روس کی جانب
پاکستان کو سوویت روس سے دور رکھنے میں سی آئی اے کے پراپیگنڈے کا بڑا ہاتھ ہے
پاک فوج کے سربراہ جنرل کیانی روس کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں ، روسی وزیر خارجہ پاکستان آ رہے ہیں، روسی صدر پیوٹن کا دورہ پاکستان ملتوی ہو گیا ہے۔
پاک فضائیہ کے سربراہ طاہر رفیق بٹ، روسی فضائیہ کی ایک سوویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کر چکے ہیں۔انھوں نے وہاں کلیدی مقالہ بھی پڑھا۔یہ اعزاز ہر کسی کو نہیں ملا۔ان خبروں سے کیا تاثر ملتا ہے،صرف یہی ناں کہ پاکستان کاجھکائو روس کی جانب ہو رہا ہے، میں اسے جھکائو تو نہیں کہہ سکتا لیکن ایک بند دروازہ ہے جس کے پار جھانکنے کی کوشش ضرورہو رہی ہے۔اس کی وجہ پاکستان کا ساٹھ برس سے امریکا پر کلی انحصار اور اس کے بدلے میں امریکا سے ملنے والی پھٹکار ہے۔ امریکا کی ہر لحاظ سے اہمیت کے باوجودکم و بیش ہر پاکستانی امریکا سے نکو نک آچکا ہے۔
اب گو امریکا گو کے نعرے عام سننے میں آرہے ہیں اور یہ نعرے لگانے والے صرف انتہا پسند مذہبی گروپ ہی نہیں، لبرل اور مادہ پرست شہری بھی ہیں۔ہر کوئی امریکی جبر کی وجہ سے نالاں نظر آتا ہے، ڈرون حملوں نے لوگوں کو امریکا سے متنفر کر دیا ہے کیونکہ ان کے رد عمل میں دہشت گردوں نے پاکستان کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔سات ہزار فوجی جوان اور افسر اور سینتیس ہزار سویلین افراد کی شہادت کے باوجود امریکا پاکستان کے خلاف آئے روز کارروائیاں کرتا ہے اور ڈو مور کی رٹ بھی لگائے رکھتا ہے۔
پاکستان کو سوویت روس سے دور رکھنے میں سی آئی اے کے پراپیگنڈے کا بڑا ہاتھ ہے جو کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف کیا گیا اور جس کی وجہ سے عالم اسلام نے سوویت روس کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھنا شروع کر دیا۔کسی کو سمجھ ہی نہ آ سکی کہ صرف ستر سال پہلے جنم لینے والا فلسفہ ایک ہزار سال پرانے نظام حیات کو کیسے کھا جائے گا لیکن سی آئی اے نے بڑی چالاکی سے مسلم علمائے دین کو کمیونزم کے خلاف بھڑکایا، آج مولانا مودودی اور دوسرے جید علمائے کرام کی کمیونزم کے خلاف کتابیں پڑھیں تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے کہ مسلم دنیا کمیونزم کے ٹرک کی بتی کے پیچھے کاہے کو دوڑتی رہی۔
ہم بھول ہی گئے کہ اصل کشمکش تو مغرب کے ساتھ ہے جس کی بنیاد صلیبی جنگوں نے ڈالی اور نائن الیون کے بعد امریکی صدر بش نے اس عناد کا کھل کر اظہار بھی کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن،صلیبی جنگیں چل رہی ہیں ، کبھی افغانستان میں ، کبھی عراق میں اور کبھی پاکستان میں، لیبیا، سوڈان،مصر کو ایک نئے انداز میں ڈھیر کیا گیا، اب شام، یمن، اردن اور سعودی عرب کی طرف صلیبیوں کی نظر ہے۔امریکا کی چالاکی دیکھیے کہ جب سوویت روس تھا تو نیٹو اس کے خلاف کھڑا کیا گیا اور اب جب کہ سوویت روس نہیں رہا۔
