کسی اور کو کیوں ہو درد ہمارا
ترقی یافتہ قوموں کا مزاج اور ہے اور ہمارا اور… ہم ترقی کرنا ہی نہیں چاہتے۔
KANDAHAR:
کچھ عرصہ قبل میں نے ایک کالم میں تذکرہ کیا تھا ، امریکا میں ایجاد کی گئی اس لالٹین کا جو اس نے ہم جیسے ملکوں کے لیے ایجادکی تھی، شمسی توانائی سے چلنے والی یہ لالٹین اس لیے تھی کہ ہم جیسے ملک جو امریکا اور لوڈ شیڈنگ سے کبھی نجات نہیں پا سکتے، وہ اسے استعمال کریں۔
حال ہی میں ایک اور ایجاد نظر سے گزری جو کہ کسی نے مجھے بھی ای میل کے ذریعے بھجوائی ہے۔ یہ ایجاد کرنیوالی خاتون بھی امریکی ہے،Cynthia Koenig نامی اس خاتون نے جانا کہ دنیا بھر میں ہر روز لگ بھگ دس لاکھ عورتیں اپنے گھروں میں استعمال کا پانی فاصلے سے بھر کر لاتی ہیں، اس کام میں لگ بھگ دو کروڑ گھنٹے روزانہ کا وقت صرف ہوتا ہے، عورتوں کے اس اہم مسئلے نے اس کے دماغ کو تحریک دی اور اس نے water wheel نامی ایجاد پر کام شروع کر دیا (پہئے کی شکل کا یہ گیلن، جس کے وسط میں اسے چلانے کے لیے ہینڈل ہوتا ہے، یہ گیلن اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے) ۔ کینیڈا کے ایک گرینڈ چیلنج شو میں اس کی اس ایجاد پر اسے ایک لاکھ ڈالر کا انعام بھی ملا ۔
اس wheel میں 50 لٹر پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے، معمول کے گھڑوں کے مقابلے میں، جن میں اپنے سر پر 19 لٹر پانی اٹھانے میں، ایک عورت یا لڑکی ، چالیس پونڈ کا اضافی بوجھ اٹھا کر گھنٹوں فاصلہ طے کرتی ہے۔یہ نئی ایجاد ایک عورت کے لگ بھگ پینتیس گھنٹے ہفتہ وار بچانے میں مدد کرے گی، سینتھیا کا کہنا ہے کہ وہ عورتیں اور لڑکیاں اس وقت کو پڑھائی میں استعمال کر سکیں گی یا ایسے کام کر سکتی ہیں جن سے ان کے گھروں میں ذرائع آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ مستقبل میں اس کا ارادہ ہے کہ وہ اسی پہئے کے ساتھ ٹیلی فون چارجر بھی منسلک کر دے گی، اسی کے اندر پانی فلٹر کرنے کا نظام بھی اور اس کے علاوہ وہ اسی پہئے کو کسی نہ کسی طریقے سے مواصلاتی (communication ) اور تعلیمی ذرائع کے لیے بھی استعمال کرے گی ۔
جہاں ہم سینتھیا کی اس ایجاد کی داد دے سکتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں کہ اس کے دل میں کیسے درد اٹھا اور اس نے ان مظلوم عورتوں کے لیے کچھ ایجاد کیا ، جو کم از کم امریکا کے کسی علاقے میں نہیں ہیں ۔ ایسی خواتین فقط افریقی ملکوں میں ہوں گی یا ہم جیسے ممالک میں ... سینتھیا شاید ان ممالک میں کبھی گئی نہ ہو گی اس لیے اسے اندازہ نہ ہو گا کہ چاہے کوئی بھی ایجاد ان عورتوں اور لڑکیوں کا کتنا ہی وقت بچا لے، انھیں تعلیم اور روزگار کے مواقع پھر بھی نہیں مل سکتے، ان کے مقدر میں پانی ڈھونا ہی ہے، اس میں آسانی پیدا کر بھی دی گئی تو اور کئی جان جوکھم کے کام ہیں جو وہ کرتی آ رہی ہیں اور کرتی رہیں گی۔ دنیا میں '' سپرمین'' بنانے کے تجربات ہو رہے ہیں، stem cells کے استعمال پر کام اور تجربات ہو رہے ہیں اور ہم ابھی تک پانی ڈھونے کے مسئلے سے نہیں نکل سکے ۔
ترقی یافتہ قوموں کا مزاج اور ہے اور ہمارا اور... ہم ترقی کرنا ہی نہیں چاہتے، ہم ابھی تک ان وقتوں کو یاد کرتے ہیں جب ہم گھنٹوں بیٹھ کر آگ تاپا کرتے تھے اور مونگ پھلیاں کھانے کے علاوہ کوئی کام نہ ہوتا تھا، اب ہمیں موبائل ٹیلی فونوں نے وقت ضایع کرنے کے نت نئے طریقوں سے آگاہ کر دیا ہے، ہم تعمیر سے زیادہ تخریب کی بابت سوچنے میں وقت گزارتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے دلوں میں ہمارا درد اٹھے بھی تو وہ ایسی ہی چیز ایجاد کرتے ہیں جو ہمیں پسماندگی سے پوری طرح ہی نہ نکال دے... شمسی توانائی سے چلنے والی لالٹین ایجاد کریں گے مگر اسی توانائی سے چلنے والے بڑے منصوبے پسماندہ ملکوں میں نہیں لائیں گے... Water wheel ایجاد کریں گے، ایسا طریقہ نہیں لائیں گے جس سے صحراؤں میں پانی پہنچ جائے ۔ جہاں دلچسپی ہو، وہاں صحرا کو دوبئی بنا دیں گے، جہا ں مطلب نہ ہو وہاں فقط پانی ڈھونے اور سورج کی توانائی سے روشنی حاصل کرنے کے طریقے ایجاد کریں گے ۔
کون حکمران ہیں جو اس وقت سکون سے سو جاتے ہیں جب وہ ہر روز سنتے ہیں کہ ایک اور بچہ غذائی قلت کا شکار ہو کر چل بسا۔ جس ملک میں ہر روز لاکھوں ٹن کھاناضایع ہوتا ہو مگر کسی نفس کے پیٹ میں نہ پہنچتا ہو، جہاں حکمرانوں کے دستر خوانوں پر ان گنت کھانے ہوتے ہوں ، جہاں ہوٹلوں میں بوفے کے نام پر سیکڑوں ڈشیں ہوتی ہوں اور ان میں سے ہم اپنی پلیٹیں بھر بھر کر کتنا ہی کھانا ضایع کرتے ہوں ، مگر یہ سوچ کر نہ بچاتے ہوں کہ ہمارا بچا ہوا کھانا کسی ذی نفس کے استعمال میں آ جائے گا۔
جہاں ہوٹلوں کے باہر کوڑے دانوں میں کھانا پھینکتے وقت کسی کا دل نہ دہلتا ہو۔ ایک بچے کا تھر میں بھوک سے مر جانا، ایک عام خبر نہیں ہوتی، اسے بھی اس کی ماں مشقت سے پالتی ہے، اسے اپنے وجود کے ساتھ باندھ کر دن بھر کام کرتی ہے، گھر والوں کا بچا کھچا کھا کر ، بمشکل اپنا پیٹ بھرا ہوتا ہے مگر اسے اسی خوراک میں سے اسے دودھ کا حصہ دیتی ہے، کیونکہ وہ اس سے پیار اور جسمانی تعلق کی ڈور سے بندھی ہوتی ہے، اسے بھی اپنا بچہ پیارا ہوتا ہے، اسی طرح جس طرح آپ کو اور مجھے ہے۔ ماں اور بچے کا رشتہ ہر ملک، معاشرے، مذہب اور طبقے میں ایک جیسا ہوتا ہے، اس کے لیے امارت یا غربت کا کوئی پیمانہ ہے نہ سرحدوں کی قید ۔آپ کو کیسا لگے اگر آپ کو کوئی کہے کہ آپ کا بچہ غذائی قلت یا کم خوراکی کی وجہ سے بیمار ہے۔ ہمیں ندامت محسوس ہو گی کہ ہمارا بچہ اس وقت غذائی قلت کا شکار ہو گیا جب کہ ہمارے ہاں نعمتوں کی اس قدر فراوانی ہے کہ ٹھونس ٹھونس کر کھاتے ہیں اور اگلے ہی لمحے اس بات پر پریشان ہوتے ہیں کہ ہضم کیونکہ ہو۔ ملک کی جغرافیائی حدود میں اتنا بڑا المیہ نظر آتا ہے نہ اس کی سنجیدگی کا احساس ہوتا ہے ۔
ہم اپنے اپنے وجود کے cocoons میں بند لوگ ہیں، ہمیں باہر کے موسموں سے فرق پڑتا ہے نہ حادثوں سے، ہمیں علم ہی نہیں کہ ہمارے کوکون سے باہر دنیا کیسی ہے، میں ، مجھے اور میرا... ہماری ڈکشنری کے تین اہم الفاظ ہیں، ہمیں دوسروں کے دکھ رلاتے ہیں مگر ان کا ازالہ کرنے کو ہم کچھ نہیں کرتے، دوسروں کی تکلیف پر آنکھیں نم تو ہوتی ہیں مگر ہم سوچتے ہیں کہ کون سا ہم نے انھیں تکلیف دی ہے ۔ تھر کے بچوں کے چہرے جب ٹیلی وژن پر دکھائے جاتے ہیں تو وجود میں جھرجھری دوڑ جاتی ہے، چند لمحوں کے لیے بھی ان چہروں کو نہیںدیکھا جاتا جن پر تین چار برس کی عمر میں ساٹھ ستر برس کا تاثر آ جاتا ہے، وہ آنکھیں ، جو ہماری طرف تو تکتی ہیں مگر ہم ان آنکھوں کو دیکھ نہیں سکتے کہ وہ حلقوں میں دھنسی ہوئی ہوتی ہیں اور پھر ہمارے پاس ان آنکھوں سے سوالوں کے جواب کہاں ہیں!!! وہ برہنہ جسم، جن کی پسلیاں ابھری ہوئی ہوتی ہیں اور جسم کی ایک ایک ہڈی قابل شمار... کہاں ہم میں سکت ہوتی ہے۔
ان منظر کو چند لمحے دیکھنے کی بھی، ہم فورا چینل بدل دیتے ہیں ۔چینل بدلنا، نظریں پھیر لینا،چہرہ گھما لینا، مسلمان تو ایک جسم کی طرح ہیں، ہم اس جسم کا حصہ ، دوسرے حصوں کی تکلیف پر تڑپ کیوں نہیں ہوتی؟ کس طرح ہم اپنی زندگیوں میں گم ہیں، پشاور کا سانحہ ہوتا ہے یا واہگہ کا، ہمیں جھنجھوڑ کر چلا جاتا ہے، ہم ذرا دیر کو سکتے میں آ جاتے ہیں، زندگی پھر رواں ہو جاتی ہے، جن کا کچھ چلا جاتا ہے، وہ عمر بھر تڑپتے ہیں ۔ تھر میں ایک بچے کی موت، ایک بچے کی موت نہیں ہوتی، ہمارے منہ پر طمانچہ ہوتا ہے، ہمارے ناقص اور بے عدل نظام کا چہرہ ننگا ہو جاتا ہے، بچے مر رہے ہیں، باقی لوگ اسی طرح جی رہے ہیں، سڑکوں پر ٹریفک کے اژدہام ہیں، چند لوگوں کے قتل پر دھرنے دیے جاتے ہیں، ان معصوم بچوں کا لہو کس کے ہاتھوں پر ہے۔ کیا تھر ہمارا نہیں، کیا وہ بچے اس ملک کے نہیں، کیا وہ ان مراعات کے مستحق نہیں ، جو میرے اور آپ کے بچوں کو حاصل ہیں؟ کوئی جواب نہیں ہے نا کسی کے پاس، تو پھر جئیں اسی ڈھنگ سے اور مرنے دیں ان بچوں کو اسی ڈھنگ سے۔
