کور اور گور اور پشاور
ظالم حاکموں کی وجہ سے گھر، گور اور پشاور تینوں ایک ہیں
رحمن بابا اگرچہ خوشحال خان خٹک کی طرح دنیا دار شاعر نہیں تھے بلکہ ایک درویش تھے اور صرف تصوف سے علاقہ رکھتے تھے اور صاف طور پر کہتے تھے کہ میں عاشق ہوں اور عشق ہی سے میرا سروکار ہے لیکن پھر بھی اپنے گرد و پیش سے اتنے بے خبر نہ تھے چنانچہ ایک موقعے پر انھیں بھی کہنا پڑا تھا کہ
پہ سبب د ظالمانو حاکمانو
کور او گور اور پیخور دریواڑہ یودی
ترجمہ : ظالم حاکموں کی وجہ سے گھر، گور اور پشاور تینوں ایک ہیں، نہ جانے یہ کوئی پیشین کوئی تھی یا مجسم حقیقت یا پشاور کا مستقل نصیبہ، کہ تب سے اب تک وہی صورت حال ہے تب بھی پشاور، کور اور گور کی طرح تھا اور آج بھی کور اور گور اور پشاور میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ آج کل تو اس پر کچھ زیادہ ہی ''گور'' کا اطلاق ہوتا ہے اور گور بھی ایسی جہاں زندے دفن ہوتے ہیں اور زندوں ہی سے گور جیسا حساب کتاب لیا جاتا ہے اور زندوں ہی کو ''منکر و نکیر'' گرز مار مار کر ریزہ ریزہ کرتے ہیں دوسرے دن جب وہ اپنا ریزہ ریزہ چن کر دوبارہ زندہ ہوتے ہیں تو پھر ان کو گرز مار مار کر ریزہ ریزہ ذرہ ذرہ اور تل تل کیا جاتا ہے۔
اگر کسی دور دیس والوں کا خیال ہو کہ پشاور یعنی یہاں گور جیسے کور (گھر) میں رہنے والوں کو موت کا سامنا ہے دہشت گردی ہوتی ہے دھماکے ہوتے ہیں اور زندگی نہایت ہی بے اعتبار غیر یقینی اور سستی ہو گئی ہے تو یہ بات سچ تو ہے لیکن پوری طرح سچ نہیں بلکہ سچ کا ایک بہت ہی چھوٹا سا حصہ ہے، بات اگر صرف موت یا موت کے خطروں تک ہوتی تو کچھ بھی نہ تھی کیوں کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اور جس نے زندگی کی ابتداء کی وہ موت کا مزہ ضرور چکھتا ہے جس نے پہلی سانس لی وہ آخری سانس بھی ضرور لیتا ہے لیکن یہاں تو
گلہ موت کا نہیں ہے مجھے زندگی نے مارا
یہاں کا انسان زندگی کے ہاتھوں نالاں ہے کیوں کہ جو زندگی کے محافظ ہیں وہی زندگی کو زچ کیے ہوئے ہیں سڑکوں پر، عمارتوں پر، دفاتر پر، شہر میں بازار میں ہر ہر قدم اور چپے چپے پر جس طرح ''حاکم'' انسانی زندگی کو درگور کیے ہوئے ہیں وہ تو اب ایک معمول ہو گیا ہے اور معمول کا انسان عادی ہو جاتا ہے، روز روز کی بے عزتی ہے اور بے توقیری کو لوگوں نے مقدر سمجھ کر قبول کر لیا ہے، اب اگر اپنے گھروں میں آنے جانے پر بھی کسی کو چیکنگ اور تلاشی کے نام پر بے عزتی کرنے کا سامنا ہو تو بھی لوگ بلا چوں چرا قبول کر لیں گے کیوں کہ وہ جان اور مان چکے ہیں کہ رحمن بابا نے سچ کہا ہے، گھر، گور اور پشاور ایک ہی ہیں اور جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو موسلوں کا کیا ڈر ۔۔۔ جب قسمت نے کور اور گور اور پشاور کا باسی بنا دیا ہے تو بھگتنا تو پڑے گا ہی، چنانچہ یہاں کے رہنے والے
باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے مجھ کو
ورنہ اپنا در و دیوار سے رشتہ کیا ہے
اور اگر کسی کو کور گور اور پشاور میں رہنا پسند نہ ہو اس کے لیے دوسرا آپشن بھی ہے ۔۔۔ مر جائے ۔۔۔ جس کے یہاں مواقعے ہی مواقعے ہیں، کسی بھی گلی بازار یا سڑک پر نکل جایئے موت کہیں نہ کہیں پر مل ہی جائے گی، جہاں تک چپے چپے پر کھڑے ہوئے حاکموں کا تعلق ہے تو وہ صرف ''زندگی'' کو اجیرن کرنے کے لیے ہے موت سے کوئی سروکار نہیں رکھتے اس لیے موت کھلے عام ہر جگہ مل جاتی ہے وہ تو صرف سائے ہیں
ریت کی، اینٹ کی، پتھر کی ہو یا مٹی کی
کسی دیوار کے سائے پہ بھروسہ کیا ہے
