سنکارا کے دیس میں انقلابی لہر
انقلاب کے شعلے جلد پورے ملک میں پھیل گئے اور دوسرے بڑے شہر بوبو میں حکمران جماعت کے دفاتر نذر آتش کر دیے گئے۔
برکینا فاسو میں 27 سال سے اقتدار پر براجمان صدر ربلیز کومپئیورے کا تختہ الٹ دیا گیا۔ مستعفی ہونے والا کومپئیورے خطے میں امریکا کا اہم اتحادی تھا اور ملک کے دارالحکومت میں امریکی اڈہ 2007ء سے کام کر رہا ہے جہاں سے پورے خطے کی جاسوسی کی جاتی تھی۔ مستعفی ہونے والا صدر کومپئیورے 1987ء میں فرانسیسی سامراج کی پشت پناہی سے ایک رد انقلاب کے نتیجے میں صدر بنا تھا۔ مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو کی عوامی بغاوت عالمی ذرائع ابلاغ پر چھائی رہی۔
عوام نے بغاوت کر کے ربلیز کومپئیورے کا تختہ الٹ دیا۔ صدر کے استعفے کے بعد اقتدار سنبھالنے والا آرمی چیف ہنورتردر بھی بپھرے ہوئے عوام کے سامنے ٹھہر نہیں پایا اور تازہ ترین اطلاعات کیمطابق بھاگنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ جمعرات 30 اکتوبرکو جب صدر نے اپنی صدارت کی مدت میں مزید توسیع کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا تو ہزاروں افراد نے پارلیمنٹ کی جانب مارچ شروع کر دیا۔ سخت سیکیورٹی کے باوجود بپھرے ہوئے عوام نے پارلیمنٹ کے اندر جا کر اس کو آگ لگا دی اور سیاستدانوں نے قریبی ہوٹل میں پناہ لے کر اپنی جانیں بچائیں۔ اس کے بعد مجمع سر کاری ٹی وی کی عمارت کی جانب بڑھا اور اس کی نشریات بھی بند کروا دیں، ساتھ ہی عوام نے صدارتی محل کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔
پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور جلوس پر فائرنگ سے کم از کم تین افراد جان سے جاتے رہے۔ انقلاب کے شعلے جلد پورے ملک میں پھیل گئے اور دوسرے بڑے شہر بوبو میں حکمران جماعت کے دفاتر نذر آتش کر دیے گئے اور صدر کے رشتے داروں کے گھر جلا دیے گئے۔ آرمی چیف کا خبردار کرنے اور کرفیو کا اعلان بے سود ثابت ہوا، عوام نے دارالحکومت کے مرکزی چوراہے پر قبضہ جاری رکھا جس کا نام 'قومی چوک' سے تبدیل کر کے 'انقلابی چوک' رکھ دیا گیا ہے۔ ان واقعات نے واضح طور پر ایک انقلابی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ 30 اکتوبر 2014ء کا واقعہ دراصل اس سے قبل ایک ہفتے سے چلے آ رہے غیر معمولی واقعات کا ہی تسلسل تھا۔
29 اکتوبر کو مزدور یونینوں نے عام ہڑتال کی کال دی تھی۔ 28 اکتو بر کو 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے صدر کے عہدے کی مدت میں توسیع کو رد کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔ پولیس دہشت گردی کے باعث یہ احتجاج پر تشدد ہو گیا اور لوگ لوہے کی سلاخوں اور پتھروں سے پولیس کا مقابلہ کرتے ہوئے صدارتی محل کے قریب پہنچ گئے۔ یاد رہے کہ 2011ء میں بھی تنخواہوں میں اضافے کے لیے کومپئیورے حکو مت کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے، جن میں فوج کے سپاہی بھی شامل تھے۔ اس تحریک کو ریاستی جبر سے کچل دیا گیا تھا اور سیکڑوں فوجیوں کے کورٹ مارشل ہوئے تھے۔ افریقہ کے سامراج مخالف عظیم انقلابی رہنما تھامس سنکارا کے خلاف منظم کی گئی تھی۔
