27 دسمبر اور دہشت گردی کے خلاف جنگ

عظیم المیہ برے لوگوں کی طرف سے کیا جانے والا ظلم و استبداد نہیں ہے بلکہ اس پر اچھے لوگوں کی خاموشی ہی عظیم المیہ ہے۔


Sharjeel Inam Memon December 26, 2014
شرجیل انعام میمن

KARACHI: 27 دسمبر کا دن ایک عظیم المیے کی یاد دلاتا ہے۔ آج سے 7 سال پہلے اسی دن ہمارے عہد کی سب سے بہادر خاتون رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دیا گیا تھا کیونکہ انھوں نے پاکستان اور عالم اسلام سمیت پوری دنیا کو بدامنی اور انتشار سے بچانے کے لیے ایک فلسفے اور نظریے کے ساتھ پرامن جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کو للکارا تھا۔ آج پوری پاکستانی قوم ان دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔

جنھوں نے 27 دسمبر 2007 کو دہشت گردی کے خلاف عہد نو کی سب سے طاقتور آواز کو دبا دیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی اپیل پر یہ جنگ پہلے لڑی جاتی تو ہم لیاقت باغ سے لے کر آرمی پبلک اسکول پشاور تک بڑے بڑے سانحات سے بچ سکتے تھے۔ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کرنے والے ممتاز امریکی رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونئیر نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''عظیم المیہ برے لوگوں کی طرف سے کیا جانے والا ظلم و استبداد نہیں ہے بلکہ اس پر اچھے لوگوں کی خاموشی ہی عظیم المیہ ہے۔'' محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر آج پہلے سے زیادہ سوگ منانے اور احتجاج کرنے کی ضرورت ہے۔

پوری پاکستانی قوم اس وقت ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قومی ایکشن پلان بنانے میں مصروف ہے، جنھوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کیا تھا کیونکہ یہ دہشت گرد اب ہمارے بزرگوں، جوانوں اور خواتین کے بعد ہمارے بچوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں اور انھوں نے ہماری قومی سلامتی اور بقا کے لیے خطرات پیدا کردیے ہیں۔ ان دہشت گردوں کے خلاف جنگ بہت پیچیدہ ہے کیونکہ انھیں بعض عالمی قوتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی جمہوریت و عوام دشمن قوتوں کی بھی بالواسطہ یا براہ راست سرپرستی حاصل ہے۔

اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے پہلے ہی ایکشن پلان دے دیا تھا۔ یہ ایکشن پلان دہشت گردی کے تاریخی اور معروضی اسباب کو پیش نظر رکھ کر تشکیل دیا گیا تھا۔ اس سے زیادہ بہتر کوئی اور ایکشن پلان نہیں ہوسکتا ہے۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا یہ ایکشن پلان ان کے ''فلسفہ مفاہمت'' پر مبنی ہے۔ یہاں مفاہمت کا مقصد یہ نہیں ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ نہ کی جائے بلکہ مفاہمت سے مراد تصادم کے ان حالات کا خاتمہ کرنا ہے، جن میں دہشت گردی پروان چڑھتی ہے۔ اس فلسفہ مفاہمت کے مطابق دنیا میں دو طرح کے تاریخی تصادم رونما ہورہے ہیں، جو بری طرح ایک دوسرے میں گتھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔

ان میں سے ایک دنیائے اسلام کا داخلی تصادم ہے اور دوسرا مغرب اور دنیائے اسلام کے درمیان رونما ہونے والا تصادم ہے۔ مذکورہ بالا عالمی اور ملکی قوتیں اپنے اپنے مخصوص مفادات کے لیے دونوں طرح کے تصادم کو ہوا دے رہی ہیں۔ یہی مخصوص مفادات دہشت گردی کی پرورش کرتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے راستے میں یہی مخصوص مفادات سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ دونوں طرح کے تصادم کو ختم کرنے کے لیے مفاہمت ضروری ہے۔ مفاہمت سے ہی دہشت گردی سے وابستہ مفادات کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مفاہمت کا مقصد دہشت گردوں سے مذاکرات ہیں، وہ فکری مغالطے کا شکار ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو جب اپنے ساتھ مفاہمت کا فلسفہ لائی تھیں تو وہ دہشت گردوں کو بھی للکار رہی تھیں۔

