مِنی مارشل لاء
ہم عوام تو اس سانحہ پر روتے پیٹتے رہے لیکن با اختیار لوگ صرف سوگ نہیں منا سکتے انھیں بہت کچھ کرنا بھی پڑتا ہے۔
مارشل لاء جب بھی آیا کُھل کر اور گج وج کے آیا اور جب تک جی چاہا قیام کیا ڈٹا رہا جب دل بھر گیا تو واپس اپنی ان پرانی مانوس بیرکوں میں چلا گیا جہاں سے وہ آیا تھا۔ مگر اس بار نہ جانے کیوں وہ آیا بھی تو ایسا کہ نہ آنے کے برابر۔ چھپ چھپا کر عدلیہ کے پردے کے پیچھے چھپا ہوا وہی بات کہ
صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
یہ چلمن وہ عدلیہ سمجھیں جو فوج کی براہ راست نگرانی میں دو سال (؟) کے لیے قائم ہو گی اور دہشت گردوں کا حساب کتاب کرے گی۔ ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف مارشل لاء کے قائل نہیں ہیں اگرچہ عوام نے گھبرا کر کئی بار یہ خواہش کی کہ مارشل لاء ایک بار پھر آ جائے۔ ایک پھیرا پھر لگا لے لیکن جنرل صاحب قائل نہ ہو سکے اور ملک کو سیاستدانوں کے حوالے کیے رکھا حالانکہ پہلے بھی جب کوئی مارشل لاء آیا تو اس وقت بھی کسی سیاستدان کی ہی حکومت ہوتی تھی۔
ایوب خان سے جنرل مشرف کے مارشل لاء تک سیاستدانوں کو اقتدار سے برطرف کر کے فوجی حکومت قائم کی گئی لیکن ایک بڑے جرنیل کے مطابق ہر مارشل لاء نے اگر کئی مسائل حل کیے مگر کئی نئے مسائل پیدا بھی کر دیے لیکن عوام کہتے ہیں کہ کبھی مریض کو آپریشن کی ضرورت بھی پڑتی ہے اور کوئی آپریشن مزید بیماریوں کا باعث بھی بن جاتا ہے لیکن فوری طور پر علاج یہی آپریشن ہی ہوتا ہے اب بھی حالات کی خرابی سے تنگ آ کر جنرل صاحب نے محدود 'مارشل لاء' لگا دیا ہے۔ سیاستدان بھی برطرف نہیں ہوں گے اور سیاسی عہدوں پر کام کرتے رہیں گے لیکن اندر خانے پوچھ کر۔
جنرل راحیل کو فوری طور پر پشاور کے سانحے نے مجبور کر دیا ہے۔ ہم عوام تو اس سانحہ پر روتے پیٹتے رہے لیکن با اختیار لوگ صرف سوگ نہیں منا سکتے انھیں بہت کچھ کرنا بھی پڑتا ہے اگر وہ بھی صرف بین ہی کرتے رہتے ہیں تو قوم موت کی طرف چلی جاتی ہے پشاور کے حادثے نے قوم کو نیم مردہ تو کر ہی دیا ہے اگر اس حالت میں کوئی سنبھالنے اور دلاسا دینے والا نہ ہو تو ایسے میں پھر جو ہوتا ہے وہ کون نہیں جانتا بہر کیف فوج اور سول نے مل کر مشورہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ فی الوقت ایسی عدالتیں قائم ہوں جو جلد از جلد فیصلے کریں اور دہشت گردوں کو ضمانتوں پر رہا نہ کریں انھیں ان کے جرم کی سزا دیں۔ ہماری فوج نے جو قدم اٹھایا ہے وہ بڑی ہمت کی بات ہے ایک طرف وہ ایک حقیقی خطرناک جنگ میں مصروف ہے۔
یہ جنگ محاذ پر بھی لڑی جا رہی ہے اور اس کا نتیجہ پشاور جیسے سانحوں کا سبب بھی بن رہا ہے جب کہ بھارت پاکستان کے خلاف کسی بھی واردات کا سرپرست کہا جا سکتا ہے لیکن فوج نے ملک بھی بچانا ہے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت بھی کرنی ہے۔