تھامس سنکارا بائیں بازو کا انقلابی رہنما تھا جسے 'افریقہ کا چی گویرا' بھی کہا جاتا ہے۔ وہ فرانسیسی سامراج کے خلاف آزادی کی ایک عظیم جدوجہد کے نتیجے میں 1983ء میں برسراقتدار آیا تھا۔ کمیونسٹ رہنما سنکارا نے ہی اس ملک کا نام بر کینافاسو رکھا، جسکا مطلب 'دیانتدار انسان کی سرزمین' ہے۔ آزادی کے بعد سنکارا نے تمام زمین اور معدنی وسائل فوری طور پر قومیا کر آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے تمام تعلقات ختم کر دیے تھے۔ اس نے بڑے پیمانے کی زرعی اصلاحات نافذ کیں جس کے نتیجے میں اناج، خاص کر گندم کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا اور برکینافاسو خوراک میں خود کفیل ہو گیا۔ سنکارا حکومت نے صحت اور تعلیم کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا، اقتدار کے پہلے سال میں 25 لاکھ بچوں کی ویکسی نیشن کی گئی، پہلے دو سال میں اسکولوں میں بچوں کی تعداد دوگنا ہو گئی۔
سنکارا سامراج کے ساتھ ساتھ افریقی عوام کا خون چوسنے والے مقامی حکمران طبقے سے بھی نفرت کرتا تھا۔ سنکارا اور اس کے وزرا کی تنخواہیں انتہائی کم جب کہ مراعات محدود تھیں، اس کی کوشش تھی کہ ریاستی اہلکار عام آدمی کی طرح سادہ زندگی بسر کریں۔ سنکارا کے چار سالہ اقتدار میں خواتین کی سماجی اور معاشی حالت میں تیزی سے بہتری آئی۔ اس نے کہا تھا کہ 'انقلاب اور خواتین کی آزادی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ خواتین کی آزادی کوئی خیرات نہیں بلکہ انقلاب کی فتح کی بنیادی شرط ہے'۔ خواتین کو پہلی بار طلاق کا حق دیا گیا، زبردستی کی شادیوں اور خواتین کے جنسی اعضا کی قطع پر پابندی لگائی اور انھیں فوج اور کابینہ میں شامل کیا گیا۔ سنکارا سامراج، جاگیردار اور سرمایہ دار اشرافیہ کے مقابلہ میں عوام کے ساتھ کھڑا تھا لیکن اس سے کئی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ سامراجی قوتوں، خصوصاً فرانسیسی سامراج کے لیے ایسی انقلابی حکومت بہر حال ناقابل برداشت تھی چنانچہ کومپئیورے کی مدد سے ایک سازش تیار کی گئی اور اقتدار پر شب خون مار کر بزدلانہ طریقے سے سنکارا کو قتل کر دیا گیا۔ سنکارا کو جسمانی طور پر مارا گیا لیکن اس کے انقلابی نظریات اور روایات عوام کے دلوں میں رہے۔
الجزیرہ کی رپورٹوں کے مطابق حالیہ مظاہروں میں شریک عوام سنکارا سے متاثر ہیں۔ کومپئیورے نے اپنے دور اقتدار میں آئی ایم ایف کے اشاروں پر بڑے پیمانے پر نجکاری کی اور عوامی اخراجات میں کٹوتیاں کی گئیں۔ فرانسیسی اور امریکی سفارتکار سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ فوج کے ذریعہ دوبارہ کسی کٹھ پتلی حکمران کو ملک پر مسلط کر دیا جائے۔ نوجوانوں کی ایک تنظیم' شہریوں کا جھاڑو' نے 'فوجی سرمایہ دار مردہ باد' کا نعرہ لگاتے ہو ئے اصل فوج سے اپیل کی کہ وہ عوام کے ساتھ مل کر حقیقی دشمنوں کے خلاف لڑے۔برکینافاسو کے موجودہ حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ 'سیاہ بہار' کے انقلابی سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے۔