کچھ عرصہ قبل میں نے ایک کالم میں تذکرہ کیا تھا ، امریکا میں ایجاد کی گئی اس لالٹین کا جو اس نے ہم جیسے ملکوں کے لیے ایجادکی تھی، شمسی توانائی سے چلنے والی یہ لالٹین اس لیے تھی کہ ہم جیسے ملک جو امریکا اور لوڈ شیڈنگ سے کبھی نجات نہیں پا سکتے، وہ اسے استعمال کریں۔
حال ہی میں ایک اور ایجاد نظر سے گزری جو کہ کسی نے مجھے بھی ای میل کے ذریعے بھجوائی ہے۔ یہ ایجاد کرنیوالی خاتون بھی امریکی ہے،Cynthia Koenig نامی اس خاتون نے جانا کہ دنیا بھر میں ہر روز لگ بھگ دس لاکھ عورتیں اپنے گھروں میں استعمال کا پانی فاصلے سے بھر کر لاتی ہیں، اس کام میں لگ بھگ دو کروڑ گھنٹے روزانہ کا وقت صرف ہوتا ہے، عورتوں کے اس اہم مسئلے نے اس کے دماغ کو تحریک دی اور اس نے water wheel نامی ایجاد پر کام شروع کر دیا (پہئے کی شکل کا یہ گیلن، جس کے وسط میں اسے چلانے کے لیے ہینڈل ہوتا ہے، یہ گیلن اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے) ۔ کینیڈا کے ایک گرینڈ چیلنج شو میں اس کی اس ایجاد پر اسے ایک لاکھ ڈالر کا انعام بھی ملا ۔
اس wheel میں 50 لٹر پانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے، معمول کے گھڑوں کے مقابلے میں، جن میں اپنے سر پر 19 لٹر پانی اٹھانے میں، ایک عورت یا لڑکی ، چالیس پونڈ کا اضافی بوجھ اٹھا کر گھنٹوں فاصلہ طے کرتی ہے۔یہ نئی ایجاد ایک عورت کے لگ بھگ پینتیس گھنٹے ہفتہ وار بچانے میں مدد کرے گی، سینتھیا کا کہنا ہے کہ وہ عورتیں اور لڑکیاں اس وقت کو پڑھائی میں استعمال کر سکیں گی یا ایسے کام کر سکتی ہیں جن سے ان کے گھروں میں ذرائع آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ مستقبل میں اس کا ارادہ ہے کہ وہ اسی پہئے کے ساتھ ٹیلی فون چارجر بھی منسلک کر دے گی، اسی کے اندر پانی فلٹر کرنے کا نظام بھی اور اس کے علاوہ وہ اسی پہئے کو کسی نہ کسی طریقے سے مواصلاتی (communication ) اور تعلیمی ذرائع کے لیے بھی استعمال کرے گی ۔
جہاں ہم سینتھیا کی اس ایجاد کی داد دے سکتے ہیں اور سوچ سکتے ہیں کہ اس کے دل میں کیسے درد اٹھا اور اس نے ان مظلوم عورتوں کے لیے کچھ ایجاد کیا ، جو کم از کم امریکا کے کسی علاقے میں نہیں ہیں ۔ ایسی خواتین فقط افریقی ملکوں میں ہوں گی یا ہم جیسے ممالک میں ... سینتھیا شاید ان ممالک میں کبھی گئی نہ ہو گی اس لیے اسے اندازہ نہ ہو گا کہ چاہے کوئی بھی ایجاد ان عورتوں اور لڑکیوں کا کتنا ہی وقت بچا لے، انھیں تعلیم اور روزگار کے مواقع پھر بھی نہیں مل سکتے، ان کے مقدر میں پانی ڈھونا ہی ہے، اس میں آسانی پیدا کر بھی دی گئی تو اور کئی جان جوکھم کے کام ہیں جو وہ کرتی آ رہی ہیں اور کرتی رہیں گی۔ دنیا میں '' سپرمین'' بنانے کے تجربات ہو رہے ہیں، stem cells کے استعمال پر کام اور تجربات ہو رہے ہیں اور ہم ابھی تک پانی ڈھونے کے مسئلے سے نہیں نکل سکے ۔
