات پر ہمارے ہاں بھی ایسا ہوتا ہے ہر لیڈر ہر پارٹی ہر عہدیدار اور ہر ہر ''موت کی مکھی'' اپنی مخصوص بھنبھاہٹ بلند کرتی ہیں، مذمت تو خیر سب ایسے کرتے ہیں جیسے ان کی مذمت کرنے سے واقعے کے ذمے دار فوراً چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر جائیں یا ان کے بیان مذمت سے گھائل ہو کر تڑپتے لگیں گے یا ان کی کیفرکردار، نہ چھوڑنے، تحقیقات کے احکام اور سخت اقدامات سے گھبرا کر توبہ تائب ہوجائیں گے، حالانکہ مقام رونے کا ہوتا ہے لیکن یہ ایسی پھلجھڑیاں چھوڑنے لگتے ہیں کہ اگر ہنسی نہیں تو آدمی روہانسا ضرور ہو جاتا ہے، جیسے معصوم لوگوں کے خون کا حساب لیا جائے گا ذمے داروں کو عبرت ناک انجام تک پہنچایا جائے گا۔

، نام و نشاں تک مٹا دیا جائے گا، سر عام ٹکٹکی چڑھایا جائے گا، ایک ایک کو چن چن کر کیفر کردار تک پہنچائیں گے کوئی رعایت نہیں کریں گے، کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا اور پھر ہم سوگواروں کے غم میں برابر کے شریک ہیں اس وقت تک کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا سونا جاگنا تو کیا ''دم لینا'' بھی اپنے اوپر حرام کرتے ہیں جب تک ظالموں کی اینٹ سے اینٹ نہیں بجائیں گے... کہیں کہیں پر قوم کو یک جہتی کی تلقین کر کے ایک مٹھی ہونے کا بھی کہا جاتا ہے کاش کبھی واقعی پوری قوم ایک ''مٹھی'' ہو جائے، ان ہی بیان بازوں کے جبڑوں کو توڑ پھوڑ دیں تا کہ نہ رہیں جبڑے اور نہ رہیں ان کے دکھاوے کے بیانات ... کچھ فتوے بھی آ جاتے ہیں یہ بزدلانہ حملہ ہے، ظالمانہ حملہ ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا، انسانیت کے خلاف ہے، وحشیانہ عمل ہے، بہیمانہ کارروائی ہے، انسان نہیں حیوان ہیں، ملک دشمن ہیں، قوم دشمن ہیں یہ ہیں وہ ہیں

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبؔ
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

کچھ روز تک یہ گرما گرمی رہے گی ہر ایک اپنا اپنا سودا بیچ کر چلا جائے گا اور آرام سے بیٹھ کر انتظار کرے گا کہ کب دوسرا میلہ برپا ہو گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں