چارسیب
تاریخ کے سفرسے ہمیں پتہ چلتاہے کہ ملک دینے والے رہنماکیسے تھے!کیاتھے!وہ کیساملک بناناچاہتے تھے۔
ISLAMABAD:
ایک صاحبِ فکرآدمی نے بہت سنجیدہ نکتہ اٹھایا۔یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی۔بات دہشت گردی سے شروع ہوئی۔ سانحہ پشاورپرسیرحاصل بحث ہوئی۔ مدت کے بعد وقت آیاکہ قوم کی اکثریت متفق نظرآتی ہے کہ طالبان کے فتنہ کوملک کی سلامتی کے لیے خطرہ قراردیا جائے۔مگروہ شخص کہنے لگاکہ ہم تمام لوگ دہشت گردی کی اس اس شکل پرتویکجا نظر آتے ہیں مگراصل دہشت گردی کی جانب کسی کی کوئی توجہ نہیں!میرے لیے اصل دہشت گردی کالفظ بالکل نیاتھا۔ کہنے لگاکہ ہمارے ملک میں دہائیوں سے اربوں روپے کی کرپشن روزانہ کی بنیادپرکی جارہی ہے۔
اس حقیقت کوحکومتی سطح پرچیئرمین نیب نے تسلیم بھی کیاہے کہ خوفناک مالیاتی کرپشن انتہائی منظم طریقے سے وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ مگر اس "مالیاتی دہشت گردی"پروہ قومی اتفاق رائے دیکھنے میں سامنے نہیں آسکاجوکہ حقیقت میں ہوناچاہیے تھا۔ میں نے اس نکتہ پرمختلف صاحب الرائے لوگوں سے تفصیل سے مکالمہ کیا۔یہ ایک درست اَمرہے کہ ہماری دہشت گردی کی اس صنف پروہ توجہ نہیں ہے جوکہ اس مسئلہ کوحل کرسکیں۔ وجوہات کیاہیں، آپ سب جانتے ہیں!
تاریخ کے سفرسے ہمیں پتہ چلتاہے کہ ملک دینے والے رہنماکیسے تھے!کیاتھے!وہ کیساملک بناناچاہتے تھے۔ان کی ذاتی زندگی میں اجلاپن کتنا تھا!وہ مالیاتی امورمیں کیسے تھے!ہمارے معاشرہ سے دلیل پرمکالمہ کی رسم توکب کی اٹھ گئی۔اب کوئی بھی یہ بتانے کوتیارنہیں ہے کہ اس کے پاس اربوں روپے کی دولت کیسے آئی!اس ملک میں اگرآپ سچ کی راہ پرچلنے کی کوشش کریں توآپکاسرآپکے شانوں پرنہیں رہنے دیاجائیگا۔ ہرشعے میں حال ایک جیساہے۔ بیوروکریسی تو کب کی دم توڑچکی؟
چند ماہ پہلے میں نے محترمہ فاطمہ جناح کی اپنے بھائی پرلکھی ہوئی ایک کتاب پڑھی۔"میرابھائی"۔یہ کتاب بہت مختصرسی ہے۔مگراس کتاب کوپڑھنے سے قائدکی زندگی کے وہ ذاتی اورروشن پہلو نظرآتے ہیںجواورکتابوں میں موجودنہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے جس اندازمیں اپنی زندگی اپنے بھائی کے لیے وقف کردی،وہ بذات خودقربانی کی ایک عظیم مثال ہے!مگرہمارے سیاسی نظام میں اس عظیم خاتون کوجس عیاری سے خاک چاٹنے پر مجبورکیاگیا،کہاں مادرِملت اورکہاں ایوب خان!مگراس وقت کے بابوؤں اور سیاست دانوں نے اس عظیم عورت کوجس طرح الیکشن میں ہرا دیا،وہ ہماری تاریخ کاایک المناک حادثہ ہے۔ تھوڑا سا غور کیجیے،اگرایوب خان کی جگہ مادرِملت اس ملک کی انتظامی سربراہ ہوتیں، توملک یکسر مختلف ڈگرپرچل پڑتا!