ہماری فوج کو اس وقت دوگونہ عذاب درپیش ہے۔ ملک کے اندر موجود دشمن کا قلع قمع کرنا اور بیرون ملک کے خطروں سے بھی نپٹنا ہے مگر ہماری بہادر فوج جو ایمان محکم کی نعمت سے سرفراز ہے ہر محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے ہمارے سیاستدانوں کو شرم آنی چاہیے کہ ان کی عدلیہ بھی قوم کے مفادات پر پوری نہیں اتری اور فوج کو ایک عدالت لگانی پڑ گئی ہے ہم دیکھیں گے کہ رفتہ رفتہ ہماری غیر فوجی سیاسی حکومت بھی فوج میں بھرتی ہونی شروع ہو جائے گی۔ کسی بلوچ یا پنجاب رجمنٹ کی طرح ایک سیاستدان رجمنٹ بھی بنانی پڑے گی۔
سوال یہ ہے کہ ایک فوجی عدالت کیا کر لے گی جو سول عدالت نہیں کر سکتی تھی۔ عدالت فوج کی ہو گی باوردی لیکن اس کے احکامات پر عملدرآمد سول ادارے ہی کریں گے۔ پولیس اور جیل کے حکام ہوں گے دہشت گردوں کو پولیس پکڑے گی عدالت میں پیش کرے گی اور عدالت ان کا کیس سن کر سزا دے گی اس سزا پر عمل بھی سول ادارے کریں گے۔ اس سارے عمل میں صرف فیصلہ کسی فوجی عدالت نے کرنا ہے باقی سارا کام سول اداروں نے کرنا ہے تو کیا یہ کام فوجی عدالت کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔
آج ہمارے حکمران فوج کی اس پیش قدمی سے خوش ہو کر بڑھکیں لگا رہے ہیں اور قوم کو راتوں کو جگا کر تقریریں کر رہے ہیں۔ یہ سب ہمارے سیاستدانوں کی کھلی نالائقی اور غفلت ہے۔ ملک بھر کے سیاستدان جمع ہوئے طویل ترین ملاقات کی گیارہ گھنٹوں سے بھی زیادہ وقت کی اور دراصل اپنی ناکامی، نالائقی اور حکمرانی میں نااہلی پر اتفاق کیا اور سارا بوجھ فوج پر ڈال کر ایک پر تکلف کھانا کھایا اور رخصت ہو گئے۔ طویل اجلاس کی تھکان دور کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیڈروں کو صحیح و سلامت رکھے اور ہر مشقت سے محفوظ۔
دنیا جمہوریت کی ہے اور ہر معقول قوم نے اپنے معاملات حل کرنے کے لیے سویلین حکومتیں بنا رکھی ہیں۔ ان ملکوں میں مارشل لاء کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر کسی سے پوچھیں کہ مارشل لاء حکومت کیا ہوتی ہے تو وہ آپ کا منہ تکنے لگ جائے گا۔ جن ملکوں میں بادشاہتیں ہیں ان کو وہ اپنے خاص سیاسی مقاصد کے تحت برداشت کرتے ہیں۔ ایسی حکومتیں بھی مسلمان ملکوں میں ہی ہیں۔
مغربی ملکوں میں اگر بادشاہتیں ہیں تو برائے نام اور ملکی اتحاد کے لیے جیسے مشرق میں جاپان کی بادشاہت لیکن ہمارے ملکوں میں بادشاہ حکمرانی کرتا ہے فرد واحد کی حکمرانی لیکن چھوڑئیے یہ ایک الگ موضوع ہے اصل بات یہ ہے کہ مارشل لاء نام کی کوئی حکومت نہیں ہوتی اور سیاسی سائنس میں ایسی کسی حکومت کا ذکر نہیں ملتا خدا نہ کرے کہ ہم اس بلا میں پھنس جائیں ویسے چند لفظوں میں عرض ہے کہ جب ایوب خان نے مارشل لاء لگایا پہلا مارشل لاء تو اس وقت قائداعظم کی مرکزی مجلس عاملہ کے جتنے ارکان زندہ تھے وہ سب ایوب خان کی کنونشن لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔
قائد مرحوم و مغفور نے انھی کے بارے میں کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ بدنصیبی سے ہم آج بھی کھوٹے سکوں سے بازار میں سودا خریدنے کی کوشش پر مجبور ہیں۔ اللہ ہم پر رحم کرے اور ہمارے اندر اپنی عزت کا احساس پیدا کر دے۔
صاف چُھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
یہ چلمن وہ عدلیہ سمجھیں جو فوج کی براہ راست نگرانی میں دو سال (؟) کے لیے قائم ہو گی اور دہشت گردوں کا حساب کتاب کرے گی۔ ہمارے سپہ سالار جنرل راحیل شریف مارشل لاء کے قائل نہیں ہیں اگرچہ عوام نے گھبرا کر کئی بار یہ خواہش کی کہ مارشل لاء ایک بار پھر آ جائے۔ ایک پھیرا پھر لگا لے لیکن جنرل صاحب قائل نہ ہو سکے اور ملک کو سیاستدانوں کے حوالے کیے رکھا حالانکہ پہلے بھی جب کوئی مارشل لاء آیا تو اس وقت بھی کسی سیاستدان کی ہی حکومت ہوتی تھی۔
ایوب خان سے جنرل مشرف کے مارشل لاء تک سیاستدانوں کو اقتدار سے برطرف کر کے فوجی حکومت قائم کی گئی لیکن ایک بڑے جرنیل کے مطابق ہر مارشل لاء نے اگر کئی مسائل حل کیے مگر کئی نئے مسائل پیدا بھی کر دیے لیکن عوام کہتے ہیں کہ کبھی مریض کو آپریشن کی ضرورت بھی پڑتی ہے اور کوئی آپریشن مزید بیماریوں کا باعث بھی بن جاتا ہے لیکن فوری طور پر علاج یہی آپریشن ہی ہوتا ہے اب بھی حالات کی خرابی سے تنگ آ کر جنرل صاحب نے محدود 'مارشل لاء' لگا دیا ہے۔ سیاستدان بھی برطرف نہیں ہوں گے اور سیاسی عہدوں پر کام کرتے رہیں گے لیکن اندر خانے پوچھ کر۔
جنرل راحیل کو فوری طور پر پشاور کے سانحے نے مجبور کر دیا ہے۔ ہم عوام تو اس سانحہ پر روتے پیٹتے رہے لیکن با اختیار لوگ صرف سوگ نہیں منا سکتے انھیں بہت کچھ کرنا بھی پڑتا ہے اگر وہ بھی صرف بین ہی کرتے رہتے ہیں تو قوم موت کی طرف چلی جاتی ہے پشاور کے حادثے نے قوم کو نیم مردہ تو کر ہی دیا ہے اگر اس حالت میں کوئی سنبھالنے اور دلاسا دینے والا نہ ہو تو ایسے میں پھر جو ہوتا ہے وہ کون نہیں جانتا بہر کیف فوج اور سول نے مل کر مشورہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ فی الوقت ایسی عدالتیں قائم ہوں جو جلد از جلد فیصلے کریں اور دہشت گردوں کو ضمانتوں پر رہا نہ کریں انھیں ان کے جرم کی سزا دیں۔ ہماری فوج نے جو قدم اٹھایا ہے وہ بڑی ہمت کی بات ہے ایک طرف وہ ایک حقیقی خطرناک جنگ میں مصروف ہے۔
یہ جنگ محاذ پر بھی لڑی جا رہی ہے اور اس کا نتیجہ پشاور جیسے سانحوں کا سبب بھی بن رہا ہے جب کہ بھارت پاکستان کے خلاف کسی بھی واردات کا سرپرست کہا جا سکتا ہے لیکن فوج نے ملک بھی بچانا ہے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت بھی کرنی ہے۔
