اختر مینگل کی آخری کوشش
سردار اختر مینگل نے بلوچستان کے حالات کے حوالے سے جو نکات پیش کیے ہیں ان کا ذکر گزشتہ 12 برسوں سے ہورہا ہے
لاہور:
بلوچستان میں تمام خفیہ آپریشن بند کیے جائیں، لاپتہ ہونے والے افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے۔
بلوچستان میں کارروائیاں کرنے والے ڈیتھ اسکواڈ ختم کیے جائیں، بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کو خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کیے بغیر سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے، بلوچستان کے شہریوں کو اغوا، تشدد اور قتل کرنے والے اہلکاروں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے، آپریشن سے متاثرہ بلوچوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اختر مینگل نے سپریم کورٹ کے سامنے لاپتہ افراد کے مقدمے میں اپنے بیان میں یہ نکات پیش کرکے عدلیہ، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سردار اختر مینگل کے بیان کے خاتمے پر بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈ کے خاتمے کا حکم دے دیا مگر وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں ہورہا۔ سردار اختر مینگل نے بلوچستان کی صورتحال کا سابقہ مشرقی پاکستان میں 1971 کے واقعات سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی پاکستان میں جب عوامی لیگ نے 1970 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو جنرل یحییٰ خان نے اقتدار عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن کو منتقل نہیں کیا اورعوامی لیگ کی احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لیے البدر الشمس نامی عسکری تنظیمیں بنائی گئیں جنھوں نے بنگالی قوم پرستوں کو قتل کیا۔
ان کاکہنا ہے کہ ایسی ہی صورتحال بلوچستان میں ہے۔ سردار مینگل کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے چھ نکات شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کی طرح ہیں۔ اگر ان پر توجہ نہ دی گئی تو حالات 1971 کی طرح ہوسکتے ہیں۔ سردار اختر مینگل نے بلوچستان کے حالات کے حوالے سے جو نکات پیش کیے ہیں ان کا ذکر گزشتہ 12 برسوں سے ہورہا ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کئی دفعہ اس بات کا اقرار کرچکے ہیں کہ ان کی حکومت کی عملداری صرف کوئٹہ تک محدود ہے، باقی صوبہ فرنٹیئر کور کی عملداری میں ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے جب سے بلوچستان کے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کی ہے کئی دفعہ معزز عدالت کے سامنے سیاسی کارکنوں کے اغوا کے بارے میں شہادتیں پیش کی جاچکی ہیں۔
معزز چیف جسٹس یہ ریمارکس دے چکے ہیں کہ جن لاپتہ افراد کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیاگیا وہ قتل کردیے گئے۔ جسٹس افتخار چوہدری نے یہ بھی کہا تھا کہ ہر لاپتہ شخص کے اغوا کے پیچھے حکومت کا نام آتا ہے۔ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے لاپتہ افراد کے بارے میں مشن کے دورے کے دوران بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے افراد کے بارے میں شہادتیں پیش کی گئی تھیں اور حکومت نے 100 افراد کے لاپتہ ہونے کا اقرار کیا تھا۔ اس عالمی مشن نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں حکومت پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ شہریوں کو لاپتہ کرنے کو سنگین جرم قرار دیا جائے ۔
مشن نے یہ نکتہ بھی اپنی رپورٹ میں خاص طور پر شامل کیا تھا کہ پاکستان میں عسکری اہلکار سول عدالتوں کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں، اس طرح انسانی حقوق کی سرگرم غیر سرکاری تنظیم (NGO) انسانی حقوق کمیشن نے بلوچستان میں رونما ہونے والے واقعات کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجا تھا۔ اس مشن کے ارکان نے سیاسی رہنمائوں، انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا، صحافیوں، خواتین اور لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقاتوں کے بعد Hopes, Fear ,Nation in Balochistan کے عنوان سے اپنی رپورٹ شایع کی۔ اس رپورٹ میں 198 لاپتہ افراد کے اغوا کی تاریخ، اغوا کے مقام اور موجودہ صورتحال درج تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق 81 کے قریب افراد اب تک لاپتہ ہیں۔ اسی رپورٹ میں 57 افراد کی فہرست بھی شامل ہے جن کو اغوا کے بعد قتل کردیا گیا۔
