قائد ایم کیو ایم الطاف حسین کا فکر انگیز انٹرویو …پہلاحصہ
پورا نظام ہی اگردوسال کےلیےفوج کےحوالےکردیا جائےتو میں سمجھتا ہوں کہ یہ دہشت گردوں سےنمٹنےکےلیے زیادہ موثر ثابت ہوگا۔
نیوز اینکر: ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین آج ہمارے ساتھ ٹیلی فون لائن پر موجود ہیں اور وزیراعظم نواز شریف نے اے پی سی میں جو فیصلے کیے اور قوم سے خطاب کیا، فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے ایک لائحہ عمل کا اعلان کیا، ہم جانیں گے کہ الطاف حسین صاحب ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں، کیا فرماتے ہیں۔ جی السلام و علیکم! الطاف بھائی!
الطاف حسین: وعلیکم و السلام! دیکھیں وزیراعظم پاکستان محمد میاں نواز شریف صاحب نے آج ابھی چند منٹ پہلے قوم سے جو خطاب کیا ہے وہ حسب روایت بہت اچھا تھا لیکن انھوں نے جتنی باتیں کیں وہ سب کی سب تقریباً پرانی باتوں کا Repeatation تھیں کیونکہ کوئی بات نئی اس میں انھوں نے نہیں کی، ماسوائے فوجی افسران کی نگرانی میں عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ یہ اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ ہماری سول حکومت، سول عدالتیں ملک میں دہشت گردوں کے خلاف گرفت کرنے یا انھیں روکنے یا ان سے بازپرس کرنے میں قطعی ناکام ہوچکی ہیں۔
نیوز اینکر: الطاف بھائی آپ نے خدشات، تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ خطاب روایتی تھا۔ آپ نے خود آج پریس کانفرنس میں فرمایا کہ فوجی عدالتیں بنانی ہیں تو بہتر ہے مارشل لاء کا اعلان کردیا جائے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر فوجی عدالتیں بنیں گی تو کیا یہ Political victimisation کریں گی۔
الطاف حسین: دیکھئے! آدھا تیتر آدھا بٹیر، اس کا میں قائل نہیں ہوں یا تو آپ پورا تیتر کھائیں یا پورا بٹیر کھائیں۔ تو اگر فوجی افسران کو عدالتوں میں بٹھا کر دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ان کی خدمات کی ضرورت پیش آرہی ہیں اور سول عدالتیں ناکام ہوچکی ہیں تو حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ پھر عدالتوں کی کیا ضرورت ہے، دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ایکشن تو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف صاحب نے اور فوج کے دیگر افسران نے مل کر شمالی وزیرستان میں ازخود شروع کیا تھا، بعد میں سول حکومت نے اسے OWN کیا ہے، تو بہتر تو یہ ہے کہ فوجی افسران کے تحت عدالتیں لگانے کے بجائے پورا نظام ہی اگر دو سال کے لیے فوج کے حوالے کردیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے زیادہ موثر ثابت ہوگا۔
