بے سہارا اور محنت کش بچے
پاکستان کی ہر آنے اور جانیوالی حکومتوں نے اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کی ہے۔
جو عمر معصوم بچوں کے پڑھنے لکھنے کی ہوتی ہے اس عمر میں یا تو وہ محنت مزدوری کرتے ہیں یا سماج دشمنوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور وہ انھیں تخریبی سرگرمیوں میں طرح طرح سے استعمال کرتے ہیں، جیب کترا بناتے ہیں، چوری و ڈاکے ڈالنے کے فن سے آگاہ کرتے ہیں، ان ننھے بچوں کو دیار غیر میں فروخت کردیتے ہیں، کچھ پیشہ ور جرائم پیشہ افراد ان کے ہاتھ پیر توڑ کر ان سے بھیک منگواتے ہیں، حکومت اپنی تعریف خود کرتے نہیں تھکتی ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی عوام کی خدمت بہتر طریقے سے کر رہی ہے لیکن وہ سڑکوں اور شاہراہوں پر ان بچوں کو بھیک مانگتے، ہاتھ پھیلاتے، گاڑیوں کے پیچھے دوڑتے بھاگتے نہیں دیکھتی ہے، اسے یہ بھی نظر نہیں آتا ہے کہ بے شمار بچے ہر روز کچرے کے ڈھیر پر جھکے اپنا رزق تلاش کر رہے ہیں۔ سڑے گلے پھل اور ڈبل روٹی کے ٹکڑوں سے اپنے شکم کی آگ بجھا رہے ہیں، سخت سردی ہو، گرمی اور برسات ہو، موسموں کی سنگینی سے یہ بے پروا، اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں، اپنی ذمے داریوں کو نبھاتے ہیں انھیں اپنی ماں کے لیے روٹی کا انتظام کرنا ہوتا ہے وہ پرانی چیزیں جن میں شیشہ ، خالی بوتلیں، ردی، پیپر شامل ہوتے ہیں انھیں بیچ کر چند روپے کماکر اپنے گھر والوں کے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ مائیں تو سب کی ہوتی ہیں ان محنت کش بچوں کی بھی مائیں ہیں جو خود انھیں رزق کی تلاش میں گھروں سے رخصت کرتی ہیں اور خود بھی مزدوری کرنے کی خواہشمند ہوتی ہیں جب کہ بہت سی عورتیں مشقت کرتی ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں چند روپوں کے عوض پورا دن کام کرتے گزار دیتی ہیں۔
ایک طرف بھیک مانگنے والا طبقہ ہے تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے رہ کر زندگی بسر کر رہے ہیں، والدین خود بھی چھوٹے موٹے کام انجام دیتے ہیں اور ان کے چھوٹے بچے جن کی عمریں بمشکل پانچ سال سے دس سال تک ہوتی ہیں۔ ورکشاپ پر گاڑیوں کے ڈینٹ، پینٹ کے کام انجام دیتے ہیں۔ گاڑیاں دھوتے ہیں، شیشے صاف کرتے ہیں ساتھ میں استاد سے گاڑیاں سنبھالنے کا کام بھی سیکھتے ہیں۔
چھوٹے بچوں کی محنت مزدوری کرنا چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے، جس پر پابندی ہے لیکن پابندی کے باوجود اس قانون پر عمل نہیں کیا جاتا ہے، پورے پاکستان میں ایسا ہی حال ہے ٹرین کا سفر ہو یا بسوں کا، معصوم بچے ہر شہر میں چائے اور دوسری کھانے پینے کی اشیا بیچتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ریستورانوں کے سامنے یہ بھوکے بچے گاڑیوں کے پاس آکر اپنا ہاتھ پھیلاتے اور مدد کے منتظر ہوتے ہیں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو انھیں دھتکارتے نہیں ہیں، ورنہ زیادہ تر وہ ڈانٹ ڈپٹ کا شکار رہتے ہیں۔
