گزر گئے لیکن دل سے نہیں گئے
جب لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ضیاء الحق میرا بھانجا ہے تو مَیں نے کہا کہ بھانجا ہے تو پھر بھانجا ہی سہی۔
KARACHI:
راولپنڈی میں فروکش جماعتِ اسلامی پاکستان کے ایک مخلص اور مرکزی رہنما برادرم شمسی صاحب نے مجھے ازراہِ محبت ایک کتاب بعنوان ''پروفیسر عبدالغفور احمد... رفتید، ولے نہ از دلِ ما'' بھیجی ہے۔ ان کا شکریہ۔ بے شک پروفیسر عبدالغفور احمد مرحوم ہمارے بھی محبوب تھے اور بزرگ قومی رہنما بھی۔ وہ آج ہی کی تاریخ کو اپنے اللہ کے حضور پہنچ گئے تھے۔ آج ان کی دوسری برسی ہے۔ اس حوالے سے یہ کتاب ان کے چاہنے والوں اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے ایک قابلِ قدر تحفہ ہے۔
یہ محض ایک شخصیت کا احوال نہیں بلکہ چھ عشروں پر پھیلی ایسی متنوع داستان ہے ۔ بھٹو کے اگرچہ وہ سخت ناقد تھے اور کہتے تھے کہ بھٹو صاحب نے 1973ء کا آئین تو بنایا لیکن اسے دل سے تسلیم نہ کیا، وہ بی بی صاحبہ کو بیٹی کی طرح چاہتے، ان کی سیاست کی تعریف کرتے اور کہتے تھے: ذہین بچی ہے۔ نرم دل اتنے تھے کہ بھٹو کی پھانسی پر دل گرفتہ ہوئے۔ حتیٰ کہ اندرا گاندھی کی موت پر بھی مغموم ہو گئے اور کہا: ''تشدد کا استعمال جہاں بھی ہو گا، غلط ہو گا اور قابلِ مذمت ہو گا۔کاش، اس قابلِ تحسین فقرے کی بازگشت جماعتِ اسلامی کے ایک سابق محترم امیر کے کانوں سے بھی ٹکراتی!! مرحوم و مغفور پروفیسر عبدالغفور مسلک و فرقہ بازی سے بلند ہو کر انسانوں سے محبت کرنے والے انسان تھے۔
ان کی صاحبزادیوں کے نکاح بریلوی مکتبِ فکر کے نامور عالمِ دین اور ممتاز سیاستدان مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی صاحب نے پڑھائے۔ پروفیسر صاحب پُر لطف لہجے میں کہا کرتے تھے: ''اصل بریلوی تو مَیں ہوں۔'' (آپ کا آبائی تعلق بریلی سے تھا۔)۔ سترہ اگست 1988ء کو آمر جنرل ضیاء الحق سے پاکستان کی جان چھوٹی تو میرے مدیرِ اعلیٰ نے فیصلہ کیا کہ ہمیں جنرل ضیاء پر ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مجھے حکم دیا گیا کہ مَیں لاہور میں ہر اس اہم مولوی اور مذہبی رہنما سے مل کر انٹرویو کروں جس نے کسی نہ کسی شکل میں جنرل ضیاء الحق سے کبھی ملاقات کی تھی (اور اس کے دل میں ضیاء کے بارے میں نرم گوشہ بھی موجود تھا) حکم کی تعمیل کے لیے مَیں میاں طفیل محمد صاحب سے بھی جماعتِ اسلامی کے مرکز (منصورہ) میں ملا اور ان سے طویل انٹرویو کیا۔
دورانِ مکالمہ مَیں نے میاں صاحب سے کہا: جناب، آپ نے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی حد سے بڑھ کر اتنی حمایت کی کہ سب لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ضیاء الحق، میاں طفیل صاحب کے بھانجے ہیں، میاں صاحب نے فرمایا: ''مَیں نے ضیاء الحق کی حد سے زیادہ تو حمایت نہیں کی تھی لیکن جب لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ضیاء الحق میرا بھانجا ہے تو مَیں نے کہا کہ بھانجا ہے تو پھر بھانجا ہی سہی۔'' درست کہا گیا ہے کہ پروفیسر غفور احمد اپنے مرشد (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ) کی اس فکر کے سچے وارث تھے جس کا ایک حوالہ جنرل ضیاء الحق کے (نام نہاد) ریفرنڈم میں جماعت اسلامی کی پالیسی سے اختلاف بھی تھا۔