فوج کی حکومت کے ہاتھوں پورا اختیار دینا تاکہ وہ جہاں جہاں کمزوریاں دیکھیں وہاں وہاں مداخلت کرسکیں، باقی ویسے خطاب الفاظ اور جملوں کے اور یقین دہانیوں کے لیے تو ہمیشہ کی طرح بہت اچھا تھا لیکن جس نے وزیراعظم صاحب کا خطاب لکھا اس نے پھر لفظ طالبان کا استعمال نہیں کیا، القاعدہ کا استعمال نہیں کیا، داعش کا لفظ استعمال نہیں کیا، لال مسجد کا نام استعمال نہیں کیا، مدرسہ حفصہ کی لڑکیوں کا نام استعمال نہیں کیا جنہوں نے سوشل میڈیا پر الحسینی القریشی ابو بکر البغدادی کی خلافت کو تسلیم کیا ہے، جنھوں نے کہا ہے کہ ہم بدلہ لیں گے اسامہ بن لادن کے قتل کا اور ہم داعش کی خلافت کا نظام پاکستان میں نافذ کریں گے، اس بارے میں تو ایک لفظ انھوں نے نہیں کہا۔
نیوز اینکر: ساری پولیٹیکل قیادت موجود تھی، کوشش کی گئی کہ پولیٹیکل اونر شپ دی جائے ملٹری کو۔ لیکن آپ نے جس پوائنٹ کی طرف اشارہ کیا وہ بڑا ٹھوس ہے کہ ان دہشت گرد قوتوں کے نام نہیں لیے گئے جس پر آپ کو ریزرویشن ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب روایتی خطاب تھا لیکن یہ کیسے ممکن ہے آپ کے پاس کیا لائحہ عمل ہے۔ جیسے آپ نے اعلان کیا کہ فوج کو دے دیا جائے لیکن جمہوری قوتوں کے پاس ایسا کونسا طریقہ کار ہے کہ وہ فوج سے درخواست کرے کہ آپ آئیں اور آکر اقتدار سنبھال لیں۔
الطاف حسین: وزیراعظم پاکستان، صدر پاکستان کے نام خط لکھیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ججوں سے کہیں کہ ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے اس کے مدنظر آپ حکومت کو حکم دیں آرٹیکل 190کے تحت کہ وہ فوج کو طلب کرکے اور ان سے درخواست کرے کہ وہ ملک کا نظم ونسق سنبھال لیں۔
نیوز اینکر: تو الطاف بھائی اس طرح تو یہ ہوگا کہ جو جمہوری قوتیں ہیں جنھوں نے بڑی طویل جدوجہد کی آمریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے، کیا وہ اپنی ناکامی کا کھلم کھلا اعتراف کرلیں؟
الطاف حسین: دیکھئے! آپ کا انٹرویو اور سوال یہ بڑھتا جائے گا اس کا جواب کبھی ختم نہیں ہوگا کیونکہ جمہوریت کے نام پر ملک میں آنے والی جتنی جمہوری حکومتیں ہیں اس میں جمہوریت، لوکل باڈیز سسٹم، گھر گھر انصاف کی فراہمی کہاں ہوئی ہے۔ لوکل باڈیز کا سسٹم جب نافذ ہوا ہے وہ فوجی حکومتوں کے زمانے میں ہوا ہے، آپ کسی ایک جمہوری حکومت کا تذکرہ نہیں کرسکتے جس کے دورمیں لوکل باڈیز الیکشن کروا کر، کونسلر سسٹم، ٹاؤن ناظم سسٹم، تعلقہ ناظم سسٹم آیا ہو کہ بارش ہو، پانی بھر جائے، گٹر ابلنے لگیں یا کوئی اور آفت آجائے تو پہلے لوگ کونسلر کا دروازہ کھٹکھٹائیں کیونکہ وہ گلی میں رہتا ہے، محلے میں رہتا ہے، وہ یوسی کے پاس جائیں یوسی کا دروازہ کھٹکھٹائیں، وہاں ٹاؤن ناظم کا دروازہ کھٹکٹھائیں تو ایک ہی محلے کے اندر رہنے والے عام آدمی کی اپروچ ہوتی ہے۔ ایم پی ایز، ایم این ایز سے تو ملنے میں فرشتوں کو دشواری ہوتی ہے انسان تو کجا۔
