معاشی پالیسیوں میں تبدیلی کی ضرورت
آج ہمارے ملک کی اکثریت کا لباس بوسیدہ ہے ان کی غذا غیر متوازن ہے۔
ایک مفکرکا قول ہے کہ قدرت ایک ایسی ماں ہے جو بچے کی آمد کے ساتھ ہی اس کی ماں کی چھاتی میں اس کی خوراک کا انتظام کردیتی ہے۔ یہ انسان ہی ہے جو اپنے مفادات کے تحت دوسرے انسان تک اس کی خوراک کے حصول کو ناممکن اور مشکل تر بنا دیتا ہے۔مفکر کے اس قول کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انسان کا یہی رویہ در اصل ہمارے اقتصادی اور معاشی مسائل کی بنیاد ہے۔مغرب نے اس کا حل یہ نکالا کہ اس نے آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو سائنسی طریقے سے کنٹرول کرکے اپنے اقتصادی اور معاشی مسائل کافی حد تک حل کرلیے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس کے برعکس ہورہاہے۔ ہمارے ملک کی دینی، سیاسی جماعتیں ہوں یا لبرل قوم پرست ہوں یا فرقہ پرست، آمریت پسند ہوں یا جمہوریت پسند، قدامت پسند ہوں یا روایت پسند وفاق کی علمبردار ہوں یا مقامی سیاست کی سوچ کی حامل تمام کی تمام آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر بات کرنا تو دور کی بات ہے اسے مسئلہ ہی تصور نہیں کرتیں۔ بعض سیکولر اور ترقی پسند جماعتیں اسے مسئلہ تصور کرتی ہیں لیکن وہ عوام میں اس کا شعور پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک کی اکثریت کا لباس بوسیدہ ہے ان کی غذا غیر متوازن ہے، رہائشی سہولتیں بنیادی سہولتوں سے عاری ہیں ملک میں بے چاری، بھوک، غربت، جہالت، عدل و انصاف کی عدم فراہمی عام ہے، عوام کی زندگی ایک عذاب میں مبتلا ہے۔ ہمارے ان مسائل کا ایک سبب جہاں آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ ہے وہاں اس کا ایک سبب پالیسی ساز اداروں کا کردار بھی ہے جو اپنے مفادات کے لیے ایسی معاشی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں جس سے عوامی مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا ہے مثلاً بجٹ سازی کو لیجیے جسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بجٹ سازی میں صرف سال کا ہندسہ تبدیل کرکے بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ ایک اچھے بجٹ کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں آمدنی اور اخراجات میں توازن پیدا کیاجاتا ہے اور ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں جس سے نہ صرف روز گار کے مواقعے پیدا ہوں بلکہ قیمتوں میں استحکام رہے اور ریونیو زیادہ سے زیادہ وصول کرنے کے ذرائع استعمال کیے جائیں جس سے عوام پر کم از کم بوجھ پڑے۔ اس لیے عام طور پر یہ کوشش کی جاتی ہے کہ براہ راست ٹیکس کے نیٹ ورک میں اضافہ کیاجائے۔
بد قسمتی سے ہمارے یہاں اس کے برعکس ہوتا ہے، ہمارے یہاں بنیادی ضرورتوں کی اشیا اور بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بلز میں اضافہ کرکے (ریونیو) محصولات کو بڑھانے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کا سارا بوجھ عام آدمی پر پڑتا ہے، مہنگائی ایک ایسے اژدھے کی شکل اختیار کرلیتی ہے جو عوام الناس کو مسلسل اذیت میں مبتلا رکھتی ہے، میں اس وقت حیرت میں مبتلا ہوجاتا ہوں جب اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد کی جانب سے اس کے حل کے لیے تنخواہ میں اضافے کی بات کی جاتی ہے، حالانکہ تنخواہ میں اضافہ بھی مہنگائی کا باعث بنتا ہے جب ایک آجر اپنی اشیا کی تیاری پر اجرت کی جتنی ادائیگی کرتا ہے وہ اسے اشیا کی لاگت میں شامل کرلیتا ہے۔