لیکن آج ہمیں سڑکوں پر کھڑی ہوئی ''حکومت'' اور اس کے ''قانون نافذ'' کرنے پر بات نہیں کرنی ہے بلکہ ان اژدہوں کی بات کرنی ہے جن کو اوور ہیڈ برج یا بالائے سر پل کہا جاتا ہے، ایک دنیا جانتی ہے کہ پشاور شہر پر آبادی کا دباؤ دوسرے شہروں کی طرح فطری انداز میں نہیں بڑھا ہے بلکہ گزشتہ چالیس سالوں سے مسلسل اس شہر کو غیر فطری آبادی کے دباؤ کا سامنا تھا افغان مہاجرین سے لے کر آج کے فاٹا سے بے پناہ اژدھام مسلسل اس شہر پر نازل ہو رہا ہے جس کے دوسرے نتائج تو ایک طرف کر دیجیے ایک ٹریفک کا مسئلہ انتہائی گمبھیر ہو چکا ہے ''حاکموں'' کو فرصت تو نہیں ہے کیوں کہ وہ شہر کو ''کور اور گور'' بنانے میں انتہائی مصروف ہیں
آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ شہر کو جتنا محدود کیا جائے اتنا ہی اچھا ہے، کور و گور بنانے میں آسانی رہے گی اس کے لیے ایک تدبیر تو یہ کی گئی ہے کہ بہت ساری پرانی سڑکوں کو بند کر دیا گیا ہے اکثر میں تو پکی پکی دیواریں بنا دی گئی ہیں اس طرح شہر اور چھاؤنی کی آدھی سڑکیں تو درگور ہو گئیں باقی جو بچ گئی ہیں ان کے لیے ''اژدھاؤں'' کا بندوبست زرکثیر کے صرف سے کیا جاتا ہے پہلے ایک بڑا اژدھا جی ٹی روڈ پر ملک سعد پل کے نام سے لٹا دیا گیا جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ سڑکیں کچھ اور تنگ، شہر کچھ اور محدود اور ٹریفک کچھ اور بے ترتیب ہو گئی ہے، شاید شہر کو زیر بار کرنے کا مشغلہ حاکموں کو کچھ زیادہ ہی پسند آ گیا چنانچہ ایک اور پل ارباب سکندر خلیل (بے چارے) کے نام سے بنایا گیا وہ بہت بڑا عظیم الشان ڈریگن ہے جو واحد گزر گاہ جی ٹی روڈ پر لیٹ گیا ہے شاید حاکموں کو شک تھا کہ اس طرح بھی شاید پشاور شہر ''گور'' نہیں بن پائے گا۔
چنانچہ ایک اور پل کو مفتی محمود پل کے نام سے بنایا جانے لگا جس سے حاکموں کو یقین ہے کہ پشاور شہر ایک آئیڈیل ''گور'' بن جائے گا، حالانکہ شہر کی ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے اگر کسی پہاڑی دہقان کو بھی پکڑ کر مشورہ مانگا گیا ہوتا تو وہ کھٹ سے مشورہ دیتا کہ رنگ روڈ کے نام سے جو تم نے گھوڑے کی نعل بنائی ہے اسے مکمل کر دو یہ بہت بری بات ہے کہ آدھے دائرے کو رنگ کہا جائے اور اگر اس دہقان کی بات مان کر رنگ روڈ کا باقی ماندہ دائرہ مکمل کیا جاتا تو شہر کے اندر یا یوں کہیے کہ ''گور'' کے اندر گورستان نہ بنتا، ایک احمق بھی جانتا ہے کہ ادھوری چھوڑی ہوئی رنگ روڈ کو آگے بڑھا کر ایک یونیورسٹی تک پہنچایا جائے تو یونیورسٹی جہاں اب یونیورسٹیوں کا اپنا ایک شہر ہے۔
اس کی ٹریفک شہر کے بیچوں گزرنے کے بجائے اس راستے پر منتقل ہو جاتی کیوں کہ شہر کے بیچوں بیچ گزرنے والی گاڑیوں میں سے تقریباً دو یا تین ہی ان یونیورسٹیوں کی ہوتی ہے یوں شہر پر صرف شہر اور صدر کی ٹریفک کا دباؤ رہ جاتا لیکن یہاں تو شہر یا سڑکیں بنا کر شہر کو شہر بنانا مقصود نہیں تھا بلکہ شہر کو ''گور'' سے بنا کر گورستان بنانا تھا، چنانچہ بے انتہاء دولت خرچ بلکہ ضایع کر کے بلکہ آپس میں بانٹ کر اس گور میں ''پلوں'' کے اژدھے لِٹائے جا رہے ہیں لگتا ہے رنگ روڈ کو سیدھا یونیورسٹی لے جا کر مکمل کرنا کچھ زیادہ ''کماؤ'' منصوبہ نہیں ہو گا اور شہر کے بیچوں بیچ سیمنٹ کے اژدہے لٹانے میں ''ٹکے'' زیادہ ہوں گے، رحمن بابا بزرگ آدمی تھے کچھ سوچ کر ہی انھوں نے کہا تھا کہ ظالم حاکموں کے سبب سے ''کور، گور اور پشاور'' تینوں ایک ہیں ہم اس پر اتنا اضافہ کر سکتے ہیں کہ ایک تھے ایک ہیں اور ایک ہی رہیں گے۔