انھوں نے کھل کر اپنے امیر کی مخالفت کی۔ مثال کے طور پر ریفرنڈم ہی کے حوالے سے کراچی میں جماعت اسلامی کی شوریٰ کا اجلاس جاری تھا کہ امیرِ جماعت اسلامی میاں طفیل محمد اجلاس سے اٹھ کر ضیاء الحق سے ملنے چلے گئے جو لاہور سے آئے ہوئے تھے۔ ابھی شوریٰ کسی فیصلے پر نہ پہنچی تھی کہ امیرِ جماعت نے ضیاء سے ملاقات کے بعد ریفرنڈم کے لیے ضیاء الحق کی حمایت کا اعلان فرما دیا۔ جب واپس شوریٰ میں آ کر انھوں نے یہ بات بتائی تو پروفیسر غفور احمد نے جماعت کی نائب امارت سے استعفیٰ لکھا اور قیّم جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد کے حوالے کر کے خاموشی سے چلے گئے۔ جب قاضی صاحب نے یہ استعفیٰ امیرِ جماعت اسلامی کے حوالے کیا تو معتبر اور صداقت شعار راوی کا کہنا ہے کہ کہا گیا: ''اچھا ہے اور بھی کوئی استعفیٰ دینا چاہے تو ضرور دے۔'' (صفحہ 117) میاں صاحب کے ہوتے ہوئے بھی جماعت میں پروفیسر غفور احمد ایسے جگر دار اور راست باز لوگ موجود تھے۔
پروفیسر غفور احمد کی شخصیت اور خدمات پر مشتمل کالموں اور مضامین کا مرقع زیرِ نظر یہ کتاب ہم پر حیرتوں کے کئی در بھی وا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر 77ء میں بھٹو مخالف بننے والے ''پاکستان قومی اتحاد'' ہی سے نکل کر پروفیسر غفور صاحب وفاقی وزیر بنائے گئے، پروفیسر صاحب خود کہتے ہیں کہ بھٹو اور قومی اتحاد کے درمیان معاہدہ ہو چکا تھا لیکن جنرل ضیاء نے شب خون مارا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا (صفحہ 306) لیکن اس کے باوجود وہ ضیاء الحق اقتدار کے آس پاس موجود رہے۔ کیا وہ ضیاء کی بدنیتی سے دھوکا کھا گئے تھے؟ جماعت اسلامی نے چند برس بعد ''آئی جے آئی'' میں دیوانہ وار شامل ہو کر اسی غلطی کا پھر ارتکاب کیا۔ پروفیسر صاحب اس غلطی کا اعتراف برسرِ مجلس کرتے ہیں۔
(صفحہ 134) پروفیسر غفور احمد یہ بھی کہتے ہیں: ''فوج کی خفیہ ایجنسیاں ابتدا ہی سے کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے سیاست میں Manoeuvring کی ہے۔ ان کا کردار بڑھ رہا ہے اور سیاسی جماعتوں میں ان کا نفوذ ہے۔
ان کی تعداد بھی بہت ہے۔ یہ ان کے لیے اچھاہے نہ ملک کے لیے۔'' (صفحہ 372) فوج سے جماعتِ اسلامی کی یہ ناراضی قاضی حسین احمد صاحب کی امارت سے شروع ہو کر جناب منور حسن کی امارت تک آتے آتے عروج کو پہنچ گئی، جب امیر جماعت نے علی الاعلان دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار افواج پاکستان کے شہداء کو سرے سے شہید ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دہشت گردوں کو اپنا ''بھائی'' قرار دے ڈالا۔ آئی ایس پی آر نے جواب دیا تو جماعت والے اس کے خلاف بھی میدان میں آ گئے۔ زیر تبصرہ کتاب تقریباً ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس یادگار کتاب کو کراچی کی اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے شایع کیا ہے۔ جو چاہے وہ اکیڈمی بُک سینٹر، ڈی 35، بلاک 5، فیڈرل بی ایریا، کراچی (75950) پر خط لکھ کر یہ کتاب منگوا سکتا ہے۔
