قائد تحریک الطاف حسین کا فکر انگیز انٹرویو …آخری حصہ

ﷲ بہتر جانتا ہے، میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا۔

GUJJAR KHAN:
نیوز اینکر: الطاف بھائی اگر ہم یہ سمجھیں کہ آپ ہائی پولیٹیکل سوچتے ہیں، کھلے دل و دماغ کے مالک ہیں اور ویژن بہت اسٹرونگ ہیں، آپ یہ بتایئے کہ دہشت گردی کے خلاف جو جنگ ہے اس میں کون سے اقدامات کرنا ضروری ہیں۔ ایک تو آپ نے کہا کہ مینشن کریں کہ کون ملوث ہے۔ دوسرا مجھے آپ یہ بتایئے گا کہ پاکستان کے کون سے شہر یا علاقے ہیں جہاں سب سے پہلے ان کے خلاف آپریشن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا آغاز کیا جائے اور اس کے بعد ان کو انجام تک پہنچایا جائے۔

الطاف حسین: اس میں نام لکھیے! القاعدہ۔ دوسرا نام لکھیے طالبان اور تازہ ترین نام لکھیے آئی ایس آئی ایس یعنی داعش۔ پرانے ناموں میں لکھیں لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد۔

الطاف حسین: پشاور میں معصوم بچوں کا قتل عام ہوگیا۔ پھول جیسے بچے، معصوم بچے، معصوم کلیاں، جو کھلے بھی نہیں تھے، پھول بھی نہیں بنے تھے وہ کلیاں مسل دی گئیں، ان کے استادوں کو زندہ جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ اﷲ آپ کے بچوں کو محفوظ رکھے۔ میرا سگا بھائی ستر سالہ جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، میرا 28 سالہ بھتیجا، اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس کو پانچ اور چھ دسمبر کو گرفتار کیا گیا 1995 کو اور 9 دسمبر 1995 کو بیدردی سے ٹارچر کرکے، جگہ جگہ سے گوشت نکال کر وہاں لے جا کر گولیاں مار کر قتل کردیا گیا اور پھر میرے بھتیجے کے سر پر کلہاڑی کے وار کرکے دو ٹکڑے کردیے۔ میں اس درد کو محسوس کرتا ہوں۔

نیوز اینکر: جی بھائی۔ یقینی طور پر یہ درد ہم بھی محسوس کرتے ہیں، مجھے یاد ہے جس سانحہ کا آپ نے ذکر کیا، ان کی ڈیڈ باڈیز ملی تھیں، ان پر بہت ٹارچر ہوا تھا، تشدد کے نشانات تھے اور آپ نے اس وقت بھی بڑے ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کیا تھا اور آپ نے کہا تھا کہ عوام صبر کریں اور خود صبر کا دامن تھامے رہے۔

اس وقت کراچی جل سکتا تھا، آگ لگ سکتی تھی لیکن آپ نے بڑے صبر وتحمل سے اس سانحے کو برداشت کیا اور نیشن کو بھی اور عوام کو بھی گائیڈ کیا اور ان کو کہا کہ آپ صبر و تحمل سے کام لیں اور آج جو موقع ہے جہاں معصوم بچے مارے گئے، الفاظ نہیں ہیں اس سانحہ کے لیے۔ سوال یہ ہے بھائی کہ یہ جو سانحہ ہوگیا، ہم بچوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے، بچے ہم سے سوال کرتے ہیں اور وہ معصوم بچے جن کے لیے ہالی ڈے ایک مقدس دن ہوتا، وہ سمجھتے ہیں کہ جب ایسا سانحہ ہوتا ہے تو چھٹی ہوجاتی ہے، ہالی ڈے ہوتا ہے، ان کے ذہنوں کو ہم کیسے پاک کریں گے کہ نہیں یہ ہالی ڈے نہیں تھا بدترین دن تھا، ان کے ذہنوں کو کس طرح پاک کریں گے؟