اپنے ایسے رویے کے باوجود وہ اپنی روش نہیں چھوڑتے ہیں، بھیک مانگنے کا درس ان کے والدین نے دیا ہے، یہ بھکاری نہ خود کوئی کام کرتے ہیں اور نہ بچوں کو رزق حلال کی طرف مائل کرتے ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے معصوم بچوں کو کوئی اغوا کرسکتا ہے یا کوئی دوسرا حادثہ ہوسکتا ہے۔ وہ اس قسم کی باتیں سوچنا ہی نہیں چاہتے کہ انھوں نے بھی ایسی ہی زندگی بسر کی ہے اور سڑکوں اور فٹ پاتھ پر رہتے بستے عمر گزار دی ہے۔ ہمارے ملک کے فلاحی ادارے انسانیت کی عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں ایدھی صاحب بچوں کے لیے باقاعدہ ایک سینٹر ہے جہاں ان بے سہارا اور والدین سے بچھڑنے والے بچوں کو رکھا جاتا ہے۔
ان کی غذائی ضرورت کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی انھیں دی جاتی ہے، ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ تاکہ یہ بچے معاشرے کے اچھے اور کارآمد شہری بن کر سامنے آئیں، اس کے برعکس افلاس زدہ بچوں کو اسلامی تعلیم دینے کے بہانے مدرسوں میں لے جایا جاتا ہے جہاں یہ دہشت گرد ان معصوم جانوں کو خود کش بمبار بناکر نہ صرف ان کی جان لے لیتے ہیں بلکہ بے شمار انسانوں کے خون ناحق اور قتل کے ذمے دار ہوتے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ ضرب عضب آپریشن کے ذریعے ان قاتلوں اور دہشت پھیلانیوالوں کو ان کے انجام تک پہنچا دیا گیا ہے، فوج کی اس بڑی کامیابی سے قبل ہزاروں بچے دردناک موت سے ہمکنار ہوئے۔
پاکستان کی ہر آنے اور جانیوالی حکومتوں نے اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کی ہے،عوام کی جان و مال کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ ایک طرف سخت مہنگائی اور دوسری طرف جعلی ادویات کی فروخت نے انسانوں کو بے موت مار ڈالا ہے، اسپتالوں میں انتظامی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، خراب مشینوں خصوصاً ایکوبیٹر کی خرابی کے باعث نوزائیدہ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ایک طرف صحرائے تھر میں ہر روز بچے بھوک اور بیماریوں کے باعث موت کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں اور شہروں کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔
بچوں پر تشدد کے حوالے سے بھی دردناک واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، گھروں میں کام کرنیوالے ننھے پھول جیسے بچوں پر معمولی غلطیوں کی بنا پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، ہمارے ملک میں قانون نام کا ایک خوبصورت پرندہ ہوا کرتا تھا، جو زمانہ ہوا اڑچکا ہے، کسی نے بھی اسے پکڑنے کی کوشش نہیں کی اسی لیے آج سیاست اور ریاست کے حال بدترین ہوچکے ہیں، جو سچ بولے، حق کا ساتھ دے، وہی مجرم کہلائے۔ مجھے اس وقت ایک بچے سلیم کی کہانی یاد آگئی ہے:
وہ بچہ ساحل سمندر سے ذرا دور کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا، رات ہوچکی تھی اور سناٹا چھا گیا تھا، رات کے وقت مجھے سمندر اور اس کا شور کرتا ہوا پانی، بڑا ہی ڈراؤنا لگتا ہے اس کی مچلتی ہوئی آتی جاتی لہریں مزید خوف پیدا کرتی ہیں سو میں ذرا فاصلے سے کھڑی ہوگئی اور گھر والے ذرا آگے بڑھ گئے۔ تھوڑی دیر تک میں اس دس سالہ بچے کا جائزہ لیتی رہی کہ آیا وہ اکیلا کیوں کھڑا ہے جب کہ ہے بھی چھوٹا، اللہ نہ کرے اس معصوم کو کوئی اغوا کرلے، بہکا کر لے جائے، نشہ آور کوئی شے کھلادے تو یہ بے چارہ تو ہوگیا برباد، سو میں نے اس سے پوچھا تم اکیلے آئے ہو؟ کہنے لگا نہیں اپنے دوست کے ساتھ۔ تو کہاں ہے تمہارا دوست؟ وہ پانی میں نہانے چلا گیا، پر ابھی تک نہیں آیا ہے۔
پڑھتے ہو؟ جی! کون سی کلاس میں۔ چوتھی میں۔ یہ تو اچھی بات ہے لیکن تمہارے ساتھ کوئی بڑا نہیں آیا؟ نہیں میرے ماں باپ مرچکے ہیں، بہن بھائی کوئی ہے نہیں، میں چھوٹا تھا تو مجھے ایک آدمی نے پکڑ لیا تھا۔ وہ ایک جنگل میں لے گیا اور مجھ سے محنت مزدوری کراتا، پتھر تڑواتا۔ شاید بیگارکیمپ ہوگا۔ میں نے بات آگے بڑھائی۔ جی جی! وہی۔ ایک بار پولیس نے چھاپہ مارا اور ہم سب کو گرفتار کرلیا۔ تھوڑے دن بعد ہی ہم لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ پھر؟ اس کی خاموشی کے بعد میں نے پوچھا۔ میرا ایک چاچا ہے، جس کے ساتھ میں رہتا ہوں، لیکن آج میں نے وہ گھر چھوڑ دیا ہے۔ کیوں؟ میرا تجسس بڑھا۔ باجی! کیا بتاؤں؟ وہ رونے لگا۔ ارے، ارے! تم تو بہادر بچے ہو، روتے کیوں ہو ، بتاؤ ناں کیا ہوا؟ میں شاید تمہاری مدد کرسکوں۔
جی وہ میرا چاچا کرائے کا قاتل ہے، بھتہ خور بھی ہے اور مجھے بھی وہ اپنی طرح بنانا چاہتا ہے، کہتا ہے تجھے سیاستدان بناؤں گا، تو اسمبلی کا ممبر بنے گا۔ باجی! کیا قتل کرنے اور بھتہ لینے والے بڑے آدمی بن جاتے ہیں؟ یہ بات مجھے چاچا نے بتائی ہے۔ میں نے دو بار تھانے جاکر مدد مانگی، لیکن پولیس والوں نے مدد کرنے کی بجائے چاچا کے سپرد کردیا ہے۔ تم، تم! ایسا کرو ایدھی سینٹر چلے جاؤ، کہو تو میں تمہیں چھوڑ آؤں۔میں نے اسے مشورہ دیا۔ باجی! ابھی تو میں اپنے دوست کمالے کے ساتھ اس کے گھر جا رہا ہوں۔ دیکھیں وہ آگیا کمالا، آجا بے ۔ کمالا نہانے کی وجہ سے پانی میں تربتر تھا۔ وہ دونوں پاس کھڑی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئے اور موٹرسائیکل دو لمحے بعد ہی ہوا میں اڑنے لگی۔ اف! میں نے ایک سرد آہ بھری۔
اگر حکومت لوگوں کو جینے کے لیے اسباب پیدا کردے، تعلیم اور انصاف مفت فراہم کرے، تو کوئی بچہ نہ کچرے کے ڈھیر سے گلی سڑی غذا سے اپنا پیٹ بھرے گا اور نہ تخریب کاروں کے ہتھے چڑھے گا۔ آج کے بچے ہی پاکستان کا مستقبل ہیں۔ خدارا! مستقبل کو بچا لیجیے۔
اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی عوام کی خدمت بہتر طریقے سے کر رہی ہے لیکن وہ سڑکوں اور شاہراہوں پر ان بچوں کو بھیک مانگتے، ہاتھ پھیلاتے، گاڑیوں کے پیچھے دوڑتے بھاگتے نہیں دیکھتی ہے، اسے یہ بھی نظر نہیں آتا ہے کہ بے شمار بچے ہر روز کچرے کے ڈھیر پر جھکے اپنا رزق تلاش کر رہے ہیں۔ سڑے گلے پھل اور ڈبل روٹی کے ٹکڑوں سے اپنے شکم کی آگ بجھا رہے ہیں، سخت سردی ہو، گرمی اور برسات ہو، موسموں کی سنگینی سے یہ بے پروا، اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں، اپنی ذمے داریوں کو نبھاتے ہیں انھیں اپنی ماں کے لیے روٹی کا انتظام کرنا ہوتا ہے وہ پرانی چیزیں جن میں شیشہ ، خالی بوتلیں، ردی، پیپر شامل ہوتے ہیں انھیں بیچ کر چند روپے کماکر اپنے گھر والوں کے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ مائیں تو سب کی ہوتی ہیں ان محنت کش بچوں کی بھی مائیں ہیں جو خود انھیں رزق کی تلاش میں گھروں سے رخصت کرتی ہیں اور خود بھی مزدوری کرنے کی خواہشمند ہوتی ہیں جب کہ بہت سی عورتیں مشقت کرتی ہیں۔ فیکٹریوں اور کارخانوں میں چند روپوں کے عوض پورا دن کام کرتے گزار دیتی ہیں۔