یہ انقلابی عمل انقلاب عرب بہار سے ہو یا انقلاب سرما سے ہو یا انقلاب سیاہ سے، ہر صورت میں عالمی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ دنیا کے عوام سرمایہ دارانہ ریاستی جبر و استحصال سے بلبلا اٹھے ہیں۔ اب یہ کڑیاں وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کی طرح برکینافاسو سے تھائی لینڈ اور تیونس سے لے کر ترکی تک پھیل کر ایک بے ریاستی عالمی انقلاب برپا کریگا جہاں ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہو گا۔ ساری ملکیت کے مالک سارے لوگ ہونگے۔ کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست۔
عوام نے بغاوت کر کے ربلیز کومپئیورے کا تختہ الٹ دیا۔ صدر کے استعفے کے بعد اقتدار سنبھالنے والا آرمی چیف ہنورتردر بھی بپھرے ہوئے عوام کے سامنے ٹھہر نہیں پایا اور تازہ ترین اطلاعات کیمطابق بھاگنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ جمعرات 30 اکتوبرکو جب صدر نے اپنی صدارت کی مدت میں مزید توسیع کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا تو ہزاروں افراد نے پارلیمنٹ کی جانب مارچ شروع کر دیا۔ سخت سیکیورٹی کے باوجود بپھرے ہوئے عوام نے پارلیمنٹ کے اندر جا کر اس کو آگ لگا دی اور سیاستدانوں نے قریبی ہوٹل میں پناہ لے کر اپنی جانیں بچائیں۔ اس کے بعد مجمع سر کاری ٹی وی کی عمارت کی جانب بڑھا اور اس کی نشریات بھی بند کروا دیں، ساتھ ہی عوام نے صدارتی محل کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔
پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی اور جلوس پر فائرنگ سے کم از کم تین افراد جان سے جاتے رہے۔ انقلاب کے شعلے جلد پورے ملک میں پھیل گئے اور دوسرے بڑے شہر بوبو میں حکمران جماعت کے دفاتر نذر آتش کر دیے گئے اور صدر کے رشتے داروں کے گھر جلا دیے گئے۔ آرمی چیف کا خبردار کرنے اور کرفیو کا اعلان بے سود ثابت ہوا، عوام نے دارالحکومت کے مرکزی چوراہے پر قبضہ جاری رکھا جس کا نام 'قومی چوک' سے تبدیل کر کے 'انقلابی چوک' رکھ دیا گیا ہے۔ ان واقعات نے واضح طور پر ایک انقلابی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ 30 اکتوبر 2014ء کا واقعہ دراصل اس سے قبل ایک ہفتے سے چلے آ رہے غیر معمولی واقعات کا ہی تسلسل تھا۔
29 اکتوبر کو مزدور یونینوں نے عام ہڑتال کی کال دی تھی۔ 28 اکتو بر کو 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے صدر کے عہدے کی مدت میں توسیع کو رد کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا۔ پولیس دہشت گردی کے باعث یہ احتجاج پر تشدد ہو گیا اور لوگ لوہے کی سلاخوں اور پتھروں سے پولیس کا مقابلہ کرتے ہوئے صدارتی محل کے قریب پہنچ گئے۔ یاد رہے کہ 2011ء میں بھی تنخواہوں میں اضافے کے لیے کومپئیورے حکو مت کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے، جن میں فوج کے سپاہی بھی شامل تھے۔ اس تحریک کو ریاستی جبر سے کچل دیا گیا تھا اور سیکڑوں فوجیوں کے کورٹ مارشل ہوئے تھے۔ افریقہ کے سامراج مخالف عظیم انقلابی رہنما تھامس سنکارا کے خلاف منظم کی گئی تھی۔