اس سے اشیا کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے عام آدمی کی تنخواہ میں اضافے سے اس کی مشکلات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے معیار زندگی میں کوئی تبدیلی آتی ہے۔مہنگائی میں اضافے کا ایک سبب کرپشن، رشوت، بھتے، چندے میں اضافہ بھی ہے۔ کیوں کہ اس مد میں ہونے والے اخراجات آجر اپنی جیب سے نہیں دیتا بلکہ اسے بھی اشیاء پر ہونے والی لاگت Coal میں شامل کرلیتا ہے۔ اس طرح اس مد میں ہونے والے اخراجات ایک غریب آدمی اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔ اگر ہم مہنگائی پر قابو پانا چاہتے ہیں تو مہنگائی کے بڑھنے کے بنیادی اسباب کو ختم کرنا ہوگا۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کی معیشت کا بیشتر انحصار زراعت پر ہے، زراعت میں پانی بنیادی عنصر ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث غذائی ضروریات بڑھ رہی ہے۔ زراعت میں قلت آب ایک قومی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ 80 ملین ایکڑ زرخیز زمین میں صرف 14 ملین ایکڑ زمین کے لیے پانی دستیاب ہے دوسری طرف 35 ملین ایکڑ پانی سمندر میں گر کر ضایع ہورہاہے، ایسے حالات میں ڈیم نہ بنانا قوم کے مستقبل کو تاریک کرنے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر زور دیا جارہاہے۔ اس کے فنی پہلو کو سامنے رکھنا اور اس کی تعمیرکے سیاسی پہلو کو نظر انداز کرنا ملک کی قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
لہٰذا کابالاغ ڈیم کی تعمیر کے بجائے متبادل ڈیم کی تعمیر کے بارے میں سوچا جائے اور اسے عملی شکل دی جائے۔ زراعت کی تباہ حالی کے باعث زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد کی شہروں کی جانب نقل مکانی نے شہروں میں آبادی کے دباؤ کو بڑھا دیا ہے جس سے شہری مسائل بھی بڑھ رہے ہیں بالخصوص کراچی میں آبادی کا دباؤ بہت زیادہ بڑھ گیا۔ کراچی میں صنعتوں کے قیام کی رفتار بھی بہت سست ہے اس کی وجہ بدامنی ہے اور بدامنی کی وجہ آبادی کا بغیر کسی منصوبہ بندی کے تیزی سے پھیلنا ہے جس نے اس شہر کے مسائل کو بہت زیادہ گمبھیر بنادیا ہے اس جانب بھی پالیسی ساز اداروں کو غور کرنا چاہیے۔
جہاں تک عوام کو رہائشی سہولت پہنچانے کا تعلق ہے تو ہمیں اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے کہ اس وقت لاکھوں گھرانے رہائشی سہولتوں سے محروم ہے اور اس میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے۔ ایک چھوٹا سا مکان بھی 80%آبادی کی قوت خرید سے باہر ہے اس کا حل یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے مکانوں اور پلاٹوں کی اسکیم شروع کی جائے جس کی قیمت انتہائی حد تک کم از کم مقررکرکے رہائش کی لازمی شرط عائد کرکے یہ پابندی عائد کردی جائے کہ مکان کے مالکانہ حقوق کم ازکم 50 سال تک دوسروں تک منتقل نہیں ہوں گے ایسی صورت میں ہم زمین مافیا کے کردار کو غیر موثر کرکے غریب اور متوسط طبقے کو رہائشی سہولتیں فراہم کرسکتے ہیں۔
ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لیے لینڈ مافیا کے ساتھ دیگر مافیا کے خاتمے کے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ مثلاً ہمیں ملک سے جاگیرداری، سرمایہ داری اور وڈیرہ شاہی کا بھی خاتمہ کرنا ہوگا۔معاشی پالیسی میں اہم ترین معاملہ دفاعی بجٹ کا ہے اس ضمن میں عموماً دو آراء پائی جاتی ہیں ایک طبقہ اسے سماجی اور معاشی بہبود پر کلہاڑی چلانے کے مترادف قرار دیتا ہے دوسرے طبقے کے نزدیک دفاعی بجٹ ملکی بقا کے لیے ناگزیر ہے۔
راقم التحریر کی رائے میں زندگی کے مختلف شعبوں کی تعمیر نو ایک بڑا صبر آزما اور مشکل کام ہے جسے ایک سیاسی بصیرت کی حامل قیادت ہی ایک منظم فعال ٹیم کے ساتھ عمدہ ہوم ورک اور منصوبہ بندی کے ساتھ سرانجام دے سکتی ہے، میری ذاتی رائے میں ملک میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہوس زرکے خاتمے، سادہ زندگی گزارنے اور غربا کی فلاح اور بہبود کی سوچ کے فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں تو ہمارے تمام معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