اشتراکیت کو منہدم کیا جا چکا تو نیٹو پھر بھی موجود ہے،امریکا سے کوئی پوچھنے والا ہو کہ نیٹو کا کیا جواز ہے تو لاجواب ہو جائے گا، اس نیٹو کو لیبیا میں معمر قذافی کی شہادت کے لیے استعمال کیا گیا، یہی نیٹو ترکی کے شکل میں شام میں مداخلت کر رہی ہے اور یہی نیٹو کابل میں پاکستان کے خلاف صف آرا ہے اور امریکی فوج کی مضبوط تریں اتحادی ہے، اس کی ضرورت کی ہر چیز پاکستان کے راستے سے جاتی ہے اور پھر اسی پاکستان کو نیٹو کی فورسز نشانہ بھی بناتی ہیں۔سوویت روس کی شکست و ریخت کے بعد صلیبی دور کی واپسی کی پیشین گوئی ہمارے ایک دوست سید مشاہد حسین نے 1989کے آخر میں اس وقت کی جب میں نے پریس کونسل آف انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ایک مذاکرے کا اہتمام کیا۔
تقریب کی صدارت نوبزادہ نصراﷲ خان کر رہے تھے اور اس کے مقرر ین میں شیریں مزاری اوراعتزاز احسن کے نام بھی شامل تھے۔ اس موقع پر مشاہد نے اپنی تقریر میں خبردار کیا کہ سوویت روس کے خاتمے پر بغلیں بجانے کے بجائے ہمیں اس خطرے کے سد باب پر غور کرنا چاہیے جو آیندہ کلیسا اور مسجد کے درمیان برپا ہونے والا ہے، فائیو اسٹار ہوٹل کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، پچھلی قطار سے ریٹائرڈ ایئر مارشل ظفر چوہدری نے کھڑے ہو کر مشاہد کے ریمارکس کو چیلنج کیا تو شاہ صاحب نے کہا کہ وقت سب کچھ ظاہر کر دے گا، میں آج آپ کو کیسے قائل کروںاور صرف دس بارہ برس بعد یہ معرکہ خیرو شر برپا ہو گیاجو ابھی جاری ہے۔
پاکستا ن کی ہر حکومت کو ایک بات کا کریڈٹ دینا چاہیے کہ سی آئی اے کے مذموم پراپیگنڈے کے باوجود ہم نے ایک دن کے لیے بھی چین کے ساتھ روابط نہیں توڑے بلکہ ہر آنے والا دن پاک چین دوستی کو مضبوط تر کرتا رہا ہے۔ میں اس وقت اپنے گائوں میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا جب چینی وزیر اعظم چو این لائی نے لاہور کا دورہ کیا، میں فرط جذبات میں چھٹی لے کر مال روڈ پر گورنرہائوس کے سامنے باغ جناح کے درختوں کے گھنے سائے میں کھڑا ہو گیا، جناب چو این لائی کو دیکھ کر میں نے ہاتھ ہلائے اور جواب میں اس عظیم انسان نے بھی ہاتھ ہلا کر میری معصوم محبتوں کی پذیرائی کی تھی۔ بھٹو صاحب نے تو چین کے قومی لباس کو بھی فروغ دیا،ملک کے دائیں بازو نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔
مگریہ ایک وقتی ابال تھا جو آہستہ آہستہ امریکی دغا بازیوں کی وجہ سے ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔چین نے بھی پاکستان کے ساتھ معاشقے میں سرگرمی دکھائی، شاہراہ ریشم کی تعمیر سے لے کر اب گوادر کی بندرگاہ اور درمیان میں چشمہ کے ایٹمی پلانٹ ، کامرہ میں پاک فضائیہ کے لیے تھنڈر کی تیاری، پاک فوج کے لیے ٹینکوں کا تحفہ، کیا کیا گنوائیں ، کوئی شمار قطار ہی نہیں ، چین کے لطف و کرم میں کبھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ امریکا نے چین اور پاکستان بلکہ عالم اسلام کے درمیان دوری پیدا کرنے کے لیے انتہا پسند قوتوں کی پیٹھ ٹھونکی اور خاص طور پر ان کو افغان جہاد میں دودھ پلایا۔
