آؤ پڑھاؤ میں زمانے کو یہ تحفہ دوں گا
تعلیم شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ ہے جس کی مدد سے ہم فکر، فطرت اور اقصائے عالم میں موجود ہر شے اور اس کی مطابقت کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ میرے اندر علم کی جستجو اپنی ہم آہنگی کی وجہ سے پیدا ہوئی، محدود وسائل کے باوجود لگن اور طلب سے زندگی میں کچھ تھوڑا بہت سیکھنے کا موقع ملا، جیسے میں اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ ڈرائنگ رو م کے صوفے پر بیٹھے گذشتہ بیس پچیس سال سے تعلیم سے شعبے سے وابستہ محمود عالم نے مجھ سے کہا۔ جواب میں میں نے فوراَ سوال کر ڈالا مگر تعلیم کا شعبہ ہی کیوں؟
تدریس یعنی علم کا پھیلانا ہے۔ لہذا جو کچھ اساتذہ سے حاصل ہوا اس کو مزید آسان اور سہل انداز میں طالب علموں تک پہنچانے کی خواہش نے تدریس کے شعبے سے وابستہ کردیا ، ساتھ ہی تدریس کا شعبہ سنجیدہ، برد باری اور معزز جانا جاتا ہے اس وجہ سے بھی درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ہمارے ملک میں شرح خواندگی برائے نام ہے، میں جب بھی بچوں کو کچرا چنتے، ٹائروں میں ہوا بھرتے، سڑکوں پر کھانے پینے کی اشیا بیچتے، گھروں میں کام کرتے، کبھی گاڑیاں صاف کرتے تو کبھی بھیک مانگتے ہوئے دیکھتا ہوں تو بے اختیار میرا دل چاہتا ہے کہ ان کے ننھے ننھے ہاتھوں کو تھام کر ان میں قلم اور کاغذ کا ٹکڑا پکڑادوں تاکہ یہ ان غربت کے اندھیروں سے نکل کر ایک بہتر مستقبل کی جانب گامزن ہوجائیں۔
صرف اور صرف وسائل کی کمیابی کی وجہ سے بہت سے بچے تعلیم نہیں حاصل کرسکے جس کی وجہ سے قوم ترقی کے وہ منازل طے نہیں کرپاتی جو ہونا چاہیے تھی، چوں کہ خاکسار خود ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے لہذا علم حاصل کرنے کے لیے کن کن مسائل و مصائب کا سامنا رہا ان مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے علم کی ترویج کو آسان تر انداز میں پہنچانے کی کوشش کی تاکہ قوم کی تعمیر میں ایک چھوٹا سا حصہ ڈال سکوں۔ قوم کی ترقی و کامرانی کا پہلا زینہ تعلیم ہے اس لیے مختلف شعبوں کے بجائے اس شعبے کا انتخاب سے طمانیت اور سکون محسوس کرتاہوں، سوچتا ہوں کہ زیادہ نہیں لیکن میں ان چند لوگوں میں تو شامل ہی ہوں جو قوم کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے اس امید پر جی رہیں کہ ہمارے آنے والے مستقبل کے سپوت تعلیم ہی کے بلے بوتے پر ہمیں ایک کامیاب اور ترقی یافتہ ملک بنائیں گے۔
میری نظر میں تعلیم ایک معزز شعبہ ہے جس میں رہتے ہوئے اپنے علم میں اضافہ، اپنے استادوں اور طالب علموں سے مزید سیکھنے کے ساتھ ساتھ بہت آسودگی اور عزت سے رزق کا حصول ہوتا ہے۔یہاں تک کے تعلیم و تدریس کے عمل نے ہی مجھے ایک استاد ہونے کی حیثیت سے مجھے قیمتی اور انمول خوشیاں عطا کی کیں، یہاں میں ایک واقعہ بتاتا چلوں، تدریس کی شوق نے ہی مجھے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ٹیوشن سینٹر کھولنے پر مجبور کیا ،جہاں بہت سے طالب علم آئے ان میں کچھ ایسے تھے جو فیس دینے کی سکت نہیں رکھتے تھے ۔ان میں ایک طالب علم ایسا بھی تھا جس کے پاس امتحانی فیس تو کجا تصویر بنوانے کے پیسے بھی نہ تھے۔ ہم دوستوں نے ملکر اس کے مسائل حل کئے اور وہ امتحان میں نمایاں کارکردگی انجام دینے میں کامیاب رہا ۔ ہمارے اس عمل سے وہ طالب علم اس قدر متاثر ہوا کہ آج ایک آٹو موبائل انجینئرنگ فارم کا ڈائریکٹر بننے کے باوجود وہ خاموشی کے ساتھ ان تمام بچوں کی مدد کررہا ہے جن کے لئے تعلیم کا حصول صرف ایک خواب ہے۔
دے سکا میں تو زمانے کو یہ تحفہ دوں گا
علم کا پھول محبت کا صحیفہ دوں گا
تدریس کے شعبے سے وابستگی میرے لئے صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ یہ میرا مقصد حیات ہے، میں ہر اندھیر نگری میں علم کے دیئے روشن کرنا چاہتا ہوں ۔ میں اس ملک کے ہر بچے کو اعلی نہیں تو کم از کم معیاری اور بنیادی تعلیم دینا چاہتا ہوں جو تاریخ کے صفحات پر اپنا نام نقش کرنا چاہتا ہے۔ آئیں مل کر یہ عزم کریں کہ ہم بہتر مستقبل کے لئے تعلیم کے شعبے میں ایک ایک پودا ضرور لگائیں گے، چاہئے پھر وہ اسکول میں پڑھانے کی صورت میں ہو، کالج میں، یونیورسٹی میں، کسی کوچنگ سینٹر یا کسی گھر میں ٹیوشن پڑھانے کی صورت میں ہو۔ یاد رکھیئے صرف تعلیم ہی ہمیں ایک بہتر مستقبل دے سکتی ہے۔
یہ بلاگ 'علم آئیڈیاز' کے اشتراک سے ایکسپریس کی شروع کردہ مہم (آو پڑھاو، جو سیکھا ہے وہ سیکھاو) کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد پاکستانی طلبہ کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے۔
تو آئیے ہماری اِس مہم میں ہمارا حصہ بنیے۔ اور ہر لمحہ باخبر رہنے کے لیے ہماری ویب سائٹ دیکھیے، فیس بک اور ٹوئیٹر پر ایکسپریس کے پیجز کے ذریعے آگاہ رہیے۔ پڑھانے کے بہترین طریقے سیکھیں اور ہم سے اپنے اساتذہ کی متاثر کن کہانیاں شئیر کیجیے۔