الطاف حسین: ﷲ بہتر جانتا ہے، میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے باپ سے نہیں ڈرتا۔ برطانیہ میں میرے اوپر مقدمے قائم کردیے گئے، مجھے جیل لے گئے۔ میرے ساتھیوں سے پوچھو، میرے حوصلے کیا تھے۔ مجھے پکڑ کر یہاں مار بھی دیاجائے تو بھی میرا سر اﷲ کے علاوہ ان برطانوی حکمرانوں کے یا پولیس کے آگے نہیں جھکے گا۔ میں پاکستان میں تین مرتبہ گرفتار ہوچکا ہوں۔ میں نے فوجی سمری ملٹری کورٹ کی نو مہینے پانچ کوڑے کی سزا بھی بھگتی ہے۔ میں نے سر نہیں جھکایا۔

مجھے پیشکشیں کی گئیں، سی آئی اے کے افسر بن جاؤ، کسٹم کے آفسر بن جاؤ، بینک کی نوکری لے لو، بڑی بڑی لالچ دی گئیں، میں نے قبول نہیں کیں۔ میں بڑا بہادر آدمی ہوں لیکن میرے بھائیوں مگر جب انسان مرتا ہے، لاشیں دیکھ دیکھ کر میرا دل اس معاملے میں اب برداشت کا ذرا حوصلہ کم ہوگیا ہے۔ میں ڈرتا نہیں۔ مجھے یاد آجاتا ہے۔ مجھے رونا آجاتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے والدین، بیچاری ماؤں کے اوپر کیا گزر رہی ہوگی۔ میں نے دیکھا ہے اپنی آنکھوں سے، میں نے اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھے ہیں تو دل پسیج جاتا ہے، باقی کوئی مائی کا لال آئے، ایک گن خود پکڑے، ایک گن مجھے دے، آئے مقابلے پر۔ الطاف حسین ڈرنے والوں سے نہیں، اللہ نے بنایا ہی نہیں ورنہ کب کا الطاف حسین چھوڑ کر جا چکا ہوتا۔


میں فوج کے سہارے بیساکھیوں پر چلنے والا نہیں، اسی لیے پچیس سال سے میں جلا وطن ہوں، اپنے وطن سے دور میرے پنجابی بھائیو! اے اہل پنجاب ، مجھے اپنے وطن سے دور کررکھا ہے، اس لیے کہ میں پنجابی نہیں کہہ لینے دو مجھے۔ کہہ لینے دو مجھے میرے پنجابی بھائیوں میں پنجابیوں سے مخاطب ہوں۔ ہندوستان سے میرے ماں باپ نے ہجرت کی۔ میں نے تو ہجرت نہیں کی تھی۔ میرے ماں باپ کا جرم تھا، میرے گھر والوں کا جرم تھا لیکن انھوں نے بھی پاکستان کے لیے قربانیاں دی تھیں، لے کر رہیں گے پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان۔ آج ان کی اولاد کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، میں سہہ رہا ہوں اور سہتا رہوں گا، آخر ی سانس تک۔ میں پورے پاکستان کے مظلوموں اور محروموں کا میں صرف حامی ہوں، اللہ نے مجھے طاقت دی تو لڑتا رہوں گا، تمام پاکستان کے مظلوم پنجابی، سندھی، بلوچی، پختون، سرائیکی، گلگتی، ہزارے وال، غرض کہ کشمیری، میں ہر کسی کو غربت کی دلدل سے نکال کر ان جاگیرداروں، وڈیروں اور موروثی سیاست کرنے والوں سے نجات دلاؤں گا۔ میں نہ دلا سکا تو میری یہ وصیت کارکنوں اور رہنماؤں کے لیے ہے کہ تم میں اگر حلال کا خون ہے تو تم میرے اس مشن کو اسی طرح لے کر چلنا۔