قائداعظم زیارت میں مقیم تھے۔اگرآپ زیارت جائیں توآپکواحساس ہوتاہے کہ یہ آج بھی ایک جنت نظیر جگہ ہے۔خوبصورت درخت اورصاف ہوا!ڈاکٹروں نے قائدکواس جگہ پرآنے کاطبی مشورہ اس شفاف ہواکی بدولت دیا تھا۔قائدجب زیارت آئے توان کی صحت بہت گرچکی تھی۔
فاطمہ جناح کے بقول انھوں نے عملی طورپر کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ان کی بہن ان کی تمام ذاتی عادات سے واقف تھیں۔ذہن میں یہ خیال آیاکہ قائدہندوستان میں کپورتھلہ کے چند باورچیوں کے ہاتھ سے بناہواکھاناانتہائی رغبت سے تناول فرماتے تھے۔مادرِملت نے قائدکی اجازت کے بغیراسٹاف کو حکم دیاکہ کپورتھلہ کے وہ باورچی تلاش کیے جائیں۔چنانچہ انکوزیارت بلوایاگیااورقائدکے کھانابنانے کاکام ان کے سپرد کردیا گیا۔ آپکے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ ہمارا عظیم رہنمااس وقت زندگی اورموت کی کشمکش میں تھا۔محترمہ فاطمہ جناح نے ان باورچیوں کابناہواکھاناقائدکوپیش کیا۔مادرِملت لکھتیں ہیں کہ قائدنے کھانابڑی رغبت سے کھایا۔ڈاکٹرصاحبان نے بھی سُکھ کاسانس لیا۔کئی ہفتوں کے بعدیہ واقعہ پیش آیاتھاکہ قائدنے کھانے میں کوئی دلچسپی ظاہرکی۔
ایک دن گزرنے کے بعدجب وہ دوبارہ ٹیبل پرآئے توانھیں پھرکھانابہت لذیذلگا۔اس بارقائدنے اپنی بہن سے سوال کیاکہ آپ نے یہ سب کچھ کس سے بنوایا ہے؟ جواب ملایہ وہی کپورتھلہ کے باورچی ہیں جو ہندوستان میں قائدکے لیے کھاناتیارکرتے تھے! قائدنے یہ بھی دریافت کیاکہ انھیں یہاں کون لے کرآیااوریہ زیارت کیسے پہنچے؟مادرِملت نے جواب دیاکہ تمام باورچی انتظامیہ بڑی محنت سے زیارت تک لے کرآئی ہے۔جواب سن کرقائدنے کھاناچھوڑ دیا۔ اسٹاف کوحکم دیاکہ ان کی چیک بُک لائی جائے۔
قائدنے اپنے ہاتھوں سے ان باورچیوں کے آنے جانے کے تمام اخراجات اور معاوضہ کے مطابق چیک دستخط کیا۔اسٹاف کوحکم دیاکہ ان باورچیوں کوادائیگی کے بعدفوراً واپس بھجوایاجائے۔قائدنے اپنی بہن کووہ نایاب فقرے کہے کہ وہ ایک غریب ملک کے سربراہ ہیں اورحکومتی خرچے پر ذاتی کام کرنے کے ہرگزقائل نہیں۔
محترم عبداللہ صاحب پشاورمیں قیام پذیرہیں۔ان کی عمر اس وقت ستربرس سے اوپرہوگی۔پرانے سی ایس پی اور انتہائی محترم افسر!ذاتی کردارمیں انتہائی اجلے انسان!چنددن پہلے وہ لاہورتشریف لائے ہوئے تھے۔بات کرنے سے پتہ چلاکہ فلسفہ،تاریخ اور انتظامی امورپرمکمل علمی گرفت رکھتے ہیں۔ہرحکمران سے اصولوں کی بنیادپرلڑتے رہے۔نتیجہ یہ ہواکہ تیرہ سال کے لگ بھگ پشاورکی ایک تدریسی درسگاہ میں گزاردیے۔مگرمجھے ان کی طبیعت میں کوئی رنج یاافسوس کاشائبہ تک نظرنہیں آیا۔صوبہ کے چیف سیکریٹری تک رہے۔
انھوں نے ایک نشست میں قائدکے متعلق ایک نایاب قصہ سنایا۔بتانے لگے کہ وہ ایک تحصیل میں اسسٹنٹ کمشنر تھے۔ اس تحصیل سے جناح صاحب کے اے ڈی سی کابھی تعلق تھا۔جب بھی وہ نوجوان افسراپنے آبائی گھرمیں چھٹیاں گزارنے آتاتھاتوعبداللہ صاحب سے ملاقات کے لیے دفترآتاتھا۔عبداللہ صاحب نے اس نوجوان افسرسے قائدکے متعلق ذاتی معلومات لینے کی کوشش کی۔مجھے یادآتاہے کہ یہ اے ڈی سی، نواب آف ٹانک کابیٹاتھا۔اس نے عبداللہ صاحب کوقائدکی ذاتی عادت کے متعلق خوبصورت بات بتائی۔قائدگورنرجنرل ہاؤس کی اخراجات کے متعلق بہت محتاط تھے۔وہ کم سے کم کرچ کرنے کے قائل تھے۔ذاتی خرچے پربھی کڑی نظررکھتے تھے۔
حکم تھا کہ دوپہرکے کھانے پرجتنے مہمان آئیں،پھل اسی تعداد سے پیش کیے جائیں۔یعنی اگرتین مہمان ہیں توصرف تین ناشپاتیاں۔ ایک دن غلام عباس صاحب تشریف لائے۔آپکو شائدمعلوم نہ ہوکہ کشمیری رہنماؤں میں غلام عباس صاحب قائدکے بہت نزدیک تھے۔دوپہرکے کھانے پرقائد،محترمہ فاطمہ جناح اورغلام عباس کوملاکرتین لوگ تھے۔کھانے کے بعدجب ڈائننگ ٹیبل پرپھل لائے گئے تووہ چارسیب تھے۔ غلام عباس صاحب واپس چلے گئے توقائد نے A.D.C کو بلوایا۔ پوچھا کہ جب کھانے کے لیے صرف تین اشخاص تھے توچو تھا سیب کس کے لیے آیا!نوجوان افسرکے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
کیونکہ قائدکاحکم تھاکہ جتنے لوگ کھانے پرہونگیں، صرف اس تعدادمیں پھل ہونے چاہیے اورچوتھاسیب قائد کے حکم کے صریحاًخلاف تھا۔نوجوان اے ڈی سی نے صرف یہ کہا کہ "سرغلطی ہوگئی"۔قائدنے انتہائی متانت سے اس افسرکوکہاکہ ایسی غلطی آیندہ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ پاکستان جیساغریب ملک سرکاری اخراجات میں اصراف کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ قائدنے اے ڈی سی کومعاف کردیا۔حکم یہی تھاکہ سرکاری خرچہ کوکم سے کم سطح پررکھاجائے۔جب تک وہ عظیم رہنمازندہ رہا،اسٹاف نے اس طرح کی غلطی دوبارہ نہیں کی۔یہ وہ شخص تھا جس نے اپنی محنت سے ہمیں پاکستان جیساعظیم ملک دیا۔ اگرعبداللہ صاحب نے یہ واقعہ بیان نہ کیا ہوتا تو شائدیہ بھی ماضی کی تاریک گلیوں میں گم ہوجاتا!
