کیا متحدہ مجلس عمل بحال ہو سکے گی
جماعت اسلامی سنجیدگی سے تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر غور کر رہی ہے۔
اب تک جماعت اسلامی ،متحدہ مجلس عمل کے حوالے سے صورت حال کو اپنے کنٹرول میں لیے ہوئے تھی ۔
شرائط پر شرائط عائد کرنے کا سلسلہ جاری تھا جو اب بھی ان کی جانب سے جاری ہے اور ساتھ ہی جماعت اسلامی کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیاجارہا تھا کہ ایم ایم اے کی بحالی سے قبل اس کے غیر فعال ہونے کی وجوہات کا جائزہ لینا اور ذمہ داروں کا تعین کرنا بھی ضروری ہے تاہم جمعیت علماء اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اچانک یہ کہہ کر سارا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے کہ ''اب ہمیں جماعت اسلامی کی ضرورت نہیں نہ ہی ہم ان کی شرائط تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
جماعت اسلامی کے ساتھ اب نشستوں کی تقسیم پر کوئی بات نہیں ہوگی، اگر کوئی بات ہوئی بھی تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ہوگی ''،مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے یہ اعلان بڑا واضح ہے جس میں ساری صورت حال واضح کردی گئی ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی تو ہوسکتی ہے لیکن جماعت اسلامی کی شرائط پر نہیں بلکہ دینی جماعتوں کی خواہش پر ،جس سے ایک جانب تو ایک مرتبہ پھر 2008 ء کی طرح جماعت اسلامی کے بغیر دیگر دینی جماعتوں کے اشتراک سے ایم ایم اے کی بحالی کا عندیہ دے دیا گیا ہے تو دوسری جانب جماعت اسلامی کے لیے بھی یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ کیا وہ دینی جماعتوں کے بغیر چل سکتی ہے ؟
یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ 2008 ء کے انتخابات سے جماعت اسلای کے بائیکاٹ کے باوجود جے یو آئی نے عام انتخابات میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم ہی سے حصہ لیا تھا اور اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں جے یوآئی کے ساتھ تھیں، تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ جماعت اسلامی کے بغیر میدان میں اترنے سے جے یو آئی کو یہ نقصان اٹھانا پڑا کہ بیس کے قریب نشستیں اس نے انتہائی کم مارجن سے ہاریں جو جماعت اسلامی کے ساتھ ہونے کے نتیجے میں ان کے ہاتھ سے نہ جاتیں ، جے یو آئی آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر وہی تجربہ کرنے جارہی ہے۔
تاہم اس مرتبہ اس میں فرق یہ ہوگا کہ کئی اہم شخصیات کی جے یو آئی میں شمولیت سے اس کی پوزیشن قدرے مضبوط ہے اور دوسری جانب وہ صرف ایم ایم اے میں شامل جماعتوں پر ہی تکیہ نہیں کرے گی بلکہ مسلم لیگ(ن)کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے بھی اس کے رابطے جاری ہیں اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ جے یو آئی (ف)اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوجائے کیونکہ دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے کی سنگت سے فائدہ ہوسکتا ہے جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی نے بھی اب ایم ایم اے کا باب بند ہونے کے بعد دیگر جماعتوں کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے ۔
انتخابی معرکہ کے لیے میدان میں اترنے کی غرض سے جماعت اسلامی کے اندر اب بھی ایک بڑا حلقہ اس بات کا خواہش مند ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی ہوجائے جس کے لیے گزشتہ باتوں کو چھوڑتے ہوئے آگے کی جانب سفر کرنا چاہیے اور مشاورت اور بات چیت کے ذریعے نشستوں کی تقسیم جیسے مسائل کو حل کرنا چاہیے، تاہم جماعت اسلامی کا جو حلقہ ایم ایم اے کی بحالی کی بجائے اکیلے یا دیگر جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے میدان میں اترنے کا خواہش مند ہے وہ اس حلقہ سے زیادہ مضبوط ہے جو ایم ایم اے کی بحالی چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب جماعت اسلامی دیگر آپشنز پر غور کررہی ہے جن میں ان کی پہلی ترجیح تحریک انصاف ہے ۔