راولپنڈی میں فروکش جماعتِ اسلامی پاکستان کے ایک مخلص اور مرکزی رہنما برادرم شمسی صاحب نے مجھے ازراہِ محبت ایک کتاب بعنوان ''پروفیسر عبدالغفور احمد... رفتید، ولے نہ از دلِ ما'' بھیجی ہے۔ ان کا شکریہ۔ بے شک پروفیسر عبدالغفور احمد مرحوم ہمارے بھی محبوب تھے اور بزرگ قومی رہنما بھی۔ وہ آج ہی کی تاریخ کو اپنے اللہ کے حضور پہنچ گئے تھے۔ آج ان کی دوسری برسی ہے۔ اس حوالے سے یہ کتاب ان کے چاہنے والوں اور تاریخ کے طالب علموں کے لیے ایک قابلِ قدر تحفہ ہے۔
یہ محض ایک شخصیت کا احوال نہیں بلکہ چھ عشروں پر پھیلی ایسی متنوع داستان ہے ۔ بھٹو کے اگرچہ وہ سخت ناقد تھے اور کہتے تھے کہ بھٹو صاحب نے 1973ء کا آئین تو بنایا لیکن اسے دل سے تسلیم نہ کیا، وہ بی بی صاحبہ کو بیٹی کی طرح چاہتے، ان کی سیاست کی تعریف کرتے اور کہتے تھے: ذہین بچی ہے۔ نرم دل اتنے تھے کہ بھٹو کی پھانسی پر دل گرفتہ ہوئے۔ حتیٰ کہ اندرا گاندھی کی موت پر بھی مغموم ہو گئے اور کہا: ''تشدد کا استعمال جہاں بھی ہو گا، غلط ہو گا اور قابلِ مذمت ہو گا۔کاش، اس قابلِ تحسین فقرے کی بازگشت جماعتِ اسلامی کے ایک سابق محترم امیر کے کانوں سے بھی ٹکراتی!! مرحوم و مغفور پروفیسر عبدالغفور مسلک و فرقہ بازی سے بلند ہو کر انسانوں سے محبت کرنے والے انسان تھے۔
ان کی صاحبزادیوں کے نکاح بریلوی مکتبِ فکر کے نامور عالمِ دین اور ممتاز سیاستدان مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی صاحب نے پڑھائے۔ پروفیسر صاحب پُر لطف لہجے میں کہا کرتے تھے: ''اصل بریلوی تو مَیں ہوں۔'' (آپ کا آبائی تعلق بریلی سے تھا۔)۔ سترہ اگست 1988ء کو آمر جنرل ضیاء الحق سے پاکستان کی جان چھوٹی تو میرے مدیرِ اعلیٰ نے فیصلہ کیا کہ ہمیں جنرل ضیاء پر ایک خصوصی اشاعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ مجھے حکم دیا گیا کہ مَیں لاہور میں ہر اس اہم مولوی اور مذہبی رہنما سے مل کر انٹرویو کروں جس نے کسی نہ کسی شکل میں جنرل ضیاء الحق سے کبھی ملاقات کی تھی (اور اس کے دل میں ضیاء کے بارے میں نرم گوشہ بھی موجود تھا) حکم کی تعمیل کے لیے مَیں میاں طفیل محمد صاحب سے بھی جماعتِ اسلامی کے مرکز (منصورہ) میں ملا اور ان سے طویل انٹرویو کیا۔
دورانِ مکالمہ مَیں نے میاں صاحب سے کہا: جناب، آپ نے ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق کی حد سے بڑھ کر اتنی حمایت کی کہ سب لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ ضیاء الحق، میاں طفیل صاحب کے بھانجے ہیں، میاں صاحب نے فرمایا: ''مَیں نے ضیاء الحق کی حد سے زیادہ تو حمایت نہیں کی تھی لیکن جب لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ضیاء الحق میرا بھانجا ہے تو مَیں نے کہا کہ بھانجا ہے تو پھر بھانجا ہی سہی۔'' درست کہا گیا ہے کہ پروفیسر غفور احمد اپنے مرشد (سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ) کی اس فکر کے سچے وارث تھے جس کا ایک حوالہ جنرل ضیاء الحق کے (نام نہاد) ریفرنڈم میں جماعت اسلامی کی پالیسی سے اختلاف بھی تھا۔