فاٹا میں ساری دنیا کے جہادی عناصر کو اکٹھا کیا۔ آنے والے کئی برسوں تک ان کی پاکستان میں موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن اب اچانک وہ ڈرون حملوں سے ان غیر ملکیوں کو مار رہا ہے، مرنے والے زیادہ تر وسطی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں جن کی جڑیں چین کے مسلم علاقے سنکیانگ سے بھی جا ملتی ہیں۔یہاں فسادات ہوئے تو چین نے انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے مسلمانوں کو روزے رکھنے سے بھی روک دیا ہے، اس طرح امریکا کی یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر آتی ہے کہ چین اور مسلم دنیا کے درمیان کشمکش پیدا کر دے۔ میری رائے ہے کہ اس فتنے کو ابتدا ہی میں کچل دینا چاہیے اور چین کوقائل کرنا چاہیے کہ عالم اسلام اورچین کے درمیان کوئی تنازعہ نہیںاور جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ سی آئی اے کی سازشوںکا نتیجہ ہے اور نفرت کی یہ دیوار امریکا نے مصنوعی طور کھڑی کی ہے ۔
جس رخ پر ہماری فوجی قیادت آج منہ کر رہی ہے، موجودہ منتخب سیاسی قیادت نے بہت پہلے یہ رخ اختیار کر لیا تھا اور اس وقت صدر زرداری کا مذاق اڑایا گیا تھا کہ انھیں روس سے کیا حاصل ہو گا۔روس ہمیں کیا دے سکتا ہے اور کیا نہیں دے سکتا ، اس کا فیصلہ وقت کرے گا، اس وقت تو روس کی طرف دیکھنے کا مطلب صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ پاکستان آنکھیں بند کر کے امریکی غلامی نہیں کر سکتا۔ صدر پیوٹن کا دورہ کیسے منسوخ ہوا، اس سے باہمی تعلقات میں پیش قدمی کیوں رکی۔ اس پر سوچ بچار کا عمل جاری رہنا چاہیے۔
پاک فضائیہ کے سربراہ طاہر رفیق بٹ، روسی فضائیہ کی ایک سوویں سالگرہ کی تقریب میں شرکت کر چکے ہیں۔انھوں نے وہاں کلیدی مقالہ بھی پڑھا۔یہ اعزاز ہر کسی کو نہیں ملا۔ان خبروں سے کیا تاثر ملتا ہے،صرف یہی ناں کہ پاکستان کاجھکائو روس کی جانب ہو رہا ہے، میں اسے جھکائو تو نہیں کہہ سکتا لیکن ایک بند دروازہ ہے جس کے پار جھانکنے کی کوشش ضرورہو رہی ہے۔اس کی وجہ پاکستان کا ساٹھ برس سے امریکا پر کلی انحصار اور اس کے بدلے میں امریکا سے ملنے والی پھٹکار ہے۔ امریکا کی ہر لحاظ سے اہمیت کے باوجودکم و بیش ہر پاکستانی امریکا سے نکو نک آچکا ہے۔
اب گو امریکا گو کے نعرے عام سننے میں آرہے ہیں اور یہ نعرے لگانے والے صرف انتہا پسند مذہبی گروپ ہی نہیں، لبرل اور مادہ پرست شہری بھی ہیں۔ہر کوئی امریکی جبر کی وجہ سے نالاں نظر آتا ہے، ڈرون حملوں نے لوگوں کو امریکا سے متنفر کر دیا ہے کیونکہ ان کے رد عمل میں دہشت گردوں نے پاکستان کو نشانے پر رکھا ہوا ہے۔سات ہزار فوجی جوان اور افسر اور سینتیس ہزار سویلین افراد کی شہادت کے باوجود امریکا پاکستان کے خلاف آئے روز کارروائیاں کرتا ہے اور ڈو مور کی رٹ بھی لگائے رکھتا ہے۔