جماعت اسلامی کے اندر یہ رائے موجود ہے کہ اگر جماعت اسلامی آئندہ عام انتخابات میں اکیلے میدان میں اترتی ہے تو اسے تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ فائدہ دے سکتی ہے کیونکہ تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اور جے یو آئی کے درمیان معاملات طے نہیں ہو پائیں گے اور یہی صورت حال اس کی (ن)لیگ کے حوالے سے بھی ہے جبکہ حکمران جماعتوں کے ساتھ بھی تحریک انصاف نے نہیں چلنا اس لیے اس کے لیے بھی بہترین آپشن جماعت اسلامی ہی ہے تاہم جماعت اسلامی کے معاملات مسلم لیگ(ن)کے ساتھ بھی طے ہوسکتے ہیں ۔
خیبرپختونخوا کی حد تک پیپلز پارٹی شیر پائو بھی بعض اضلاع تک سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہے تاہم پیپلز پارٹی شیر پائو کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ابھی اپنا نام اور پارٹی جھنڈا تبدیل کرنا ہے جس کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دی جارہی ہے اس لیے ابھی اس میں تھوڑا وقت لگے گاتاہم جب پیپلز پارٹی شیر پائو اپنے ان معاملات کو حتمی شکل دے گی تو اس کے بعد پیپلز پارٹی شیر پائو بھی تمام جماعتوں کے لیے ایک بہترین آپشن ہوگی، اس لیے جو بھی اتحاد بنیں گے۔
ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پیپلز پارٹی شیر پائو کے ساتھ بھی ہوگی اور پیپلز پارٹی شیر پائو بھی دیکھ بھال کر مختلف جماعتوں اور اتحادوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی پر عمل کرے گی کیونکہ اس نے پورے صوبہ کی بجائے چند اضلاع کو ہی ٹارگٹ بنانا ہے اور ان اضلاع میں وہ مختلف پارٹیوں کی پوزیشن دیکھتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کرے گی، تاہم ایک بات بڑی واضح نظر آرہی ہے کہ پیپلز پارٹی شیر پائو موجودہ حکمران جماعتوں اے این پی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ میں نہیں جائے گی، ایسی صورت میں اس کے پاس اپوزیشن جماعتیں ہی رہ جاتی ہیں اور ان میں وہ اپنے بہترین ساتھی تلاش کرنے کی کوشش کرے گی ۔
ایسی صورت میں جبکہ اپوزیشن جماعتیں اپنی صف بندی میں مصروف ہیں تو دوسری جانب اے این پی بھی ان اضلاع کو ٹارگٹ کیے ہوئے ہے جہاں روایتی طور پر اے این پی ہمیشہ کمزور رہی ہے تاکہ ان اضلاع میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرسکے اور اسی پالیسی کے تحت بہت سی اہم شخصیات کی اے این پی میں شمولیتوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے جس کے تحت آنے والے دنوں میں کئی اہم شخصیات اے این پی میں شامل ہوں گی اورصرف اسی پر اکتفاء نہیں کیاجائے گا بلکہ فنڈز کی فراہمی کے ذریعے ان کی پوزیشن کو بھی مستحکم کیاجائے گا۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات میں اکھٹے میدان میں اتریں گی یا نہیں کیونکہ دونوں پارٹیوں نے تاحال اس اہم معاملہ پر باقاعدہ غور نہیں کیا اور آنے والے دنوں میں حالات کو دیکھتے ہوئے دونوں پارٹیاں اس ایشو پر اجلاس بھی منعقد کریں گی ، اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ دونوں پارٹیاں اکھٹے ہی میدان میں اتریں کیونکہ اپوزیشن جماعتیں ،حکمران جماعتوں سے کنی کترارہی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے طور پر میدان میں جائیں۔
اے این پی تو آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں اقداما ت کررہی ہے تاکہ وہ اپوزیشن جماعتوں کا مقابلہ کرسکے اور اب پیپلز پارٹی کی صوبائی ٹیم بھی تبدیل کردی گئی ہے اور قیادت انور سیف اللہ اور ہمایوں خان کے ہاتھوں میں بطور صدر اور جنرل سیکرٹری دے دی گئی ہے جس کا مطلب پارٹی کے اندر دونوں گروپوں کی ایڈجسٹمنٹ ہے اور اب اس نئی قیادت کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی اس وقت صوبہ میں انتہائی کمزور پوزیشن میں نظر آرہی ہے اور اگر درست فیصلے نہ کیے گئے تو اس کا نقصان پارٹی کو آئندہ عام انتخابات میں اٹھانا پڑے گا۔ اگر اے این پی اور پیپلز پارٹی کااتحاد یا سیٹ ایڈجیسٹمنٹ پر اتفاق ہوبھی گیا تو اس صورت میں بھی اے این پی ،پیپلز پارٹی کو کندھوں پر اٹھاکر نہیں چلے گی بلکہ پیپلز پارٹی کو انتخابی سفر اپنے زور پر ہی طے کرنا ہوگا جس کے لیے اس کی تیاری نظر نہیں آرہی ۔