انھوں نے کھل کر اپنے امیر کی مخالفت کی۔ مثال کے طور پر ریفرنڈم ہی کے حوالے سے کراچی میں جماعت اسلامی کی شوریٰ کا اجلاس جاری تھا کہ امیرِ جماعت اسلامی میاں طفیل محمد اجلاس سے اٹھ کر ضیاء الحق سے ملنے چلے گئے جو لاہور سے آئے ہوئے تھے۔ ابھی شوریٰ کسی فیصلے پر نہ پہنچی تھی کہ امیرِ جماعت نے ضیاء سے ملاقات کے بعد ریفرنڈم کے لیے ضیاء الحق کی حمایت کا اعلان فرما دیا۔ جب واپس شوریٰ میں آ کر انھوں نے یہ بات بتائی تو پروفیسر غفور احمد نے جماعت کی نائب امارت سے استعفیٰ لکھا اور قیّم جماعتِ اسلامی قاضی حسین احمد کے حوالے کر کے خاموشی سے چلے گئے۔ جب قاضی صاحب نے یہ استعفیٰ امیرِ جماعت اسلامی کے حوالے کیا تو معتبر اور صداقت شعار راوی کا کہنا ہے کہ کہا گیا: ''اچھا ہے اور بھی کوئی استعفیٰ دینا چاہے تو ضرور دے۔'' (صفحہ 117) میاں صاحب کے ہوتے ہوئے بھی جماعت میں پروفیسر غفور احمد ایسے جگر دار اور راست باز لوگ موجود تھے۔
پروفیسر غفور احمد کی شخصیت اور خدمات پر مشتمل کالموں اور مضامین کا مرقع زیرِ نظر یہ کتاب ہم پر حیرتوں کے کئی در بھی وا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر 77ء میں بھٹو مخالف بننے والے ''پاکستان قومی اتحاد'' ہی سے نکل کر پروفیسر غفور صاحب وفاقی وزیر بنائے گئے، پروفیسر صاحب خود کہتے ہیں کہ بھٹو اور قومی اتحاد کے درمیان معاہدہ ہو چکا تھا لیکن جنرل ضیاء نے شب خون مارا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا (صفحہ 306) لیکن اس کے باوجود وہ ضیاء الحق اقتدار کے آس پاس موجود رہے۔ کیا وہ ضیاء کی بدنیتی سے دھوکا کھا گئے تھے؟ جماعت اسلامی نے چند برس بعد ''آئی جے آئی'' میں دیوانہ وار شامل ہو کر اسی غلطی کا پھر ارتکاب کیا۔ پروفیسر صاحب اس غلطی کا اعتراف برسرِ مجلس کرتے ہیں۔
(صفحہ 134) پروفیسر غفور احمد یہ بھی کہتے ہیں: ''فوج کی خفیہ ایجنسیاں ابتدا ہی سے کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے سیاست میں Manoeuvring کی ہے۔ ان کا کردار بڑھ رہا ہے اور سیاسی جماعتوں میں ان کا نفوذ ہے۔
ان کی تعداد بھی بہت ہے۔ یہ ان کے لیے اچھاہے نہ ملک کے لیے۔'' (صفحہ 372) فوج سے جماعتِ اسلامی کی یہ ناراضی قاضی حسین احمد صاحب کی امارت سے شروع ہو کر جناب منور حسن کی امارت تک آتے آتے عروج کو پہنچ گئی، جب امیر جماعت نے علی الاعلان دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار افواج پاکستان کے شہداء کو سرے سے شہید ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور دہشت گردوں کو اپنا ''بھائی'' قرار دے ڈالا۔ آئی ایس پی آر نے جواب دیا تو جماعت والے اس کے خلاف بھی میدان میں آ گئے۔ زیر تبصرہ کتاب تقریباً ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس یادگار کتاب کو کراچی کی اسلامک ریسرچ اکیڈمی نے شایع کیا ہے۔ جو چاہے وہ اکیڈمی بُک سینٹر، ڈی 35، بلاک 5، فیڈرل بی ایریا، کراچی (75950) پر خط لکھ کر یہ کتاب منگوا سکتا ہے۔