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ 1971 میں بلوچستان کی ریاست قلات کے ایوان اراکین پاکستان سے الحاق کے لیے تیار نہیں تھی کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ نئے ملک میں ان کے حقوق مکمل طور پر پامال ہوں گے مگر پاکستانی ریاستی اداروں نے بلوچستان کو مکمل خودمختاری دینے کے بجائے اس کو نوآبادیاتی طریقہ کار کے تحت کنٹرول کرنے کی پالیسی اختیار کی جس کے نتائج خوفناک نکلے۔ پاکستان بننے کے بعد خان آف قلات کے بھائی شہزادہ عبدالکریم نے بلوچستان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تو انھیں جلاوطن ہوکر افغانستان میں پناہ لینی پڑی۔ 1958 میں اس وقت کے صدر میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندر مرزا کے مشورے پر خان آف قلات نے ریاست قلات کی خودمختار حیثیت کا اعلان کیا تو بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع ہوا۔
یہ آپریشن کسی نہ کسی صورت 1962 تک جاری رہا۔ اس آپریشن کے دوران نواب اکبر بگٹی کو فوجی عدالت نے سزائے موت دی۔ سردار عطاء اﷲ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو کئی برسوں تک جیلوں میں بند رہے۔ اس آپریشن کے دوران کنگ آف جھالاوان سردار نوروز خان اپنے بیٹوں کے ساتھ پہاڑوں پر چلے گئے توحکومت نے قرآن پر حلف اٹھا کر سردار نوروز خان کو اپنے رشتے داروں سمیت ہتھیار ڈالنے پر تیار کیا۔ ان لوگوں کو حیدرآباد جیل میں پھانسی دینے کا فیصلہ ہوا۔ 80 سالہ سردار نوروز خان کو اپنے 5 بیٹوں اور بھتیجوں کو پھانسی پر لٹکانے کا منظر دیکھنے کے لیے جیل میں زندہ چھوڑ دیا گیا۔ سردار نوروز خان نے کافی عرصہ جیل میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ باقی زندگی گزاری اور پھر وہ جیل میں ہی انتقال کرگئے۔ یوں بلوچوں کا ریاستی اداروں پر اعتماد ختم ہوگیا۔
1970 کے انتخابات میں بلوچستان اور سابق صوبہ سرحد میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کی۔ اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک معاہدے کے تحت بلوچستان میں نیپ کی حکومت قائم کرنے کا موقع دیا۔ یہ بلوچستان کی تاریخ کی پہلی منتخب حکومت تھی۔ میر غوث بخش بزنجو اس وقت بلوچستان کے گورنر اور سردار عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے مگر بھٹو صاحب نے 9 مہینے بعد نیپ کی حکومت کو توڑ دیا اور پھر بلوچستان میں ایک فوجی آپریشن شروع ہوا۔ اس آپریشن کے دوران کراچی کے نیشنل کالج میں زیر تعلیم سردار عطاء اﷲ مینگل کے صاحبزادے کو اغوا کیا گیا جن کا پھر کبھی پتہ نہیں چلا۔ بھٹو حکومت نے نیشنل عوامی پارٹی اور دوسری ترقی پسند اور قوم پرست تنظیموں کے رہنمائوں کے خلاف حیدرآباد سازش کیس کے عنوان سے مقدمہ چلایا۔
جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان قومی اتحاد (PNA) کے رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ہوئے تو پی این اے کی قیادت نے بلوچستان سے فوجی آپریشن ختم کرنے کا مسئلہ اٹھایا ، بھٹو صاحب نے اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق کو اپنی مدد کے لیے بلایا۔ جنرل ضیاء الحق نے نقشوں اور چارٹوں کی مدد سے ثابت کیا کہ بلوچستان سے آپریشن ختم کرنے کا مطلب بلوچستان کی علیحدگی کی صورت میں برآمد ہوگا۔ بھٹو صاحب جنرل ضیاء الحق کے دلائل سے متفق ہوگئے مگر جنرل ضیاء الحق نے ایک ماہ بعد اقتدار پر قبضہ کرتے ہی آپریشن ختم کرنے اور حیدرآباد ٹریبونل ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایک آپریشن شروع ہوا ۔
پہلے مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد لاپتہ ہوئے، اس آپریشن کے دوران پاکستان کے واحد حامی سردار نواب اکبر بگٹی کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کے حامی سردار کی موت کے بعد عام بلوچ نوجوان کے پاس پاکستانی ریاست سے مایوس ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔سردار اختر مینگل نے جو 6نکات پیش کیے ہیں وہ انتظامی نوعیت کے ہیں ۔ عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن کے 6نکات مشرقی پاکستان کی معاشی آزادی کے لیے تھے۔ ان نکات پر فوری طور پر عملدرآمد کرکے انتہاپسندوں کے عزائم کو شکست دی جاسکتی ہے۔ فیڈریشن پر یقین رکھنے والی جماعتوں کو اگلے انتخابات میں حصہ لینے کا موقع ملے گا۔ صدر زرداری نے یہ موقع ضایع کیا تو کیا ہوگا، مستقبل کا منظرنامہ واضح ہے۔