یہ ’’پاکستانی‘‘ افغان

افغان باشندوں کے ساتھ ہماری کوئی مماثلت نہیں ہے اور ہم ان کے ساتھ اور وہ ہمارے ساتھ وقت نہیں گزار سکتے۔


Abdul Qadir Hassan December 27, 2014
[email protected]

نااہل سیاسی و غیرسیاسی حکمرانوں کی وجہ سے وطن عزیز لاتعداد مسائل سے دوچار ہے اور کئی ایک تو ایسے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا ان سے نجات کیسے حاصل کی جائے مثلاً سرکاری حلقوں سے کبھی کبھار یہ آواز اٹھتی ہے کہ افغان مہاجرین اب ملک کے امن و امان کے لیے بھی خطرہ بن گئے اس لیے انھیں ملک سے نکالا جائے۔ یوں تو افغانستان سے آنے والوں کا سلسلہ مدتوں سے جاری ہے لیکن افغانستان پر روسی حملہ کے بعد ان کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں تک پہنچ گئی ہے اور اب تو یوں لگتا ہے کہ یہ افغانی مہاجرین اب پاکستانی شہری ہیں جن کے پاس پاکستان کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی ہیں۔

کسی ملک کی شہریت کی یہی قانونی نشانیاں ہوتی ہیں نہ کہ قد بُت شکل و صورت وغیرہ لیکن افغانستان اور پاکستان کے درمیان صرف مذہب کی یگانگت ہے ورنہ دونوں قوموں کا کلچر اور رہن سہن بالکل مختلف ہیں اور یہ ایک دوسرے میں ضم نہیں ہو سکتیں لیکن ہمارے ہاں کرپشن اور رشوت کا جو سلسلہ مدتوں سے شروع ہے اس نے ہر مشکل حل کر دی ہے۔ شناختی کارڈ وغیرہ شروع شروع میں صرف چند سو روپوں میں مل جاتے تھے اور ہمارے ان افغانی مہمانوں کی بڑی تعداد نے یہاں سب سے پہلے یہی کام کیا۔

میرے ایک قبائلی ڈرائیور کے پاس لاہور کا شناختی کارڈ موجود تھا۔ افغانستان پر روسی حملے کے وقت پاکستان کے علاوہ افغان مہاجر پڑوسی ایران میں بھی گئے لیکن ایران کے سمجھدار حکمرانوں نے ان کی باقاعدہ رجسٹریشن کی اور انھیں ایک مخصوص علاقے میں پابند کر دیا جس سے گھبرا کر وہ کچھ عرصہ بعد غائب ہو گئے لیکن پاکستان میں یہ لوگ عملاً ایک آزاد زندگی بسر کرنے لگے جیسے وہ بھی پاکستانی ہی ہوں۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں ہے اور تیس چالیس لاکھ کی تعداد کا عام ذکر ہوتا رہتا ہے۔

افغان باشندوں کے ساتھ ہماری کوئی مماثلت نہیں ہے اور ہم ان کے ساتھ اور وہ ہمارے ساتھ وقت نہیں گزار سکتے لیکن افغانستان کی غربت سے بچنے کے لیے پاکستان میں قیام سے بہتر کوئی صورت نہیں ہو سکتی۔ مزدوری کے لیے افغان پہلے بھی آیا کرتے تھے لیکن محدود وقت کے لیے اور سردیوں کے موسم میں۔ ان کی ایک خاص مہارت کنواں کھودنا تھی۔ میں نے بچپن میں انھیں اپنے گھر میں چھوٹا سا کنواں کھودتے دیکھا۔ وہ دوسری سردیوں کے لیے بھی پہلے سے کام تلاش کر کے جاتے تھے اور پھر وقت مقرہ پر آ جاتے تھے۔ ان کا نگران ایک بار میرے والد صاحب کے لیے ایک پوستین لے کر آیا تھا۔ ہمیں یہ پوستین جو اندر سے کھال دکھائی دیتی تھی اور باہر سے ایک کڑھائی والا چمڑا شروع میں بہت عجیب لگی تھی۔