بعض عالمی قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ مسلم اقوام جدیدیت کی مخالفت کرتی رہیں تاکہ مغرب کو دنیائے اسلام کے ساتھ ٹکرائو کا جواز فراہم ہوسکے اور اس ٹکرائو میں بقول شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سب سے زیادہ نقصان ہمارا ہورہا ہے۔ ہمارے لوگ ہی اپنے لوگوں کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔ ہماری ریاستیں اور ادارے کمزور ہو رہے ہیں اور ہمارے وسائل پر ہمارا تسلط کمزور ہو رہا ہے۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو امریکی دانش ور پروفیسر سیموئیل فلپس ہنٹنگ ٹن کے ''تہذیبوں کا تصادم'' کے نظریے سے بھی اتفاق نہیں کرتی ہے اور وہ اپنی کتاب میں دلائل کے ساتھ یہ ثابت کرتی ہیں کہ یہ نظریہ مصنوعی تصادم کو ہوا دینے کے لیے تخلیق کیا گیا ہے تاکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مغرب کو اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل اور دنیا کے مختلف خطوں میں مداخلت کے لیے ایک نام نہاد دشمن میسر آسکے۔ شہید قائد نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ دہشت گرد اور آمرانہ حکومتیں ایک دوسرے کی فطری اتحادی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مفاہمت کے فلسفہ پر مبنی جو ایکشن پلان دیا ہے، اس میں چند بنیادی نکات پر عمل درآمد ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں کثرتیت، رواداری اور جدیدیت کے نظریات کو فروغ دیا جائے۔ اس کے لیے عہد جدید کے اسلامی مصلحین بشمول پاکستان کے مفکرین علامہ محمد اقبال، پروفیسر فضل الرحمن اور محمد خالد مسعود، انڈونیشیا کے دانشور نور کولش مجدد، ایرانی فلسفی عبدالکریم سروش، الجزائر کے ڈاکٹر محمد ارقون، بھارتی عالم مولانا وحید الدین خان اور ان جیسے مفکرین اور علما کی تعلیمات اور افکار کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے فلسفہ کا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اسلامی ریاستوں میں غربت، بھوک، افلاس اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ امیر مسلم ممالک خصوصاً خلیجی ریاستیں دنیائے اسلام کی معاشی اور علمی ترقی کو ''جمپ اسٹارٹ'' دیں۔

شہید بی بی نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک دنیا کے غریب ملکوں خصوصاً اسلامی ممالک کی ترقی کے لیے مارشل پلان دیں۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے شکار ممالک میں محروم اور مظلوم قوموں، گروہوں، طبقات اور اصناف کو ان کے بنیادی حقوق دیے جائیں اور وہاں کی حکومتیں اپنی حکمرانی کو بہتر بنائیں۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ پوری دنیا خصوصاً اسلامی ممالک میں جمہوریت کو تقویت دی جائے۔ امریکا اور مغربی اقوام آمرانہ حکومتوں کی سرپرستی نہ کریں اور جمہوری اقوام کی ایک ایسوسی ایشن تشکیل دی جائے، جو پوری دنیا میں کمسن جمہوریتوں کی حفاظت کرے اور پانچواں نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس فلسفے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس پیچیدہ جنگ میں داخلی اور عالمی سطح پر غیر معمولی کوششوں کی ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے اسی فلسفے کو مدنظر رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملکی اور عالمی سطح پر غیر معمولی کوششیں کیں۔

ان کے دور میں آپریشن راہ راست کی کامیابی ان کوششوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی پاکستان سمیت پوری دنیا کے امن کے لیے اپنی والدہ کے ایجنڈے کو اسی بہادری کے ساتھ لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ آج محترمہ بے نظیر بھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے دیے گئے ایکشن پلان پر عمل کیا جائے اور اس جنگ میں جمہوریت کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بھی ناکام بنایا جائے۔ 27 دسمبر کا دن حب الوطنی، بہادری اور اعلیٰ آدرشوں کے ہتھیاروں سے دہشت گردی، ظلم و استبداد کے خلاف جنگ لڑنے کا درس دیتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