شرائط پر شرائط عائد کرنے کا سلسلہ جاری تھا جو اب بھی ان کی جانب سے جاری ہے اور ساتھ ہی جماعت اسلامی کی جانب سے یہ مطالبہ بھی کیاجارہا تھا کہ ایم ایم اے کی بحالی سے قبل اس کے غیر فعال ہونے کی وجوہات کا جائزہ لینا اور ذمہ داروں کا تعین کرنا بھی ضروری ہے تاہم جمعیت علماء اسلام(ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اچانک یہ کہہ کر سارا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے کہ ''اب ہمیں جماعت اسلامی کی ضرورت نہیں نہ ہی ہم ان کی شرائط تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں ۔
جماعت اسلامی کے ساتھ اب نشستوں کی تقسیم پر کوئی بات نہیں ہوگی، اگر کوئی بات ہوئی بھی تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ہوگی ''،مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے یہ اعلان بڑا واضح ہے جس میں ساری صورت حال واضح کردی گئی ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی تو ہوسکتی ہے لیکن جماعت اسلامی کی شرائط پر نہیں بلکہ دینی جماعتوں کی خواہش پر ،جس سے ایک جانب تو ایک مرتبہ پھر 2008 ء کی طرح جماعت اسلامی کے بغیر دیگر دینی جماعتوں کے اشتراک سے ایم ایم اے کی بحالی کا عندیہ دے دیا گیا ہے تو دوسری جانب جماعت اسلامی کے لیے بھی یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ کیا وہ دینی جماعتوں کے بغیر چل سکتی ہے ؟
یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ 2008 ء کے انتخابات سے جماعت اسلای کے بائیکاٹ کے باوجود جے یو آئی نے عام انتخابات میں ایم ایم اے کے پلیٹ فارم ہی سے حصہ لیا تھا اور اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں جے یوآئی کے ساتھ تھیں، تاہم یہ بات بھی واضح ہے کہ جماعت اسلامی کے بغیر میدان میں اترنے سے جے یو آئی کو یہ نقصان اٹھانا پڑا کہ بیس کے قریب نشستیں اس نے انتہائی کم مارجن سے ہاریں جو جماعت اسلامی کے ساتھ ہونے کے نتیجے میں ان کے ہاتھ سے نہ جاتیں ، جے یو آئی آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر وہی تجربہ کرنے جارہی ہے۔
تاہم اس مرتبہ اس میں فرق یہ ہوگا کہ کئی اہم شخصیات کی جے یو آئی میں شمولیت سے اس کی پوزیشن قدرے مضبوط ہے اور دوسری جانب وہ صرف ایم ایم اے میں شامل جماعتوں پر ہی تکیہ نہیں کرے گی بلکہ مسلم لیگ(ن)کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے بھی اس کے رابطے جاری ہیں اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ جے یو آئی (ف)اور مسلم لیگ(ن)کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوجائے کیونکہ دونوں پارٹیوں کو ایک دوسرے کی سنگت سے فائدہ ہوسکتا ہے جبکہ دوسری جانب جماعت اسلامی نے بھی اب ایم ایم اے کا باب بند ہونے کے بعد دیگر جماعتوں کی جانب دیکھنا شروع کردیا ہے ۔
انتخابی معرکہ کے لیے میدان میں اترنے کی غرض سے جماعت اسلامی کے اندر اب بھی ایک بڑا حلقہ اس بات کا خواہش مند ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی ہوجائے جس کے لیے گزشتہ باتوں کو چھوڑتے ہوئے آگے کی جانب سفر کرنا چاہیے اور مشاورت اور بات چیت کے ذریعے نشستوں کی تقسیم جیسے مسائل کو حل کرنا چاہیے، تاہم جماعت اسلامی کا جو حلقہ ایم ایم اے کی بحالی کی بجائے اکیلے یا دیگر جماعتوں کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتے ہوئے میدان میں اترنے کا خواہش مند ہے وہ اس حلقہ سے زیادہ مضبوط ہے جو ایم ایم اے کی بحالی چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب جماعت اسلامی دیگر آپشنز پر غور کررہی ہے جن میں ان کی پہلی ترجیح تحریک انصاف ہے ۔