عرض یہ ہے کہ افغان پاکستان میں مدتوں سے آ رہے تھے لیکن واپس جانے کے لیے انھوں نے پاکستانی علاقے کو اپنا گھر نہیں بنایا تھا لیکن اب تو پاکستان میں ان کے وسیع کاروبار ہیں۔ یہاں لاہور میں کئی پوری مارکیٹیں ان کی ہیں جن میں زیادہ تر خواتین کے کپڑے فروخت ہوتے ہیں اور اکا دکا دکانیں تو بہت ہیں۔ یہی حال پاکستان کے دوسرے شہروں کا بھی ہے اور دیہات میں وہ زمینیں ٹھیکے پر لیتے ہیں کھیتی باڑی کرتے ہیں یا عام مزدوری۔ وہ بالعموم مسلح رہتے ہیں اور عوام پر 'رعب' ڈال کر رہتے ہیں اس سے عام زندگی میں خوف و ہراس کی کیفیت بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ کبھی دیہات سے فون آتے ہیں کہ حکومت سے کہیں کہ ان کو یہاں سے نکالے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ آپ خود ان کو کیوں نہیں نکال دیتے تو جواب ملتا ہے ان سے ڈرتے ہیں۔

ان دنوں دہشت گردی کے خلاف حکومت سرگرم ہے خصوصاً سانحہ پشاور نے تو بہت ہی ڈرا دیا ہے اور ہم مزید کسی سانحے کو برداشت نہیں کر سکتے۔ دہشت گردوں کا بڑا حصہ افغانیوں اور ان کے پاکستانی ساتھیوں کا ہے۔ ہماری فوج نے ان کی سرگرمیوں سے تنگ آ کر ان کے علاقوں میں باقاعدہ جنگ شروع کر رکھی ہے اور وہ اتنے مسلح ہیں کہ پاکستان کی باقاعدہ فوج کے خلاف بھی جنگ کا سامان رکھتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں۔ ملک کے امن و امان کے لیے یہ لوگ ایک مستقل خطرہ ہیں اور قومی سطح پر خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں۔ دہشت گردی کی جنگ کا سب سے بڑا ذریعہ یہ افغان ہیں اور افغانستان کی کوئی حکومت بھی ان کی صحیح سرکوبی نہیں کر سکتی۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جنگ لڑتے ہیں یا جنگ کی تیاری کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھ لیا اور ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ اپنے اپنے وقت کی تین سپرپاورز نے افغانستان میں عبرت ناک شکست کھائی۔ برطانیہ نے ہندوستان پر حکومت کے دوران ان پر چڑھائی کی اور افغانوں نے تمام کی تمام برطانوی فوج ہلاک کر دی۔ صرف ایک ڈاکٹر کو معاف کیا تا کہ وہ واپس جا کر اس بھیانک شکست کی اطلاع کر سکے۔ اس کے برسوں بعد روس نے افغانستان پر حملہ کر کے برسوں تک اس پر قبضہ رکھا لیکن بالآخر اسے ایسی عبرت ناک شکست ہوئی کہ روسی فوج کے ایک بریگیڈیئر نے دریائے آمو پار کرتے ہوئے اس کے پل پر کھڑے ہو کر کہا کہ میں یہ نصیحت کر جاؤں گا کہ کوئی اس طرف دیکھنے کی جرأت بھی نہ کرے۔

پھر دنیا نے دیکھا کہ سوویت یونین سرے سے ہی ختم ہو گئی صرف تاریخ کی کتابوں میں زندہ رہ گئی۔ روس بڑی مشکل سے اپنی اس سلطنت کی بربادی کے بعد بحال ہوا۔ پھر امریکا نے اس پر حملہ کیا لیکن اپنے ساتھ نیٹو کو بھی ملا لیا یعنی یورپ کی مغربی دنیا کو بھی لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ واپس جا رہا ہے اور واپسی کے لیے پاکستان سے راستہ مانگتا پھر رہا ہے۔ حکومتوں نے افغانوں کو پاکستان میں کھلی چھٹی دے کر ملک کی مستقل بدامنی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے اور اطلاعات بھی ایسی ہی ہیں کہ پشاور کے سانحہ میں افغانوں یا ان کے پروردہ لوگوں کا ہاتھ تھا۔

حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ہمت کرے جرأت سے کام لے اور ملک کو ان لوگوں سے خالی کرائے جو کسی بھی بڑے خطرے کا سبب بن سکتے ہیں۔ پولیس کو ڈیوٹی دے کہ وہ دیہات سے لے کر شہروں تک مکمل تلاشی کا بندوبست کریں۔ اب جب میاں صاحب کی حکومت دہشت گردی کے خلاف سرگرم ہوئی ہے تو وہ اس کے اسباب کو ختم کرنے کی طرف سب سے پہلے توجہ دے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں