بینظیر نے سیاست کو وقار دیا شہادت پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش تھی ایکسپریس فورم
بینظیر بھٹو خواتین کیلیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں، سمیحہ راحیل قاضی
بینظیر بھٹو نڈر لیڈر تھیں اور ان کی موت نے انھیں عظیم بنا دیا، بینظیر بھٹو کی موت دراصل پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش تھی، آج اگر وہ زندہ ہوتیں تو پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔
بینظر بھٹو نے موجودہ حکمرانوں کے برعکس ہمیشہ عالمی طاقتوں کے سامنے بولڈ انداز میں اپنا موقف پیش کیا، ہمسایہ ملک بھارت میں انھیں ''آئرن لیڈی'' کا نام دیا گیا، ان خیالات کا اظہار سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی خواتین رہنمائوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں کیا، پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی بیگم بیلم حسنین نے کہا کہ بینظیر شہید نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمہوریت بچانے کیلیے مصیبتیں اٹھائیں اور انھوں نے سیاست میں رویوں کو بدلنے کی کوشش کی۔
انھوں نے گلی کوچے کی سیاست کی اور وہ ایک عالمی سیاستدان بنیں، انھیں اقتدار کیلیے بہت کم وقت دیا گیا لیکن اس عرصے میں بھی انھوں نے خصوصاََ خواتین اور اقلیتوں کیلیے بھی اقدامات کیے، موجودہ ملکی حالات میں ان جیسے لیڈروں کا فقدان نظر آتا ہے، آج اگر بی بی موجود ہوتیں تو حالات بہتر ہوتے، وہ ایک نڈر لیڈر تھیں اور یہی وجہ ہے کہ زندگی کو خطرہ ہونے کے باوجود بھی وہ پاکستان آئیں اور ان کی موت نے انھیں عظیم بنا دیا، بینظیر کا قتل پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش تھی کیونکہ انھوں نے ہمیشہ پاکستان کو مضبوط بنانے کیلیے کام کیا۔
جماعت اسلامی کی رہنما ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے مشکلات کا سامنا کیا اور انتہائی جرأت و بہادری کے ساتھ اسی معاشرہ میں سیاست کی اور باوقار زندگی گزاری، انھوں نے اپنی قوم کو زندگی سے روشناس کروایا، مقابلہ کرنا سکھایا اور مزاحمت کا راستہ دکھایا، وہ خواتین کیلیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں، انھوں نے شائستگی اور وقار کی سیاست کو متعارف کروایا اور ایک باوقار کردار چھوڑا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اس وقت ملک بہت نازک حالات سے گزر رہا ہے اور ان کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے سیاست میں نیا ٹرینڈ دیا اور خود کوایک کامیاب لیڈر کے طور پر منوایا، محترمہ کی شخصیت کا سب سے اچھا عنصر یہ تھا کہ وہ ایک اچھی بیٹی تھیں اور صحیح معنوں میں اپنے باپ کی وارث ثابت ہوئیں، بینظیر نے ثابت کر دیا کہ خواتین بھی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہر میدان میں آگے بڑھ سکتی ہیں، بینظیر موجودہ حکمرانوں کے برعکس ہمیشہ قدآور شخصیات کے سامنے بولڈ انداز میں اپنا موقف پیش کرتی تھیں، ہماری تاریخ میں جہاں محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم لیاقت علی کا نام آتا ہے وہاں محترمہ بینظیر بھٹو کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔
بینظیر نے پاکستانی سیاست کو وقار دیا اور وہ ظلم کے خلاف ڈٹ گئیں، انھیں پاکستان آنے سے منع کیا گیا تھا لیکن انھوں نے اپنے ملک میں آنا اور اپنے لوگوں میں مرنے کو پسند کیا، نمائندہ سول سوسائٹی آئمہ محمود نے کہا کہ صرف 29 سال کی عمر میں پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت کی چیئرپرسن بن کر انھوں نے ثابت کر دیا کہ سیاسی جماعتیں صرف مرد حضرات ہی نہیں چلا سکتے بلکہ نوجوان خاتون بھی ایک ایسی جماعت جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اسے ترقی دینے اور عوام کے دلوں پر راج کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔
انھوں نے اپنی سیاسی جدوجہد اور ذاتی زندگی میں ہر سطح پر تمام ذمے داریوں کو بخوبی نبھایا اور یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی خواتین ہمت، حوصلے اور ذہانت میں کسی سے کم نہیں ہیں، انھوں نے سیاست میں جس ہمت کا مظاہرہ کیا اس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے اور ہمسایہ ملک بھارت میں انھیں '' آئرن لیڈی'' کا نام دیا گیا۔
بینظر بھٹو نے موجودہ حکمرانوں کے برعکس ہمیشہ عالمی طاقتوں کے سامنے بولڈ انداز میں اپنا موقف پیش کیا، ہمسایہ ملک بھارت میں انھیں ''آئرن لیڈی'' کا نام دیا گیا، ان خیالات کا اظہار سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی خواتین رہنمائوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے حوالے سے منعقدہ ایکسپریس فورم میں کیا، پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی بیگم بیلم حسنین نے کہا کہ بینظیر شہید نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمہوریت بچانے کیلیے مصیبتیں اٹھائیں اور انھوں نے سیاست میں رویوں کو بدلنے کی کوشش کی۔
انھوں نے گلی کوچے کی سیاست کی اور وہ ایک عالمی سیاستدان بنیں، انھیں اقتدار کیلیے بہت کم وقت دیا گیا لیکن اس عرصے میں بھی انھوں نے خصوصاََ خواتین اور اقلیتوں کیلیے بھی اقدامات کیے، موجودہ ملکی حالات میں ان جیسے لیڈروں کا فقدان نظر آتا ہے، آج اگر بی بی موجود ہوتیں تو حالات بہتر ہوتے، وہ ایک نڈر لیڈر تھیں اور یہی وجہ ہے کہ زندگی کو خطرہ ہونے کے باوجود بھی وہ پاکستان آئیں اور ان کی موت نے انھیں عظیم بنا دیا، بینظیر کا قتل پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش تھی کیونکہ انھوں نے ہمیشہ پاکستان کو مضبوط بنانے کیلیے کام کیا۔
جماعت اسلامی کی رہنما ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے مشکلات کا سامنا کیا اور انتہائی جرأت و بہادری کے ساتھ اسی معاشرہ میں سیاست کی اور باوقار زندگی گزاری، انھوں نے اپنی قوم کو زندگی سے روشناس کروایا، مقابلہ کرنا سکھایا اور مزاحمت کا راستہ دکھایا، وہ خواتین کیلیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں، انھوں نے شائستگی اور وقار کی سیاست کو متعارف کروایا اور ایک باوقار کردار چھوڑا جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، اس وقت ملک بہت نازک حالات سے گزر رہا ہے اور ان کی کمی محسوس کی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف کی رکن صوبائی اسمبلی سعدیہ سہیل رانا نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے سیاست میں نیا ٹرینڈ دیا اور خود کوایک کامیاب لیڈر کے طور پر منوایا، محترمہ کی شخصیت کا سب سے اچھا عنصر یہ تھا کہ وہ ایک اچھی بیٹی تھیں اور صحیح معنوں میں اپنے باپ کی وارث ثابت ہوئیں، بینظیر نے ثابت کر دیا کہ خواتین بھی صلاحیت رکھتی ہیں اور ہر میدان میں آگے بڑھ سکتی ہیں، بینظیر موجودہ حکمرانوں کے برعکس ہمیشہ قدآور شخصیات کے سامنے بولڈ انداز میں اپنا موقف پیش کرتی تھیں، ہماری تاریخ میں جہاں محترمہ فاطمہ جناح اور بیگم لیاقت علی کا نام آتا ہے وہاں محترمہ بینظیر بھٹو کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔
بینظیر نے پاکستانی سیاست کو وقار دیا اور وہ ظلم کے خلاف ڈٹ گئیں، انھیں پاکستان آنے سے منع کیا گیا تھا لیکن انھوں نے اپنے ملک میں آنا اور اپنے لوگوں میں مرنے کو پسند کیا، نمائندہ سول سوسائٹی آئمہ محمود نے کہا کہ صرف 29 سال کی عمر میں پیپلز پارٹی جیسی بڑی جماعت کی چیئرپرسن بن کر انھوں نے ثابت کر دیا کہ سیاسی جماعتیں صرف مرد حضرات ہی نہیں چلا سکتے بلکہ نوجوان خاتون بھی ایک ایسی جماعت جو پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اسے ترقی دینے اور عوام کے دلوں پر راج کرنے کی وجہ بن سکتی ہے۔
انھوں نے اپنی سیاسی جدوجہد اور ذاتی زندگی میں ہر سطح پر تمام ذمے داریوں کو بخوبی نبھایا اور یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی خواتین ہمت، حوصلے اور ذہانت میں کسی سے کم نہیں ہیں، انھوں نے سیاست میں جس ہمت کا مظاہرہ کیا اس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے اور ہمسایہ ملک بھارت میں انھیں '' آئرن لیڈی'' کا نام دیا گیا۔