نیوز اینکر: الطاف بھائی! آج جو اے پی سی ہورہی تھی، اس میں پوری پولیٹیکل اونر شپ شریک ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ اس پر آپ کی بہت سی ریزو یشن ہیں لیکن جب پوری قومی قیادت جمع ہوتی ہے، آپ کی ماضی کی حلیف جماعت پیپلزپارٹی تھی، عمران خان اور لوگ بھی تھے، تمام لوگوں نے یہ پولٹیکل اونر شپ کے تحت اس اعلامیے پر اتفاق رائے کیا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو کچھ وقت دینا چاہیے؟
الطاف حسین: میرے بھائی! سوائے ایم کیوایم کے باقی اونر شپ جو پولیٹیکل پارٹیز نے دی جب ایم کیوایم اور الطاف حسین چلا چلا کر دس سال سے، پندرہ سال سے کہہ رہا ہے جاگ اٹھو، سونے والوں جاگ اٹھو، طالبانائزیشن ہورہی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ ان سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا تو قہقہے لگتے تھے۔ الطاف حسین پاگل ہوگیا ہے۔ لوگوں کو ڈرا رہا ہے۔ لوگوں کو ورغلا رہا ہے۔ لوگوں کو بہکا رہا ہے۔ کوئی طالبانائزیشن نہیں ہورہی۔ حکومت کی رٹ قائم ہے۔
حکومت کے علم میں کہیں ایسی کوئی بات نہیں کہ طالبانائزیشن ہورہی ہے۔ آج وہی حکومتیں اور وہی پولیٹیکل پارٹیز، وہی جمہوریت کے چیمپئن کہ جو میری سچی باتیں جو میں کہتا تھا کہ فوج آجاؤ تو کہتے تھے کہ یہ فوج کی پیداوار ہیں اس لیے کہہ رہے ہیں۔ تمہیں شرم بھی نہیں آتی کہ تم الطاف حسین پر یہ الزام لگاتے ہو لیکن اس وقت عوام کو یہ حکمران بیوقوف بناتے تھے، آج یہی حکمران جو ہیں سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس اجلاس میں کہ جس میںچیف آف آرمی اسٹاف، آئی ایس آئی کا چیف بیٹھا تھا اور فوجی بیٹھے تھے وردی میں۔
وردی دیکھ کر دل دھڑ دھڑ کررہے تھے ان نام نہاد جمہوریت کے چیمپئنوں کے، بڑی بڑی تقریریں کرنے والوں کے اور وہ بلا کسی اعتراض کے، جی ہاں ٹھیک ہیں، فوجی عدالتیں ٹھیک ہیں۔ کیا بات کررہے ہیں آپ۔ آپ خود حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں، مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہا ہے یہ جھوٹے چمپئن ہیں۔ جان دینے والے مجنوں اور ہوتے ہیں اور دودھ پینے والے مجنوں اور ہوتے ہیں۔ یہ دراصل جمہوریت کے چیمپئن دودھ پینے والے مجنوں ہیں، خون دینے والے مجنوں نہیں ہیں۔
نیوز اینکر: آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ جو موجودہ ایکشن پلان دیا گیا ہے اس کے تحت آپ کیا سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی وہ کامیاب ہوگی یا مشکل ہوگا۔
الطاف حسین: جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں فوج تو کرے گی لیکن عوام بھی ساتھ میں ہیں لیکن حکومت کہاں کہاں تعاون کرے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، اگر حکومت تعاون کرے گی خلوص نیت کے ساتھ تو میں حکومت کی اور جو ساتھ سچائی کے ساتھ دے گا میں ان کی تعریف بھی کروں گا۔
نیوز اینکر: آنے والے وقت میں پاکستان کی کیا صورتحال دیکھ رہے ہیں؟