ترقی یافتہ قوموں کا مزاج اور ہے اور ہمارا اور... ہم ترقی کرنا ہی نہیں چاہتے، ہم ابھی تک ان وقتوں کو یاد کرتے ہیں جب ہم گھنٹوں بیٹھ کر آگ تاپا کرتے تھے اور مونگ پھلیاں کھانے کے علاوہ کوئی کام نہ ہوتا تھا، اب ہمیں موبائل ٹیلی فونوں نے وقت ضایع کرنے کے نت نئے طریقوں سے آگاہ کر دیا ہے، ہم تعمیر سے زیادہ تخریب کی بابت سوچنے میں وقت گزارتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے دلوں میں ہمارا درد اٹھے بھی تو وہ ایسی ہی چیز ایجاد کرتے ہیں جو ہمیں پسماندگی سے پوری طرح ہی نہ نکال دے... شمسی توانائی سے چلنے والی لالٹین ایجاد کریں گے مگر اسی توانائی سے چلنے والے بڑے منصوبے پسماندہ ملکوں میں نہیں لائیں گے... Water wheel ایجاد کریں گے، ایسا طریقہ نہیں لائیں گے جس سے صحراؤں میں پانی پہنچ جائے ۔ جہاں دلچسپی ہو، وہاں صحرا کو دوبئی بنا دیں گے، جہا ں مطلب نہ ہو وہاں فقط پانی ڈھونے اور سورج کی توانائی سے روشنی حاصل کرنے کے طریقے ایجاد کریں گے ۔
کون حکمران ہیں جو اس وقت سکون سے سو جاتے ہیں جب وہ ہر روز سنتے ہیں کہ ایک اور بچہ غذائی قلت کا شکار ہو کر چل بسا۔ جس ملک میں ہر روز لاکھوں ٹن کھاناضایع ہوتا ہو مگر کسی نفس کے پیٹ میں نہ پہنچتا ہو، جہاں حکمرانوں کے دستر خوانوں پر ان گنت کھانے ہوتے ہوں ، جہاں ہوٹلوں میں بوفے کے نام پر سیکڑوں ڈشیں ہوتی ہوں اور ان میں سے ہم اپنی پلیٹیں بھر بھر کر کتنا ہی کھانا ضایع کرتے ہوں ، مگر یہ سوچ کر نہ بچاتے ہوں کہ ہمارا بچا ہوا کھانا کسی ذی نفس کے استعمال میں آ جائے گا۔
جہاں ہوٹلوں کے باہر کوڑے دانوں میں کھانا پھینکتے وقت کسی کا دل نہ دہلتا ہو۔ ایک بچے کا تھر میں بھوک سے مر جانا، ایک عام خبر نہیں ہوتی، اسے بھی اس کی ماں مشقت سے پالتی ہے، اسے اپنے وجود کے ساتھ باندھ کر دن بھر کام کرتی ہے، گھر والوں کا بچا کھچا کھا کر ، بمشکل اپنا پیٹ بھرا ہوتا ہے مگر اسے اسی خوراک میں سے اسے دودھ کا حصہ دیتی ہے، کیونکہ وہ اس سے پیار اور جسمانی تعلق کی ڈور سے بندھی ہوتی ہے، اسے بھی اپنا بچہ پیارا ہوتا ہے، اسی طرح جس طرح آپ کو اور مجھے ہے۔ ماں اور بچے کا رشتہ ہر ملک، معاشرے، مذہب اور طبقے میں ایک جیسا ہوتا ہے، اس کے لیے امارت یا غربت کا کوئی پیمانہ ہے نہ سرحدوں کی قید ۔