ایک طرف بھیک مانگنے والا طبقہ ہے تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو غربت کی لکیر سے نیچے رہ کر زندگی بسر کر رہے ہیں، والدین خود بھی چھوٹے موٹے کام انجام دیتے ہیں اور ان کے چھوٹے بچے جن کی عمریں بمشکل پانچ سال سے دس سال تک ہوتی ہیں۔ ورکشاپ پر گاڑیوں کے ڈینٹ، پینٹ کے کام انجام دیتے ہیں۔ گاڑیاں دھوتے ہیں، شیشے صاف کرتے ہیں ساتھ میں استاد سے گاڑیاں سنبھالنے کا کام بھی سیکھتے ہیں۔
چھوٹے بچوں کی محنت مزدوری کرنا چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہے، جس پر پابندی ہے لیکن پابندی کے باوجود اس قانون پر عمل نہیں کیا جاتا ہے، پورے پاکستان میں ایسا ہی حال ہے ٹرین کا سفر ہو یا بسوں کا، معصوم بچے ہر شہر میں چائے اور دوسری کھانے پینے کی اشیا بیچتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ریستورانوں کے سامنے یہ بھوکے بچے گاڑیوں کے پاس آکر اپنا ہاتھ پھیلاتے اور مدد کے منتظر ہوتے ہیں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو انھیں دھتکارتے نہیں ہیں، ورنہ زیادہ تر وہ ڈانٹ ڈپٹ کا شکار رہتے ہیں۔
اپنے ایسے رویے کے باوجود وہ اپنی روش نہیں چھوڑتے ہیں، بھیک مانگنے کا درس ان کے والدین نے دیا ہے، یہ بھکاری نہ خود کوئی کام کرتے ہیں اور نہ بچوں کو رزق حلال کی طرف مائل کرتے ہیں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ان کے معصوم بچوں کو کوئی اغوا کرسکتا ہے یا کوئی دوسرا حادثہ ہوسکتا ہے۔ وہ اس قسم کی باتیں سوچنا ہی نہیں چاہتے کہ انھوں نے بھی ایسی ہی زندگی بسر کی ہے اور سڑکوں اور فٹ پاتھ پر رہتے بستے عمر گزار دی ہے۔ ہمارے ملک کے فلاحی ادارے انسانیت کی عظیم خدمات انجام دے رہے ہیں ایدھی صاحب بچوں کے لیے باقاعدہ ایک سینٹر ہے جہاں ان بے سہارا اور والدین سے بچھڑنے والے بچوں کو رکھا جاتا ہے۔
ان کی غذائی ضرورت کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی انھیں دی جاتی ہے، ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ تاکہ یہ بچے معاشرے کے اچھے اور کارآمد شہری بن کر سامنے آئیں، اس کے برعکس افلاس زدہ بچوں کو اسلامی تعلیم دینے کے بہانے مدرسوں میں لے جایا جاتا ہے جہاں یہ دہشت گرد ان معصوم جانوں کو خود کش بمبار بناکر نہ صرف ان کی جان لے لیتے ہیں بلکہ بے شمار انسانوں کے خون ناحق اور قتل کے ذمے دار ہوتے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ ضرب عضب آپریشن کے ذریعے ان قاتلوں اور دہشت پھیلانیوالوں کو ان کے انجام تک پہنچا دیا گیا ہے، فوج کی اس بڑی کامیابی سے قبل ہزاروں بچے دردناک موت سے ہمکنار ہوئے۔
پاکستان کی ہر آنے اور جانیوالی حکومتوں نے اپنی ذمے داریوں سے چشم پوشی کی ہے،عوام کی جان و مال کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھادیا گیا۔ ایک طرف سخت مہنگائی اور دوسری طرف جعلی ادویات کی فروخت نے انسانوں کو بے موت مار ڈالا ہے، اسپتالوں میں انتظامی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، خراب مشینوں خصوصاً ایکوبیٹر کی خرابی کے باعث نوزائیدہ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، ایک طرف صحرائے تھر میں ہر روز بچے بھوک اور بیماریوں کے باعث موت کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں اور شہروں کی صورت حال بھی سب کے سامنے ہے۔