الطاف حسین: مستقبل مجھے تو بالکل اچھا نظر نہیں آتا اگر ایماندار لوگ حکومت میں نہیں آئے اور ملک میں کمال اتاترک کی طرح سے کوئی فوجی جنرل آکر حکومت نہ سنبھالے اور وہ ایک ڈنڈا ہلا کر اور ڈنڈا دکھا کر اور آرڈر دے کر کہ جاؤ جاگیرداروں کو گھر سے باہر نکال کر پھینک دو اور ان کے گھروں پر قبضہ کرلو اور پھر قانون نافذ کرے۔ جاگیردارانہ، وڈیرانہ، سرمایہ دارانہ سسٹم، قرضے لے کر ہڑ پ کرنے والوں کو گھر سے نکال دو، جنھوں نے قرضے واپس نہیں کیے معاف کرالیے ان سب کو لاک اپ میں بند کردو۔ (جاری ہے)
الطاف حسین: وعلیکم و السلام! دیکھیں وزیراعظم پاکستان محمد میاں نواز شریف صاحب نے آج ابھی چند منٹ پہلے قوم سے جو خطاب کیا ہے وہ حسب روایت بہت اچھا تھا لیکن انھوں نے جتنی باتیں کیں وہ سب کی سب تقریباً پرانی باتوں کا Repeatation تھیں کیونکہ کوئی بات نئی اس میں انھوں نے نہیں کی، ماسوائے فوجی افسران کی نگرانی میں عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ یہ اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ ہماری سول حکومت، سول عدالتیں ملک میں دہشت گردوں کے خلاف گرفت کرنے یا انھیں روکنے یا ان سے بازپرس کرنے میں قطعی ناکام ہوچکی ہیں۔
نیوز اینکر: الطاف بھائی آپ نے خدشات، تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ خطاب روایتی تھا۔ آپ نے خود آج پریس کانفرنس میں فرمایا کہ فوجی عدالتیں بنانی ہیں تو بہتر ہے مارشل لاء کا اعلان کردیا جائے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر فوجی عدالتیں بنیں گی تو کیا یہ Political victimisation کریں گی۔
الطاف حسین: دیکھئے! آدھا تیتر آدھا بٹیر، اس کا میں قائل نہیں ہوں یا تو آپ پورا تیتر کھائیں یا پورا بٹیر کھائیں۔ تو اگر فوجی افسران کو عدالتوں میں بٹھا کر دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ان کی خدمات کی ضرورت پیش آرہی ہیں اور سول عدالتیں ناکام ہوچکی ہیں تو حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ پھر عدالتوں کی کیا ضرورت ہے، دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ایکشن تو چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف صاحب نے اور فوج کے دیگر افسران نے مل کر شمالی وزیرستان میں ازخود شروع کیا تھا، بعد میں سول حکومت نے اسے OWN کیا ہے، تو بہتر تو یہ ہے کہ فوجی افسران کے تحت عدالتیں لگانے کے بجائے پورا نظام ہی اگر دو سال کے لیے فوج کے حوالے کردیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے زیادہ موثر ثابت ہوگا۔
فوج کی حکومت کے ہاتھوں پورا اختیار دینا تاکہ وہ جہاں جہاں کمزوریاں دیکھیں وہاں وہاں مداخلت کرسکیں، باقی ویسے خطاب الفاظ اور جملوں کے اور یقین دہانیوں کے لیے تو ہمیشہ کی طرح بہت اچھا تھا لیکن جس نے وزیراعظم صاحب کا خطاب لکھا اس نے پھر لفظ طالبان کا استعمال نہیں کیا، القاعدہ کا استعمال نہیں کیا، داعش کا لفظ استعمال نہیں کیا، لال مسجد کا نام استعمال نہیں کیا، مدرسہ حفصہ کی لڑکیوں کا نام استعمال نہیں کیا جنہوں نے سوشل میڈیا پر الحسینی القریشی ابو بکر البغدادی کی خلافت کو تسلیم کیا ہے، جنھوں نے کہا ہے کہ ہم بدلہ لیں گے اسامہ بن لادن کے قتل کا اور ہم داعش کی خلافت کا نظام پاکستان میں نافذ کریں گے، اس بارے میں تو ایک لفظ انھوں نے نہیں کہا۔