آج سے دس بارہ سال پہلے میںN.I.P.Aلاہورمیں ٹریننگ کررہاتھا۔جنرل(ر)شامی اس جگہ کے منتظم تھے۔ ایک باکمال شخص !انتہائی محنتی اورمستحکم منتظم!کورس کے آخرمیں انھوں نے پنڈی سے ایک ریٹائرڈبریگیڈئرصاحب کوافسروں سے خطاب کے لیے بلوایا۔وہ ریٹائرڈافسرکافی ضعیف تھے۔وہ قائدکے اے ڈی سی رہے تھے۔آخری دم تک ان کے ساتھ رہے تھے۔انھوں نے قائدکی زندگی کے بہت سے واقعات بتائے۔کہنے لگے کہ جب میں پہلے دن ڈیوٹی پرگیاتوقائدنے دفترمیں بلوایا۔قائدکی نگاہوں میں اتنی طاقت تھی کہ ایسے محسوس ہواکہ وہ ان کے جسم سے آرپارہورہی ہیں۔قائدکے سامنے کھڑارہنامشکل معلوم ہوا۔ہاں ایک اوربات!جب تک قائدرات کوسونہیں جاتے تھے،وہ ڈیوٹی پرنیچے موجود رہتے تھے۔
اے۔ڈی۔سی کاکمرہ قائدکے سرکاری دفترکے بالکل ساتھ تھا۔گورنرجنرل کے رہنے کاحصہ بھی اتفاق سے پہلی منزل پردفترکے تقریباًاوپرتھا۔انھوں نے قائدکی ایک عادت بتائی کہ وہ سوچتے ہوئے کمرے میں مسلسل چلتے رہتے تھے۔اس دوران وہ سگریٹ بھی پیتے رہتے تھے۔قائدکے جوتے اورفرش پر چلنے کی آوازنچلے کمرے میں گونجتی رہتی تھی۔ بتانے لگے کہ جس دن کوئی اہم فیصلہ کرنا ہوتا توقائدرات کا بیشترحصہ کمرے میں پیدل چلتے ہوئے گزاردیتے تھے۔ اکثر اوقات قائدصبح تک اسی طرح چلتے رہتے تھے۔
جب جوتوں کی آوازختم ہوجاتی تھی تواے ڈی سی سمجھ جاتاتھاکہ اب قائد سوچکے ہیں۔لہذاوہ چپکے سے اپنے دفترسے واپسی گھرچلا جاتا تھا۔دوگھنٹے کی اس نشست کے بعدبریگیڈئرصاحب بھی زاروقطاررورہے تھے۔شرکاء کی اکثریت کی آنکھیں بھیگی ہوئی تھیں۔انھوں نے قائدکے آخری سفرکی رودادبھی بڑے تفصل سے بیان کی۔ قائدکی اکلوتی بیٹی جب تشریف لائیں توغم کی تصویربنی ہوئی تھیں۔میںیہ موضوع کسی اوردن کے لیے سنبھال رکھتاہوں۔
تین دہائیوں سے سول سروس میں ہوں!بے شماراہم لوگوں کے ساتھ کام کیاہے!میں نے بہت کم رہنماؤں میں سرکاری اخراجات پررحم کرنے کی عادت دیکھی ہے!پنجاب کے ایک گورنرکے دامادمجھے ملنے آئے تومعلوم ہواکہ ان کے زیراستعمال گاڑی بھی گورنرہاؤس کی ہے!گورنرہاؤس کی پچیس تیس گاڑیاں گورنرصاحب کے عزیزرشتے داروں کے استعمال میں تھیں!یہ تقریباًبیس برس پہلے کی بات ہے!موجودہ حالات کیاہیں!میں اس پرتبصرہ کرنے سے قاصرہوں!جس دن ہمارے رہنماؤں نے اس عظٖیم قائدکے چوتھے سیب پرکہے گئے احکامات کوذہن نشین کرلیا،یہ ملک بدل جائیگا!ہمارے تمام مسائل خودبخودحل ہوجائینگے!پاکستان تیزی سے ترقی کی شاہراہ پرسرپٹ دوڑناشروع کردیگا!پھرذہن میں ایک شبہہ ساجنم لیتاہے کہ کیاآج کے پاکستان میں یہ ممکن ہے؟