پاکستان کو سوویت روس سے دور رکھنے میں سی آئی اے کے پراپیگنڈے کا بڑا ہاتھ ہے جو کمیونزم اور سوشلزم کے خلاف کیا گیا اور جس کی وجہ سے عالم اسلام نے سوویت روس کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھنا شروع کر دیا۔کسی کو سمجھ ہی نہ آ سکی کہ صرف ستر سال پہلے جنم لینے والا فلسفہ ایک ہزار سال پرانے نظام حیات کو کیسے کھا جائے گا لیکن سی آئی اے نے بڑی چالاکی سے مسلم علمائے دین کو کمیونزم کے خلاف بھڑکایا، آج مولانا مودودی اور دوسرے جید علمائے کرام کی کمیونزم کے خلاف کتابیں پڑھیں تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے کہ مسلم دنیا کمیونزم کے ٹرک کی بتی کے پیچھے کاہے کو دوڑتی رہی۔
ہم بھول ہی گئے کہ اصل کشمکش تو مغرب کے ساتھ ہے جس کی بنیاد صلیبی جنگوں نے ڈالی اور نائن الیون کے بعد امریکی صدر بش نے اس عناد کا کھل کر اظہار بھی کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن،صلیبی جنگیں چل رہی ہیں ، کبھی افغانستان میں ، کبھی عراق میں اور کبھی پاکستان میں، لیبیا، سوڈان،مصر کو ایک نئے انداز میں ڈھیر کیا گیا، اب شام، یمن، اردن اور سعودی عرب کی طرف صلیبیوں کی نظر ہے۔امریکا کی چالاکی دیکھیے کہ جب سوویت روس تھا تو نیٹو اس کے خلاف کھڑا کیا گیا اور اب جب کہ سوویت روس نہیں رہا۔
اشتراکیت کو منہدم کیا جا چکا تو نیٹو پھر بھی موجود ہے،امریکا سے کوئی پوچھنے والا ہو کہ نیٹو کا کیا جواز ہے تو لاجواب ہو جائے گا، اس نیٹو کو لیبیا میں معمر قذافی کی شہادت کے لیے استعمال کیا گیا، یہی نیٹو ترکی کے شکل میں شام میں مداخلت کر رہی ہے اور یہی نیٹو کابل میں پاکستان کے خلاف صف آرا ہے اور امریکی فوج کی مضبوط تریں اتحادی ہے، اس کی ضرورت کی ہر چیز پاکستان کے راستے سے جاتی ہے اور پھر اسی پاکستان کو نیٹو کی فورسز نشانہ بھی بناتی ہیں۔سوویت روس کی شکست و ریخت کے بعد صلیبی دور کی واپسی کی پیشین گوئی ہمارے ایک دوست سید مشاہد حسین نے 1989کے آخر میں اس وقت کی جب میں نے پریس کونسل آف انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ایک مذاکرے کا اہتمام کیا۔
تقریب کی صدارت نوبزادہ نصراﷲ خان کر رہے تھے اور اس کے مقرر ین میں شیریں مزاری اوراعتزاز احسن کے نام بھی شامل تھے۔ اس موقع پر مشاہد نے اپنی تقریر میں خبردار کیا کہ سوویت روس کے خاتمے پر بغلیں بجانے کے بجائے ہمیں اس خطرے کے سد باب پر غور کرنا چاہیے جو آیندہ کلیسا اور مسجد کے درمیان برپا ہونے والا ہے، فائیو اسٹار ہوٹل کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، پچھلی قطار سے ریٹائرڈ ایئر مارشل ظفر چوہدری نے کھڑے ہو کر مشاہد کے ریمارکس کو چیلنج کیا تو شاہ صاحب نے کہا کہ وقت سب کچھ ظاہر کر دے گا، میں آج آپ کو کیسے قائل کروںاور صرف دس بارہ برس بعد یہ معرکہ خیرو شر برپا ہو گیاجو ابھی جاری ہے۔