نیوز اینکر: ساری پولیٹیکل قیادت موجود تھی، کوشش کی گئی کہ پولیٹیکل اونر شپ دی جائے ملٹری کو۔ لیکن آپ نے جس پوائنٹ کی طرف اشارہ کیا وہ بڑا ٹھوس ہے کہ ان دہشت گرد قوتوں کے نام نہیں لیے گئے جس پر آپ کو ریزرویشن ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سب روایتی خطاب تھا لیکن یہ کیسے ممکن ہے آپ کے پاس کیا لائحہ عمل ہے۔ جیسے آپ نے اعلان کیا کہ فوج کو دے دیا جائے لیکن جمہوری قوتوں کے پاس ایسا کونسا طریقہ کار ہے کہ وہ فوج سے درخواست کرے کہ آپ آئیں اور آکر اقتدار سنبھال لیں۔
الطاف حسین: وزیراعظم پاکستان، صدر پاکستان کے نام خط لکھیں کہ وہ سپریم کورٹ کے ججوں سے کہیں کہ ملک اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے اس کے مدنظر آپ حکومت کو حکم دیں آرٹیکل 190کے تحت کہ وہ فوج کو طلب کرکے اور ان سے درخواست کرے کہ وہ ملک کا نظم ونسق سنبھال لیں۔
نیوز اینکر: تو الطاف بھائی اس طرح تو یہ ہوگا کہ جو جمہوری قوتیں ہیں جنھوں نے بڑی طویل جدوجہد کی آمریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے، کیا وہ اپنی ناکامی کا کھلم کھلا اعتراف کرلیں؟
الطاف حسین: دیکھئے! آپ کا انٹرویو اور سوال یہ بڑھتا جائے گا اس کا جواب کبھی ختم نہیں ہوگا کیونکہ جمہوریت کے نام پر ملک میں آنے والی جتنی جمہوری حکومتیں ہیں اس میں جمہوریت، لوکل باڈیز سسٹم، گھر گھر انصاف کی فراہمی کہاں ہوئی ہے۔ لوکل باڈیز کا سسٹم جب نافذ ہوا ہے وہ فوجی حکومتوں کے زمانے میں ہوا ہے، آپ کسی ایک جمہوری حکومت کا تذکرہ نہیں کرسکتے جس کے دورمیں لوکل باڈیز الیکشن کروا کر، کونسلر سسٹم، ٹاؤن ناظم سسٹم، تعلقہ ناظم سسٹم آیا ہو کہ بارش ہو، پانی بھر جائے، گٹر ابلنے لگیں یا کوئی اور آفت آجائے تو پہلے لوگ کونسلر کا دروازہ کھٹکھٹائیں کیونکہ وہ گلی میں رہتا ہے، محلے میں رہتا ہے، وہ یوسی کے پاس جائیں یوسی کا دروازہ کھٹکھٹائیں، وہاں ٹاؤن ناظم کا دروازہ کھٹکٹھائیں تو ایک ہی محلے کے اندر رہنے والے عام آدمی کی اپروچ ہوتی ہے۔ ایم پی ایز، ایم این ایز سے تو ملنے میں فرشتوں کو دشواری ہوتی ہے انسان تو کجا۔
نیوز اینکر: الطاف بھائی! آج جو اے پی سی ہورہی تھی، اس میں پوری پولیٹیکل اونر شپ شریک ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ اس پر آپ کی بہت سی ریزو یشن ہیں لیکن جب پوری قومی قیادت جمع ہوتی ہے، آپ کی ماضی کی حلیف جماعت پیپلزپارٹی تھی، عمران خان اور لوگ بھی تھے، تمام لوگوں نے یہ پولٹیکل اونر شپ کے تحت اس اعلامیے پر اتفاق رائے کیا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو کچھ وقت دینا چاہیے؟