جماعت اسلامی کے اندر یہ رائے موجود ہے کہ اگر جماعت اسلامی آئندہ عام انتخابات میں اکیلے میدان میں اترتی ہے تو اسے تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ فائدہ دے سکتی ہے کیونکہ تحریک انصاف کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اور جے یو آئی کے درمیان معاملات طے نہیں ہو پائیں گے اور یہی صورت حال اس کی (ن)لیگ کے حوالے سے بھی ہے جبکہ حکمران جماعتوں کے ساتھ بھی تحریک انصاف نے نہیں چلنا اس لیے اس کے لیے بھی بہترین آپشن جماعت اسلامی ہی ہے تاہم جماعت اسلامی کے معاملات مسلم لیگ(ن)کے ساتھ بھی طے ہوسکتے ہیں ۔
خیبرپختونخوا کی حد تک پیپلز پارٹی شیر پائو بھی بعض اضلاع تک سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہے تاہم پیپلز پارٹی شیر پائو کا مسئلہ یہ ہے کہ اس نے ابھی اپنا نام اور پارٹی جھنڈا تبدیل کرنا ہے جس کے حوالے سے معاملات کو حتمی شکل دی جارہی ہے اس لیے ابھی اس میں تھوڑا وقت لگے گاتاہم جب پیپلز پارٹی شیر پائو اپنے ان معاملات کو حتمی شکل دے گی تو اس کے بعد پیپلز پارٹی شیر پائو بھی تمام جماعتوں کے لیے ایک بہترین آپشن ہوگی، اس لیے جو بھی اتحاد بنیں گے۔
ان کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پیپلز پارٹی شیر پائو کے ساتھ بھی ہوگی اور پیپلز پارٹی شیر پائو بھی دیکھ بھال کر مختلف جماعتوں اور اتحادوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کی پالیسی پر عمل کرے گی کیونکہ اس نے پورے صوبہ کی بجائے چند اضلاع کو ہی ٹارگٹ بنانا ہے اور ان اضلاع میں وہ مختلف پارٹیوں کی پوزیشن دیکھتے ہوئے اپنی پوزیشن واضح کرے گی، تاہم ایک بات بڑی واضح نظر آرہی ہے کہ پیپلز پارٹی شیر پائو موجودہ حکمران جماعتوں اے این پی اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ میں نہیں جائے گی، ایسی صورت میں اس کے پاس اپوزیشن جماعتیں ہی رہ جاتی ہیں اور ان میں وہ اپنے بہترین ساتھی تلاش کرنے کی کوشش کرے گی ۔
ایسی صورت میں جبکہ اپوزیشن جماعتیں اپنی صف بندی میں مصروف ہیں تو دوسری جانب اے این پی بھی ان اضلاع کو ٹارگٹ کیے ہوئے ہے جہاں روایتی طور پر اے این پی ہمیشہ کمزور رہی ہے تاکہ ان اضلاع میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرسکے اور اسی پالیسی کے تحت بہت سی اہم شخصیات کی اے این پی میں شمولیتوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے جس کے تحت آنے والے دنوں میں کئی اہم شخصیات اے این پی میں شامل ہوں گی اورصرف اسی پر اکتفاء نہیں کیاجائے گا بلکہ فنڈز کی فراہمی کے ذریعے ان کی پوزیشن کو بھی مستحکم کیاجائے گا۔
تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اے این پی اور پیپلز پارٹی آئندہ عام انتخابات میں اکھٹے میدان میں اتریں گی یا نہیں کیونکہ دونوں پارٹیوں نے تاحال اس اہم معاملہ پر باقاعدہ غور نہیں کیا اور آنے والے دنوں میں حالات کو دیکھتے ہوئے دونوں پارٹیاں اس ایشو پر اجلاس بھی منعقد کریں گی ، اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ دونوں پارٹیاں اکھٹے ہی میدان میں اتریں کیونکہ اپوزیشن جماعتیں ،حکمران جماعتوں سے کنی کترارہی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے طور پر میدان میں جائیں۔
اے این پی تو آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں اقداما ت کررہی ہے تاکہ وہ اپوزیشن جماعتوں کا مقابلہ کرسکے اور اب پیپلز پارٹی کی صوبائی ٹیم بھی تبدیل کردی گئی ہے اور قیادت انور سیف اللہ اور ہمایوں خان کے ہاتھوں میں بطور صدر اور جنرل سیکرٹری دے دی گئی ہے جس کا مطلب پارٹی کے اندر دونوں گروپوں کی ایڈجسٹمنٹ ہے اور اب اس نئی قیادت کے کندھوں پر بھاری ذمہ داریاں ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی اس وقت صوبہ میں انتہائی کمزور پوزیشن میں نظر آرہی ہے اور اگر درست فیصلے نہ کیے گئے تو اس کا نقصان پارٹی کو آئندہ عام انتخابات میں اٹھانا پڑے گا۔ اگر اے این پی اور پیپلز پارٹی کااتحاد یا سیٹ ایڈجیسٹمنٹ پر اتفاق ہوبھی گیا تو اس صورت میں بھی اے این پی ،پیپلز پارٹی کو کندھوں پر اٹھاکر نہیں چلے گی بلکہ پیپلز پارٹی کو انتخابی سفر اپنے زور پر ہی طے کرنا ہوگا جس کے لیے اس کی تیاری نظر نہیں آرہی ۔