پاکستا ن کی ہر حکومت کو ایک بات کا کریڈٹ دینا چاہیے کہ سی آئی اے کے مذموم پراپیگنڈے کے باوجود ہم نے ایک دن کے لیے بھی چین کے ساتھ روابط نہیں توڑے بلکہ ہر آنے والا دن پاک چین دوستی کو مضبوط تر کرتا رہا ہے۔ میں اس وقت اپنے گائوں میں ہائی اسکول کا طالب علم تھا جب چینی وزیر اعظم چو این لائی نے لاہور کا دورہ کیا، میں فرط جذبات میں چھٹی لے کر مال روڈ پر گورنرہائوس کے سامنے باغ جناح کے درختوں کے گھنے سائے میں کھڑا ہو گیا، جناب چو این لائی کو دیکھ کر میں نے ہاتھ ہلائے اور جواب میں اس عظیم انسان نے بھی ہاتھ ہلا کر میری معصوم محبتوں کی پذیرائی کی تھی۔ بھٹو صاحب نے تو چین کے قومی لباس کو بھی فروغ دیا،ملک کے دائیں بازو نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔
مگریہ ایک وقتی ابال تھا جو آہستہ آہستہ امریکی دغا بازیوں کی وجہ سے ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔چین نے بھی پاکستان کے ساتھ معاشقے میں سرگرمی دکھائی، شاہراہ ریشم کی تعمیر سے لے کر اب گوادر کی بندرگاہ اور درمیان میں چشمہ کے ایٹمی پلانٹ ، کامرہ میں پاک فضائیہ کے لیے تھنڈر کی تیاری، پاک فوج کے لیے ٹینکوں کا تحفہ، کیا کیا گنوائیں ، کوئی شمار قطار ہی نہیں ، چین کے لطف و کرم میں کبھی کمی واقع نہیں ہوئی۔ امریکا نے چین اور پاکستان بلکہ عالم اسلام کے درمیان دوری پیدا کرنے کے لیے انتہا پسند قوتوں کی پیٹھ ٹھونکی اور خاص طور پر ان کو افغان جہاد میں دودھ پلایا۔
فاٹا میں ساری دنیا کے جہادی عناصر کو اکٹھا کیا۔ آنے والے کئی برسوں تک ان کی پاکستان میں موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن اب اچانک وہ ڈرون حملوں سے ان غیر ملکیوں کو مار رہا ہے، مرنے والے زیادہ تر وسطی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں جن کی جڑیں چین کے مسلم علاقے سنکیانگ سے بھی جا ملتی ہیں۔یہاں فسادات ہوئے تو چین نے انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے مسلمانوں کو روزے رکھنے سے بھی روک دیا ہے، اس طرح امریکا کی یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر آتی ہے کہ چین اور مسلم دنیا کے درمیان کشمکش پیدا کر دے۔ میری رائے ہے کہ اس فتنے کو ابتدا ہی میں کچل دینا چاہیے اور چین کوقائل کرنا چاہیے کہ عالم اسلام اورچین کے درمیان کوئی تنازعہ نہیںاور جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ سی آئی اے کی سازشوںکا نتیجہ ہے اور نفرت کی یہ دیوار امریکا نے مصنوعی طور کھڑی کی ہے ۔
جس رخ پر ہماری فوجی قیادت آج منہ کر رہی ہے، موجودہ منتخب سیاسی قیادت نے بہت پہلے یہ رخ اختیار کر لیا تھا اور اس وقت صدر زرداری کا مذاق اڑایا گیا تھا کہ انھیں روس سے کیا حاصل ہو گا۔روس ہمیں کیا دے سکتا ہے اور کیا نہیں دے سکتا ، اس کا فیصلہ وقت کرے گا، اس وقت تو روس کی طرف دیکھنے کا مطلب صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ پاکستان آنکھیں بند کر کے امریکی غلامی نہیں کر سکتا۔ صدر پیوٹن کا دورہ کیسے منسوخ ہوا، اس سے باہمی تعلقات میں پیش قدمی کیوں رکی۔ اس پر سوچ بچار کا عمل جاری رہنا چاہیے۔