ہماری فوج کو اس وقت دوگونہ عذاب درپیش ہے۔ ملک کے اندر موجود دشمن کا قلع قمع کرنا اور بیرون ملک کے خطروں سے بھی نپٹنا ہے مگر ہماری بہادر فوج جو ایمان محکم کی نعمت سے سرفراز ہے ہر محاذ پر ڈٹی ہوئی ہے ہمارے سیاستدانوں کو شرم آنی چاہیے کہ ان کی عدلیہ بھی قوم کے مفادات پر پوری نہیں اتری اور فوج کو ایک عدالت لگانی پڑ گئی ہے ہم دیکھیں گے کہ رفتہ رفتہ ہماری غیر فوجی سیاسی حکومت بھی فوج میں بھرتی ہونی شروع ہو جائے گی۔ کسی بلوچ یا پنجاب رجمنٹ کی طرح ایک سیاستدان رجمنٹ بھی بنانی پڑے گی۔
سوال یہ ہے کہ ایک فوجی عدالت کیا کر لے گی جو سول عدالت نہیں کر سکتی تھی۔ عدالت فوج کی ہو گی باوردی لیکن اس کے احکامات پر عملدرآمد سول ادارے ہی کریں گے۔ پولیس اور جیل کے حکام ہوں گے دہشت گردوں کو پولیس پکڑے گی عدالت میں پیش کرے گی اور عدالت ان کا کیس سن کر سزا دے گی اس سزا پر عمل بھی سول ادارے کریں گے۔ اس سارے عمل میں صرف فیصلہ کسی فوجی عدالت نے کرنا ہے باقی سارا کام سول اداروں نے کرنا ہے تو کیا یہ کام فوجی عدالت کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔
آج ہمارے حکمران فوج کی اس پیش قدمی سے خوش ہو کر بڑھکیں لگا رہے ہیں اور قوم کو راتوں کو جگا کر تقریریں کر رہے ہیں۔ یہ سب ہمارے سیاستدانوں کی کھلی نالائقی اور غفلت ہے۔ ملک بھر کے سیاستدان جمع ہوئے طویل ترین ملاقات کی گیارہ گھنٹوں سے بھی زیادہ وقت کی اور دراصل اپنی ناکامی، نالائقی اور حکمرانی میں نااہلی پر اتفاق کیا اور سارا بوجھ فوج پر ڈال کر ایک پر تکلف کھانا کھایا اور رخصت ہو گئے۔ طویل اجلاس کی تھکان دور کرنے کے لیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے لیڈروں کو صحیح و سلامت رکھے اور ہر مشقت سے محفوظ۔
دنیا جمہوریت کی ہے اور ہر معقول قوم نے اپنے معاملات حل کرنے کے لیے سویلین حکومتیں بنا رکھی ہیں۔ ان ملکوں میں مارشل لاء کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اگر کسی سے پوچھیں کہ مارشل لاء حکومت کیا ہوتی ہے تو وہ آپ کا منہ تکنے لگ جائے گا۔ جن ملکوں میں بادشاہتیں ہیں ان کو وہ اپنے خاص سیاسی مقاصد کے تحت برداشت کرتے ہیں۔ ایسی حکومتیں بھی مسلمان ملکوں میں ہی ہیں۔
مغربی ملکوں میں اگر بادشاہتیں ہیں تو برائے نام اور ملکی اتحاد کے لیے جیسے مشرق میں جاپان کی بادشاہت لیکن ہمارے ملکوں میں بادشاہ حکمرانی کرتا ہے فرد واحد کی حکمرانی لیکن چھوڑئیے یہ ایک الگ موضوع ہے اصل بات یہ ہے کہ مارشل لاء نام کی کوئی حکومت نہیں ہوتی اور سیاسی سائنس میں ایسی کسی حکومت کا ذکر نہیں ملتا خدا نہ کرے کہ ہم اس بلا میں پھنس جائیں ویسے چند لفظوں میں عرض ہے کہ جب ایوب خان نے مارشل لاء لگایا پہلا مارشل لاء تو اس وقت قائداعظم کی مرکزی مجلس عاملہ کے جتنے ارکان زندہ تھے وہ سب ایوب خان کی کنونشن لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔
قائد مرحوم و مغفور نے انھی کے بارے میں کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔ بدنصیبی سے ہم آج بھی کھوٹے سکوں سے بازار میں سودا خریدنے کی کوشش پر مجبور ہیں۔ اللہ ہم پر رحم کرے اور ہمارے اندر اپنی عزت کا احساس پیدا کر دے۔