الطاف حسین: میرے بھائی! سوائے ایم کیوایم کے باقی اونر شپ جو پولیٹیکل پارٹیز نے دی جب ایم کیوایم اور الطاف حسین چلا چلا کر دس سال سے، پندرہ سال سے کہہ رہا ہے جاگ اٹھو، سونے والوں جاگ اٹھو، طالبانائزیشن ہورہی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ ان سے نمٹنا مشکل ہوجائے گا تو قہقہے لگتے تھے۔ الطاف حسین پاگل ہوگیا ہے۔ لوگوں کو ڈرا رہا ہے۔ لوگوں کو ورغلا رہا ہے۔ لوگوں کو بہکا رہا ہے۔ کوئی طالبانائزیشن نہیں ہورہی۔ حکومت کی رٹ قائم ہے۔
حکومت کے علم میں کہیں ایسی کوئی بات نہیں کہ طالبانائزیشن ہورہی ہے۔ آج وہی حکومتیں اور وہی پولیٹیکل پارٹیز، وہی جمہوریت کے چیمپئن کہ جو میری سچی باتیں جو میں کہتا تھا کہ فوج آجاؤ تو کہتے تھے کہ یہ فوج کی پیداوار ہیں اس لیے کہہ رہے ہیں۔ تمہیں شرم بھی نہیں آتی کہ تم الطاف حسین پر یہ الزام لگاتے ہو لیکن اس وقت عوام کو یہ حکمران بیوقوف بناتے تھے، آج یہی حکمران جو ہیں سب سے پہلے آگے بڑھ کر اس اجلاس میں کہ جس میںچیف آف آرمی اسٹاف، آئی ایس آئی کا چیف بیٹھا تھا اور فوجی بیٹھے تھے وردی میں۔
وردی دیکھ کر دل دھڑ دھڑ کررہے تھے ان نام نہاد جمہوریت کے چیمپئنوں کے، بڑی بڑی تقریریں کرنے والوں کے اور وہ بلا کسی اعتراض کے، جی ہاں ٹھیک ہیں، فوجی عدالتیں ٹھیک ہیں۔ کیا بات کررہے ہیں آپ۔ آپ خود حقائق سے نظریں چرا رہے ہیں، مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہا ہے یہ جھوٹے چمپئن ہیں۔ جان دینے والے مجنوں اور ہوتے ہیں اور دودھ پینے والے مجنوں اور ہوتے ہیں۔ یہ دراصل جمہوریت کے چیمپئن دودھ پینے والے مجنوں ہیں، خون دینے والے مجنوں نہیں ہیں۔
نیوز اینکر: آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ جو موجودہ ایکشن پلان دیا گیا ہے اس کے تحت آپ کیا سمجھتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی وہ کامیاب ہوگی یا مشکل ہوگا۔
الطاف حسین: جنرل راحیل شریف کی سربراہی میں فوج تو کرے گی لیکن عوام بھی ساتھ میں ہیں لیکن حکومت کہاں کہاں تعاون کرے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، اگر حکومت تعاون کرے گی خلوص نیت کے ساتھ تو میں حکومت کی اور جو ساتھ سچائی کے ساتھ دے گا میں ان کی تعریف بھی کروں گا۔
نیوز اینکر: آنے والے وقت میں پاکستان کی کیا صورتحال دیکھ رہے ہیں؟
الطاف حسین: مستقبل مجھے تو بالکل اچھا نظر نہیں آتا اگر ایماندار لوگ حکومت میں نہیں آئے اور ملک میں کمال اتاترک کی طرح سے کوئی فوجی جنرل آکر حکومت نہ سنبھالے اور وہ ایک ڈنڈا ہلا کر اور ڈنڈا دکھا کر اور آرڈر دے کر کہ جاؤ جاگیرداروں کو گھر سے باہر نکال کر پھینک دو اور ان کے گھروں پر قبضہ کرلو اور پھر قانون نافذ کرے۔ جاگیردارانہ، وڈیرانہ، سرمایہ دارانہ سسٹم، قرضے لے کر ہڑ پ کرنے والوں کو گھر سے نکال دو، جنھوں نے قرضے واپس نہیں کیے معاف کرالیے ان سب کو لاک اپ میں بند کردو۔ (جاری ہے)