آپ کو کیسا لگے اگر آپ کو کوئی کہے کہ آپ کا بچہ غذائی قلت یا کم خوراکی کی وجہ سے بیمار ہے۔ ہمیں ندامت محسوس ہو گی کہ ہمارا بچہ اس وقت غذائی قلت کا شکار ہو گیا جب کہ ہمارے ہاں نعمتوں کی اس قدر فراوانی ہے کہ ٹھونس ٹھونس کر کھاتے ہیں اور اگلے ہی لمحے اس بات پر پریشان ہوتے ہیں کہ ہضم کیونکہ ہو۔ ملک کی جغرافیائی حدود میں اتنا بڑا المیہ نظر آتا ہے نہ اس کی سنجیدگی کا احساس ہوتا ہے ۔
ہم اپنے اپنے وجود کے cocoons میں بند لوگ ہیں، ہمیں باہر کے موسموں سے فرق پڑتا ہے نہ حادثوں سے، ہمیں علم ہی نہیں کہ ہمارے کوکون سے باہر دنیا کیسی ہے، میں ، مجھے اور میرا... ہماری ڈکشنری کے تین اہم الفاظ ہیں، ہمیں دوسروں کے دکھ رلاتے ہیں مگر ان کا ازالہ کرنے کو ہم کچھ نہیں کرتے، دوسروں کی تکلیف پر آنکھیں نم تو ہوتی ہیں مگر ہم سوچتے ہیں کہ کون سا ہم نے انھیں تکلیف دی ہے ۔ تھر کے بچوں کے چہرے جب ٹیلی وژن پر دکھائے جاتے ہیں تو وجود میں جھرجھری دوڑ جاتی ہے، چند لمحوں کے لیے بھی ان چہروں کو نہیںدیکھا جاتا جن پر تین چار برس کی عمر میں ساٹھ ستر برس کا تاثر آ جاتا ہے، وہ آنکھیں ، جو ہماری طرف تو تکتی ہیں مگر ہم ان آنکھوں کو دیکھ نہیں سکتے کہ وہ حلقوں میں دھنسی ہوئی ہوتی ہیں اور پھر ہمارے پاس ان آنکھوں سے سوالوں کے جواب کہاں ہیں!!! وہ برہنہ جسم، جن کی پسلیاں ابھری ہوئی ہوتی ہیں اور جسم کی ایک ایک ہڈی قابل شمار... کہاں ہم میں سکت ہوتی ہے۔
ان منظر کو چند لمحے دیکھنے کی بھی، ہم فورا چینل بدل دیتے ہیں ۔چینل بدلنا، نظریں پھیر لینا،چہرہ گھما لینا، مسلمان تو ایک جسم کی طرح ہیں، ہم اس جسم کا حصہ ، دوسرے حصوں کی تکلیف پر تڑپ کیوں نہیں ہوتی؟ کس طرح ہم اپنی زندگیوں میں گم ہیں، پشاور کا سانحہ ہوتا ہے یا واہگہ کا، ہمیں جھنجھوڑ کر چلا جاتا ہے، ہم ذرا دیر کو سکتے میں آ جاتے ہیں، زندگی پھر رواں ہو جاتی ہے، جن کا کچھ چلا جاتا ہے، وہ عمر بھر تڑپتے ہیں ۔ تھر میں ایک بچے کی موت، ایک بچے کی موت نہیں ہوتی، ہمارے منہ پر طمانچہ ہوتا ہے، ہمارے ناقص اور بے عدل نظام کا چہرہ ننگا ہو جاتا ہے، بچے مر رہے ہیں، باقی لوگ اسی طرح جی رہے ہیں، سڑکوں پر ٹریفک کے اژدہام ہیں، چند لوگوں کے قتل پر دھرنے دیے جاتے ہیں، ان معصوم بچوں کا لہو کس کے ہاتھوں پر ہے۔ کیا تھر ہمارا نہیں، کیا وہ بچے اس ملک کے نہیں، کیا وہ ان مراعات کے مستحق نہیں ، جو میرے اور آپ کے بچوں کو حاصل ہیں؟ کوئی جواب نہیں ہے نا کسی کے پاس، تو پھر جئیں اسی ڈھنگ سے اور مرنے دیں ان بچوں کو اسی ڈھنگ سے۔