تھامس سنکارا بائیں بازو کا انقلابی رہنما تھا جسے 'افریقہ کا چی گویرا' بھی کہا جاتا ہے۔ وہ فرانسیسی سامراج کے خلاف آزادی کی ایک عظیم جدوجہد کے نتیجے میں 1983ء میں برسراقتدار آیا تھا۔ کمیونسٹ رہنما سنکارا نے ہی اس ملک کا نام بر کینافاسو رکھا، جسکا مطلب 'دیانتدار انسان کی سرزمین' ہے۔ آزادی کے بعد سنکارا نے تمام زمین اور معدنی وسائل فوری طور پر قومیا کر آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے تمام تعلقات ختم کر دیے تھے۔ اس نے بڑے پیمانے کی زرعی اصلاحات نافذ کیں جس کے نتیجے میں اناج، خاص کر گندم کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہوا اور برکینافاسو خوراک میں خود کفیل ہو گیا۔ سنکارا حکومت نے صحت اور تعلیم کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا، اقتدار کے پہلے سال میں 25 لاکھ بچوں کی ویکسی نیشن کی گئی، پہلے دو سال میں اسکولوں میں بچوں کی تعداد دوگنا ہو گئی۔
سنکارا سامراج کے ساتھ ساتھ افریقی عوام کا خون چوسنے والے مقامی حکمران طبقے سے بھی نفرت کرتا تھا۔ سنکارا اور اس کے وزرا کی تنخواہیں انتہائی کم جب کہ مراعات محدود تھیں، اس کی کوشش تھی کہ ریاستی اہلکار عام آدمی کی طرح سادہ زندگی بسر کریں۔ سنکارا کے چار سالہ اقتدار میں خواتین کی سماجی اور معاشی حالت میں تیزی سے بہتری آئی۔ اس نے کہا تھا کہ 'انقلاب اور خواتین کی آزادی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ خواتین کی آزادی کوئی خیرات نہیں بلکہ انقلاب کی فتح کی بنیادی شرط ہے'۔ خواتین کو پہلی بار طلاق کا حق دیا گیا، زبردستی کی شادیوں اور خواتین کے جنسی اعضا کی قطع پر پابندی لگائی اور انھیں فوج اور کابینہ میں شامل کیا گیا۔ سنکارا سامراج، جاگیردار اور سرمایہ دار اشرافیہ کے مقابلہ میں عوام کے ساتھ کھڑا تھا لیکن اس سے کئی غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ سامراجی قوتوں، خصوصاً فرانسیسی سامراج کے لیے ایسی انقلابی حکومت بہر حال ناقابل برداشت تھی چنانچہ کومپئیورے کی مدد سے ایک سازش تیار کی گئی اور اقتدار پر شب خون مار کر بزدلانہ طریقے سے سنکارا کو قتل کر دیا گیا۔ سنکارا کو جسمانی طور پر مارا گیا لیکن اس کے انقلابی نظریات اور روایات عوام کے دلوں میں رہے۔
الجزیرہ کی رپورٹوں کے مطابق حالیہ مظاہروں میں شریک عوام سنکارا سے متاثر ہیں۔ کومپئیورے نے اپنے دور اقتدار میں آئی ایم ایف کے اشاروں پر بڑے پیمانے پر نجکاری کی اور عوامی اخراجات میں کٹوتیاں کی گئیں۔ فرانسیسی اور امریکی سفارتکار سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں کہ فوج کے ذریعہ دوبارہ کسی کٹھ پتلی حکمران کو ملک پر مسلط کر دیا جائے۔ نوجوانوں کی ایک تنظیم' شہریوں کا جھاڑو' نے 'فوجی سرمایہ دار مردہ باد' کا نعرہ لگاتے ہو ئے اصل فوج سے اپیل کی کہ وہ عوام کے ساتھ مل کر حقیقی دشمنوں کے خلاف لڑے۔برکینافاسو کے موجودہ حالات کوئی بھی رخ اختیار کر سکتے ہیں لیکن ایک بات واضح ہے کہ 'سیاہ بہار' کے انقلابی سلسلے کا آغاز ہو چکا ہے۔
یہ انقلابی عمل انقلاب عرب بہار سے ہو یا انقلاب سرما سے ہو یا انقلاب سیاہ سے، ہر صورت میں عالمی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ دنیا کے عوام سرمایہ دارانہ ریاستی جبر و استحصال سے بلبلا اٹھے ہیں۔ اب یہ کڑیاں وال اسٹریٹ قبضہ تحریک کی طرح برکینافاسو سے تھائی لینڈ اور تیونس سے لے کر ترکی تک پھیل کر ایک بے ریاستی عالمی انقلاب برپا کریگا جہاں ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہو گا۔ ساری ملکیت کے مالک سارے لوگ ہونگے۔ کوئی طبقہ ہو گا اور نہ کوئی ریاست۔