بچوں پر تشدد کے حوالے سے بھی دردناک واقعات سامنے آتے رہتے ہیں، گھروں میں کام کرنیوالے ننھے پھول جیسے بچوں پر معمولی غلطیوں کی بنا پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، ہمارے ملک میں قانون نام کا ایک خوبصورت پرندہ ہوا کرتا تھا، جو زمانہ ہوا اڑچکا ہے، کسی نے بھی اسے پکڑنے کی کوشش نہیں کی اسی لیے آج سیاست اور ریاست کے حال بدترین ہوچکے ہیں، جو سچ بولے، حق کا ساتھ دے، وہی مجرم کہلائے۔ مجھے اس وقت ایک بچے سلیم کی کہانی یاد آگئی ہے:
وہ بچہ ساحل سمندر سے ذرا دور کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا، رات ہوچکی تھی اور سناٹا چھا گیا تھا، رات کے وقت مجھے سمندر اور اس کا شور کرتا ہوا پانی، بڑا ہی ڈراؤنا لگتا ہے اس کی مچلتی ہوئی آتی جاتی لہریں مزید خوف پیدا کرتی ہیں سو میں ذرا فاصلے سے کھڑی ہوگئی اور گھر والے ذرا آگے بڑھ گئے۔ تھوڑی دیر تک میں اس دس سالہ بچے کا جائزہ لیتی رہی کہ آیا وہ اکیلا کیوں کھڑا ہے جب کہ ہے بھی چھوٹا، اللہ نہ کرے اس معصوم کو کوئی اغوا کرلے، بہکا کر لے جائے، نشہ آور کوئی شے کھلادے تو یہ بے چارہ تو ہوگیا برباد، سو میں نے اس سے پوچھا تم اکیلے آئے ہو؟ کہنے لگا نہیں اپنے دوست کے ساتھ۔ تو کہاں ہے تمہارا دوست؟ وہ پانی میں نہانے چلا گیا، پر ابھی تک نہیں آیا ہے۔
پڑھتے ہو؟ جی! کون سی کلاس میں۔ چوتھی میں۔ یہ تو اچھی بات ہے لیکن تمہارے ساتھ کوئی بڑا نہیں آیا؟ نہیں میرے ماں باپ مرچکے ہیں، بہن بھائی کوئی ہے نہیں، میں چھوٹا تھا تو مجھے ایک آدمی نے پکڑ لیا تھا۔ وہ ایک جنگل میں لے گیا اور مجھ سے محنت مزدوری کراتا، پتھر تڑواتا۔ شاید بیگارکیمپ ہوگا۔ میں نے بات آگے بڑھائی۔ جی جی! وہی۔ ایک بار پولیس نے چھاپہ مارا اور ہم سب کو گرفتار کرلیا۔ تھوڑے دن بعد ہی ہم لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ پھر؟ اس کی خاموشی کے بعد میں نے پوچھا۔ میرا ایک چاچا ہے، جس کے ساتھ میں رہتا ہوں، لیکن آج میں نے وہ گھر چھوڑ دیا ہے۔ کیوں؟ میرا تجسس بڑھا۔ باجی! کیا بتاؤں؟ وہ رونے لگا۔ ارے، ارے! تم تو بہادر بچے ہو، روتے کیوں ہو ، بتاؤ ناں کیا ہوا؟ میں شاید تمہاری مدد کرسکوں۔
جی وہ میرا چاچا کرائے کا قاتل ہے، بھتہ خور بھی ہے اور مجھے بھی وہ اپنی طرح بنانا چاہتا ہے، کہتا ہے تجھے سیاستدان بناؤں گا، تو اسمبلی کا ممبر بنے گا۔ باجی! کیا قتل کرنے اور بھتہ لینے والے بڑے آدمی بن جاتے ہیں؟ یہ بات مجھے چاچا نے بتائی ہے۔ میں نے دو بار تھانے جاکر مدد مانگی، لیکن پولیس والوں نے مدد کرنے کی بجائے چاچا کے سپرد کردیا ہے۔ تم، تم! ایسا کرو ایدھی سینٹر چلے جاؤ، کہو تو میں تمہیں چھوڑ آؤں۔میں نے اسے مشورہ دیا۔ باجی! ابھی تو میں اپنے دوست کمالے کے ساتھ اس کے گھر جا رہا ہوں۔ دیکھیں وہ آگیا کمالا، آجا بے ۔ کمالا نہانے کی وجہ سے پانی میں تربتر تھا۔ وہ دونوں پاس کھڑی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئے اور موٹرسائیکل دو لمحے بعد ہی ہوا میں اڑنے لگی۔ اف! میں نے ایک سرد آہ بھری۔
اگر حکومت لوگوں کو جینے کے لیے اسباب پیدا کردے، تعلیم اور انصاف مفت فراہم کرے، تو کوئی بچہ نہ کچرے کے ڈھیر سے گلی سڑی غذا سے اپنا پیٹ بھرے گا اور نہ تخریب کاروں کے ہتھے چڑھے گا۔ آج کے بچے ہی پاکستان کا مستقبل ہیں۔ خدارا! مستقبل کو بچا لیجیے۔