نیوز اینکر: آپ ایک درد مند دل رکھنے والے انسان ہیں، آپ کیا مسیج دیں گے اس قوم کو۔ اگر آپ جیسے بہادر رہنما اس قوم کا مورال ہائی کرسکیں تو آپ کس طرح ہائی کریں گے اس کو۔

الطاف حسین: میں پوری قوم سے کہتا ہوں دیکھو! میرے پاکستانی بھائیوں، ماؤں، بہنوں، بزرگوں، نوجوانوں، طالب علموں، آنکھیں بند کرلینے سے یا زمین میں منہ چھپا لینے سے خطرہ ٹلتا نہیں ہے، سب کے سب ملک دشمنوں کا نشانہ اور نوالہ بن جاؤ گے، اگر عزت کے ساتھ جینا ہے، اگر عزت و غیرت کے ساتھ جینا ہے تو تمہیں بہادر بننا ہوگا، غیرت مند بننا ہوگا، تم اپنی جان دے کر اپنی بہن کی عزت بچا سکتے ہو، ڈر کر خود بھی مرو گے اور بہن کی عزت بھی گنواؤ گے۔ ڈر کر خود بھی مرو گے اور اپنے بچوں اور بچی اور معصوم بچوں کو اغوا بھی کرادو گے۔ بہادر بنو بہادر بنو۔ ہم لڑیں گے، ڈاکوؤں، چوروں سے، ملک دشمنوں سے۔ اس ملک پر ظلم کرنے والوں سے۔ اس ملک پر جنہوں نے 67 برسوں سے قبضہ کررکھا ہے اس سے ملک کو نجات دلائیں گے اور اس ملک میں انصاف کا نظام قائم کریں گے، جہاں غریب اور امیر کا بچہ ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کرے۔ جہاں امیر اور غریب کا بچہ ایک اسپتال میں جاکر علاج کروائے۔

غریبوں کے اسکول، امیروں کے اسکول الگ الگ نہیں ہوں گے۔ تعلیمی نصاب الگ الگ نہیں ایک ہی ہوگا، جو غریب کا بچہ بھی پڑھے گا اور صنعتکار پیسے والے کا بچہ بھی وہی نصاب پڑھے گا۔ دوا کی گولی جو امیر کے بچے کو ملے گی وہی تمہیں بھی ملے گی۔ تمہیں چاک پیس کر جس سے بلیک بورڈ پر لکھتے ہیں اس کی گولی نہیں ملے گی، ایسا جو کرے گا اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں گے اس کو سولی پر لٹکایا جائے گا۔

لہٰذا میری قوم کے لوگوں اٹھو، ہمت کرو، ان نام نہاد طالبا ن کا مقابلہ کرو، ان نام نہاد وڈیروں، جاگیرداروں اور نام نہاد جمہوریت پسندوں کا۔ جاگیرداروں، وڈیروں کا قصور کم ہے، تمہارا ہمارا قصور زیادہ ہے۔ ہم ہی ان کے نعرے لگاتے رہے، ہم ہی انھیں کندھوں پر بٹھاتے ہیں، جاگو، بیدار ہو، ذرا دیکھو ان کے بچے گھر سے نکلتے ہیں تو سو گاڑیاں ان کی حفاظت کرتی ہیں اور تم انہی کے نعرے لگاتے ہو اور تمہارے بچے کو کچھ ہوتا ہے تو روتے ہیں، کاہے کو روتے ہیں، خیرات سے عزت نہیں ملتی ذلت ملتی ہے۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جرات ہمت سے عزت ملتی ہے، اس بات کو یاد رکھو۔

نیوز اینکر: جی الطاف بھائی،آپ نے پوری قوم کے لیے الگ سے جو میسیج دیا ہے یہ یقینی طور پر ایک ٹانک کا کام کرے گا۔ بہت شکریہ الطاف بھائی۔

الطاف حسین: بہت شکریہ۔ اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔
Load Next Story